9مئی کے بعد عوام عدم تحفظ کا شکار ہیں!

9مئی کے واقعہ کی آج پہلی برسی ہے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک غیر معمولی دن تھا، جب 200سے زائد دفاعی تنصیبات پر حملہ کیا گیا، کورکمانڈر ہاﺅس کے گھر جلا دیے گئے، قائداعظم کی میراث خاکستر کر دی گئی،،، لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ اُس دن سکیورٹی ادارے کہاں تھے؟ جنہوں نے حملہ آوروں کو روکا نہیں۔ حالانکہ یہ وہی سیکیورٹی ادارے ہیں جو ملک کی ہر خوشی غمی میں سیسہ پلائی کی دیوار بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ وہی ادارے ہیں جنہوں نے گزشتہ روز لاہور کے مال روڈ پر وکلاءکو ”پسپا “ کیا ۔ جس سے وہ اپنی ”چھاﺅنیوں“ میں جانے پر مجبور ہوئے، یہ وہی ادارے ہیں جو انڈیا کو کئی بار اُن کی اوقات دکھا چکے ہیں، یہ وہی ادارے ہیں جنہوں نے فیض آباد دھرنا والوں کو ”تباہی“ سے روکا اور اُنہیں گھر بھیجنے میں مکمل معاونت کی۔ لیکن ان مضبوط اداروں نے 9مئی کے ذمہ داران کو نہ تو کینٹ میں داخل ہونے سے روکا اور نہ ہی تنصیبات پر چڑھائی کوروکا۔ حالانکہ آپ پاکستان میں موجود کسی بھی کینٹ میں داخل ہوں تو سب سے پہلے چیک پوسٹوں سے گزرنا پڑتا ہے،،، لیکن وہاں کے اہلکار بھی اُس دن اپنی ڈیوٹی پر موجود نہ تھے،،، اور اگر اکا دکا تھے بھی تو اُن کے بس میں نہیں تھا کہ وہ ہجوم کو روک سکیں۔ اس لیے میں تو یہی کہوں گا کہ ایک سال میں یہ کیس آگے کیوں نہ بڑھ سکا؟ اس کا ماسٹر مائنڈ کون تھا؟ سازش تھی تو کیسے ہوئی کوئی ایک دو جگہ حملے ہوتے تو مسئلہ کچھ اور ہوتا،،، مگر ریڈ زون؟ ہجوم کا جذباتی ردعمل مگر یہ تو ایک منظم انداز نظر آتا ہے۔ جس کے بظاہر کچھ پس پردہ کردار بھی تھے یہ کہانی اب کھلنی چاہئے اور جوملوث ہو اسے قانون کے تحت سزا دیں۔ لیکن اگر بات کی جائے کہ اس ایک سال کے دوران کیا کچھ بدل گیا تو میرے خیال میں اتنا بدلاﺅ 75سالوں میںنہیں آیا، جتنا اس ایک سال میں آیا۔ اس دوران پولیس کو اس قدر بے دریغ اختیار دے دیا گیا، کہ وہ کسی کے بھی گھر میں گھس کر مرضی کی کارروائیاں کرتی ہے، اس کے لیے اُنہیں نا تو ضلعی مجسٹریٹ سے اجازت لینے کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی اُن کے ساتھ کسی دوسرے ادارے کا آفیسر ہوتا ہے۔ بلکہ پولیس کے ساتھ تو بسا اوقات لیڈیز پولیس بھی نہیں ہوتی۔ اتنا بڑا ظلم پاکستان کے ساتھ کبھی نہیں ہوا۔ لہٰذا”9مئی“ آج بھی جوڈیشل کمیشن مانگتا ہے، ہمارے تجربات کے مطابق جس ملک میں دھاتی تار سے گرد ن کٹے یا جس علاقے میں پتنگ بازی ہو، وہاں کا ایس ایچ او معطل ہو جاتا ہو، جبکہ یہاں پر اتنا بڑا ”ظلم “ہوگیا ، فوجی تنصیبات ، شہداءکی یادگاروں کو جلا دیا گیا، وہاں نہ کوئی آئی جی معطل ہوا، نہ ڈی آئی جی، نہ ایس پی اور نہ ہی کہیں ایس ایچ کی معطلی کا سنا گیا۔ حالانکہ یہ سب برابر کے ذمہ دار ہیں۔ اگر ایس ایچ او کینٹ، ڈی ایس پی کینٹ، ایس پی کینٹ ، آئی جی یا ڈی آئی جی معطل ہوئے ہوتے تو عوام کہتے واقعی یہ ملک و قوم کے لیے بہترین ہے۔ اور پھر کیا ہمیں تاریخ یاد نہیں کہ کس طرح منظم منصوبہ بندی کے ساتھ کارروائیاں کروائی جاتی رہی ہیں،،، آپ زیادہ دور نہ جائیں،،، بلکہ 12مئی 2007ءکو سانحہ کراچی کو ہی دیکھ لیں،،، میڈیا رپورٹس اور ایک صحافی کی خبر کے مطابق 12 مئی 2007 سے ایک رات پہلے انسانی حقوق کی ایک بڑی آواز عاصمہ جہانگیر نے لندن فون کر کے متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت سے چالیس منٹ گفتگو میں انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ کل (یعنی 12مئی کو) کیا کھیل کھیلا جانے والا ہے۔ جس کا سارا الزام آپ لوگوں پر ہو گا اس چال میں نہ آئیں۔ ابھی یہ کال ختم ہوئی تھی کہ ایک اعلیٰ افسر کی کال آئی اور اس نے ایم کیو ایم کی قیادت سے کہا ”ابھی ابھی جو عاصمہ نے آپ سے کہا ہے اس پر توجہ نہ دیں وہ جسٹس افتخار چوہدری کی حامی ہیں“۔ یہ انکشاف ایم کیو ایم کے ایک ایسے لیڈر نے کیا ، جس کے بقول اس کے پاس اس کے ثبوت بھی موجود ہیں اور وقت آنے پر وہ منظر عام پر بھی آ جائیں گے۔ ” میں اس بات چیت کا عینی گواہ ہوں، 12مئی پر اختلاف تھا پارٹی میں“۔ اب دوسری جانب اگر دیکھیں تو گزشتہ روز ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ 9 مئی کرنے اور کروانے والوں کو آئین کے مطابق سزا دینا ہوگی، وہ کردار جنہوں نے 9 مئی کی منصوبہ بندی کی اگر ان کو کیفر کردار تک نہ پہنچایا تو ہمیں ایک اور 9 مئی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، اگر کوئی سیاسی سوچ ، لیڈر یا ٹولہ اپنی ہی فوج پر حملہ آور ہو،شہداءکی تضحیک کرے تو اس سے کوئی بات چیت نہیں کرے گا،ایسے سیاسی انتشاری ٹولے کے لیے صرف ایک ہی راستہ ہے وہ قوم کے سامنے صدق دل سے معافی مانگے، وعدہ کرے کہ وہ نفرت کی بجائے تعمیری سیاست میں حصہ لے جبکہ بات چیت سیاسی جماعتوں کو آپس میں زیب دیتی ہے اس میں فوج یا ادارے کا ہونا مناسب نہیں، کہا جاتا ہے عدالتی کمیشن بنائیں ، جوڈیشل کمیشن تو اس چیز پر بنتا ہے جس پر کوئی ابہام ہو،یہ واقعات تو تاریخ پر ہیں ‘کمیشن بنادیا جائے تو میرا خیال ہے کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے مگرہم کمیشن کے لیے تیار ہیں لیکن کمیشن پھر تہہ تک جائے ‘ کمیشن یہ احاطہ کرے کہ 2014ءدھرنے کے مقاصد کیا تھے، پارلیمنٹ اور پی ٹی وی پر حملے اور مقاصدکا بھی احاطہ کرے....وغیرہ بہرحال اس پریس کانفرنس کا لب لباب یہی تھا کہ اگر قصور وار معافی مانگ لیں تو اُنہیں معاف کر دیا جائے گا۔ میرے خیال میں اب یہاں پر ریاست بھی ماں کا کردار ادا کرے ، کیوں کہ اگر کسی سے انفرادی طور پریا اجتماعی طور پر غلطی ہوئی ہے تو اُسے معافی مانگنے پر معاف بھی کردینا چاہیے۔ لیکن اس کے علاوہ باقیوں کو بھی تو معافی مانگنی چاہیے، اُنہیں معافی مانگنی چاہیے جنہوں نے الیکشن میں بے ایمانی کی ہے، جنہوں نے رات 12بجے عدالتیں لگا کر حکومت کو برطرف کیا اور چوروں کو لا کر عوام پر مسلط کر دیا۔ جنہوں نے گھروں میں لوٹ مار کی ہے، جنہوں نے عوام کا الیکشن پر اعتماد ہی ختم کر دیا ہے، کیا اُنہیں معافی نہیں مانگنی چاہیے؟ کیا حالیہ گندم سکینڈل والوں کو معافی نہیں مانگنی چاہیے،،، جن کی وجہ سے ہمارے کسان بھائیوں نے سڑک پر گندم پھینک دی ہے۔ جبکہ جن کا یہ سکینڈل ہے، وہ ہنس رہے ہیں۔ بہرکیف اتنی بڑی تبدیلی پاکستان میں گزشتہ 75سالوں میں نہیں آئی، جتنی اس سال میں آئی ہے، کتنے ہی پاکستانی اس سسٹم سے مایوس ہوگئے ہیں،،، اہم بات یہ ہے کہ جن نوجوانوں نے اس ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے، وہ بھی اس ملک سے مایوس ہو کر جا رہے ہیں،،، حتیٰ کہ ملک کے باسیوں کی ایک بڑی تعداد ملک کے سیکیورٹی اداروں سے بدظن ہو چکی ہے، تبھی وطن عزیز میں سوشل میڈیا پر پابندی عائد کی جا رہی ہے، ٹوئیٹر(ایکس) پہلے ہی پاکستان میں بند کیا جا چکا ہے ،،، جبکہ دوسری جانب فیس بک اور یوٹیوب پر بھی پابندی لگانے کا سوچا جا رہا ہے،،، لیکن کیا اس سے مسائل حل ہو جائیں گے؟ حکومت کو تو کارکردگی سے مقابلہ کرنا چاہیے، اگر آپ مقابلہ نہیں کر سکتے تو آپ کے پاس کیا اخلاقی جواز رہ جاتا ہے۔ لہٰذاہم تو یہی کہتے ہیں کہ افہام و تفہیم سے معاملات کو حل کیا جائے، اور تحریک انصاف بھی درمیانی راستہ نکالتے ہوئے جمہوریت کے تسلسل کا باعث بنے ورنہ ملک مزید مسائل کی دلدل میں چلا جائے گا!