عدلیہ کے ساتھ سیاسی رسہ کشی، ن لیگ ہی کے دور میں کیوں؟

کیا یہ عجیب اور معیوب بات نہیں کہ آپ اپنے ذاتی مفاد کے لیے پاکستان کے سب سے بڑے اور قابل احترام ادارے کے ساتھ بھڑ جائیں۔ اور پھر اُس کو Justifyبھی کریں کہ وہ ”بقائ“ کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ حالانکہ سب کو علم ہے کہ حکومت الیکشن سے بھاگ رہی ہے، اور اس کے لیے وہ ہر حد تک جائے گی۔ اب یہ حد کیا ہے؟ یہ تو ن لیگ والے ہی بتا سکتے ہیں مگر حالیہ عدلیہ اور پی ڈی ایم کی لڑائی یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ عدالت عظمیٰ نے چیف جسٹس کے اختیارات سے متعلق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر تا حکم ثانی عملدرآمد روک دیا۔جبکہ سپریم کورٹ نے مسلم لیگ(ن)، پیپلزپارٹی ،جے یوآئی، ایم کیو ایم، بی اے پی، ق لیگ اورتحریک انصاف کو نوٹسزجاری کرتے ہوئے کیس کی آئندہ سماعت 2 مئی تک ملتوی کردی ہے۔اس سے پہلے حکومت اتحاد 8ججز پر مشتمل بنچ کو یکسر مسترد کر چکا تھا اور چیف جسٹس سمیت متعدد ججز کو Biasedقرار دے چکا تھااور ان کی کریڈیبلٹی پر بھی شک کا اظہار کر چکا تھا۔ اور یہ پہلی بار نہیں ہوا بلکہ متعددد بار حکمران اتحاد ایسا کہہ چکا ہے۔ اب ذرا غور فرمائیں کہ کیا کسی بھی ملک میں سپریم کورٹ کے جج سے بڑااورمقدس عہدہ ہوسکتا ہے؟اب اگر بقول حکمران اتحاد اُنہیں سپریم کورٹ کے 15ججز میں سے 8ججز پر ہی اعتبار نہیں تو یہ سسٹم کیسے چل رہا ہے؟ حالانکہ مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی کے حوالے سے خدشات ہیں،میں اس حوالے سے متعدد کالم بھی لکھ چکا ہوں مگر کیا ہم اُن کی کریڈیبلٹی پر شک کر سکتے ہیں؟ بلکہ ہم تو ہر جے آئی ٹی کے بارے میں کہتے ہیں کہ اُس کا سربراہ سپریم کورٹ کا سابقہ جج ہونا چاہیے تاکہ رپورٹ صحیح انداز میں مرتب ہوسکے۔ اور اگر ہم سابقہ ججز کی کریڈیبلٹی کو اتنی اہمیت دے رہے ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ حاضر سروس جج صاحبان کی کریڈیبلٹی پر شک کیا جائے؟ لیکن مسئلہ یہ نہیں ہے، بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ ن لیگ جب بھی اقتدار میں آتی ہے تو وہ اداروں کے ساتھ ایسے ہی چھیڑ چھاڑ کرتی ہے، اگر عدلیہ کی بات کریں تو ن لیگ کو عدلیہ کے نظا م پر اس قدر خدشات ہیں کہ یہ خدشات کبھی ہمارے ڈکٹیٹروں کو بھی نہیں رہے۔ اب مذکورہ کیس میں ہی دیکھ لیں کہ جس طرح وزیر اعظم کے پاس اختیار ہے کہ اُس نے اپنی کابینہ بنانی ہے، اس معاملے میں کیا اپوزیشن یہ کہہ سکتی ہے، کہ فلاں رہنما کو وزیر کیوں بنایا ہے؟ یقینا نہیں کہہ سکتی۔ بالکل اسی طرح آئین و قانون کے تحت چیف جسٹس کے بھی کچھ اختیارات ہیں، جنہیں اگر وہ استعمال میں لا رہے ہیں تو کسی کو اعتراض کیا ہے؟ آپ ماضی میں چلے جائیں۔جب نوازشریف 1997 میں دوسری بار وزیراعظم بنے تو اُس وقت چیف جسٹس سجاد علی شاہ تھے۔ نواز شریف سپریم کورٹ میں ججوں کی تعیناتی کو پارلیمنٹ کا اختیار قرار دینا چاہتے تھے جب کہ چیف جسٹس اس پر ایک برس پہلے فیصلہ دے چکے تھے کہ یہ عدلیہ کا اختیار ہے۔ اس کے علاوہ بھاری مینڈیٹ سے وزیراعظم بننے والے نواز شریف نے فلور کراسنگ کے خلاف آئین میں ترمیم منظور کی تھی جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔ عدالت نے اس ترمیم پر عمل درآمد فیصلے تک روک دیا تھا اس پر نواز شریف نے سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے ہارس ٹریڈنگ کی لعنت بحال کردی ہے۔ نواز شریف چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو مسلسل تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ ان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست بھی سپریم کورٹ میں دائر کی گئی اور انھیں عدالت میں طلب کیا گیا۔ 17 نومبر 1997 کو نواز شریف سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تو وہاں کارکنوں نے ان کا استقبال اور ہنگامہ آرائی کی۔ 26 نومبر کو سپریم کورٹ کے کوئٹہ بنچ نے چیف جسٹس سجاد حسن شاہ کی تقرری کا نوٹیفکیشن معطل کیا۔ اسی دن چیف جسٹس نے کوئٹہ بنچ کا فیصلہ غیر آئینی قرار دیا۔27 نومبر کو مسلم لیگ ن کے کارکنوں نے سپریم کورٹ کے ججوں سے بد تمیزی کی۔ 28 نومبر کو جب چیف جسٹس سجاد علی شاہ نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کیس کا فیصلہ سنانے والے تھے۔ مسلم لیگ ن کے کارکنوں کی بڑی تعداد سینیٹر سیف الرحمان کی قیادت میں سپریم کورٹ میں گھس گئی۔ ن لیگ کے کارکن چیف جسٹس اور ان کے ہمنوا ججوں کے خلاف نعرے بازی کر رہے تھے۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ نواز شریف کے خلاف فیصلہ نہ سناسکے۔ بلکہ جج اپنی جان بچانے کے لیے اپنے چیمبروں میں محصور ہوگئے تھے۔ چیف جسٹس نے فوج سے بھی مدد طلب کی تھی۔ن لیگ اس معرکہ آرائی کو نواز شریف کی جیت کے ساتھ منسوب کرتی رہی ہے۔ پھر 2017میں دیکھ لیں ، کہ سپریم کورٹ نے جب اُنہیں پانامہ پیپرز آنے کے بعد نااہل قرار دیا تو انہوں نے ”مجھے کیوں نکالا“ مہم چلائی اور جلسوں میں سپریم کورٹ کے پانچ ججوں پر سخت تنقید کرتے رہے۔ جولائی 2018 میں احتساب عدالت نے انھیں ایون فیلڈ کیس میں 10 سال قید کی سزا سنائی۔ 69 دن جیل میں رہنے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ سے انھیں ریلیف ملا۔ دسمبر 2018 میں انھیں العزیزیہ اسٹیل مل کیس کے سلسلے میں گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔ اس بار انھیں طبی بنیادوں پر لاہور ہائی کورٹ سے ریلیف ملا اور انھیں 8 ہفتوں کے لیے باہر جانے کی اجازت دی گئی۔ نواز شریف اس کے بعد سے وطن واپس نہیں آئے۔ ایون فیلڈ اور العزیزیہ کیس میں پیش نہ ہونے پر اسلام آباد ہائی کورٹ انھیں اشتہاری قرار دے چکی ہے۔ اور پھر ایسا نہیں ہے کہ ان کے لیے عدلیہ ہمیشہ ہی مخالف رہی ہے، بلکہ انہیں کئی مرتبہ عدالتوں سے ریلیف بھی ملا ہے، لیکن اُس کے لیے یہ کہتے ہیں کہ” اب عدلیہ ٹھیک ہے“۔ جیسے موجودہ حکومت عدلیہ کے سو موٹو کی بدولت ہی اس وقت اقتدار پر براجمان ہے۔ اپریل 1993 میں جب صدر غلام اسحاق خان نے ان کی اسمبلی تحلیل کردی تھی۔ نواز شریف اس اقدام کے خلاف عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ قائم مقام چیف جسٹس جسٹس نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں 11 رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی اور 26 مئی 1993 کو نواز شریف کی حکومت بحال کرنے کا فیصلہ سنایا۔ پاکستان مسلم لیگ ن نے اس فیصلے کا خوب خیرمقدم کیا۔ پھر نواز شریف کو اس کے بعد مشرف دور میں طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ مگر مشرف کی رخصتی کے بعد عدالت نے ہی ان کو اس کیس سے بری کر دیا تھا۔پھرپیپلزپارٹی کے دور میں نواز شریف نے ججوں کی بحالی کے لیے لانگ مارچ کی قیادت کا اعلان کیا تھا تاہم اس کی نوبت نہیں آئی تھی اور جنرل کیانی کی مداخلت پر پی پی حکومت نے چیف جسٹس افتخار چودھری اور دوسرے ججوں کو بحال کردیا تھا۔پھر پیپلزپارٹی کے دور میں ہی 2011 میں نواز شریف میمو گیٹ اسکینڈل میں زرداری کے خلاف خود مدعی بن کر سپریم کورٹ پہنچے تھے۔ بعد میں انھوں نے افسوس کا اظہار بھی کیا کہ انھیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔اپریل 2012 میں سپریم کورٹ نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو سوئس حکام کو خط نہ لکھنے پر نااہل قرار دیا تو نواز شریف نے عدالتی فیصلے کا خیرمقدم کیا۔ الغرض جب تک ان کے حق میں فیصلے آتے ہیں تب تک یہ لوگ عدلیہ ان کے لیے سب کچھ ہوتی ہے، مگر جب ان کے خلاف فیصلہ آجائے تو یہ ججز کو روند ڈالتے ہیں۔ پھر اکیلے ججز کے ساتھ یہ سلوک نہیں کرتے بلکہ دیگر اداروں کے ساتھ بھی ان کے معاملات ایسے ہی رہتے ہیں جیسے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کی اگر بات کریں تو ان کے تمام آرمی چیفس کے ساتھ مسائل رہے، جہانگیر کرامت کو انہوں نے نکالا، مشرف کے ساتھ ان کی سخت قسم کی ان بن رہی، عبدالوحید کاکڑ کے ساتھ ان کے مسائل رہے، آصف نواز جنجوعہ کے ساتھ ان کے مسائل رہے،پھر جب وہ فوت ہوئے تو اُن کی بیوی نے ان پر الزام لگایا کہ انہوں نے جنجوعہ صاحب کو زہر دے کر مارا ہے۔ پھر قمر جاوید باجوہ کے ساتھ انہیں مسائل رہے۔ اور نواز شریف اُنہیں آج بھی جمہوری ڈکٹیٹر کہتے ہیں۔ چلیں آپ عدلیہ اور افواج کو چھوڑیں، بیوروکریسی کو خراب کرنے اور اُسے اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ انہی کے ادوار میں انہوں نے وفاداریاں خریدنے کے لیے آﺅٹ آف میرٹ بھرتیاںکیں، 20ویں گریڈ پر 18ویں گریڈ کے آفیسرز کو اور گریڈ 19کی سیٹ پر گریڈ 17کا آفیسر لگا کر اپنی مرضیاں مسلط کی گئیں اور اداروں میں کرپشن کو فروغ دیا۔ پھر سیاسی مخالفین پر تشدد کے حوالے سے ان کا کوئی ثانی نہیں، خاص طور پر پنجاب کی سطح پر یہ سب سے آگے رہے، سلمان تاثیر پر تشدد سب کو یاد ہے۔ سب سے اہم بات کہ زرداری پر جب سندھ پولیس نے تشدد سے انکار کیا تو اُس وقت نوید سعید کو پنجاب سے وہاں بھیجا گیا۔ پھر لفافہ سیاست کے یہ بانی ہیں، صحافیوں کو خریدنا، اُنہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا معمول کی بات ہے۔ اور پھر انہوں نے اپنے43سالہ کرئیر میں آج تک اوپن پریس کانفرنس نہیں کی کہ ان کے اپنے صحافیوں کے علاوہ ان کی پریس کانفرنس میں آج تک کوئی نہیں گیا۔ انہوں نے جب بھی پریس کانفرنس کی اُس میں گنے چنے صحافیوں کو بلایا گیا۔ حالانکہ اس کے برعکس محترمہ بے نظیر بھٹو، نوابزادہ نصر اللہ خان، عمران خان، آصف زرداری اوپن پریس کانفرنس کے حامی رہے، جہاں ہر صحافی جا سکتا تھا۔ قصہ مختصر کہ کیا کیا بیان کروں کیا کیا سنو گے! بہرحال اس وقت ن لیگ کی آدھی سے زیادہ قیادت سعودی عرب میں عمرہ کی ادائیگی کے لیے موجود ہے، ہو سکتا ہے وہ وہاں سے مزید یہ سیکھ کر آئیں کہ نواز شریف کو ”بادشاہ “ تسلیم کر لیا جائے۔ اور جو اختیارات سعودی شاہ کے پاس ہیں وہی سابقہ وزیر اعظم کو مل جائیں۔ایسا میں اس لیے بھی کہہ رہا ہوں چونکہ ان کے طور طریقے شاہی خاندانوں جیسے ہیں، ان کے مراسم بھی شاہی خاندانوں سے ہیں تبھی یہ بھی عقل کل اور صاحب اختیار بننا چاہتے ہیں۔ جبکہ یہاں ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ لہٰذااس وقت ن لیگ پر یہ الزام لگ رہا ہے کہ اگر پاکستان کی سیاست میں کوئی خرابی کا کوئی ذمہ دار ہے تووہ اسٹیبلشمنٹ کے بعد ن لیگ ہے۔ اس لیے انہیں چاہیے کہ اداروں کا احترام خود بھی کریں اور دیگر جماعتوں و کارکنوں کے لیے مثال بنیں تاکہ ان محترم ادروں کی طرف کوئی آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھے۔