نسلہ ٹاور اور بے بس عوام !

اونے پونے زمینینں خرید کر ہاﺅسنگ سوسائیٹیاں بنانا، فلیٹ بنانا، پلازے کھڑے کرنا اور اُن پر کئی گنا منافع حاصل کرنا تیسرے درجے کے ممالک میں مافیا کا سب سے بڑا کاروبار ہے، اس میں ہینک لگے نہ پھٹکری والا حساب ہوتا ہے، یعنی بلڈر نے صرف آغاز میں پبلسٹی کرنا ہوتی ہے یا چند ایکڑ زرعی اراضی لے کر اُس پر ایک بڑا سا اور شاندار سا گیٹ لگانا ہوتا ہے۔ پھر وہ چند ایکڑجگہ کو دس بیس ہزار لوگوں میں فروخت کردیتا ہے۔ مطلب اگر کسی سوسائٹی کے پاس 2ہزار کنال کی جگہ موجود ہے تو وہ 20ہزار کنال فروخت کر کے تین چار سال اربوں روپے کی قسطیں جمع کرکے ملک سے یا تو بھاگ جاتا ہے یا” کھلی بھلی“ ہوجاتا ہے یا پورا پراجیکٹ ہی فروخت کر دیتا ہے۔ یہی حال فلیٹ سسٹم یا پلازہ سسٹم کا ہے، بلڈرز عوام سے اچھے خاصے پیسے اکٹھے کرکے بلڈنگز کی وہ ”منزلیں“ بھی بیچ دیتے ہیں جو انہوں نے متعلقہ محکموں سے منظور ہی نہیں کروائی ہوتیں۔ ہوتا یہ ہے کہ عوام کو پرکشش اور ولایتی قسم کے اشتہارات جن میں آپ کی پسندیدہ اداکارائیں جلوہ گر ہوتی ہیں”مکمل گھر“ کا پیغام دے کر ہمیں اپنی طرف راغب کر لیتی ہیں کے ذریعے ایسے سہانے خواب دکھائے جاتے ہیں کہ یوں پہلی قسط ادا کرو، یوں آپ کو مکان یا فلیٹ مل جائے گا۔ لیکن اُنہیں اگلے دس سال بھی پلاٹ مل جائے تو غنیمت جانیے! آپ آج بھی اپنے شہر میں جائزہ لیں، آپ کو بیسیوں نئی ہاﺅسنگ سوسائیٹیاں نظر آئیں گی جن میں سے اکثر کاغذات میں ہی نظر آئیں گی۔اس کے علاوہ بیسیوں نئی زیر تعمیر عمارتیں بنتی نظر آئیں گی جن کی تعمیر پر اچھا خاصا پیسہ چل رہا ہوگا، نہ تو ایس او پیز کا خیال رکھا جا رہا ہوگا اور یقینا نہ ہی نقشے کے مطابق بن رہی ہوں گی، اور ویسے بھی خان صاحب نے جب سے اعلان کیا ہے کہ آپ کنسٹرکشن کے کام میں پیسے لگائیں آپ سے نہیں پوچھا جائے گا کہ یہ پیسہ کہاں سے آیا ہے تب سے کنسٹرکشن کے کام میں اچھی خاصی تیزی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ جس کی وجہ سے ایک طرف تو روز گار کے مواقع میسر آرہے ہیں جبکہ دوسری طرف عمارات کی منظور دینے والے اداروں کی بھی لاٹری نکل آئی ہے، یعنی بادی النظر میں ان عمارتوں کے بنانے میں ہر محکمہ مال بنا رہا ہے۔ان میں سے کچھ بلڈنگز میں موجود فلیٹ یا دوکانیں تو فروخت ہو چکی ہیں جبکہ باقی بھی جلد ہی فروخت ہوجائیں گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب یہ عمارتیں عوام خرید لیں گی تو کیا گارنٹی ہے کہ کل کو جب اگلی حکومت آئے گی یا اگلی انتظامیہ آئے گی تو ان بلڈنگز پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالے گا؟ اور ان عمارات کو غیر قانون قرار دے کر ادارے اسے ”بارود“ سے اُڑانے کا نہیں کہیں گے! جی ہاں ! یہی حال کراچی کے ”نسلہ ٹاور“ کے ساتھ ہوا، جہاں عوام نے کروڑوں روپے کے فلیٹ خریدے اور بعد میں پتہ چلا کہ اس ٹاور کا ایک حصہ تو فٹ پاتھ پر بنایا گیا ہے،۔ یعنی عوام کو اس قدر بے وقوف بنانے اور چونا لگانے کا عالمی ریکارڈ بھی شاید پاکستان کے پاس ہے۔ اور اب جبکہ سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ کراچی میں واقع نسلہ ٹاور کو ایک ہفتے کے اندر اندر گرا دیا جائے اور یہ ہفتہ بھی قریب قریب پورا ہونے کو ہے تو اس معاملے کی قانونی نوعیت تو یقیناً وہی ہوگی جو معزز عدالت نے طے کردی۔ البتہ کچھ سوالات قانون سے ہٹ کر بھی ہیں۔ یہ سوال سماجیات اور عمرانیات سے متعلق ہیں جو معاشرے اور پارلیمان کی توجہ چاہتے ہیں۔نسلہ ٹاور ناجائز تھا، گرا دیا جائے گا۔ یہ قانونی پہلو ہے۔ سماجی اور عمرانی پہلو یہ ہے کہ اس ٹاور میں کچھ ہنستے بستے خاندان بھی رہ رہے ہیں جنہوں نے اپنی جائز کمائی سے جائز طریقے سے ادائیگی کرکے یہاں اپنے لیے رہائش خریدی۔ پھر ان کی بجلی اور گیس کاٹ دی گئی، اب جلد ہی ان کے گھر زمین بوس ہو جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ ان خاندانوں پر کیا بیتے گی اور انہیں یہ سزا کس جرم میں ملے گی؟ اسی سوال سے پھر یہ بحث جنم لیتی ہے کہ شہریوں اور ریاست کے درمیان تعلق کی نوعیت کیا ہوتی ہے؟ ریاست اپنے شہریوں پر محض قانون کا اطلاق کرتی ہے یا ریاست ایک ماں کی طرح اپنے شہریوں کے جائز مفادات کا تحفظ بھی کرتی ہے؟ نیز یہ کہ قانون سماج کے لیے ہوتا ہے یا معاشرہ قانون کے لیے؟ نسلہ ٹاور ایک دن میں نہیں بن گیا۔ ملک کے سب سے بڑے شہر میں مرکزی اور نمایاں جگہ پر ایک کثیر المنزلہ عمارت بنتی ہے۔ سب کے سامنے بنتی ہے۔ جب یہ عمارت بن رہی ہوتی ہے اس وقت ریاست کے تمام متعلقہ ادارے موجود ہوتے ہیں اور کام کر رہے ہوتے ہیں۔ عدالتیں بھی موجود ہوتی ہیں۔ پولیس بھی موجود ہوتی ہے۔ نقشے بھی منظور کیے جاتے ہیں۔ واپڈا والے بجلی کا کنکشن بھی دے دیتے ہیں اور سوئی گیس کا محکمہ گیس بھی پہنچا دیتا ہے۔ علی الاعلان سب کے سامنے ان فلیٹس کو فروخت کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ لوگوں نے جمع پونجی اور گھر کا سونا بیچ کر یہاں فلیٹس لیے ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ ٹاور ناجائز تھا تو یہ بن کیسے گیا؟ بن گیا تو یہاں فلیٹس کیسے فروخت ہو گئے۔ فلیٹس فروخت ہو گئے تو وہاں بجلی اور گیس کیسے آگئے؟واہ رے ہمارا سسٹم اور بے بس عوام! بقول شاعر حفیظ جونپوری کے لٹ گیا وہ ترے کوچے میں دھرا جس نے قدم اس طرح کی بھی کہیں راہزنی ہوتی ہے یا بقول شاعر ظہور نظر کے کہ لٹ گیا ہے سفر میں جو کچھ تھا پاس اپنے مکان تک بھی نہیں اور پھر یہ نسلہ ٹاور ہی کی بات نہیں پورے پاکستان میں سب کچھ اسی ڈگر پر چل رہا ہے، آپ اندازہ لگائیں کہ چند ماہ قبل اسلام آباد میں ”سیلاب“ آگیا تھا،جس میں ماں بیٹا ہلاک ہوگئے تھے، اُس کی وجہ کیا تھی؟ بھئی! اُس کی وجہ یہ تھی کہ اسلام آبادمیں رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں ہونے والی سرمایہ کاری اور قبضہ مافیا کی پانی کے قدرتی بہاو¿ کو متاثر کرنے کی سرگرمیاں،یعنی جس نالے نے پانی نکالنا تھا، اُس کو ہم فروخت کر چکے تھے۔ یعنی وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت ملک کے دیگر بڑے شہروں میں بڑھتے ہوئے رئیل اسٹیٹ کاروبار نے ماحولیات کو تباہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ندی نالوں کے قدرتی بہاو¿ اور نکاسی کے پانی کے بہاو¿ کے راستوں کو پلاٹوں میں تبدیل کر کے فروخت کیا گیا اور تعمیرات کر دی گئی ہیں۔ اس بے ہنگم تعمیرات کی وجہ سے نہ صرف شہروں کے بہاو¿ کو شدید نقصان پہنچا بلکہ پانی کے بہاو¿ کے راستے متاثر ہونے کی وجہ سے اب شہروں کو فطرت کے انتقام کا سامنا ہے۔ معمولی بارش سے ہی شہروں کی سڑکیں ندی نالوں کا منظر پیش کرنے لگتی ہیں۔ مکانات اور پلازو ں میں پانی داخل ہو جاتا ہے اور کئی مہینوں تک اس کے نقصانات کا ازالہ نہیں ہو سکتا۔ پھر آپ کو یاد ہوگا کہ تین سال قبل عدالت عظمیٰ نے لاہور میں بھی قبضہ گروپوں اور لینڈ مافیا کے خلاف ازخود نوٹسز کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ بڑے بڑے نامی گرامی اورڈان ٹائپ شجرِ ممنوعہ عدالتی کٹہرے میں کھڑے دکھائی دیے۔ اربوں روپے کی زمینیں واگزار کرائی گئیں۔ طاقتور کو کھلا پیغام دیا گیا کہ اپنے ہمسایے یا کمزور کی جائیداد پر ہاتھ صاف کرنا اب آسان نہ ہوگا لیکن سسٹم کا آسیب اس قدر طاقتور ہے کہ مذکورہ دور کے سبھی فیصلوں، اقدامات اور احکامات کی نفی کے ساتھ ساتھ آج بھی وہ سبھی قبضہ گروپ اور لینڈ مافیا اپنی پرانی روش پر لوٹ چکے ہیں۔ ان کے غیظ و غضب کے خوف سے آج بھی کوئی کمزور حق پر ہونے کے باوجود کھڑا ہونے کی سکت نہیں رکھتا۔ پھر قارئین کو چائینہ کٹنگ نہیں بھولی ہوگی، چائنا کٹنگ کراچی کا بلاشبہ سنگین مسئلہ ہے لیکن کیا کوئی اس حقیقت سے انکار کر سکتا ہے کہ جب کئی عشروں یہ چائنا کٹنگ ہو رہی تھی تو اس وقت ملک کے نظام تعزیر و قانون کی بھی چائنا کٹنگ ہو چکی تھی اور کسی میں یہ ہمت نہیں تھی کہ اس سلسلے کو روک سکے۔ ریاستی اداروں نے تو گویا یہاں ایک سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ قبضے ہوتے رہے اور متعلقہ ادارے خاموش رہے۔ ایسے میں تعزیر کا کوڑا صرف ان بے گناہ خریداروں کی کمر پر کیوں برسایا جائے جنہوں نے سارے قانونی تقاضے پورے کرکے شہر کے بیچ رہنے کو گھر خریدے؟پھر جاتی عمرہ کی ہی مثال لے لیں، کہ کس طرح سرکاری زمین کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا۔ الغرض اس قسم کی آپ کو سینکڑوں مثالیں ملیں گے۔ اس لیے صوبائی یا وفاقی حکومتیں ایسا سسٹم بنا دیں جو عوام کا تحفظ بھی کرے، حالانکہ ٹاﺅن پلاننگ، ایل ڈی اے، کے ڈی اے، سی ڈی اے، ایم ڈی اے یا آر ڈی اے وغیرہ ایسے ادارے موجود ہیں جو عوام کی سہولت کے لیے قائم کیے گئے تھے، مگر ان میں بیٹھے بڑے بڑے مگر مچھ عوام کو سہولت دینے کے بجائے اُنہیں یرغمال بنائے رکھتے ہیں، تبھی عوام کو ایڈن ہاﺅسنگ سکیم سمیت کئی بڑی بڑی ہاﺅسنگ سوسائیٹیوں کے سینکڑوں قسم کی سوسائیٹیوں میں فراڈ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور یقین مانیں ایسا ہوہی نہیں سکتا کہ جب مذکورہ ٹاور تعمیر کیا گیا ہو تو کسی نے پیسے نہ کھائے ہوں، یقینا اوپر سے لے کر نیچے تک پوری چین نے مال بنایا ہوگا، لہٰذایا تو ادارے ایسے ”ٹاورز“ بننے سے روکے، اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکتی تو اُسے گرانے کے بجائے اُسے نیشنلائز کردے یعنی مالکان سے دوگنا پیسے وصول کرے ، کیوں کہ اداروں کاکام عوام کو انصاف دلانا ہوتا ہے، نہ کہ اُن پر ظلم کرنا۔ اور اس وقت عوام میں آگہی مہم شروع کرنے یا ایک ایسا ادارہ بنانے کی ضرورت ہے، جو عوام کو ون ونڈو کی سہولت فراہم کرے کہ کوئی بھی پراپرٹی خریدتے وقت وہ کاغذات کی جانچ پڑتال کر وا سکے۔ تاکہ مستقبل میں اس قسم کے مسائل سے بچا جا سکے ! #nusla tower #Talkhiyan #Ali Ahmed Dhillon