پٹرولیم کمیشن رپورٹ : پڑھتاجا شرماتا جا!

ہم نے بھٹو دور سے لے کر آج تک ہر دورِ حکومت کو قریب سے دیکھااور پرکھا ، ہر دور میں کوئی سکینڈل آتا تو سوچتا کہ اس سے بڑا سکینڈل یا اس سے بری خبر اس ملک میں ہمارے لیے اور کیا ہو سکتی ہے ، لیکن حیران کن طور پر اگلی بار اس سے بھی بڑی خبر سامنے آجاتی۔ جب پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے دور میں بڑے بڑے سکینڈلز سامنے آتے تو سوچتے کہ اب مزید کرپشن کیا ہوگی۔ لیکن اس دور میں جیسے ہی چینی کمیشن رپورٹ منظر عام پر آئی اور وزیر اعظم نے اسے پبلک کرنے کا بھی حکم دیا لیکن ذمہ داروں کے خلاف کیا ہوا؟ کچھ نہیں! پھر اس سے پہلے کاسکینڈل سن لیں جس کی بازگشت آجکل کافی سنائی دی جارہی ہے، 2014ءمیں اُس وقت کے وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے جو کام کیا ، یہ قوم تادیر بھگتے گی، کہ جو کام محض 5، 6ارب روپے میں ہوسکتا تھا، اس کے لیے کراچی اور لاہور کی پارٹیوں کو ایل این جی ٹرمینل کا کنٹریکٹ دیا گیا اور دونوں کو اب پندرہ برس تک ہر روز پانچ لاکھ ڈالرز دینا ہوں گے اور یہ رقم ہم2014 سے دے رہے ہیں، اور 2029ءتک دیتے رہیں گے۔مطلب ان ٹرمینلز کو استعمال کریں یا نہ کریں ہر روز آپ نے پانچ لاکھ ڈالرز انہیں دینے ہیں۔ جب یہ معاہدہ کیا گیا تھا، اس وقت ڈالر سو روپے سے بھی کم تھا۔ آج ایک سو ساٹھ کا ہے۔ اگر چھ سال پہلے ان کمپنیوں کو پانچ کروڑ روپے پاکستانی کرنسی کے مطابق مل رہا تھا تو آج انہیں آٹھ کروڑ روپے کے برابر مل رہا ہے۔ اس سکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد ابھی ہم غم سے آزاد ہی نہیں ہوئے تھے کہ موجودہ حکومت کا ایک سکینڈل منظر عام پر آگیا۔ سکینڈل کیا ہے، بس لالچ، ہوس اور دولت کمانے کا جنون ہے۔ قارئین کو یاد ہو گاکہ گزشتہ چند ماہ قبل جون میں کورونا لاک ڈاﺅن کے دوران پورے ملک میں پٹرولیم مصنوعات کا مصنوعی بحران پیدا کردیا گیا تھا، ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے بعد سے ملک بھر میں پٹرول نایاب ہو گیا تھا اور قیمتوں میں اضافے تک پٹرول پمپس پر پٹرول کی قلت رہی۔ پٹرولیم بحران کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن بنایا گیا تھا،یہ کمیشن تب چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ محمد قاسم خان نے ازخود نوٹس لے کر بنایا تھا، جج صاحب کے حکم پر ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے ابو بکر خدا بخش، ڈی جی اینٹی کرپشن پنجاب گوہر نفیس سمیت 5رکنی پٹرولیم کمیشن بنا، پٹرولیم کمیشن نے 168صفحاتی رپورٹ چیف جسٹس کو پیش کی اور چیف صاحب کے حکم پر یہ رپورٹ پبلک کر دی گئی۔ بدقسمتی سے اس رپورٹ میں بھی ذمہ دار ٹھہرائے جانے والے زیادہ تر کرداروں کا تعلق کسی نہ کسی طریقے سے اقتدار کے ایوانوں سے رہا،یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے پچھلی حکومتوں میں فرنٹ مین کا کردار کوئی اور چہرے کرتے تھے جبکہ بیک سٹیج کارروائیاں کچھ اور لوگ سر انجام دیتے تھے۔ اب آجائیں پٹرولیم کمیشن کی رپورٹ کے حقائق پر تو لیجیے جناب یہ رپورٹ 168صفحات پر مشتمل ہے، جسے لاہور ہائیکورٹ نے پبلک کرنے کا حکم دیا ہے، یہ رپورٹ کیا ہے، بس سمجھ لیں کہ نوحہ پڑھا گیا ہے ہماری لوٹ مار کا، نوحہ پڑھا گیا ہے ہماری اشرافیہ کا، نوحہ پڑھا گیا ہے ہمارے سسٹم میں خرابی کا، ہماری کمزور حکومت کا،ہمارے حکام بالا اور اُن کے ذمہ داروں کے رویوں کا،ملک کوٹھیک کرنے والوں کا، نوحہ پڑھا گیا ہے ہماری نااہلیوں کا، ہماری لا پرواہی کا اور ہماری نالائقیوں کا۔ رپورٹ میں ڈوب مرنے والا مرحلہ سب سے پہلے سن لیں کہ ویٹرنری ڈاکٹریعنی ڈنگر ڈاکٹر یعنی جانوروں کے ڈاکٹر جناب شفیع آفریدی کو وزارت میں ڈی جی آئل لگا دیا گیا، جن کے پاس آئل سیکٹر میں کام کا کوئی تجربہ نہیں۔ پھر رپورٹ کے مطابق 2002ءمیں بننے والی اوگرا (آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی) 14سال تک ایڈہاک بنیادوں یعنی عارضی حکم ناموں پر چلتی رہی، جسے چلانے کے 2016ءمیں قوانین نصیب ہوئے۔ اس کے بعد جب تیل کی قیمتیں نیچے آرہی تھیں تو تمام آئل کمپنیاں جن کی تعداد 66ہے، سب کمپنیاں اِسی چکر میں تھیں کہ جب قیمتیں زمین پر آگریں گی تب تیل خریدیں گے، اور ایسا نہ ہو سکا، جب تیل کی قیمتیں اوپر جانے لگیں تو پی ایس او کے علاوہ تمام کمپنیوں نے ذخیرہ اندوزی کرکے تیل بحران پیدا کر دیا، جو کچھ بھی غلط ہو رہا تھا، اُسے اوگرا نے روکنا تھا مگر وہ بے بس اور بادی النظر میں اس کار خیر میں مکمل ملوث نظر آئی اور بظاہر سب کچھ وزارتِ پٹرولیم پر ڈالتی رہی، جبکہ وزاتِ پٹرولیم سب کچھ اوگرا پر ڈالتی رہی، عوام لٹتے رہے، ملک کا نقصان ہوتا رہا اور آئل کمپنیاں دھڑا دھڑ مال بناتی رہیں۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ 2002ءمیں پاکستان میں 4آئل کمپنیاں کام کر رہی تھیں، پھر مشرف صاحب کی حکومت نے نئی ”سرمایہ کاری“ کو فروغ دیتے ہوئے چند مزید کمپنیوں کو نئے لائسنس جاری کیے، پھر جب اشرافیہ کو یہ کام سب سے زیادہ منافع بخش محسوس ہوا تو سبھی کاروباری حضرات نے اس کاروبار میں چھلانگیں لگا دیں، اور آج ان کمپنیوں کی تعداد 66ہے، پھر آگے سنیے کہ پٹرولیم کمیشن رپورٹ کے مطابق 2002میں یہاں 4آئل کمپنیاں تھیں، آج 66ہیں اور مزے کی بات کاغذوں میں سب آئل کمپنیاں خسارے میں، جی ہاں ایسا کاروبار جو 18برسوں میں 4کمپنیوں سے 66کمپنیوں تک جا پہنچا، ہے خسارے میں، اب جب 66کمپنیاں ہیں ہی خسارے میں تو بےچاری یہ کمپنیاں ٹیکس بھی نہیں دے پاتی ہوں گی، اندازہ لگائیے، ہم سے دس گنا بڑے بھارت میں صرف 7آئل کمپنیاں، سری لنکا میں 3، بنگلہ دیش میں 6جبکہ ہمارے ہاں یہ کاروبار اتنا منافع بخش کہ 66کمپنیاں مگر کاغذوں میں سب کی سب خسارے میں، یہ آئل کمپنیاں کن کی؟ بلکہ یہ کہنا درست کہ ملک کا کوئی شعبہ ایسا نہیں بچا جس کے بڑے کی آئل کمپنی نہ ہو، سب محمود و ایاز ایک صف میں کھڑے، پھر پٹرولیم کمیشن بتاتا ہے کہ یہ آئل کمپنیاں ملک و قوم کو سالانہ ڈھائی سوا ارب کا ٹیکہ لگارہی ہیں،پھر کمیشن کی رپورٹ نے ایک ایسے افسر کی نشاندہی بھی کی جس کا بس ایک ہی کام کہ آئل کمپنیوں سے رشوت کے پیسے اکٹھے کرکے افسروں میں بانٹنے، آگے سنیے، سندھ کے بادشادہ کی آئل کمپنی کی 23ارب کی ہیرا پھیری پکڑی گئی، کیس نیب کے پاس آیا۔کسی کو علم ہے کہ نیب میں یہ کمپنی کتنے میں چھوٹ گئی؟ سوا ارب یعنی 1.25ارب روپے دے کر، 23ارب کا کیس، پلی بارگین ہو گئی سوا ارب میں، اِس ملک کو کیسے چونا لگایا جاتا ہے۔ اگر اسی کے آگے چلنا ہے تو ایک چھوٹی سی مثال لے لیں، 15جون کو جہاز 60ہزار میٹرک ٹن تیل لے کر پورٹ قاسم بندرگاہ کراچی پر آیا، اِسی دوران پتا چلا کہ تیل کی قیمتیں بڑھنے والی ہیں، جہاز کوا یک سائیڈ پر کھڑا کر دیا گیا، 27جون کو جب تیل فی لیٹر 20روپے بڑھا تو اگلے دن 15دن سے سائیڈ پر کھڑا جہاز کاغذوں میں آف لوڈ ہوا اور پرانی قیمتوں پر آئے جہاز کا تیل جب نئی قیمتوں پر فروخت ہوا تو اُس ایک جہاز سے منافع کمانے والوں نے 2ارب روپے کا اضافی منافع کمایا، یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے، اس طرح کی کارروائیاں تو روزانہ کی بنیادوں پر ڈالی جاتی ہیں۔ پھر کمیشن کی رپورٹ کے مطابق گجرات میں ایک پٹرول پمپ پر 3ملین کی ڈلیوری دکھائی گئی جبکہ وہاں پٹرولیم ذخیرہ کرنے کی گنجائش صرف 31ہزار لیٹر ہے، کاغذوں میں اِس شعبدے بازی کے ذریعے کروڑوں کے فائدے ا±ٹھائے گئے، پٹرولیم کمیشن رپورٹ کے مطابق تمام بڑی آئل کمپنیاں اوگرا قوانین کے برعکس مسلسل ذخیرہ اندوزی کر رہی ہیں، اوگرا نے ا±نہیں ذخیرہ کرنے کے جتنے آوئٹ لٹس کی اجازت دی ہوئی، کئی کے آﺅٹ لٹس اِس سے کہیں زیادہ ہیں، جیسے ایک بڑی آئل کمپنی کوتیل ذخیرہ کرنے کیلئے 70آﺅٹ لٹس کی اجازت دی گئی لیکن اِس کے پاس 6سو آﺅٹ لٹس ہیں، رپورٹ کے مطابق تیل کی ترسیل کیلئے استعمال ہونے والے آئل ٹینکروں کے پاس کیوکیٹگری کا لائسنس ہونا چاہئے مگر ایک بھی آئل ٹینکر کے پاس یہ لائسنس نہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ آٹا اور چینی کی چند سو بوریاں گودام میں رکھنے والے ہول سیل ڈیلروں کے خلاف تو ذخیرہ اندوزی کی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے اور ان کی حق حلال کی کمائی ضبط کرکے میڈیا ٹرائل بھی کیا جاتا ہے لیکن پٹرول اور چینی بحران میں قصوروار ٹھہرائے گئے بڑے بڑے مگرمچھ آج بھی ایسی کارروائیوں سے محفوظ نوٹ چھاپ رہے ہیں۔ حکومت کوچاہئے کہ عام تاجروں کے خلاف کریک ڈاﺅن کے بجائے اپنی انکوائری رپورٹ کی سفارشات پر عملدآمد کروائے اور ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرے۔تیل بحران میں انکوائری کمیشن نے بعض مارکیٹنگ کمپنیوں کے لائسنس کو غیر قانونی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ کمپنیوں کے پاس آئل ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہیں ہے، 20 دن تک تیل ذخیرہ نہ کرنے کی غفلت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، کمپنیوں سے 20 دن تک تیل ذخیرہ نہ کروانا آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کی ناکامی ہے۔ اب یہ بات تو ایک عام آدمی کی سمجھ میں بھی آتی ہے کہ جس کمپنی کے پاس ایک ماہ کا تیل ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہی نہ ہو اسے ہرگز لائسنس نہیں ملناچاہئے بلکہ پہلے اس بات کا پابند بنایا جانا چاہیے کہ وہ استعدادِ ذخیرہ بڑھائے تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتِ حال میں کم ازکم ایک ماہ کا ذخیرہ تو موجود ہو۔ بہرکیف معاملات جو بھی ہیں لیکن لگتا یہی ہے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ بقول شاعر ایک حمام میں تبدیل ہوئی ہے دنیا سب ہی ننگے ہیں کسے دیکھ کے شرماو¿ں میں لگتا ہے اس ملک کا کوئی وارث نہیں رہا۔ پہلے اگر شک تھا تو پٹرولیم کمیشن کی رپورٹ کے اس ناقابل یقین حقائق کے بعد علم ہوا ہے کہ یہ ملک یتیم ہے۔ جس کا شاید ہی کوئی والی وارث ہو!!!