منصوبہ بندی کا فقدان :ملک کیسے ترقی کرتے ہیں؟

آج کل پاکستان کے ہر فرد کے ذہن میں ایک سوال ضرور اُبھرتا ہے کہ پاکستان کیسے ترقی کرے گا؟ کیسے ہمارے حالات بدلیں گے؟ اور کیسے ہم ترقی یافتہ ملک کی فہرست میں شامل ہو سکیں گے؟ اس کے لیے یقینا یا تو منصوبہ بندی کی ضرورت ہوگی یا فوری انقلاب کی۔ اور ’فوری انقلاب‘ کے بعد بھی یقینا منصوبہ بندی، ترقی اور اصلاحات کی ضرورت ہوگی۔ لیکن ہمارے ہاں نہ تو کبھی کوئی انقلاب آیا، نہ کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کی گئی اور نہ ہی مستقبل قریب میں کسی انقلاب کے آنے کی کوئی صورت دکھائی دے رہی ہے۔ کیوں کہ تبدیلی ہمیشہ سوچ سے آتی ہے،وژن سے آتی ہے یا کسی مقصد کے حصول سے آتی ہے، جبکہ معذرت کے ساتھ نہ تو ہمارا کوئی وژن ہے، نہ انقلابی سوچ ہے اور نہ ہی ہم کوئی اس حوالے سے اپنے ذہنوں میں کوئی منصوبہ بندی رکھتے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان پچھلے دنوں اسی قسم کے شکوے کرتے نظر آئے کہ یہاں ٹھوس حکمت عملی کی ضرورت ہے، یہاں طویل مدتی منصوبوں کی ضرورت ہے، یہاں بدقسمتی سے ملک میں 5 سال کے انتخابات کی وجہ سے طویل مدتی منصوبہ بندی نہیں ہوئی، انہوں نے چین کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ چین کو آج ہم دیکھ رہے ہیں دنیا کی سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی معاشی طاقت اور سپر پاور بننے جارہا ہے تو ان کی ترقی کا ماڈل طویل مدتی ہے۔ویسے تو عام خیالات میں لوگ یہی سمجھ رہے ہیں کہ عمران خان بھی شخصی آمریت پر یقین رکھتے ہیں اس لیے وزیر اعظم کو یہ علم ہونا چاہیے تھا کہ چین میں بھی پانچ سالہ منصوبے ہی بنتے ہیں جیسے ابھی حا ل ہی میں چین نے 14ویں پانچ سالہ (2021ءتا 2025ئ) منصوبے کا اعلان کیا جس کا ذکر ہم بعد میں کریں گے ، لیکن فی الوقت یہاں بتاتا چلوں کہ پاکستان میں بھی اسی قسم کے پانچ سالہ منصوبے بنتے رہے ہیں لیکن اہم ترین بات یہ ہے کہ یہ منصوبے ہمیشہ کاغذی رہے ہیں اور ان پر عمل درآمد کا حقیقت سے کوئی تعلق ہی نہیں رہا۔ جیسے 1948میں وزیراعظم خان لیاقت خان نے پارلیمنٹ میں پانچ سالہ منصوبہ جاتی پروگرام پیش کیا اور 1955میں ملک کے پہلے پنجسالہ ترقیاتی منصوبے کا آغاز ہوا جو مختلف وجوہات کی بنا پر موثر نہ ہوسکا۔ اس کے بعد1960-1965کے پروگرام میں سب سے زیادہ توجہ بھاری صنعت، مواصلات، ریلوے، زراعت اور صنعتوں پر مرکوز رہی جس سے ان شعبوں کی ترقی کے ساتھ ملک میں روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہوئے۔ مشرقی ومغربی پاکستان میں پانی و بجلی کے ترقیاتی منصوبوں کا آغاز بھی اسی دوران ہوا، منگلا ڈیم کی تعمیر اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ جو آگے چل کر تربیلہ ڈیم کی حوصلہ افزائی کا باعث بنا۔ تیسرے پنجسالہ منصوبے 1965-70کی خاص بات ملک کی خام پیداوار میں 122فیصد کا اضافہ تھا اس دوران نجی شعبے کی حوصلہ افزائی ہوئی جس سے صنعتی عمل اور سرمایہ کاری میں تیزی آئی۔ تاہم چوتھا منصوبہ شروع ہونے کے اگلے ہی برس مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا المیہ اور پھر باقی کا عرصہ نجی اداروں کے قومی تحویل میں لیے جانے میں گزر گیا۔ پانچواں اور چھٹا منصوبہ1978-83اور1983-88افغانستان سوویت جنگ کی نذر ہوگیا جس کے اثرات سرمایہ کاری، زراعت، صحت وتعلیم پر اچھے نہیں پڑے۔ اگست 1991میں آٹھویں منصوبے کے لیے ورکنگ گروپ کی بنیاد رکھی گئی تاہم یہ اُس دور کا آغاز تھا جب ہمارے ہاں ٹھیکوں میں کمیشن لینے اور ”تاجر برادری“ کے حکومت کرنے کا رجحان بڑھنے لگا تھا، تاجر ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اس منافع بخش کاروبار میں اندھا دھند آنے لگے تھے۔ لہٰذایہ منصوبہ بھی موثر نہ ہوسکا اور بالآخر 2004میں قومی منصوبہ بندی کمیشن نے پانچ سالہ منصوبہ بندی کو وسط المدتی ترقیاتی فریم ورک کا نام دیا۔الغرض اس کے بعد کوئی منصوبہ پیش نہ کیا جا سکا بلکہ اس قسم کے منصوبے سیاسی نعروں کی زد میں چلے گئے ۔ جبکہ اس کے برعکس اگر ہم چین کی بات کریں تو ان دنوں چین میں چودہویں پنج سالہ منصوبے 2021 تا 2025 کی تیاری کا کام زور شور سے جاری ہے۔عوامی جمہوریہ چین کے قیام سے اب تک پنج سالہ ترقیاتی منصوبوں نے ملک کی تعمیر و ترقی میں بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ یہ ان پنج سالہ منصوبوں پر ان کی روح کے مطابق عمل درآمد ہی ہے کہ چین آج اقوام عالم میں ممتاز حیثیت سے کھڑا ہے۔ ہر پنج سالہ منصوبہ چینی کمیونسٹ پارٹی کی رہنمائی میں ترتیب پاتا ہے، پھر اس منصوبے کے لئے چینی قیادت اپنی ولولہ انگیز رہنمائی کا کردار ادا کرتی ہے اور چینی عوام اپنی شبانہ روز کاوشوں سے ان منصوبوں کو عملی جامہ پہناتے ہیں۔ آپ چین کے تیرہویں پانچ سالہ منصوبے کی بہترین حکمت عملی کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ 2016سے 2020ءتک چین کا مجموعی معاشی حجم 700کھرب یوان سے 1100کھرب تک بڑھا ہے۔ چین کے مجموعی معاشی حجم کی اوسط سالانہ ترقیاتی شرح چھ اعشاریہ سات فیصد تک پہنچ گئی، جو عالمی معاشی اوسط سے تین اعشاریہ نو فیصد زیادہ ہے۔2019 میں ، عالمی معیشت میں چینی معیشت کا حصہ32 فیصد سے زیادہ رہا اور چین میں فی کس جی ڈی پی 10000 امریکی ڈالر سے تجاوز کرگیا۔آپ چین میں ”پانچ سالہ “ منصوبے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ سابقہ پانچ سالوں میں 22600چینی گاﺅں غربت سے نکل کر ترقی یافتہ بن چکے ہیں، انہوں نے اپنے سوشل میڈیا کو بھی چین کی ترقی کے لیے استعمال کیا ہے جس سے اندرون ملک سیاحت کو فروغ ملا ہے جبکہ اس کے علاوہ ڈیجیٹلازیشن ، نیٹ ورک اور مصنوعی ذہانت کی ترقی سے چین کی سیاحتی صنعت کی ترقی میں بھی بڑی مدد ملی ہے۔ بہرکیف طویل المدتی منصوبوں سے متعلق وزیراعظم کی یہ سوچ بلاشبہ احساس ذمہ داری رکھنے والے 22 کروڑ آبادی کے ہر فرد کی ترجمان ہے خصوصاً ان حالات میں جب معیشت 44ہزار ارب روپے کے غیرملکی قرضوں تلے دبی ہوئی ہے توانائی کا بحران ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے۔ لیکن طویل المدتی منصوبے ہوں یا پانچ سالہ منصوبے جس ملک نے ترقی کرنی ہو وہ اُس کے لیے قلیل مدتی منصوبے یا طویل مدتی منصوبے اہمیت نہیں رکھتے بلکہ اہمیت یہ بات رکھتی ہے کہ آپ اُن منصوبوں پر کس حد تک عمل پیرا ہو رہے ہیں۔ بھارت جیسے غریب ملک نے بھی پانچ سالہ منصوبوں کی بدولت ملک میں 27سو چھوٹے بڑے ڈیم بنا لیے ہیں جبکہ ہم نیلم جہلم پراجیکٹ، دیامیر بھاشا ڈیم ، کالاباغ ڈیم ، ورسک ڈیم، لوئیر ڈیم وغیرہ کی منصوبہ بندیوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ یہاں آنے والی ہر حکومت نے پچھلی حکومتوں کے منصوبوں کو ناصرف ناکام بنایا بلکہ دہائیاں گزر جانے کے بعد انہیں پایہ تکمیل تک صرف اس لیے نہیں پہنچایا کہ کہیں کریڈٹ سابقہ حکومت کو نہ چلا جائے جیسے پرویز الٰہی دور حکومت میں لاہور کے رنگ روڈ کا منصوبہ بنایا گیا، آج 20سال گزرنے کو آئے ہیں لیکن یہ منصوبہ آج بھی زیر التوا ہے، قصہ مختصر پچھلی دو تین دہائیوں کے دوران یہاں مکمل ہونے والے کسی منصوبے کو کیس سٹڈی کے طور پر چن لیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ ملک میں حکومتوں کی تبدیلی کے اثرات اس منصوبے پر کس طرح مرتب ہوئے تو مسائل آسانی سے سمجھ میں آ جائیں گے۔ یہ کہ ہرآنے والی حکومت ماضی میں شروع کئے گئے منصوبوں پر کسی نہ کسی طرح اثر انداز ہونے کی کوشش کر تی ہے اور یہ چاہتی ہے کہ ان منصوبوں پر اس کی اپنی چھاپ بھی ضرور رہ جائے، مگر اس مداخلت کا نتیجہ عمومی طور پر یہ سامنے آتا ہے کہ یا تو منصوبے تاخیر کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں یا ان کے اخراجات کٹوتیوں کا شکار ہو کر منصوبے کو متاثر کرتے ہیں یا ان منصوبوں کو ان کے مقاصد کے مطابق برتا نہیں جاتا اور یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ ماضی کی حکومت نے ان بے کار منصوبوں پر اخراجات کئے اور یہ محض سفید ہاتھی ہیں۔ لہٰذاوزیر اعظم پاکستان کو چاہیے کہ طویل مدتی منصوبے ہوں یا قلیل المدتی ، اگر آپ اپنے منصوبوں کو بروقت مکمل کر لیں، اُن کے اندر شفافیت لے آئیں یا اُنہیں میرٹ پر کسی فرم کو دیں تو اس سے ناصرف منصوبہ بروقت مکمل ہوگا بلکہ قومی پیسے کی بچت بھی ہوگی اور سب سے اہم بات کہ جس طرح نیلم جہلم پراجیکٹ 100ارب روپے سے شروع ہو کر 1000ارب روپے خرچ کرنے پر بھی بے فائدہ ہے اس قسم کے پراجیکٹ کی بھی ٹھوس منصوبہ بندی ہوگی اور کمیشن کھانے کی خاطر ناقص منصوبوں کو شروع کرنے سے ملک کو جو نقصان اور وقت ضائع ہوا ہے اُس سے بھی بچا جا سکے گا۔ لہٰذاملک صرف ٹھوس حکمت عملی اور بروقت منصوبوں کی تکمیل اور اُس سے ملنے والے ثمرات کی بدولت ترقی کرتے ہیں ورنہ 200ملکوں میں سے 140ملک ہماری طرح صرف رونا ہی روتے رہتے ہیں عملی طور پر کچھ نہیں کرتے!