بجٹ : ”دفاع“ کے ساتھ تعلیم بھی ضروری!

وفاقی و اتحادی و ”مثالی“ حکومت نے بالآخر اپنا آخری بجٹ پیش کر دیا ہے، اس کے بعد اب نئی حکومت ہی اپنا اگلے سال کا بجٹ پیش کرے گی۔ اب اسے کوئی دیوانے کا خواب سمجھے یا کچھ اور ۔ لیکن میں یہ بات دعوے سے کہتا ہوں کہ آئندہ چند ماہ میں الیکشن بھی اناﺅنس ہوگا، پھر الیکشن ہوگا اور اُس کا ”نتیجہ“ بھی آئے گا۔شاید یہ اس لیے ہے کہ یہاں کئی لوگوں کو ڈر ہے کہ تحریک انصاف کہیں دوبارہ سر اُٹھانا نہ شروع کر دے۔ اور پھر یہ بات بھی ثبوت کے طور پر لیں کہ اگر الیکشن نہ کروانے ہوتے تو استحکام پاکستان پارٹی کیوں وجود میں آتی ؟یا 45ارب روپے بجٹ میں کیوں رکھے جاتے۔ خیر یہ تو الگ بحث ہے مگر اس وقت جو خسارے والا بجٹ پیش کیا گیا ہے، اُس کے مطابق 14460 ارب روپے کا بجٹ 6924 ارب روپے خسارے کے ساتھ پیش کیا جس میں 7303ارب روپے صرف قرضوں اور سود کی مد میں ادا کئے جائیں گے جبکہ دفاع کیلئے 1804ارب روپے اور PSDP کیلئے 950ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔جبکہ پچھلے سال کی ترقی کے حوالے سے بات کریں تو حکومت کے اپنے اعدادو شمار کے مطابق جی ڈی پی گروتھ ریٹ 0.29 فیصد رہی۔ ملک کے سب سے اہم سیکٹر یعنی زراعت میں گروتھ ریٹ 1.55اور اس کے بعد سب سے زیادہ آمدنی دینے والے سیکٹرز یعنی انڈسٹری 2.94اور سروسز میں 0.85فیصد تھی۔ یقین مانیں یہ اعداد و شمار حکومت کی اپنی سرکاری دستاویز یعنی اقتصادی سروے برائے مالی سال 2022-23 سے لیے گئے ہیں۔ اس دستاویز میں پیش کردہ دیگر شعبوں کے متعلق اعداد و شمار کے مطابق پچھلے سال کے مقابلے میں فی کس آمدنی میں 11.2 فیصد کمی ہوئی ہے‘ یعنی غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ سمندر پار کام کرنے والے پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی جانے والی ترسیلاتِ زر‘ جو ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں‘ میں بھی 13فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔خیر یہ بھی الگ بحث ہے مگر اس وقت ہمارا مدعا یہ ہے کہ جہاں دفاع کے لیے 18سو ارب روپے سے زائد کا بجٹ رکھا گیا ہے وہیںہمیں ایجوکیشن اور ہیلتھ کے لیے بجٹ بڑھانا چاہیے تھا۔ خاص طور پر تعلیم کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو یہ شعبہ پہلے کی نسبت مزید بگڑ چکا ہے۔ دنیا بھر کے تعلیمی معیار کے مطابق پاکستان کا تعلیمی بجٹ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔آگے چلنے سے پہلے ایجوکیشن بجٹ کی اہمیت بتاتا چلوں کہ اس وقت دنیا بھر میں جو بلاکس بن رہے ہیں آپ لاکھ کوشش کر لیں مگر امریکا کو ٹیکنالوجی یا جنگی ساز و سامان کے حوالے سے اس لیے بھی پیچھے نہیں چھوڑ سکتے، کیوں کہ وہاں کا تعلیمی بجٹ 20فیصد کے قریب ہے، جبکہ دیگر ممالک اس سے ابھی بہت پیچھے ہیں۔ وہ ریسرچ پر ہی سالانہ اربوں ڈالر استعمال کرتا ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں ہمارا تعلیمی بجٹ 2فیصد سے بھی کم ہے۔ ویسے تو تعلیم کا بجٹ 21ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو ٹرانسفر ہو چکا ہے لیکن اعلیٰ تعلیم ابھی بھی وفاق کے سپرد ہی ہے، اسی بابت آج سوشل میڈیا پر یہ بحث پورے زور شور کے ساتھ جاری ہے کہ دفاع اور تعلیم کے بجٹ میں زمین آسمان کا فرق ہے، یعنی کہا جا رہا ہے کہ دفاع کے لیے 18سو ارب روپے سے زائد کابجٹ رکھا گیا ہے جبکہ تعلیم کے لیے محض 82ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ (اس میں سے بھی آدھے سے زائد تنخواہوں کی مد میں چلا جاتا ہے) تبھی جامعات کی نئی عالمی درجہ بندی میںدنیا کی بہترین 374یونیور سٹیز میں ایک بھی پاکستانی یونیو رسٹی شامل نہیں۔ اور ریسرچ کے حوالے سے پاکستان دنیا کی پہلی 3700یونیورسٹیوں میں بھی نہیں ہے۔ اسلام آباد کی پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ اپلائیڈ سائنسز، اسلام آباد(پی آئی ای اے ایس)کا 375واں اور نسٹ کا 400واں نمبر ضرورہے۔جبکہ شرم کی بات یہ ہے کہ ہمارے اقتدار کی ہوس کے پجاری حکمران اس بابت بات کرنے سے بھی گریزاں نظر آتے ہیں۔ حالانکہ اگر سوچا جائے تو آج کے اس عملی ، تحقیقی تعلیم کے دَور میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں سر مایہ کاری نہ کرنے کے خطرناک حد تک منفی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔جبکہ یہاں اعلیٰ تعلیم تو دور کی بات سکولنگ ایجوکیشن کا بھی برا حال ہے۔یعنی اب تک کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں شرحِ خواندگی 62.3فی صد ہے(یاد رہے کہ خواندگی کے لیے صرف پڑھنا لکھنا ضروری ہے)۔ صوبوں کی بات کی جائے، تو پنجاب میں یہ شرح 64.7فی صد،سندھ میں 62.2فی صد،خیبر پختون خوا میں 55.3فی صد اور بلوچستان میں 55.5 فی صد ہے۔اس تناسب کا اگر اقوامِ عالم یا پڑوسی ممالک سے مقابلہ کیا جائے ، تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں نظامِ تعلیم سخت ابتری کا شکار ہے۔پاکستان تعلیم پر جی ڈی پی کا محض 2.14فی صد خرچ کرتا ہے۔چند ماہ قبل شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان جنوبی ایشیا میں تعلیم پر سب سے کم سرمایہ خرچ کرنے والا ملک ہے۔پاکستان تعلیم پرجی ڈی پی کا 2.14 فیصد خرچ کرتا ہے، جو جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہے۔ مسئلہ صرف بجٹ کا ہی نہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ جو پیسہ مختص کیا جاتا ہے، اس کا ایک بڑا حصہ تنخواہوں اور کرپشن میں چلا جاتا رہا ۔ حالانکہ امریکا میں تعلیمی بجٹ 20فیصد ، برطانیہ میں 14.5فیصد، جاپان میں 13فیصد اور بھارت جیسے غریب ملک میں 3.7فیصد رکھا جاتا ہے اور حیرت کی بات ہے کہ امریکا کی ایک یونیورسٹی کا تعلیمی بجٹ پاکستان کے کل تعلیمی بجٹ کے برابر ہے، الغرض آج ہم تعلیمی میدان میں135ویں نمبر پر آگئے ہیں۔ بہرکیف مشہور ولائتی مثل ہے کہ گھر کو غربت سے نکالنا ہو تو بچے ہنر مند بنا دو۔ اس فارمولے پر مغرب پوری طرح عمل پیرا ہے، تبھی وہ ہم سے آگے نکل چکے ہیں۔ اگر ہم یہودیوں کی بات کریں تواس وقت یہودی بزنس، انجینئرنگ سائنس اور دیگر شعبوں میں باقی قوموں سے بہت آگے ہیں، آپ یہودی قوم کو دیکھ لیں وہ تعلیم میں سب سے آگے ہیں۔ انہیں صرف آج تک ملنے والے نوبل پرائز پر ہی نظر ڈالیں تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ انعامات حاصل کرنے میں یہودی سب سے آگے ہیں۔ اب تک مختلف شعبوں میں جو نوبل انعام یہودیوں کے حصے میں آئے وہ یہ ہیں :کیمسٹری 32، اکنامکس 25، لٹریچر 13، امن 9، فزکس 47، بیالوجی/مڈیسن 54 جبکہ آج تک صرف 2 مسلمانوں کو نوبل انعام حاصل ہو سکا ہے۔حالانکہ اسرائیل کی آبادی 60 لاکھ سے بھی کم ہے اور اسرائیل کا رقبہ تقریباً پاکستان کے جڑواں شہروں راولپنڈی اور اسلام آباد کے برابر ہے۔ مگر انہوں نے اپنی کم آبادی اور کم رقبے کو اپنی ترقی اور کامیابی کے آڑے نہیں آنے دیا۔میں پھر امریکا ہی کی مثال دوں گا کہ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس وقت دنیا کی ٹاپ ٹین یونیورسٹیوں میں سے 8یونیورسٹیاں امریکا کی ہےں۔ امریکا ہی کی ”اسٹینفورڈ یونیورسٹی“ سب سے زیادہ نوبل فاتحین کے ساتھ تعلیمی اداروں کی فہرست میں سب سے اوپر ہے، جبکہ نوبل انعام جیتنے والے ماہرین کی قومیت کی بنیاد پر بھی امریکی فاتحین ٹاپ 10 پوزیشن پر غالب ہیں۔امریکی سائنس دانوں نے 71 نوبل انعامات جیتے ہیں، جبکہ مشترکہ طور پر نوبل انعام جیتنے والے کل فاتحین کی تعداد 146 ہے۔ جبکہ اس کے برعکس یہاں جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں، مہنگائی نے ہر طبقے کو متاثر کر رکھا ہے،فیصلہ کرنے والی قوتوں اور صاحب اقتدار لوگوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ایک سال میں فی من گندم کی قیمتوں میں 2570روپے کا تاریخی ہوشربا اضافہ ہوچکاہے۔باقی چیزوں کا اندازہ آپ خود لگا لیں، مہنگائی کے اس تناسب سے عوام پر 100فیصد اضافی بوجھ پڑاہے۔تو ایسے میں تعلیم کہاں رہ جاتی ہے؟ خیر آپ مانیں یا نہ مانیں یہ پاکستان کے خلاف سب سے بڑی سازش ہو رہی کہ یہاں کہ عوام کو ایجوکیٹ ہونے سے روکا جائے اور یہ سازش کون کر رہا ہے؟ اس حوالے سے مقتدرہ قوتوں کو پتہ لگانا ہوگاکہ کیا بیرونی قوتیں اس کار خیر میں حصہ دار ہیں؟ یا یہ سازشیں پاکستان کے اندر سے ہو رہی ہیں،کیا اس کام میں ہمارے اپنے لوگ ملوث ہیں؟ جو ہر گز یہ نہیں چاہتے کہ اس ملک کے عوام پڑھ لکھ جائیں،خوشحال ہو جائیں، عقل مند کہتے آئے ہیں کہ چادر دیکھ کر پاﺅں پھیلانے چاہئیں‘ مگر ہمارے حکمرانوں کے کانوں تک یہ نصیحت ابھی تک نہیں پہنچی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے ملک میں بڑھتے ہوئے مسائل سے منہ پھیر کر کچھ اور معاملات کو اپنی ترجیحات بنا لیا۔ اس سے ہمارا ملک سیاسی ‘ معاشی اور سماجی عدم تحفظ کا شکار ہوا اور یہی ہمارے تمام مسائل کی اصل وجہ ہے۔ میرے خیال میں لگژری آئیٹمز پر پیسے بڑھا کر تعلیم کے بجٹ میں اضافہ کیا جائے ، اسی طرح ملک میں کم سے کم تیس لاکھ ایسے صاحب ِحیثیت لوگ ہیں جنہیں انکم ٹیکس دینا چاہیے لیکن وہ ادا نہیں کرتے۔ اتنے ہی لوگ ہیں جو اصل کا نصف یا اس سے بھی کم انکم اور سیلزٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ایف بی آر کی تنظیم نو کریں ، کرپشن کا خاتمہ کریں اور تعلیم و صحت پر خاص توجہ دیں ۔ لیکن یہ ساری باتیں آپ لاکھ مرتبہ لکھ لیں، یا یاد کر لیں مگر کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ماسوائے اس کے کہ جھوٹے وعدے و تسلیاں ہمارا مقدر بنیں گی۔ بقول شاعر جب کہتے ہیں ہم کرتے ہو کیوں وعدہ خلافی فرماتے ہیں ہنس کر یہ نئی بات نہیں ہے