میئرصادق خان : ویلڈن لندن!

ویسے مغرب کے ترقی یافتہ ممالک خاص طور پر لندن بھی عجیب ملک ہے، جن گوروںکو ہم برا بھلا کہتے نہیں تھکتے، وہی ٹیلنٹ اور لیڈر شپ کی قدر کرتے ہوئے ہمیں میئر بھی منتخب کرتے ہیں اور ہاﺅس آف لارڈ کا رکن بھی۔ جیسے حال ہی میں پاکستانی نژاد صادق خان دوسری بار میئر لندن منتخب ہو گئے ہیں،اور ہر کوئی ویلڈن صادق خان ! کہنے پر مجبور ہوگیا ہے۔ صادق خان نے حکومتی جماعت کے شان بیلی کو شکست دی جنہوں نے 9لاکھ 77ہزار ووٹ حاصل کیے، جبکہ صادق خان نے 12لاکھ 6ہزار ووٹ لیے۔ پھر آپ کو یاد ہوگا کہ اسی ملک میں پچھلے الیکشن میں 10پاکستانی ،10 بھارتی اور ایک چینی نژاد اُمیدوار بھی کامیاب ہوئے تھے۔میں اس بات پر حیران ہوں کہ یہ کیسا ملک ہے جہاں کئی نسلوں سے آباد گورے امیدوار ہار جاتے ہیں اور ان کے مقابلے میں ایسے ایشیائی امیدوار جیت جاتے ہیں جنہیں برطانوی شہری بنے محض چند برس ہی ہوئے ہیں۔ یہ کیسا ملک ہے جہاں لوگ محض روزی روٹی کا بندوبست کرنے جاتے ہیں اور نہ صرف انہیں اپنی محنت کا صلہ ملتا ہے اور معاشرے میں باعزت مقام حاصل ہوتا ہے بلکہ چند برس کی سکونت کے بعد انہیں برطانوی پاسپورٹ بھی مل جاتا ہے۔ کیا ہمارے ملک میں ایسا ممکن ہے کہ کسی اور ملک کے شہری کو یہ مقام و مرتبہ حاصل ہو جائے یا کوئی غریب کا بچہ محض اپنی محنت و صلاحیت کے بل بوتے پر کامیابی حاصل کر لے؟ وہ کافر تو غیروں کو وسعت قلبی کے ساتھ اپنے اندر ضم کرلیتے ہیں اور ہم ہیں کہ اپنے ہم مذہب شہریوں میں غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹتے پھرتے ہیں۔ یہ کیسا ملک ہے جہاں محض پانچ یا دس سال گزارنے والے برطانوی شہری ہو جاتے ہیں اور ہمارے ہاں یہ عالم ہے کہ تین نسلیں رچ بس جانے کے باوجود بھی ہجرت کرکے پاکستان آنے والے بھی خود کو مہاجر کہتے ہیں اور معاشرہ بھی ان سے مہاجروں جیسا ہی سلوک کرتا ہے۔ یہ کافر کیسے احمق ہیں کہ ہمارے ملک کے شہریوں کو شہریت دیتے ہیں ،مقام و مرتبہ دیتے ہیں، انہیں اپنی نمائندگی کا حق دیتے ہیں اور کچھ بعید نہیں کہ چند برس بعد کوئی ایشیائی برطانیہ کا وزیر اعظم بن جائے مگر ان کے مقابلے میں ہم دنیا کی وہ قوم ہیں جو اپنے ہیرو ز کو نہ صرف بھلا دیتے ہیں بلکہ مذہب اور فرقوں کی بنیاد پر انہیں تسلیم کرنے سے بھی انکار کردیتے ہیں۔ علم نہیں کہ ترقی یافتہ ممالک نے انسانیت کا احترام کرنے اور انسان کو عزت و شرف بخشنے کا کٹھن سفر کتنے سالوں میں طے کیا، مگر یہ بات ضرور ہے کہ ہم اگر آج اس سفر پر نکلنے کا ارادہ کرلیں تو ہمیں منزل پر پہنچنے کے لیے کئی صدیاں درکار ہوں گی۔ اس لیے سب سے پہلے یہ بات سوچنے کی ضرورت ہے کہ صادق خان لندن کے دوسری بار میئر بن گئے، لندن والوں کو وہ کیوں بھلے لگے؟ حالانکہ انہیں چاہیے تھا کہ وہ رنگ و نسل اور مذہب کی بنیاد پر انہیں ٹھکرا سکتے تھے، وہ یہ کہہ سکتے تھے کہ صادق خان ”گورے انگریز“ نہیں ہیں اس لیے انہیں منتخب کرنا لندن کے لیے سیکیورٹی رسک ہوسکتاہے ۔ لیکن وہاں ایسا ہر گزنہیں ہوتا!وہاں اگر آپ نے ”شہریت“ حاصل کر لی، اور آپ وہاں کے شہری بن گئے تو پھر آپ سکھ ہےں، عیسائی ہےں، مسلمان ہےں یا ہندو ہےں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ پھر سب سے پہلے آپ وہاں کے شہری ہیں۔ کیا یہ کمال بات نہیں؟ اور جب وہ لوگ اپنے شہریوں سے کمال سلوک برتتے ہیں اور انہیں عام آدمی سے اقتدار کی کرسی تک پہنچاتے ہیں تو ایمانداری سے بتائیے کہ پھر انہیں کون ترقی سے روک سکتا ہے؟ جبکہ اس کے برعکس ہم ہیں ہم سب سے پہلے اُس کے رنگ و نسل کو دیکھتے ہیں، اور اگر کہیں ”خدمات“ سر انجام دینے والے کا رنگ و نسل میل نہ کھاتا ہو تو ہم اُسے سراہنا تو دور کی بات ، ہم پراسرار خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ جیسے ہمارے ہاں کوئی کوڑھ کے مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے آتا ہے اور یہیں کا ہو کر رہ جاتا ہے۔ یعنی 8 مارچ 1960 کو ڈاکٹر رتھ کیتھرینا مارتھا فاو¿ جرمنی سے پاکستان آتی ہیں تو جذام (کوڑھ)کے خاتمے کےلیے اپنی زندگی وقف کردیتی ہیں۔ آپ 57 سال تک پاکستان میں انسانیت کی خدمت کرتی ہیںاور اگست 2017 میں کراچی میں 87 سال کی عمر میں انتقال کر جاتی ہیں، مگر آپ کو ڈھکے چھپے الفاظ میں خراج تحسین پیش کرنے کے علاوہ کہیں آپ کا مجسمہ بنا کر آنے والی نسلوں کو یہ بتانے کی کوشش نہیں کی جاتی کہ آپ نے اس خطے کے عوام کے لیے اپنی زندگی کیوں وقف کردی۔ پھر ہم پاکستان کے پہلے وزیر قانون جوگندر ناتھ منڈل جو ہندو تھے، جنہیں اکتوبر 1946 کو مسلم لیگ نے جب عبوری حکومت میں شمولیت اختیار کی تو قائد اعظم محمد علی جناح نے نامزد کیے گئے پانچ نمائندگان میں جوگندر ناتھ منڈل میں انہیں سر فہرست رکھا اورقیام پاکستان کے بعد انہیں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کا رکن بنایا اور نئے وطن میں انہیں پہلے وزیرقانون و محنت کا قلمدان سونپا گیا ، لیکن ہم نے اُن کے ساتھ ایسا سلوک کیا کہ اُن کی اگلی سات نسلوں نے یاد رکھا، ہم نے اُن کے ساتھ ہندو ہونے کی وجہ سے قائداعظم کی وفات کے بعد مجبور کر دیا کہ وہ واپس ہندوستان چلے جائیں، کیوں کہ اس خطے میں اُن کی جگہ نہیں ہے۔ پھر دیوان بہادر ایس پی سنگھاکا نام تو آپ نے یقینا نہیں سنا ہو گا، کیوں کہ ہمارے نصاب میں ہی ایسی شخصیات شامل نہیں ہیں۔ انہوں نے 23 جون 1947 کو ہونے والے انتخابات میں پاکستان کے حق میں ووٹ دیا تھا، اس طرح 88 کے مقابلے میں 91 ووٹوں سے پاکستان کے حق میں فیصلہ ہوا۔تاہم قیام پاکستان کے بعد پنجاب اسمبلی میں مذہب کو بنیاد بنا کر ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی اور وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ ان کا انتقال 22 اکتوبر 1948 کو ہوا۔ ان کی بیوی اور بیٹی نے 1958 میں ملک چھوڑ دیا اور انڈیا منتقل ہوگئیں۔پھر ہمیں 60،65سال بعد خیال آیا کہ ہم سے غلطی ہوگئی تو ہم (حکومت پاکستان) نے مئی 2016 میں حکومت پاکستان کی جانب سے دیوان بہادر ایس پی سنگھا کی تحریک پاکستان میں خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کر کے اپنے پچھلے تمام پاپ دھوڈالے۔ اسی طرح ہماری تاریخ دیوان بہادر ستیا پرکاش سنگھا، جسٹس ایلون رابرٹ کارنیلیئس،آر اے گومسنڈ، ایف ای چوہدری، راج کماری امرت، چندو لال، سی ای گبون، الفریڈ پرشد اور ایس ایس البرٹ جیسے اہم ناموں سے بھری پڑی ہے ، جو ہمارے ہاں نفرت کی بھینٹ چڑھے۔ بلکہ حد تو یہ ہے کہ یہاں انہیں کوئی جانتا ہی نہیں، ہماری آنے والی نسلیں ان سے واقفیت ہی نہیں رکھتیں، نہ ہمارے اندر اس قدر حوصلہ ہے کہ ہم انہیں اپنے نصاب میں شامل کر سکیں۔ ہمیں تو جرا¿ت ہی نہیں ہوئی کہ ہم اُن کے نام پر کسی شہر کا نام رکھ سکیں، کسی شاہراہ کا نام رکھ سکیں یا کسی چوک کا نام رکھ سکیں۔ ہمارا تو ظرف ہی نہیں ہے کہ ”بھگت سنگھ چوک“ کے نام کا ہی مان نہیں رکھ لیتے۔ ہم نے اُس آزادی پسند نوجوان کو بھی مذہبی انتشار کی بھینٹ چڑھا دیا۔ بقول امیر مینائی ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے الغرض ہم کسی کی خدمات کو سراہنے کی بجائے، ہم اپنا قومی مفاد دیکھنے کی بجائے یا اپنا قومی فائدہ دیکھنے کے بجائے ، صرف خدمات سرانجام دینے والے کا ”مذہب“ چیک کرتے ہیں۔ ہم تو کسی غیر مسلم کو پولیس کا سربراہ نہیں بنا سکتے۔ حیرانگی تو اس بات پر ہے کہ ہم آگے جانے کے بجائے پیچھے کی جانب سفر کر رہے ہیں، پہلے پہل تو جسٹس کارلینئس یا جسٹس رانا بگوان داس جیسے لوگ چیف جسٹس کی سیٹ تک پہنچ جاتے تھے ، لیکن اب تو شاید ایسا بھی ممکن نہیں لگ رہا۔ ہمارے ہاں تو قانون میں درج ہے کہ پاکستان کا صدر اور وزیر اعظم کوئی غیر مسلم اس عہدے پر فائز نہیں ہو سکتا۔ خیر یہ بات بھی چھوڑیں ، چونکہ یہ پیچیدہ معاملات ہیں اس لیے اس بحث میں نہیں پڑنا چاہیے لیکن ہم نے گزشتہ چند دہائیوں سے اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا ہے کیا دنیا اُسے نہیں دیکھ رہی؟ کیا ہماری انہی حرکتوں کی وجہ سے یورپ میں ہمارے خلاف قراردادیں منظور نہیں ہو رہیں؟ کیا ہم سے اسی بنیا پر ہمارا تجارتی سٹیٹس نہیں ختم کیا جا رہا؟ کیا دنیا یہ نہیں دیکھ رہی کہ جب پاکستان آزاد ہوا تھا تو یہاں 23فیصد اقلیتیں آباد تھیں جو گھٹتے گھٹتے محض ساڑھے تین فیصد رہ گئی ہیں۔ کیا ہمیں علم ہے کہ ہم اقلیتوں کے حقوق دینے کے حوالے سے دنیا کے دس بدترین ممالک میں گنے جاتے ہیں، کیا ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ پاکستان کو اقلیتوں کے حقوق فراہم کرنے کے حوالے سے صومالیہ، عراق، سوڈان، افغانستان، میانمار، کانگو، نائیجیریا، ایتھوپیا اور چاڈ کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ بہرکیف ان تمام باتوں سے ایک بات تو طے ہوگئی کہ کم ظرف قومیں جتنا مرضی زور لگا لیں کبھی ترقی نہیں کر سکتیں!معذرت کے ساتھ یہاں فضا زبانوں کے پھیلائے ہوئے زہر ہی سے مسموم نہیں، یہاں تو تلواریں بھی زہر میں بجھائی گئی ہیں۔ یہاں تو مخالفین کو راستے سے ہٹانے کے لئے بارود کے ڈھیر اکٹھے کر لئے گئے ہیں۔ یہاں تو صرف مخالف کو کافر کہا نہیں جاتا، اسے کافر نہ کہنے والے کو بھی کافر کہا جاتا ہے۔ ہمیں اس تنگ نظری سے باہر نکلنا ہوگا، دنیا رنگ و نسل اور مذہب کے لبادے سے باہر آرہی ہے جبکہ ہم اُسے آج بھی اوڑھنے کی کوششوں میں ہیں، جو باتیں آج مغرب کر رہا یا جن پر آج مغرب عمل پیرا ہے آپ نے 14سو سال قبل بتا دیا تھا کہ کسی عربی کو عجمی اور کسی عجمی کو عربی پر فوقیت نہیں ہے اس لیے ہمیں بھی دنیا کو کوئی رواداری کر کے دکھانا ہوگی کہ ہمارا مذہب یا ہماری قوم اس قدر تنگ نظر نہیں ، جس قدر دکھائی جا رہی ہے۔ بلکہ ہم بھی اپنی اقلیتوں کو نا صرف ہیرو مانتے ہیں بلکہ میئر لندن صادق خان کی طرح بغیر رنگ و نسل اور مذہب کے ، صرف اُن کی اہلیت کے بل بوتے پر آگے لاتے ہیں جس سے اسلام اور پاکستان کی اصل روح کی تعریف بھی ہوجاتی ہے اور انصاف بھی ہوجاتا ہے! میں حیران ہوں کہ لندن جہاں صرف 15فیصد مسلمان آباد ہیں اور پاکستانی بھی نہ ہونے کے برابر ہیں وہاں 65فیصد عیسائیوں، غیر مذہبی 20فیصد اور 15فیصد دیگر مذاہب کے افراد نے کیسے ایک مسلمان کو اپنا میئر منتخب کر لیا، آپ لاہور یا کسی اور شہر میں غیر مسلم شخص کو انتخابات میں کھڑا کر کے دیکھ لیں، نتائج آپ کے سامنے آئیں گے۔ لہٰذا سب سے پہلے ہمیں انسانیت کو دیکھنا چاہیے، ٹیلنٹ کو دیکھنا چاہیے اور قومی مفادات کو سامنے رکھنا چاہیے!