ملک ڈوب رہا! کیا فیصلہ کرنے والی قوتیں سو رہی ہیں ؟

اگر آپ کسی کو اقتدار میں لے کر آتے ہیں تو پورا ملک اُس کے حوالے کرنے سے پہلے اُس کی تربیت بھی کرتے ہیں، اُسے سکھاتے بھی ہیں، اُس کی کونسلنگ بھی کرتے ہیں، اور اُسے یہ بھی بتاتے ہیں کہ پروٹوکول کیا ہوتا ہے؟ اور اُس کے اختیارات کیا کیا ہوں گے۔ جی ہاں میں نگران حکومت (جسے اب ٹیکنو کریٹ حکومت بھی کہا جا رہا ہے، جو بظاہر غیر معینہ مدت کے لیے تشریف لائے ہیں)کی بات کر رہا ہوں۔ملک اس وقت ہچکولے کھا رہا ہے، پاکستانی روپیہ دنیا بھر کی کرنسی سے پٹ رہا ہے، حتیٰ کہ سری لنکا جو گزشتہ مہینوں میں زبردست ڈیفالٹ کا شکار ہوا تھا، اُس کی کرنسی بھی پاکستان سے بہتر ہوچکی ہے۔15دن میں دوسری بار پٹرول کی قیمتوں میںاضافہ ہوا ہے، سٹاک مارکیٹ نگرانوں کے آنے کے بعد 3ہزار پوائنٹس تک گر چکی ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے کا امکان ہے۔ الغرض یہاں روزانہ کی بنیاد پر معیشت کا بیڑہ غرق ہو رہا ہے،اور ملک ڈوب رہا ہے۔ آگے چلنے سے پہلے آپکو یہ بتاتا چلوں کہ دنیا میں بہت کم ملکوں میں ایسا ہوتا ہے کہ وہاں ملک نگرانوں کے حوالے کر دیا جائے۔ امریکا میں الیکشن ہر چار سال بعد نومبر کے پہلے ہفتے میں منعقد ہوتے ہیں، جس کے بعد ڈھائی ماہ کی تربیت کے بعد نومنتخب صدر امریکا کی قیادت سنبھالتا ہے۔ اس دوران اُسے سینکڑوں مراحل سے گزارا جاتا ہے، ہر کام سمجھایا جاتا ہے، پروٹوکول سمجھایا جاتا ہے۔ لیکن یہاں کیئر ٹیکرز آتے ہیں وہ کسی کو جوابدہ توہوتے نہیں! اسی لیے من مرضیاں کر تے ہیں ، جلد دباﺅ میں آجاتے ہیں اور آئی ایم ایف و دیگر اداروں کے سامنے فوراََفلیٹ ہوجاتے ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ فی الوقت جو لوگ ان کو لے کر آئے ہیں، اُن کے لیے سب سے اہم اور فکر انگیز بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین پر کن کن مقدمات میں گرفتاری ڈالنی ہے، اور کہاں کہاں انسٹرکشنز دینی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور بھی فکر کھائے جا رہی ہے کہ الیکشن کو کس طرح التوا پر ڈالا جائے۔ جبکہ اس کے برعکس عوام کی تکالیف کی کسی ہنجار و ناہنجار کو کوئی فکر نہیں! اُن کا مہنگائی نے جینا حرام کر رکھا ہے، روٹی‘ کپڑا اور مکان کا حصول ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ رہی سہی کسر بجلی کے بلوں نے پوری کر دی ہے۔ اس بار عوام کے ساتھ جو شدید ظلم ہوا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ ایک ہی جھٹکے میں بجلی اتنی مہنگی ہو گئی کہ متوسط طبقے اور مڈل کلاس کی چیخیں نکل گئیں۔ وہ آتش فشاں جو کافی عرصے سے دہک رہا تھا، اچانک پھٹ پڑا۔ اب شہر‘ شہر احتجاج ہو رہا ہے، لوگ گرڈ سٹیشنز اور بجلی کے ترسیلی محکموں کے دفاتر کا گھیراﺅ کر رہے ہیں، سٹرکیں بند کی جا رہی ہیں اور بجلی کے بل جلائے جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان حالات کا تدارک کیسے کیا جائے گا؟ کیا نگران حکومت میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ بگڑتی ہوئی صورتِ حال کا مقابلہ کر سکے؟ چھوٹے چھوٹے مظاہروں کو بڑی احتجاجی تحریک میں ڈھلنے سے روک سکے؟ اور سب سے بڑھ کر‘ کیا نگران حکومت کے پاس اتنے اختیارات ہیں کہ وہ عوام کو ریلیف دے سکے؟ رواں ہفتے جناب نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ صاحب نے بڑے بارعب انداز میں کہا تھا کہ وہ اس پر بھرپور ایکشن لیں گے، لیکن کیا ہوا؟ تمام سٹیک ہولڈرز کے ایک سے زیادہ اجلاس ہوئے، کاکڑ صاحب کو معاملات کی سمجھ نہیں آئی یا شاید یہ سمجھ آئی کہ معاملات بہت گھمبیر ہیں تو اُنہوں نے کہا آئی ایم ایف سے اس حوالے سے مشورہ کیا جائے گا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے چور بے رحم ڈاکو سے عوام کے لیے ریلیف مانگنے کی کوشش کررہا ہو۔ پھر کاکڑ صاحب نے فرمایا کہ ہم کچھ کر رہے ہیں، جلد ہی اچھی خبر آئے گی۔ حد تو یہ ہے کہ صورتحال کے ذمہ دار سابق حکومتوں کے وزرا بھی بڑھ چڑھ کر نگران حکومت کو مشورے دے رہے ہیں کہ کس طرح عوام کو ریلیف دیا جاسکتا ہے۔ یہ سب کچھ اِسی طرح چلتا رہے گا اور عوام اپنی قسمت کو روتے رہیں گے۔ ہمارا مشور ہ یہی ہے کہ اِن اجلاسوں اور اعلانات سے زیادہ اُمیدیں وابستہ کرنے کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جس ” محنت شاقہ“ سے ہمارے سابق حکمرانوں نے بجلی کے مسئلے کو اس نہج تک پہنچایا ہے‘ ابھی اِس کے اثرات کم از کم مزید چار سے پانچ سال تک بھگتنا پڑیں گے۔ 2027ءکے بعد شاید مہنگی بجلی کسی حد تک سستی ہونی شروع ہو جائے‘ سرِ دست اِس کے سستا ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ نگران حکومت کے اختیار میں صرف اتنا ہی ہے کہ وہ عوام کو دلاسے دیتی رہے کہ فکر نہ کریں اور یہ کہ حکومت عوام کی مشکلات سے بخوبی آگا ہ ہے۔کیوں کہ فی الوقت تو اچھی خبر کیا آنی تھی، اُلٹا پٹرولیم مصنوعات میں گزشتہ روز ایک بار پھر ہوشربا اضافہ ہوگیاہے ۔ جس سے عام آدمی کی روزمرہ کی زندگی کو بھی بری طرح متاثر کر دیا گیا ہے۔ لہٰذامیں پھر وہی بات کروں گا کہ جن قوتوں نے یہ تمام چیزیں کنٹرول کرنی ہیں اُن کے لیے تاریخ کا سب سے بڑا مسئلہ ”سائفر“ کی گمشدگی ہے،یا پھر توشہ خانہ کیسز ہیں !حالانکہ عوام کو ان سے کیا لگے،یہ سب کچھ عوام کے لیے گڑھے میں جا گرے، اُنہیں کیا لگے؟ اُنہیں تو اس وقت دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ اُنہیں کیا لگے کہ بجلی کون بنا رہا ہے، کون نہیں، کون مفت یونٹ استعمال کر رہا ہے کون نہیں۔ یہ کام تو حکومتوں کا ہوتا ہے۔ لیکن حکومتوں نے اپنا کمیشن بنانے کے لیے یہ کام بھی پرائیویٹ کمپنیوں کے سپرد کیا ہوا ہے۔ فیصلہ کرنے والی قوتیں کیا اپنی توانائیاں اس حوالے سے صرف نہیں کر سکتیں؟ کیا انہوں نے ان معاہدوں کی چھان بین کرنے کی کوشش کی ہے جو بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں کے ساتھ کیے گئے تھے؟ کن شرائط پر وہ معاہدے ہوئے تھے؟ بار بار خرید کرنے کے معاہدوں میں تبدیلیاں کیوں ہوئیں؟ کس کی حکومت تھی جب یہ معاہدے کیے گئے تھے؟ نہیں علم تو میں بتاتا چلوں کہ وہ لوگ اب اتنے طاقتور ہیں اور اقتدار میں اتنی باریاں لے چکے ہیں کہ سب کو اپنے ہی رنگ میں رنگ لیا ہے تو ان معاہدوں کی تحقیقات کون کرے گا۔ اور کوئی جرا¿ت کر بھی لے اور کہیں ان خفیہ دستاویزات تک رسائی ہو بھی جائے تو ان سے سوال کون کرے گا؟ سوال کرنے والا تو اس وقت اٹک جیل میں ہے۔ خیر بقول شاعر جواب آئے نہ آئے سوال اٹھا تو سہی پھر اس سوال میں پہلو نئے سوال کے رکھ خیر بات ہو رہی تھی عوام کے مسائل اور پالیسی سازوں کی ترجیحات کی تو اگر کہیں بجلی چوری ہو رہی ہے اور اُس کا بوجھ بھی عوام پر ڈالا جا رہا ہے تو اس کا مطلب ہے، کہ آپ کے پاس بجلی چوری کی روک تھام کے لیے کوئی انتظام نہیں ہے۔یقین مانیں جتنی کرپشن اس محکمے میں ہے اور جتنا سالانہ بنیادوں پر ان محکموں کو نقصان ہوتا ہے‘ اس کا سارا خمیازہ عوام کو براہِ راست بھگتنا پڑتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال بجلی کے محکموں کے ایک لاکھ 89 ہزار ملازمین نے 8 ارب 19کروڑ روپے کی بجلی مفت استعمال کی جبکہ سرکاری ملازمین نے ایک سال میں 34 کروڑ 46 لاکھ یونٹس سے زائد بجلی مفت استعمال کی۔ بدانتظامی کے باعث گزشتہ 15ماہ میں 500 ارب روپے کی بجلی چوری ہوئی۔ بہرحال جن حالات سے ہم آج گزر رہے ہیں، آخر کوئی تو ذمہ دار ہے۔ بجلی مہنگی ہے تو کس نے ایسے معاہدوں میں ملک کو جکڑا تھا؟ صنعتیں تباہ ہوئی ہیں تو اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ ہمارا ملک کرپشن کے عالمی انڈیکس میں اوپر کے نمبروں میں ہے‘ تو پھر آخر کوئی تو ہے جو ملکی دولت لوٹنے کے ساتھ عوام سے جائز کاموں کے لیے بھی رقم بٹورنا اپنا حق سمجھتا ہے۔ ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں گے تو جواب خود بخود مل جائے گا کہ لوگوں میں بے چینی کیوں ہے۔ کیا اشرافیہ کو ادراک ہے کہ معمولی تنخواہ دار غریب گھرانے کس کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں؟ حکمرانوں کی بات کرنا ہی وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے کہ یہ سب کچھ ان کی مفاد پرست سیاست اور وسیع پیمانوں پر بدعنوانی کا نتیجہ ہے۔ بہرکیف پی ڈی ایم حکومت کی 16مہینوں کی ” شاندار“ کارکردگی میں سنہری حروف میں لکھا جانے والا ایک کارنامہ مہنگی بجلی بھی ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس نے دنوں میں پوری قوم کو سراپا احتجاج بنا دیا ہے اور آج ہرکوئی بجلی کے بل ہاتھوں میں لیے بے بسی کی تصویر بنا دکھائی دیتا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے بعد ایک دوسرے کو مبارکبادیں دینے والوں میں سے بہت سے اس وقت لندن کی ٹھنڈی اور پرکیف فضاﺅں کا لطف اُٹھا رہے ہیں۔ باقی بھی اپنے اپنے معمولات میں مصروف ہوچکے ہیں اور عوام حکومت کے فیصلوں کو رو رہے ہیں۔سابق حکمرانوں کی ایسی ڈرامے بازی شاید ہی دنیا کے کسی اور ملک میں دیکھنے کو ملتی ہو جو ہمارے ملک میں دیکھنے میں آتی ہے۔ ملک میں اس وقت کیا ہو رہا ہے اور یہ کس ڈگر پر چل رہا ہے‘ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی۔ سب مل کر عوام کونوچ رہے ہیں اور اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں۔ ہر روز کوئی نیا ڈرامہ عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ قانون اور آئین کو پسِ پشت ڈالنا اب کسی کے لیے کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا۔ کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ حکومت کیا کر رہی ہے، ملک کو کون چلا رہا ہے۔ اور جو چلا رہے ہیں وہ اسے تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ لہٰذاہمیں اس سے کوئی غرض نے کہ اوپر کون ہے؟ بظاہر اور مخفی حکومت کون کر رہا ہے؟ کون امریکا سے ڈکٹیشن لے رہا ہے کون نہیں؟ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ فیصلہ کرنے والی قوتیں ملک کو ڈوبنے سے بچائیں، سیاسی ہم آہنگی پیدا کریں، اور فری اینڈ فیئر الیکشن کر وا دیں۔ اگر یہ نہیں کرنا تو پھر اشرافیہ کی مراعات ہی ختم کر وادیں، اگر یہ بھی اُن کے لیے ناممکن ہے تو میری ہاتھ جوڑ کر ”آپ “ سے گزارش ہے کہ اگر نگرانوں پر مشتمل حکومت بنالی ہے تو اُن کا ساتھ بھی دیں، اُنہیں اکیلا نا چھوڑیں ورنہ ملک مزید ڈوب جائے گااور افراتفری پھیلے گی۔