تحریک انصاف مقتدرہ سے مذاکرات کیوں چاہتی ہے؟

آج کل مذاکرات ، مذاکرات کی باتیں ہو رہی ہیں،،، یہ مذاکرات ملک کی سب سے بڑی جماعت اور حکومت کے درمیان نہیں بلکہ فیصلہ کرنے والی قوتوں کے درمیان ہونا ہیں، یا ہو رہے ہیں، یا ہو چکے ہیں،،، کیوں کہ اپوزیشن یعنی تحریک انصاف موجودہ حکومت کے وجود کو ہی تسلیم کرنے سے انکاری ہے،،، ان کا کہنا ہے کہ اصل مذاکرات فیصلے کرنے والوں سے ہی ہو سکتے ہیں،،، اور شاید اس پر خاصی پیش رفت بھی ہوئی ہے ،،، کیوں کہ میڈیا رپورٹس میں یہ سنا جا رہا ہے کہ چند اہم شخصیات بانی تحریک انصاف اوراسٹیبلشمنٹ کے درمیان معاملات کو سلجھانے کے لیے سوچ بچار کر رہی ہیں۔اس کے لیے رپورٹس ہیں کہ ایک گروپ نہ صرف سابق وزیراعظم اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بڑھتی کشیدگی کا معاملہ حل کرنے کیلئے حکمت عملی تیار کرنے کیلئے سوچ بچار کر رہاہے بلکہ سیاسی جماعتوں کے درمیان بھی دشمنی اور نفرت کی سیاست کا خاتمہ چاہتا ہے۔اس حوالے سے رپورٹس ہیں کہ کم از کم تین شخصیات اس حوالے سے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں ہیں اور آئندہ دنوں میں کچھ اور بھی لوگ اس گروپ میں شامل ہو سکتے ہیں تاکہ قومی ہم آہنگی اور سیاسی استحکام کیلئے حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا جاسکے۔ ابھی تک جو تین لوگ آپس میں اس سلسلے میں رابطے میں ہیں اُن میں سے دو سابق وفاقی وزراءہیں جبکہ تیسری شخصیت ایک معروف ریٹائرڈ تھری اسٹار جنرل ہیں۔ تینوں جانے پہچانے چہرے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس گروپ کیلئے سب سے بڑا چیلنج یہ ہو گا کہ عمران خان اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان خلیج کوکیونکر ختم کیا جائے اور عمران خان اور دوسری سیاسی جماعتوں کو کیسے ایک ساتھ بٹھایا جائے۔؟اس حوالے سے ممکنہ طور پر ایک دو مہینوں میں کوئی نتیجہ نکل سکتا ہے یعنی اس بات کا تعین ہو جائے گا کہ آیا اسٹیبلشمنٹ عمران خان سے بات کرنے کے لیے تیار ہو گی یا نہیں۔بہرحال یہ بات درست ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ہمارے ملک میں کئی چیزوں کی ذمہ دار ہے،،،لیکن غلطی ہمارے سیاستدانوں کی بھی ہے کہ انہوں نے اپنا سب کچھ انہی کو نچھاور کر دیا ہوا ہے کہ یہ اُن کے بغیر پانی بھی نہیں پیتے۔ یہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار رہتے ہیں،،، خواہ اس کے لیے انہیں کچھ بھی کرنا پڑے۔ تبھی ہمارے ہاں،،،بوٹ پالش،،، یا ”حاضری“ جیسی اصطلاحات مشہور ہیں اور یہ سیاستدان کے لیے ہی استعمال کی جاتی ہیں۔ اگر یہ بوٹ پالش کرنا چھوڑ دیں تو ملک کے آدھے سے زیادہ حالات خود بخود ٹھیک ہو جائیں،،، بلکہ مقتدرہ کی اس بات میں کافی حد تک سچائی ہے،،، کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم ان کو نہیں بلاتے یہ خود آتے ہیں۔ اور پھر جب تک ہمیں اس طرح کے سیاستدان ملتے رہیں گے، جو چور دروازوں سے اقتدار میں آتے ہیں وہ کیسے ملک کی بھلائی کے لیے کام کر سکتے ہیں؟ اسی لیے تحریک انصاف کا بھی اس وقت سب سے بڑا مطالبہ یہی ہے کہ وہ ان سے مذاکرات کیوں کرے جو خود چور ہیں،،، اور یہ بات تحریک انصاف کی 100فیصد درست بھی ہے کہ ایک بندہ آپ کے گھر چوری کرکے آپ کے سامنے کھڑا ہو اور کہے کہ آﺅ بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔۔۔ تو آپ کو کیسا لگے گا،،، یقینا یہی صورتحال اس وقت ن لیگ اور پی ٹی آئی کی ہے۔ بلکہ اس وقت تو ”بڑوں“ کا کردار بالکل ایسا ہی لگ رہا ہے ،،، جیسے ضرب المثل کہ چور سے کَہے تو چوری کر اور ساہ سے کَہے تو جاگتے رہیو یعنی مجھے تو لگ رہا ہے کہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مقتدرہ دونوں مخالف فریق سے بنائے رکھناچاہتی ہے،،، ایسے شخص کے لئے کہا جاتا ہے جو لڑائی میں پیچھے رہ کر دونوں فریقوں کو اکساتا رہتا ہے۔ خیر چھوڑیں یہ الگ بحث ہے مگر اس بات کا دفاع کون کرے گا کہ جو سیاستدان چور راستوں سے اقتدار میں آتے ہیں، وہ کیسے امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتے ہیں؟ کیسے انڈیا سے بات چیت کر سکتے ہیں؟ کیسے طالبان کا راستہ روک سکتے ہیں؟ کیسے دہشت گردوں کا خاتمہ کر سکتے ہیں؟ کیسے آئی ایم ایف کے سامنے ملکی مفاد میں بات کر سکتے ہیں، کیسے کشمیریوں یا فلسطینیوں کی بات کر سکتے ہیں؟ کیسے قوم کو لیڈ کرسکتے ہیں؟کیسے اُن کی نمائندگی کرتے ہوئے دنیا سے لڑ سکتے ہیں؟ ظاہر ہے جو عوام کا جوابدہ ہی نہیں ہوگا وہ کیسے قوم کے حق میں بہتر فیصلے کر سکتا ہے؟ تبھی امریکا، انڈیا اوریہاں جیلوں میں موجود ملک کی سب سے بڑی پارٹی کی قیادت بھی یہی سمجھتے ہیں کہ ان کے اختیار میں کچھ نہیں ہے،،، اصل قوت ان کے پیچھے کسی اور کی ہے۔ اور پھر یہ سب چیزیں اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہیں،،،موجودہ حکومت نے تو کسی تیسرے درجے کے ملک کا بھی دورہ کرنا ہوتا ہے تو اُس کے لیے وہ ”اعلیٰ سطحی “ مشاورت کرتے ہیں،،، بلکہ اُتنا ہی بولتے ہیں جتنا ان کو کہا جاتا ہے۔۔۔۔ اس پر تو مجھے ایک قصہ یاد آگیا کہ ایک نوجوان سے کسی لڑکی نے پہلی مرتبہ ملاقات کی ہامی بھری تو نوجوان نے اپنے جہاندیدہ ”ایکسپرٹ“ دوست سے مشورہ کیا کہ اسے ”ڈیٹ “ پر کیا کرنا چاہیے۔ دوست نے جواب دیا کہ اسمارٹ عورتیں عموماً تین موضوعات پر گفتگو کرنا پسند کرتی ہیں، اپنے کھانے کی پسند نا پسند کے بارے میں، گھر والوں کے متعلق اور فلسفہ۔ نوجوان نے یہ بات پلے سے باندھ لی اور اگلے روز ملاقات کیلئے لڑکی کے پاس پہنچ گیا۔ تھوڑی دیر تک دونوں چ±پ چاپ بیٹھے ایک دوسرے کو تکتے رہے، پھر لڑکے نے پوچھا ”کیا تمہیں آلو کے قتلے پسند ہیں؟“ لڑکی نے جواب دیا ”نہیں۔“ لڑکا خاموش ہو گیا، چند لمحے بعد اُس نے دوبارہ پوچھا ”کیا تمہارا کوئی بھائی ہے؟“ لڑکی نے کہا ”نہیں۔“ کچھ سوچنے کے بعد بالآخر لڑکے نے آخری پتہ پھینکا۔ ”اچھا، اگر تمہارا کوئی بھائی ہوتا تو کیا اسے آلو کے قتلے پسند ہوتے؟“ جو مشکل اس نوجوان کو پیش آئی وہی اس وقت موجودہ حکومت کو آتی ہے،،، تبھی یہ حساس ترین دوروں اور ملاقاتوں میں آئیں، بائیں ، شائیں کر کے آجاتے ہیں۔ خیر دوسری طرف ”اغلوں“ کا کردار بھی کچھ زیادہ ہی Prominent ہو رہا ہے،،، اُنہیں بھی چاہیے کہ بھیا! پہلے کی طرح اگر یہ کردار چھپ چھپا کے ہو جائے تو بہتر ہے،،، اس سے ہماری جمہوریت کی واٹ نہیں لگے گی اور نہ ہی کوئی اس نام نہاد جمہوریت کا مذاق بنائے گا! اور سب سے اہم ہمارا وزیر اعظم بھی کٹھ پتلی نہیں بلکہ اصل وزیر اعظم لگے گا،،، جو اپنے فیصلوں میں خود مختار ہوگا۔۔ تب ہی اس کے پاس تحریک انصاف بھی آئے گی،،، امریکا بھی من مانیاں نہیں کرے گا اور انڈیا میں مذاکرات کی ٹیبل پر آئے گا۔ اور ساتھ ساتھ طالبان کو بھی اپنے وعدوں کا پاس رہے گا۔ اس لیے وزیر اعظم کی سیٹ کی خدارا بے توقیری نہ کریں! مذاکرات کریں،،،معاملات کو سلجھائیں اور جن کو عوام چاہتی ہے،،، اُنہیں اقتدار سونپ دیں،،، اللہ اللہ خیر صلا! میرے خیال میں اس وقت جو خیر خواہ متحرک ہیں وہ یقینا خان صاحب کو بھی اس بات پر قائل کر لیں گے ،،، اور وقتی طور پر حکومت کو چلنے دیں گے،،، تاکہ ملک میں استحکام آسکے۔ لیکن دوسری جانب بادی النظر میں لگ یہ رہا ہے کہ بانی تحریک انصاف یہ مطالبہ کریں کہ موجودہ حکومت کو ختم کر کے اقتداراُن کے سپرد کر دیا جائے ،،، اگر عمران خان کہیں کہ اُن کے اور اُن کی پارٹی کے دعوے کے مطابق اُن کو قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں اضافی سیٹیں مہیا کرنے کے لیے موجودہ قانونی اور عدالتی آپشنز کے ساتھ کوئی کام کیا جائے ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ 9مئی کے حوالے سے عام معافی کا اعلان کیا جائے تاکہ کارکنان سرخرو ہو سکیں اور اُن پر درج مقدمات کو ختم کیا جاسکے! لیکن میرے خیال میں جن نکات پر اتفاق ہو سکتا ہے وہ یہ ہیں کہ عمران خان اور تحریک انصاف کے رہنماو¿ں اور ورکرز کے خلاف کیسوں کو میرٹ پر چلنے دیا جائے، بار بار گرفتاریوں سے اجتناب کیا جائے، ایسے مقدمات جن میں کوئی ثبوت نہیں ا±نہیں ختم کیا جائے۔ لیکن دوسری جانب مقتدرہ یہ سمجھتی ہے کہ وہ اورحکومت پاکستان کو معاشی مشکلات سے نکالنے کے لیے یکسو ہیں جس کی بنا پر خان صاحب کے چند ایک مطالبات پر ہی کان دھرا جا سکتا ہے،،، لہٰذاتحریک انصاف سے بھی گزارش ہے کہ وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے مطالبات کو مرحلہ وار سامنے رکھے،،، اور مقتدرہ کے کردار کو کم کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی گفت وشنید کرے،،، بلکہ سیاسی پارٹیوں کو اس بات پر قائل کرے کہ اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار کے خاتمے کے لیے آئین کے مطابق ہر ادارے کو اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر کام کرنے کے لیے سیاستدانوں کا مل بیٹھنا لازم ہے۔ اگر وہ یہ کام کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اس میں یقینا اسی کی جیت ہوگی،،، اور رہی بات مقتدرہ کی تو اُسے چاہیے کہ ان سیاستدانوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں،،، یہ لڑیں گے،،، مریں گے،،، لیکن ایک دن آئے گا جب یہ میچور ہو جائیں گے اور پھر ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام بھی کرنا شروع کر دیں گے!