بین الاقوامی سازشیں: کیا بھٹو کے بعد عمران خان کی باری ہے؟

ہمارے ہاں ہر نئی آنے والی حکومت کے آغاز کے ایک دو سال اچھے گزرتے ہیں، مگر پھر بعد میں وہی مارا ماری، وہی آپا دھاپی اور وہی لڑکھڑاتے مسائل۔ یعنی ایک بار پھر پاکستان کا سیاسی ماحول ایک شدید سونامی کا شکار ہے اور ایسا وقت ہے جس میں سازشی اور افسانوی گفتگو پنپ رہی ہے۔ویسے تو یہاں روزانہ کی بنیاد پر نئی سیاسی کہانیاں منظر عام پر آ رہی ہیں۔ ہر کوئی اپنی اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے درپے ہے۔ اب ایک طرف تو ماحول الیکشن کا سا لگ رہا ہے اور دوسری طرف دنگا فساد کا ماحول۔یہ ممکنہ طور پر فوری تناظر میں اور شاید درمیانی مدت میں بھی یقینی طور پر سیاسی اور ریاست کی سطح پر ہلچل پیدا کر رہا ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ حکومت میں تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے۔ تاہم، یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کیوں کہ اس حوالے سے رائے شماری کا نتیجہ اگلے 27مارچ تک واضح ہو جائے گا جب قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کا ووٹ پیش کیا جائے گا اور ووٹ لیا جائے گا۔ اس سے متعلق کچھ اہم پیش رفت ہے جو جلد ہی منظر عام پر آئے گی۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ جب بھی ایسی صورتحال بنتی ہے بیسیوں افسانے گھڑے جاتے ہیں، جیسے موجودہ دور کے لیے کہا جا رہا ہے کہ ”بڑے اور چھوٹے“دونوں ایک پیج پر نہیں،اگلے آرمی چیف کے لیے راستے کو ہموار کیا جار ہا ہے، کوئی کہہ رہا ہے کہ فیصلہ کرنے والی قوتیں عمران خان کے بارے میں بالکل اُسی طرح فیصلہ کر چکی ہیں جس طرح نوازشریف کے بارے میں فیصلہ کر لیا گیا تھا، کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ عمران خان کو ہٹانے کی بین الاقوامی سازش ہے، کوئی کہہ رہا ہے کہ اس کھیل کی ڈوریاں دور بیٹھے سابق وزیر اعظم نواز شریف ہلا رہے ہیں۔ الغرض پاکستانی سیاست میں کہانیاں سنانے کی روایت سے اہم افسانہ سازی ہے۔ تو ہم کیا بیرونی ایجنسیوں کے ذریعے وزیر اعظم عمران خان کو مبینہ طور پر ہٹانے کی کہانی دیکھ رہے ہے؟دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر اعظم کی ٹیم اور حامی کچھ حقائق کو استعمال کرتے ہوئے اس بات پر اصرار کر رہے ہیں کہ وزیر اعظم کو ہٹانے کی مہم ایک غیر ملکی سازش کا نتیجہ ہے۔ یہ بات درست ہے کہ پچھلے کچھ مہینوں میں پاکستان کی خارجہ پالیسی نے بین الاقومی سطح پر اہمیت اختیار کی ہے اور وزیر اعظم نے پاکستان کی ماضی کی کچھ روایتیں برقرار رکھتے ہوئے چند صحیح اور سخت فیصلے کیے۔ اور اس کے برعکس کچھ اور بھی خارجی اور سکیورٹی پالیسی سے جڑے معاملات ہیں جن سے مل کر ایک ایسی داستان گوئی کی جا سکتی ہے جو ایک سازش نما حالات کی عکاسی کر سکتا ہے۔ اور یہ داستان آج شروع نہیں ہوئی بلکہ یہ اُس وقت کی ہے جب 2019ءمیں وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں تقریر کی تھی۔ اس مذکورہ تقریر کے بعد عالمی دنیا کو یہ اندازہ ہوا کہ شاید اُنہوں نے غلط آدمی کو چن لیا ہے، کیوں کہ اُنہیں ایسا بندہ چاہیے تھا جو شاید مغربی کلچر کی بات کرتا، جو شاید اُن کے ایجنڈے کی بات کرتا، جو شاید امریکی ایماءپر دوسرے ملکوں میں حملے کر دیتا، جو شاید مغربی پالیسیوں کی تقلید کرتا، جو شاید چین و روس کی مذمت کرتا، جو شاید ایران پر فوجیں دوڑا دیتا، جو شاید افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتا، جو شاید بھارت کے ساتھ ہر قیمت پر تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کرتا، لیکن اس کے برعکس عمران خان نے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی بات کی، فلسطینیوں پر ہونے والے ظلم کی بات کی،مسلمانوں کے حقوق کی بات کی، پاکستان کو پیرس بنانے کی بات کی ، پاکستان کو ریاست مدینہ میں بدلنے کی باتیں کیں۔ لہٰذا ان باتوں کو مغرب بالخصوص امریکا کیسے برداشت کر سکتا تھا؟ اور پھر یہ بات سچ ہے کہ آج تک جس نے بھی ایسی باتیں کی ہیں کیا وہ بچ سکا ہے؟ آپ یاسرعرفات کو دیکھ لیں، ایران کے خمینی کو دیکھ لیں، ایران ہی کے احمدی نژاد کو دیکھ لیں، مصر کے محمد مرسی کو دیکھ لیں، پاکستان کے ذوالفقار علی بھٹو کو دیکھ لیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے وطن کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے، جو اپنے فیصلہ خود کرناچاہتے تھے، جو امریکی ایماءپر نہیں چلنا چاہتے تھے۔ لیکن سب کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ امریکہ کی ایک عادت ہے کہ وہ صرف اپنے مفادات کو دیکھتا ہے جہاں اس کے مفادات کو ٹھیس پہنچے وہاں وہ چڑھ دوڑتا ہے عراق،شام،ایران اور افغانستان کی جنگیں اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں یہ وہ دوست ہے جس کا شکار سب سے پہلے اس کے دوست ہی بنتے ہیں بہترین مثال پاکستان اور یوکرین ہی لے لیں پاکستان نے امریکی جنگوں میں 80 ہزار سے زائد جانیں گنوائی ہیں اور اربوں ڈالرز کا نقصان کیا ہے لیکن امریکہ نے ہمیشہ ڈومور کا راگ الاپا ہے اسی طرح یوکرین جو تقریباً نیٹو رکن بن چکا تھا اور امریکہ کی شہہ پر سینہ چوڑا کرکے اپنے سے کئی گنا بڑے اور دنیا کی دوسری بڑی سپر پاور روس کو للکارنے لگا جب جنگ کا محاذ بن گیا تو آج یوکرین کی حالت ساری دنیا کے سامنے ہے۔عمران خان کے وزیراعظم بنتے ہی امریکہ نے حسب عادت حکم چلانا شروع کیا اور موجودہ قیادت کو دبانے کی کوشش کی لیکن یہ پرچی وزیراعظم نہیں تھا جو دب جائے اس نے امریکہ کو صاف بتادیا کہ ہم امن میں تو تمہارے ساتھ چل سکتے ہیں لیکن جنگ میں کسی صورت ساتھ نہیں دیں گے ڈونلڈ ٹرمپ کے بعد جوبائیڈن نے جیسے ہی حلف لیا اس نے پاکستان کیخلاف شکنجہ کسنا شروع کردیا فیٹف اور آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاسکیں لیکن عمران خان اور ان کی حکومت کی بہترین حکمت عملی کی وجہ امریکہ کو منہ کی کھانی پڑی ڈور مور کا مطالبہ کرنیوالے امریکہ کو عمران خان کھٹکنے لگا جس کی وجہ نے امریکی صدر نے عمران خان سے دوری اختیار کرلی یعنی بڑے میاں ناراض ہوگئے انہوں نے اندرونی طور پر اینٹی پاکستانی لابنگ کو ابھارنا شروع کردیا ۔ اور پھر ایک اور بات نہلے پر دہلا یہ ہوا کہ ساتھ ہی روس اور یوکرین کی جنگ شروع ہوگئی تو امریکہ اور اسکے اتحادیوں یورپی یونین اور نیٹو نے تمام ممالک کو روس کے بائیکاٹ کا حکم دیا کہ تمام ممالک مل کر روس کے یوکرین پر حملے کی مذمت کریں وزیراعظم پاکستان عمران خان کا دورہ روس شیڈول تھا اس کو رکوانے کیلئے امریکہ اور یورپی یونین نے پاکستان پر دباو¿ ڈالا کہ اسکو کینسل کردیا جائے لیکن عمران خان ڈٹ گئے اور شیڈول دورہ کینسل کرنے سے انکار کردیا۔یہ وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جب ہماری آزاد خارجہ پالیسی کا آغاز ہوا جوکام ہمیں 1950 میں کرنا چاہیے تھا وہ کام ہم نے اب شروع کیا۔عمران خان کے دورہ روس کو بھرپور کوریج ملی اور عالمی سطح پر عمران خان ایک بااثر حکمران کے طور پر ابھرے۔ عالمی میڈیا نے عمران خان کے میلسی والے خطاب کو شہ سرخیوں میں جگہ دی۔روس کا خبر رساں ادارہ sputnik سرخی لگاتا ہے کہ عمران خان نے کہا”کیا ہم تمہارے غلام ہیں“ اور عمران خان مغرب کی اس بات پہ بھڑک اٹھے کہ پاکستان روس کی یوکرین کے معاملے پر مذمت کرے۔عالمی خبر رساں ادارے The Reuters نے سرخی لگائی کہ مغربی سفارت کاروں نے روس و یوکرین کے معاملے پر جو پاکستان کو مشترکہ خط لکھا اس کا عمران خان نے بڑا سخت جواب دیا ہے۔امریکن اخبارThe Hillنے لکھا کہ روس کے معاملے پر جو دباو¿ ڈالا جا رہا تھا عمران خان نے اس کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے کہا ہے ”کیا ہم تمہارے غلام ہیں۔“خبر رساں ادارے TRT Word نے رپورٹ کرتے ہوئے لکھا کہ عمران خان نے کہا مغربی ممالک ہمیں رشیا اور یوکرین کے معاملے پر لیکچر نہیں دے سکتے اس وقت جب وہ انڈیا کے کشمیر پر ہوئے مظالم کو اگنور کررہے ہیں اور خاموش ہیں۔یہاں عمران خان کے لیے اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ بقول شاعر محبتیں جب شمار کرنا تو سازشیں بھی شمار کرنا جو میرے حصے میں آئی ہیں وہ اذیتیں بھی شمار کرنا بہرکیف باہر کا میڈیا تسلیم کررہا ہے کہ یہ شخص آزاد ہے اور اپنے ملک کی آزاد خارجہ پالیسی بنانا چاہتا ہے اور یورپی یونین نے بھی تسلیم کیا کہ ہم نے جو مراسلہ بھیجا تھا وہ عالمی و سفارتی آداب کے خلاف تھا۔جبکہ ہمارے ہاں کیا صحافی کیا دانشور کیا سیاسی کرپٹ گلدستے رو رو کے کہہ رہے ہیں ہم نے غلامی سے باہر نہیں نکلنا وہ ہمارے مائی باپ ہیں ان کے بغیر ہم بھوکے مرجائیں گے وہ یہ کردیں گے وہ کردیں گے۔اصل میں ہمارا سابقہ ٹریک غلاموں والا اور ہر بات پہ لیٹنے والا ہے اور انہیں بھی پتہ ہے کہ انہیں بیٹھنے کا کہا جائے تو یہ لیٹ جاتے ہیں۔جب غلامی مزاج میں رس بس جائے ،دولت لینے یا بچانے کا مرحلہ درپیش ہو تو ایسے ہی نعرے سننے کو ملتے ہیں۔ چلیں فرض کیا کہ میرا کہا اس حوالے سے غلط ہے تو پھر کوئی یہ بتائیے گا کہ امریکی سفیر اپوزیشن کے رہنماﺅں سے باری باری ملاقاتیں کیوں کر رہے ہیں، بادی النظر میں اس کا صرف ایک مقصد ہے ، اور وہ یہ ہے کہ اقتدار پرانے لوگوں کو منتقل ہو جائے اور عمران خان کو نیچا دکھایا جائے، حدتو یہ ہے کہ کوئی بھی یہ بتانے کو تیار نہیں ہے کہ نواز شریف اور زرداری نے ایسا کیا کیا ہے کہ اُنہیں حکومت دی جائے۔ اُن کے کریڈٹ پر کون سے کارنامے ہیں، سندھ حکومت کے کارنامے سب کے سامنے ہیں، نوازشریف کے دور کے قرضے بھی سب کے سامنے ہیں جب سب کچھ گروی رکھوا دیا گیا تھا۔ پھر مولانا فضل الرحمن کی کارکرگی بطور چیئرمین کشمیر کمیٹی اُنہوں نے دو دہائیاں گزار دیں مگر کارکردگی صفربٹا صفر۔ جبکہ دیگر قائدین کی کارکردگی بھی سب کے سامنے ہے۔ لہٰذایہ بات ہمیں ماننا پڑے گی کہ اپوزیشن کی اس حالیہ موومنٹ کے پیچھے امریکی لابی کا ہاتھ ہے، لوگ کہتے ہیں کہ اگلے چیف آف آرمی سٹاف کی تعیناتی کا مسئلہ ہے، لیکن میری نظر میں امریکن لابی زیادہ بڑا مسئلہ ہے۔ اس لیے ہمیں بیرونی سازشوں سے باخبر رہنا چاہیے اور حق سچ بات کا ساتھ دینا چاہیے ، آزاد خارجہ پالیسی کو اپنا نا چاہیے،اسی میں ہم سب کی بقاءہے!