یونان میں کشتی ، کلرکہار میں بس حادثہ: یہ سلسلہ رکے گا نہیں!

ایک ہی ہفتے میں دو بڑے حادثات نے ہر پاکستانی کو غم میں مبتلا کر دیا ہے، پہلا حادثہ یونان کے قریب 300پاکستانی تارکین وطن ڈوبنے کا ہوا، جبکہ دوسرا موٹروے سالٹ رینج پر ایک بار پھر حادثہ ہوا جو درجنوں قیمتی جانیں لے گیا۔ یہ دونوں غمزدہ واقعات ہمارے ہاں تواتر سے ہو رہے ہیں، اگر ہم پہلے بات کریں یونان میں ڈوبنے والی کشتی کی تو شاید ہی کوئی ہفتہ جاتا ہو جب خبر نہ آتی ہو کہ ترکی یا لیبیا کی سمت سے بحیرہ روم کے دوسری جانب یونان یا اٹلی جاتے ہوئے غیر قانونی تارکینِ وطن کی ایک اور کشتی ڈوب گئی اور اس میں اتنے افغان، افریقی ، شامی اور پاکستانی سوار تھے۔ بحیرہ روم دیگر سمندروں کی طرح ایک بڑا سمندر ہے، جہاں ہر سال20ہزار تارکین وطن ڈوبتے ہیں یا بسا اوقات ڈبو دیے جاتے ہیں۔ ان میں زیادہ تعداد پاکستانیوں کی ہوتی ہے۔ یہ اس لیے بھی ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں پاکستان کا پاسپورٹ آخری دس نمبروں پر آتا ہے۔ اور کوئی بھی ترقی یافتہ ملک پاکستانی کو آسانی سے ویزہ فراہم نہیں کرتا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس ملک کے حکمرانوں اور اداروں کو اس کوئی پرواہ نہیں ہے، یہاں سوگ منانے کے جو لیٹر جاری کیے جاتے ہیں وہ اُن میں بھی خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ ہم سے اچھے تو یونانی ہیں جن کا اس حادثے میں ایک بندہ بھی نہیں مرا مگر وہ حالت غم میں ہیں، وہ اپنی حکومت سے تارکین وطن کے لیے پالیسیاں نرم کرنے کی استدعا کر رہے ہیں، مگر ہم نے 4دن بعد سوگ کا اعلان بھی کیا تو خوشی کا اظہار کرکے۔ جبکہ اس کے برعکس یہ اپنے مطلب کے لیے راتوں کو عدالتیں لگا لیتے ہیں، کرفیو بھی لگ جاتا ہے اور کسی پارٹی کو ختم کرنے کے لیے کئی جواز بھی تلاش کر لیے جاتے ہیں۔ مگر مجال ہے کہ یہاں انسانیت کی فلاح کے لیے کوئی کام ہوتا ہو۔ خیر واپس آتے ہیں یونان میں کشتی ڈوبنے کے واقعہ پر تو اس تحقیقات ہورہی ہیں، لیکن بیرون ملک آزاد ذرائعوں کے مطابق ڈوبنے والی کشتی حادثے سے پہلے سمندر میں 7گھنٹے تک کھڑی رہی ، لیکن المیہ یہ ہے کہ ایسی ہر خبر کے بعد یہ بھی ہمارا قومی معمول ہے کہ انسانی سمگلروں کی تلاش شروع ہو جاتی ہے۔ کچھ پکڑ دھکڑ ہوتی ہے اور پھر اگلی خبر تک ایک بے بس خاموشی چھا جاتی ہے۔ تازہ ترین بھی وہی باسی ترین کہانی ہے کہ ایک کشتی جس میں گنجائش سے کہیں زیادہ (750) انسان سمگلروں کو لاکھوں روپے دے کر سوار ہوئے۔ یہ کشتی یونان کے ساحل کے قریب ڈوب گئی۔ ایک سو بیس انسان بچا لیے گئے۔ ان میں بارہ پاکستانی بھی شامل ہیں۔ بقیہ چھ سو سے زائد لاشوں میں سے کتنے پاکستانی ہیں؟ اس کی چھان بین حسبِ معمول دفترِ خارجہ کر رہا ہے۔شناحت ایک مشکل کام ہے کیونکہ غیر قانونی تارکینِ وطن کا باقاعدہ یا سرکاری ریکارڈ تو کہیں بھی نہیں ہوتا۔ وہ جب کسی حادثے سے دوچار ہوتے ہیں، گرفتار یا ڈی پورٹ ہوتے یا مرتے ہیں تب ہی ان کی شناخت کے لیے سرکاری سطح پر بھاگ دوڑ ہوتی ہے۔ بنیادی طور پر انسانی سمگلنگ کی روک تھام ایف آئی اے کی ذمہ داری ہے۔ ایف آئی اے انسانی سمگلروں کی ایک سالانہ ریڈ بک بھی شائع کرتی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کتنے سمگلر یا ریکروٹنگ ایجنٹ پکڑے گئے، کتنوں کے لائسنس منسوخ ہوئے اور کتنے مفرور ہیں۔ پر آج تک یہ خبر پڑھنے کو نہیں ملی کہ کتنے انسانی سمگلروں کو طویل المیعاد قید کی سزا نہ صرف سنائی گئی ہو بلکہ انھوں نے پوری کاٹی بھی ہو۔دراصل یہی وہ لوگ ہیں جن کے مقدمے دہشت گردی کی عدالتوں میں چلنے چاہییں۔ مگر اربوں روپے کی اس انڈسٹری میں سمگلرز، ان کے پشت پناہ سیاستدان اور ان کے پشت پناہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور ان کے پشت پناہ عرف جہاں پناہ۔ سب کے سب ایک ہی پیج پر ہیں۔لہٰذا جتنے انسانی سمگلر پکڑے جاتے ہیں لگ بھگ اتنے ہی بھائی بھتیجے کچھ دنوں میں اور نمودار ہو جاتے ہیں۔ چونکہ پاکستان میں پہلے ہی لاقانونیت ہے، مجرم کا خوف ختم ہو چکا ہے، اور اب جبکہ حکمرانوں نے ایک روز سوگ بھی منا لیا ہے، اور چار رکنی انکوائری کمیٹی بھی بنا دی ہے، تو اللہ اللہ خیر صلہ ہوگئی۔ جبکہ اس کے علاوہ آپ یقین مانیں جو انسانی سمگلرز ہیں، ہمارے قوانین میں اُن کی سزا ہی نہیں ہے،،، حالانکہ فوجی عدالتیں ان افراد کے لیے کھلنی چاہیے، لیکن ان پر محض فراڈ کے کیسز ہوتے ہیں جو دیکھتے ہیں دیکھتے ختم ہو جاتے ہیں۔ یا ضمانتیں مل جاتی ہیں، لہٰذاجب تک ہم اس پر قانون سازی نہیں کریں گے، اور اس پر عمل درآمد نہیں کروائیں گے، یہ ملک ٹھیک نہیں ہوسکتا۔ ویسے بھی سب کو علم ہو چکا ہے کہ ہمارے ملک میں قانون پر عمل درآمد کتنا مشکل ہو چکا ہے، اس لیے آپ خود دیکھیے گا کہ اگلے 6ماہ میں یہ تمام ایجنٹ جیلوں سے باہر ہوں گے، اور ہم بھی اس حادثے کو بھول چکے ہوں گے۔ آگے چلنے سے پہلے کلر کہار ”سالٹ رینج“ حادثے کا ذکر بھی ہو جائے جہاں گزشتہ ہفتے ایک بس بریک فیل ہونے کے بعد اُلٹ گئی، جس میں سوا 12افراد جاں بحق جبکہ متعدد زخمی ہوگئے۔ اس جگہ پر یہ کوئی پہلا حادثہ نہیں ہے، بلکہ یہاں تواتر سے حادثات ہوتے رہتے ہیں، جس طرح سمندر میں برمودہ ٹرائی اینگل ہے، اسی طرح موٹروے پر بھی ”برمودہ ٹرائی اینگل“ ہے جس کا نام سالٹ رینج ہے۔ دراصل یہ 10کلو مٹر پر محیط ہے اور 7 فیصد ڈھلوان پر مشتمل ہے۔ تارکول سے بنا یہ ٹکڑا موٹروے کے خطرناک ترین حصوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ بد قسمتی سے اس حصے پر بہت سی سیکڑوں جانیں بھی جا چکی ہیں۔سب سے بھیانک حادثہ 26 ستمبر 2011ءکو اسکول بس کے ساتھ پیش آیا جس میں 40 بچے شہید ہوئے۔ موٹروے پولیس کے مطابق 1997 میں افتتاح سے اب تک اس مخصوص حصے میں تقریباً 350 حادثات ہو چکے ہیں جن میں سینکڑوں افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس کی بڑی وجہ ایک تو مسلسل ڈھلوان کا ہونا ہے اور دوسرا خطرناک موڑ ہے۔ 2005ءمیں حکومت نے سالٹ رینج پر بائی پاس بنانے کا منصوبہ بنایا تھا مگر وہ بیوروکریٹک پیچیدگیوں اور سیاسی غیر یقینی صورتحال کی نذر ہو گیا۔ تاہم 2006ءمیں سالٹ رینج کے خطرناک علاقے کو اپ گریڈ ضرور کر دیا گیا تاکہ حادثات کے امکانات کو کم کیا جا سکے۔ ساتھ ہی جلی حروف میں لکھے روشن انتباہی بورڈ اور واضح نظر آنے والی سڑک لائن کو بھی مزید واضح بنایا گیا تاکہ ڈرائیور صاحبان انہیں بخوبی دیکھ سکیں۔لیکن حادثات کم نہ ہوسکے۔ خیر سنا ہے، کہ نقشے میں یہاں ٹنل کھودنے کا ارادہ تھا، مگر بعد میں اسے تبدیل کر دیا گیا تھا۔ خیر جب موٹروے بنائی گئی تھی اُس وقت ہی موٹروے کا یہ حصہ خطرناک قرار دے دیا گیا تھا، اور یہ موٹروے (M2)ویسے بھی آغاز میں فلاپ پراجیکٹ تھا، کیوں کہ لاہور سے اسلام آباد تک کا سفر 100کلومیٹر زیادہ ہوچکا تھا۔ اور صرف امیر آدمی ہی موٹروے پر جانا پسند کرتا تھا۔ اور پھر جب سے موٹروے کا کنکشن ملتان اور فیصل آباد سے ہوا ہے، وہ ٹریفک بھی موٹروے پر براہ راست آنا شروع ہوگئی ہے، اس لیے ٹریفک کا بہاﺅبڑھ گیا ۔ اور حادثات زیادہ ہونا شروع ہوگئے۔ لیکن مسئلہ زیادہ ٹریفک کا نہیں، دنیا بھر میں اس سے بھی زیادہ ٹریفک والی موٹرویز دستیاب ہیں، جہاں شاذونادر ہی ٹریفک حادثات کے بارے میں سنا جاتا ہے۔ لیکن یہاں حادثات اس لیے بھی زیادہ ہورہے ہیں، کیوں کہ ڈرائیورز کو ڈرائیونگ سمجھ بوجھ ہی نہیں ہے، اُنہیں علم ہی نہیں کہ موٹروے پر گاڑی کیسے چلانی ہے، اُنہیں کسی قسم کی تربیت نہیں دی جاتی، وہ جی ٹی روڈ کی طرح ہی موٹروے پر گاڑی چلاتے ہیں، اُنہیں ابھی تک لائن اور لین میں ہی فرق نہیں پتہ چلا۔ اُنہیں علم ہی نہیں ہے کہ لین کی تبدیلی کیسے کرنی ہے۔ پھر اس کے بعد موٹروے پر وہ گاڑیاں بھی آجاتی ہیں، جو فٹنس ٹیسٹ پاس نہیں کرتیں۔ میں ابھی کل ہی اسلام آباد سے آیا ہوں، میں نے وہ وہ گاڑی موٹروے پر دیکھی ہے، جو جی ٹی روڈ پر بھی جانے کے قابل نہیں ہے۔ اورپھر آپ موٹروے پولیس کے کردار کی بات کریں تو جس طرح موٹروے پولیس آغاز میں بہت زیادہ متحرک تھی، آج اتنی ہی سہل پسند اور روایتی پولیس بن چکی ہے۔ اور وہ ماسوائے ٹرکوں کو روک کر اُن کی تلاشی لینے کے کوئی کام نہیں کرتی۔ اور پھر اسی پولیس میں سے بعض افراد ڈرائیورز کو گھر بیٹھے لائسنس دینے کی سہولت بھی دیتے ہیں۔ صرف چند بڑے شہروں میں تھوڑی سی سختی ہے، کہ وہ کیمرہ چیکنگ کے بعد لائسنس دیتے ہیں، لیکن چھوٹے شہروں میں تو براہی حال ہے۔جب کہ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں ڈرائیونگ لائسنس کا حصول اتنا مشکل ہے کہ جو پاکستانی یورپ ، امریکا، کینیڈا میں رہتے ہیں، اُنہیں پوچھیں کہ لائسنس کیسے ملتا ہے؟پھر ایک اور مسئلہ یہاں یہ بھی ہے کہ موٹروے پر اور باقی جگہوں پر جرمانے بہت کم ہیں۔ انتہائی Voilationکے بعد 700، 1200،2000جرمانا کیا جاتا ہے، حالانکہ آج کے دور میں ان رقوم کی کیا اہمیت رہ گئی ہے۔ خاص طور پر جس شخص نے 2کروڑ کی گاڑی رکھی ہوئی ہے، اُس کے لیے یہ جرمانہ کیا اہمیت رکھتا ہے؟ اس لیے ڈرائیور حضرات جرمانوں کی پرواہ ہی نہیں کرتے۔ جبکہ اس کے برعکس دبئی جیسے شہر میں 1000درہم (80ہزار پاکستانی روپے) جرمانہ عام بات ہے۔ لہٰذاجب تک ہم گاڑی کی فٹنس، ڈرائیونگ لائسنس اور گاڑی چلانے کا ہنر ڈرائیورز کو نہیں سکھا سکتے تب تک یہ حادثے ہوتے رہیں گے۔ میرے خیال میں جس شخص کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہ ہو، اور پولیس اُسے جرمانہ کرنے کے بعد دوبارہ گاڑی چلانے کی اجازت دے دیتی ہے تو حادثے کی صورت میں ذمہ دار کون ہوگا؟ ظاہر ہے اجازت دینے والا ذمہ دار ہوگا۔ لہٰذاموٹروے ٹول پلازے پر جہاں سے گاڑیاں انٹر ہوتی ہیں، وہاں پر ایسا میکنزم بنایا جائے کہ ایک ہی بار لائسنس یافتہ ڈرائیور اور گاڑی کے نمبر کا اندراج ہو جائے تو بار بار اُس کی چیکنگ نہ کی جائے ورنہ جو نئی گاڑی یا ڈرائیور نیا انٹر ہو اُس کا لائسنس بھی چیک کیا جائے اور اُس کی گاڑی بھی۔ میرے خیال میں ایسے اقدامات کرنے سے حادثات کو 90فیصد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر ہم فضائی حادثات یا ٹرین حادثات کی طرح اس حادثے کو بھی بھول جائیں گے اور انسانی سمگلرز کو چھوڑتے رہیں گے تو آنے والے دنوں میں اس قسم کے حادثات ہوتے رہیں گے۔ اور ہم صرف نوحے پڑھنے یا سنانے کی حد تک رہ جائیںگے۔ اس لیے خدارا اس ملک کے بارے میں سوچیں جہاں ہر پاکستانی جیسے تیسے کرکے بھاگنا چاہ رہا ہے اور بچے کچھے پاکستانی کلر کہار جیسے حادثات کی نذر ہو رہے ہیں، اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو پھر ہمارا اللہ ہی حافظ ہے!