خوشخبری : معیشت کے مثبت اشاریے!

کچھ سوالات بظاہر جتنے سادہ اور آسان ہوتے ہیں ان کے جواب اتنے ہی پیچیدہ اور مشکل ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان کا معاشی مستقبل کیا ہے ؟ گلاس آدھا خالی ہے یا آدھا بھرا ہوا۔ اس موضوع پر سوچتے ہوئے ہمیں یہ مشہور مقولہ بہت یاد آیا۔ کسی رجائیت پسند سے پوچھیں تو وہ اگر مگر کے لوازمات کے ساتھ تان امید پر توڑے گا، ہاں اگر کسی بیزار اور یاسیت پسند سے پوچھ بیٹھیں تو وہ اگر مگر کے تکلف کے بغیر آپ کو بتانے میں ایک سیکنڈ نہیں لگائے گا کہ صبح گیا یا شام گیا والا معاملہ ہے۔ہمیں خواہ مخواہ کی رجائیت سے لگاﺅ ہے نہ نِری مایوسی سے دل بستگی ہے، ہمیں حقیقت کے دامن سے تعلق ہی میں عافیت سمجھ میں آتی ہے۔ پاکستان کا معاشی مستقبل کیا ہے ؟ اس سوال کا جواب بھی امکانات اور چیلنجز کے گرے ایریا میں ہے۔ قدم درست سمت میں اٹھے تو امکانات پر پڑی دھند چھٹنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا، اگر ڈگمگاتے قدم نہیں سنبھلتے تو چیلنجز کی دھند مزید گہری ہو جاتی ہے۔یہی حال اس وقت ملکی معیشت کا ہے جس پر سے چھائے کالے بادل چھٹ رہے ہیں۔ روشنی کی کرنیں نمودار ہورہی ہیں۔کورونا وبا کے باوجود معیشت میں مثبت رجحانات واضح ہورہے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ بڑھتی چلی جارہی ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے۔ملک میں آنے والی ترسیلاتِ زر بڑھ گئی ہیں، پیسہ اب قانونی طریقے سے پاکستان میں آرہا ہے، چین کی شراکت سے سی پیک منصوبوں پر عمل درآمد تیز ہوگیا ہے۔ ملکی سرمایہ کاروں کیلئے بینکوں کی شرح ِسود بہت کم کردی گئی ہے۔ دوبرس پہلے ملک زر مبادلہ کے شدید بحران کا شکار تھا۔ بیرون ملک سے لیے گئے قرضوں کی ادائیگی کے لیے قومی خزانہ میں ڈالرز نہیں تھے۔اب جبکہ حکومت نے ٹف ترین ڈھائی سال گزار لیے ہیں تو یقینا معیشت کے مثبت اشاریے سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ خاص طور پر ایمنسٹی سکیم جو موجودہ حکومت نے سال 2020ءکے آغاز میں شروع کی تھی، اُس کے مثبت نتائج آنے کے بعد اُس کی توسیع میں 31دسمبر2021ءتک اضافہ کر دیا گیا ہے، اس مدت میں کنسٹرکشن سیکٹر میں جو بھی سرمایہ کاری ہو گی اس کے ذرائع آمدن نہیں پوچھے جائیں گے۔ بلڈرز کے لیے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے سیکشن 111 سے چھوٹ سمیت دیگر مراعات کا بھی اعلان کیا گیا ہے جس کے مطابق ٹیکس حکام کو کسی بھی شخص کے ٹیکس ذرائع کے بارے میں استفسار کرنے کا اختیار نہیں دیا گیا۔اسی طرح کی سکیموں سے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ایسی معاشی اصلاحات کی جا رہی ہیں کہ جس سے پاکستان بھر کے عوام اور خاص طور پر کاروباری حلقے میں انتہائی اطمینان کی لہر دیکھی جا رہی ہے۔صرف ایک ماہ کے دوران شرح سود ریکارڈ 4.25 فیصد کمی کے بعد 9 فیصد کرنے کا فیصلہ وزیر اعظم عمران خان کا ایسا فیصلہ ہے کہ جس کی کاروباری حلقے اور عوام بڑے عرصے سے توقع کر رہے تھے شرح سود میں غیر معمولی کمی کے مثبت اثرات عنقریب تمام صنعتوں پر اثر انداز ہونے سے مہنگائی میں غیر معمولی کمی کے ساتھ ساتھ ہماری برآمدات میں بھی اضافہ متوقع ہے جس سے ملکی معیشت یقیناً مضبوط ہو گی۔اگر ہم صرف کنسٹرکشن پالیسی کا ہی ذکر کریں تو وہ بھی یقیناً وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ایک غیر معمولی قدم ہے جس کے اثرات مثبت آنا شروع ہوگئے ہیں۔ملک بھر میں کنسٹرکشن انڈسٹری میں سرگرمیاں بہتر ہونے سے اس کے اثرات سیمنٹ انڈسٹری ،اسٹیل انڈسٹری ،ماربل انڈسٹری اور برکس انڈسٹری پر مرتب ہونے کے ساتھ ساتھ اس سے بے روزگاری میں بھی غیر معمولی کمی آئی ہے۔ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق کنسٹرکشن ایمنسٹی سکیم سے نو ماہ میں 163 ارب روپے کے 186 تعمیراتی منصوبے ایف بی آر کے پاس رجسٹرڈ ہو چکے ہیں۔116 ارب کے منصوبے اندراج کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق صرف پنجاب میں 1500 ارب روپے کی معاشی سرگرمیاں پیدا ہو نے کی امید ہے۔ بینکوں نے بھی 378 ارب روپے کنسٹرکشن شعبے کے لیے 31 دسمبر 2021ءتک مختص کر دیے ہیں۔ حکومت کم آمدن والے شہریوں کے لیے سستے گھروں کی مد میں 30 ارب روپے سبسڈی دے گی۔ اس کے علاوہ پہلے ایک لاکھ گھر خریدنے والوں کو تین لاکھ روپے کی گرانٹ بھی دی جائے گی۔ صدارتی آرڈر کے ذریعے ان تبدیلیوں کو لاگو کیا جائے گا۔اس فیصلے سے تعمیراتی شعبے سے جڑے تمام سٹیک ہولڈرز خوش دکھائی دیتے ہیں۔ چالیس سے زیادہ صنعتوں کی ترقی اور کروڑوں لوگوں کے روزگار میں اضافے کی امید پیدا ہوئی ہے۔بیرون ِملک پاکستانی بھی کنسٹرکشن شعبے کی سرمایہ کاری میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ اس فیصلے کی حوصلہ افزائی ضروری ہے۔ اس حوالے سے ثبوت کے طور پر بین الاقوامی جریدے بلومبرگ کی رپورٹ بھی پیش کرتا چلوں جس نے وزیراعظم عمران خان کی بہتر معاشی پالیسی اور حکمت عملی کی تائید کی ہے ، بلومبرگ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کورونا میں پابندیاں نرم کرنے سے معاشی سرگرمیاں بحال ہوئیں۔بڑے برانڈز سرمایہ کاری کے لیے اب پاکستان کا رخ کررہے ہیں۔رپورٹ کے مطابق ملکی برآمدات میں اضافہ بتدریج ہورہا ہے جو پاکستان کی مجموعی گھریلو پیداوار کا 10فیصد بنتا ہے، برآمدات میں اضافہ معیشت میں ترقی کو فروغ دینے میں مدد فراہم کرسکتا ہے۔ پھر سال 2020 ءمیں کچھ کام حکومت کی طرف سے اچھے ہوئے ہیں اور کچھ حالات نے بھی ساتھ دیا ہے۔ کمپیٹیشن کمیشن آف پاکستان کی بحالی بھی ایسا ہی ایک عمل ہے۔ کیوں کہ 2009ءمیں حکومت ِپاکستان نے اشیا کی قیمتوں میں توازن برقرار رکھنے اور قیمت کے مطابق کوالٹی مہیا کرنے کے لیے سرکاری سطح پر اس ادارے کی تشکیل کا فیصلہ کیا۔ ایک امید پیدا ہوئی کہ عوام کی ترجمانی کرنے والا کوئی ادارہ ہے لیکن وہی ہوا جو آج تک ہمارے ملک میں ہوتا آیا ہے، جن سیکٹرز کو ڈر تھا کہ ان کے خلاف ایکشن لیا جائے گا اورجنہوں نے اشیا کی قیمتیں بے اصولی کے تحت بڑھائی ہوئی تھیں وہ اس کے خلاف عدالت چلے گئے اور اسلام آباد ہائیکورٹ سے اس کے قیام کے خلاف سٹے لے لیا۔ سب سے پہلے سیمنٹ سیکٹر نے سٹے لیا۔ پھر دیکھا دیکھی تمام بڑی صنعتوں نے بھی سٹے لے لیا۔ مہنگے وکیلوں کی خدمات لیں۔ تاریخوں کے نظام کا سہارا لیا۔ اس طرح بحال ہوتے ہوئے تقریباً دس سے پندرہ سال لگ جائیں گے۔ اس دوران جتنی چاہے قیمتیں بڑھاو¿ اور جتنا چاہے مال کماﺅ کوئی پوچھنے والا نہیں ہو گا۔ اس کے علاوہ مہنگائی کے حوالے سے بات کریں تو اس کی سب سے بڑی وجہ بیڈ گورننس ہے، اسی بیڈ گورننس کی وجہ سے ہر چیز کے ریٹس اوپر جا رہے ہیں، ہر دوکاندار، فیکٹری مالک یا انویسٹر اپنے پسندیدہ ریٹس دے کر مال بٹور رہا ہے۔ یعنی موجودہ مہنگائی کا تعلق طلب و رسد سے نہیں بلکہ یہ کمزور گورنینس کی وجہ سے ہے۔ موجودہ معیشت کے ساتھ اس میں بہتری لائی جا سکتی ہے لیکن اس کے لیے گورنینس کا نظام بہتر کرنا ہوگا۔اس لیے یہاں یہ کہنا مناسب ہو گا کہ معیشت آئی سی یو سے باہر آ رہی ہے ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ مہنگائی جیسے مسائل پر قابو پانے کے لیے مضبوط حکومت کی ضرورت ہے۔حکومت مافیاز کے خلاف کارروائی کرکے اپنی پوزیشن مستحکم کر سکتی ہے، جس کے لیے اُسے بولڈ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ جن اقدامات کی وجہ سے معاشی اشاریے بہتر ہوئے ہیں ان اقدامات کے ساتھ ساتھ مافیاز کے خلاف کارروائی کی ضرورت ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جن کے خلاف کاروائی کی جانی ہوتی ہے وہ ہر حکومت میں شامل ہو جاتے ہیں اور حکومت کو بلیک میل کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے حکومت مہنگائی جیسے مسئلے پر قابو پانا اس قدر مشکل ہو چکا ہے کہ اب مستحکم ہونا مشکل نظر آرہا ہے۔ بہرکیف معیشت کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں میں بھی ترقی دیکھنے میں آئی ہے جیسے صحت کے شعبے میں ”صحت کارڈ“ بنائے جا رہے ہیں، جیسے پنجاب کی سطح پر ماحولیات کو بہتر بنانے اور آلودگی کو کم کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کیے جا رہے ہیں، الیکٹرک بسیں چلائی جا رہی ہیں، اپارٹمنٹس بنائے جا رہے ہیں، لیکن ایف بی آر یقینا سست روی کا شکا رہے، جیسے ملک کی تقریباً ایک چوتھائی آبادی خوشحال ہے لیکن وہ ریاست کو پورا ٹیکس نہیں دے رہی۔ جب تک وہ ریاست کو اسکا حق نہیں دے گی معیشت صحیح انداز میں ترقی نہیں کر سکے گی، لہٰذاحکومت ٹیکسوں کی وصولی کے لیے اصلاحات اور سخت اقدامات کرے۔خسارے میں چلنے والے حکومتی ادارے بند کرے۔بجلی اور گیس کی قیمتوں کو انکی لاگت کے برابر لائے۔ شمسی توانائی میں بھاری سرمایہ کاری کرے۔ تعلیم کے بجٹ کو دو گنا کرے۔ موٹرویز بنانے کی بجائے نجی شعبہ کے اشتراک سے صنعتی کارخانے لگا ئے تاکہ روزگار پیدا ہو‘ حکومتی آمدن میں اضافہ ہو۔خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام پر بڑے پیمانے پر عمل کروائے۔ ملک کو مضبوط و مستحکم بنانے کے لیے ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو وقتی سیاسی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے لازمی‘ دیرپا اقدامات کرے جنکے نتائج پانچ سے دس برسوں میں ظاہر ہوں گے۔ یقینا یہ حکومتی مثبت معاشی اشاریے غریب کو نظر نہیں آتے اُسے صرف سستے آٹے، چینی، دال یا سبزیوں پھلوں کی قیمتوں سے غرض ہے اس لیے سرکار اس پر بھی توجہ دے اور کوئی والی وارث مقامی حکومتوں کو بھی دے دیں جس سے کم از کم اشیاءضروریہ کی قیمتیں کنٹرول میں آسکیں، ورنہ یہ مثبت اشاریے کسی کام کے نہیں ہوں گے۔