پرویز الٰہی کو تاخیر سے میدان میں اُتارا گیا!

سینیٹ الیکشن کا میدان سجنے کوہے، کل ایوان بالا کی 48 نشستوں پر انتخابات پر انتخابی دنگل سجے گا۔ الیکشن ہونا توویسے 52نشستوں پر تھا لیکن فاٹا کی چار نشستوں پر انتخابات نہیں ہوں گے جس کے باعث اس بار سینیٹ کی نشستیں 104 سے کم ہو کر 100 رہ جائیں گی۔ممکنہ طور پر فاٹا کی باقی چار نشستوں پر سینیٹرز 2024ءمیں ریٹائر ہوجائیں گے جس کے بعد فاٹا کی آٹھ نشستوں کافیصلہ ہوگا کہ آیا یہ سیٹیں خیبرپختونخوا کو دی جائیں گی یا صوبوں میں برابر تقسیم ہوں گی۔ لیکن یہ بات تو طے ہے کہ اس سال سینیٹ سے 52سینیٹرز ریٹائر ہوجائیں گے جن میں مسلم لیگ ن کے 15، پیپلزپارٹی کے 7، تحریک انصاف7 اور 5 آزاد سینیٹرز شامل ہیں۔جنرل نشستوں پر 33، ٹیکنو کریٹ کی نشست پر 8،خواتین کی 9 اورغیر مسلم کی دو نشستیں خالی ہو رہی ہیں۔اگر ہم پیشگی اندازہ لگانے کی کوشش کریں کہ اس دفعہ کون سینٹ میں کتنی سیٹیں لے گا تو ممکنہ نتائج کے مطابق تحریک انصاف 28سے 30 نشستوں کے ساتھ سینیٹ کی اکثریتی جماعت بن جائے گی۔پیپلز پارٹی 19سے20 سینیٹرز کے ساتھ دوسری، مسلم لیگ ن 18سے20 نشستوں کے ساتھ تیسری اور بلوچستان عوامی پارٹی 12 نشستوں کے ساتھ چوتھی بڑی جماعت بن کر سامنے آئے گی۔ اب جب کل تین صوبوں میں سینیٹ الیکشن ہوگا توپنجاب ”خاموشی“ سے یہ سب کچھ دیکھ رہا ہوگا کیوںکہ پنجاب میں کامیاب حکمت عملی اور نہایت ”رازدارانہ“ طور پر 11اُمیدوار بلامقابلہ منتخب کروا لیے گئے ہیں، حالانکہ یہ وہی الیکشن ہے جس کے لیے ہفتوں سے چیخ و پکار ہورہی ہے، ووٹوں کی منڈی لگنے کے خدشات پر ایک صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ بھجوایا گیا جہاں اوپن بیلٹ پر بحث ہو رہی ہے۔ ایسے میں ایک دم سے یہ کیا ہو گیا کہ ملک عزیز کے سب سے بڑے صوبے میں بیلٹ کی ضرورت ہی نہ پڑی۔ ایک دوسرے کے جانی دشمن ہونے کا تاثر دینے والے تمام فریقوں نے سب کچھ طے کر لیا اور ایک دوسرے سے مقابلے کے بغیر حصے بانٹ لیے۔ یہی وہ صورت حال ہے جس کے لیے کہا جاتا ہے کہ سیاست امکانات کا کھیل ہے؛ چنانچہ سیاسی معاملات کو عدالتوں میں لے جانے والوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ سیاست کے میدان میں چلی جانے والی چالیں، نظامِ عدل کی ساکھ پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔ ایسا ہی ایک معاملہ جسٹس منیر کا نظریہ ضرورت ہے، ایک ایشو بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ ہے، اور ایک ایسا ہی واقعہ مشرف کے ایل ایف او کا ہے، ایسے ہی کئی اور ایشوز ہیں جنہیں دھونے کے لیے بعد میں آنے والے ججوں کو سخت محنت کرنا پڑتی ہے لیکن داغ پھیکا ضرور پڑتا ہے لیکن جاتا نہیں!اس لیے میرے خیال میں سیاسی ایشوز اگر سیاسی فورم پر حل کرلیے جائیں تو ہم ناصرف بہت سی قباحتوں سے بچ سکتے ہیں بلکہ تیسری قوت کو بھی ”شکایات“ کے کم سے کم مواقعے فراہم کر سکتے ہیں! خیر بات ہو رہی تھی پنجاب کے سینیٹ انتخاب کی جہاں تمام اُمیدواران جن میں تحریک انصاف کے بیرسٹر علی ظفر، اعجاز چوہدری، عون عباس بپی، سیف اللہ نیازی اور زرقا تیمور شامل ہیں، جبکہ ن لیگ کے وکلا ءرہنمااعظم نذیر تارڑ ، افنان اللہ خان، ساجد میر، عرفان صدیقی اور سعدیہ عباسی ہیں اور ق لیگ کے کامل علی آغا بلامقابلہ منتخب ہو گئے ہیں۔ ایک عام رائے میں اگر یہ بلامقابلہ منتخب نہ ہوتے تو سینیٹ الیکشن 2021 میں ہونے والی ممکنہ سیاسی اعدادوشمار کے مطابق پنجاب اسمبلی کی کل 371 سیٹوں میں ہر ایم پی اے نے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنا تھا۔ جبکہ پارٹی پوزیشن کے مطابق پنجاب میں تحریک انصاف 181،مسلم لیگ نواز 164،مسلم لیگ ق 10،پیپلزپارٹی 7 نشستیں جبکہ 4آزاد ایم پی ایزاور ایک نشست پر راہ حق پارٹی کے رکن اسمبلی موجود ہیں۔سینیٹ میں پنجاب کی سات جنرل نشستوں کی بات کی جائے تو ایک سینیٹر منتخب کرنے کیلئے کم از کم 52 ایم پی اے کے ووٹر درکارتھے۔ اس تناسب سے اگر تحریک انصاف کی کنفرم سیٹوں کی بات کی جائے تو اسے تین سینیٹ کی نشستیںملنا تھیںیا اگر اتحادی ساتھ مل جاتے تو زیادہ سے زیادہ 4نشستیں مل جانی تھیں۔اسی طرح اسمبلی میں دو سری اکثریتی جماعت مسلم لیگ ن کی بات کی جائے توتعداد کے حساب سے اسے بھی تین مکمل نشستیں مل سکتی تھیں۔لیکن پرویز الٰہی کی کامیاب حکمت عملی نے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو پانچ پانچ سیٹیں دلوا کر خود بھی ایک سیٹ حاصل کرلی۔ چوہدری صاحب نے ویسے اس قسم کی سیاست کی ایک نئی قسم متعارف کروا کر کئی ایسے ممبران پنجاب اسمبلی کو ششدر کر دیا ہے جو”منڈی کی سیاست“ میں ہاتھ دھونے بلکہ اشنان کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے ان کے سارے خواب چکنا چور ہو چکے ہیں اور ان کی کیفیت فراز کے اس شعر کی مانند ہے کہ منتظر کب سے تحیر ہے تری تقریر کا بات کر تجھ پر گماں ہونے لگا تصویر کا جبکہ دوسری جانب وزیر اعلیٰ عثمان بزدار بھی اس کارخیر میں پیش پیش رہے، اس سلسلے میں کئی روز سے وزیر اعلیٰ پنجاب نے اپنی سیاسی سرگرمیاں مزید تیز کردی تھیں۔ انہوں نے تحریک انصاف اور اتحادی جماعت ق لیگ کے سینیٹ کے امیدواروں کا اجلاس بھی طلب کیا اور وزراءاور اراکین اسمبلی کے گروپس تشکیل دیئے۔ ان گروپس کی ذمہ داری لگائی کہ وہ اپنے متعلقہ امیدوار سے رابطے میں رہیں، خود بھی وہ تمام گروپس سے کوآرڈنیشن کرتے رہے۔ اس ذاتی دلچسپی کی وجہ سے پنجاب میں اصولی سیاست کی جیت ہوئی ہے۔ یہ جیت آئندہ آنے والے سیاسی موسم کیلئے ایک رول ماڈل بھی ہے اور اس رول ماڈل نے پنجاب میں سیاست کا معیار بھی بلند کردیا ہے۔ وگرنہ پچھلے الیکشنز میں جس طرح سینٹ کا تقدس پامال کیا گیا، جس طرح ہارس ٹریڈنگ کی وڈیوز سامنے آئیں، جس طرح ووٹ خریدنے کے لئے کنسورشیم بنائے گئے اور جس طرح اوپن ووٹ کی مخالفت کی گئی، اسے دیکھتے ہوئے صاف شفاف انتخابات کی توقع نہیں کی جا رہی تھی۔ وزیرا علیٰ عثمان بزدار جو خود کو حکمرانی کے پہلے سال ”انڈر ٹریننگ“ کہا کرتے تھے، انہوں نے اپنے دفتر کا دروازہ صرف اپنے اور اتحادی ایم پی ایز پر ہی نہیں، اپوزیشن کے ارکان اسمبلی کے لئے بھی کھلا رکھا۔ان کے مسائل سنے اور انہیں حل کیا لیکن سیاسی خرید و فروخت کا حصہ نہیں بنے۔ وہ چاہتے تو اپوزیشن سے ایک آدھ سینٹ کی ان کی نشست چھین بھی سکتے تھے مگر ان کی میٹھی اور صاف ستھری زبان کی طرح ان کی نیت بھی صاف ہے۔ بہرکیف پنجاب میں شفافیت کی جیت ہوئی اور بولیاں لگانے والوں کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر پاکستانی سیاست کے مشکل ترین صوبے میں معاملات اتنے اچھے چل سکتے ہیں تو دوسرے صوبوں میں کیوں نہیں چل سکتے۔ پنجاب کی اس مثال نے دیگر صوبوں کے متحرک ”بریف کیس مافیا“ کو پریشان کردیاہے کہ اس طرح بھی سینٹ کا الیکشن جیتا جا سکتا ہے۔نہ کوئی گالم گلوچ نہ الزام تراشی، نہ کروڑوں کا لین دین۔ کہاں گئے اپوزیشن کے دھرنے، ارکانِ اسمبلی کے استعفے، لانگ مارچ، کیسی عجیب بات ہے کہ ڈسکہ کے محاذ پر جنگ و جدل جاری رکھنے والی نون لیگ پنجاب کے سینٹ انتخابات میں پی ٹی آئی کے ساتھ مل جانے پر مجبور ہو گئی۔الغرض اب پنجاب میں”تبدیلی“کا موسم آگیا ہے۔ اور یہ تبدیلی لگتا ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی اور وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کے ”گٹھ جوڑ“ سے ممکن ہوئی ہے، اور راقم نے اس حوالے سے کئی ایک مرتبہ کہا بھی ہے کہ جب عمران خان کے پاس چوہدری برادران کی صورت میں پنجاب میں تجربہ کار سیاستدان موجود ہیں تو انہیں کسی اور کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے، اور ویسے بھی تاریخ گواہ ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی 2002ءسے 2007ءتک جب پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے تو ان کے دور حکومت میں بہت سے اچھے اقدام ہوئے،یہ الگ بات ہے کہ جنہیں ہماری آنے والی حکومتوں خاص طور پر مسلم لیگ ن کے اگلے 10سالوں میں اُن منصوبوں کو جاری نہیں رکھا گیا۔ پرویزا لٰہی نے جن شعبوں میں کارکردگی دکھائی وہ خالصتاً غریب پرور اور عام لوگوں کی بھلائی کے کام تھے۔ یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ 2007ءمیں پرویز الٰہی دورکے آخری سال میں پنجاب کے ہر شہری کی زبان پر ”پرویز الٰہی کا پنجاب“ جیسے الفاظ ہوا کرتے تھے۔ کیوں کہ انھوں نے صحت اور تعلیم کے شعبوں پر خاطر خواہ کام کیا۔صرف لاہور شہر کے گنگا رام اسپتال، سروسز اسپتال، جنرل اسپتال، میو اسپتال اور جناح اسپتال میں ایمرجنسی کے شعبے جدید خطوط پر تعمیر کروائے گئے ا ور میو اسپتال میںتو ایم ایس لاو¿ڈ اسپیکرپر اعلان کیا کرتا تھا کہ کوئی شخص ایمرجنسی میں آئے تو دوائی باہر سے نہ لائے ، اسے ہر دوائی اسپتال انتظامیہ کی طرف سے فراہم کی جائے گی۔ سروسز اسپتال میں تو ایک نیا بلاک بھی کھڑا کیا، اور وزیرآباد جیسے دور دراز کے قصبے میں دل کا اسپتال شروع کیا جسے دوسروں نے روک دیا۔ اس کے علاوہ لاہور کو ٹریفک وارڈن دیے اور حادثات میں زخمیوں کو بچانے کے لیے 1122مہیا کی، اس کے علاوہ بھی سینکڑوں منصوبے بنائے جن پر کم مدت میں عمل درآمد بھی کروایا ۔ پھر یہ جو آجکل لاہور میں اورنج ٹرین جو اس وقت پنجاب حکومت کے گلے پڑی ہوئی ہے، اس کے برعکس اگر پرویز الٰہی کی ماس ٹرانزٹ منصوبے پر عمل کیا جاتا تو ہم اس مستقل نقصان اور یکمشت اربوں روپے کے نقصان سے بچ سکتے تھے۔ لہٰذااگر عمران خان چوہدری پرویز الہٰی کے سیاسی و انتظامی تجربات سے فائدہ اُٹھا لیں گے تو یقینا وہ اگلے ڈھائی سال کامیاب حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھیں گے اور ویسے بھی عثمان بزدار تو بڑی دیر سے یہ چاہتے تھے کہ پرویز الٰہی کو میدان میں اُن کے ساتھ اُتارا جائے مگر وفاق کو بڑی دیر بعد اُن کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔ اس کے علاوہ عمران خان صاحب کو میرے خیال میں مخالفین میں اضافہ کرنا ہی آتا ہے، کیوں کہ وہ ٹھوک کر بات کرتے ہیں اور اس بات کی پرواہ بھی نہیں کرتے کہ یہ بات اگلے بندے پر کیسے گزرے گی جبکہ چوہدری صاحب خالص سیاسی شخصیت ہیں، جن کی بات میں لچک اور وزن ساتھ ساتھ ہوتے ہیں تبھی تو پنجاب میں انہوں نے ”بریف کیس“ استعمال ہونے سے بچا لیا ورنہ ہم آج پنجاب کے ایم پی ایز کو بھی برا بھلا کہہ رہے ہوتے کہ فلاں نے اپنا ضمیر اتنے میں فروخت کیا اور فلاں نے اتنے میں!