اسرائیل فلسطین جنگ: ہم کیا کریں؟

فلسطین کے معاملے کو دیکھ کر لگتا ہے انسانیت ختم ہو چکی، ایک طاقتور ملک ، کمزور ملک پر چڑھائی کر رہا ہے، بچے، خواتین اور نوجوانوں کو کچلتا ہوا آگے بڑھتا جا رہا مگر کسی میں اخلاقی جرا¿ت نہیںکہ اُسے روک سکے! دنیا کا سب سے بڑا اتحاد ”اقوام متحدہ“ بھی برائے نام رہ چکا ہے۔ بلکہ عرصہ دراز سے امریکی دفتر خارجہ کا ذیلی ادارہ بن چکا ہے، حیف اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی پر جس کی اتنی اوقات بھی نہیں کہ وہ مذمت سے بڑھ کر کچھ کر سکے۔اگر پوری دنیا کسی ایک شخص کی موت پر بے قرار ہو سکتی ہے تو فلسطین میں سینکڑوں جانوں کے ضیاع پر دنیا خاموش کیوں ہے؟ کیا یہ ہماری کمزوری ہے؟ کیا یہ ہم اسلامی ملکوں کے اتحاد کی نااہلی ہے؟ حالانکہ دنیا کہ بڑی تنظیمیں جب کسی ملک یا تنظیم کے خلاف فیصلہ کرتی ہیں تو اُس کا اثر دیکھنے کے قابل ہوتا ہے۔ جیسے حال ہی میں یورپی یونین نے قرار داد منظور کی کہ جب تک پاکستان اپنی شرائط پوری نہیں کرتا پاکستان کا جس ایس پلس کا درجہ ختم کر دیا،پاکستان متحرک ہوا اور فوری طور پر یورپی یونین کو منانے کے لیے سفارتی کوششیں تیز کر دیں۔ یورپی یونین ہی نے چین کے کئی عہدیداروں پر صوبہ سنکیانگ کے ویغور مسلمانوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے پابندیوں کا اعلان کیا ، چینی حکام نے فوری طور پر یورپی یونین کو اپنے موقف سے آگاہ کیا اور پابندیوں پر نرمی اختیار کرنے کے لیے کہا۔ یورپی یونین ہی نے بھارت میں ہونے والے امتیازی رویوں اور اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں بھارتی حکومت کو انتباہ کیا، جس کے بعد نمایاں طور پر پرتشدد واقعات میں کمی دیکھنے میں آئی۔ مطلب یورپی یونین کی اہمیت کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ امریکا بھی اس تنظیم کی ناراضگی مول لینے سے ڈرتا ہے۔ اگر اس تنظیم کی تاریخ کے حوالے سے بات کریں تو یہ براعظم یورپ کے ممالک کا اتحاد ہے،یہ تنظیم 6یورپی ممالک کے اتحاد سے 1952میں شروع ہوئی۔ جو اقتصادی اور سیاسی مقاصد کے لئے قائم کیا گیا۔ اب اس اتحاد کے 28 میں سے 18 رکن ممالک واحد کرنسی ”یورو“ استعمال کرتے ہیں اس اتحاد کے بڑے مقاصد میں یورپی ممالک کا سیاسی اور اقتصادی طور پر متحد ہونا ہے۔ پھر ”دولت مشترکہ“ تنظیم کی بات کر لیں۔جس کے صرف ایک فیصلے پر پاکستان سمیت کئی ملکوں کی جمہوریتیں بحال ہوگئیں، کئی ممالک کی معیشت ٹریک پر آگئی، کئی ممالک میں انسانی سمگلنگ، منشیات اور دیگر جرائم میں کمی واقع ہوئی۔ اس تنظیم کی طاقت کا اندازہ بھی آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ کوئی بھی ملک دولت مشترکہ سے باہر رہنا نہیں چاہتا، حتیٰ کہ چین نے بھی اس میں شمولیت کی کئی بار کوشش کی ہے۔ لیکن یہ تنظیم ان ملکوں پر مشتمل ہے جو برطانیہ کی نو آبادیاتی رہے ہیں۔ یہ تنظیم 1926ءمیں اس وقت قائم ہوئی جب سلطنت برطانیہ کا زوال شروع ہوا۔ اس تنظیم کے 53 رکن ممالک ہیں جن میں پاکستان ، بھارت اور دیگر ممالک بھی شامل ہیں۔ اس تنظیم سے جڑے ممالک ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں، ایک دوسرے کے شہریوں کو تحفظ دیتے ہیں اور جو ان قوانین پر پورا نہیں اُترتا اُسے تنظیم سے نکال دیتے ہیں اور وہ مراعات سے محروم ہو جاتا ہے۔ پھر آپ نے جی 20ممالک کے بارے میں آپ نے سنا ہوگا، یہ 20امیر ترین ملکوں کا گروپ ہے جس کی معیشت کا تخمینہ دنیا کی کل معیشت کا نصف بتایا جاتا ہے، یہ ممالک کبھی 8ممالک کا گروپ (جی8)ہوا کرتا تھا، جو بڑھ کر آج جی 20ہو چکا ہے، اس کے اثرورسوخ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس گروپ نے پاکستان سمیت دنیا بھر کے ممالک کو قرضے دے رکھے ہیں اور پاکستان بھی 1.7ارب ڈالر کا مقروض ہے۔ اب جبکہ کورونا کی صورتحال میں تمام ممالک جی20ممالک کے پاس جمع ہیں کہ قرضوں کو ری شیڈول کیا جائے، جبکہ یہ گروپ دوبارہ اپنی مرضی کے معاہدوں کے بعد قرضوں کی ری شیڈولنگ کر رہا ہے۔ پھر انہی ممالک کے وزرائے توانائی، وزرائے خارجہ، وزرائے خزانہ وغیرہ نے آئندہ کی حکمت عملی ترتیب دینا ہوتی ہے۔ یہ تنظیم امریکا، برطانیہ، روس، جاپان ، اٹلی، فرانس ، چین وغیرہ پر مشتمل ہے جو دنیا کے فیصلے کرتی ہے۔ مگر کیا کبھی آپ نے ہماری 57اسلامی ملکوں پر مشتمل تنظیم OIC(آرگنائزیشن آف اسلامک کارپوریشن) کی اہمیت ، طاقت یا فیصلوں کے بارے میں سنا ؟ یقینا نہیں سنا ہوگا کیوں کہ یہ عملی اقدامات سے محروم ہو چکی ہے، اس تنظیم میں موجود ہر ملک اپنے ذاتی مفادات کی تلاش میں اجتماعی مفادات کی اہمیت کو کھو بیٹھا ہے۔ بہت پہلے اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی ایک بہت مو¿ثر اور طاقتور پلیٹ فارم ہوا کرتی تھی، جس کا اجلاس ہوتا تو دنیا کے طاقتور ممالک کو کسی بڑے ردعمل کی فکر ہو جاتی۔ تیل کا ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی کارگر ہوتی اور مغرب اپنی معاندانہ سوچ ، اپنی اوچھی حرکتوں اورخاص طور پر اسرائیل کی حمایت سے کسی حد تک ہاتھ کھینچ لیتا تھا، مگر پھر رفتہ رفتہ سب نے دیکھا کہ او آئی سی ایک بے جان تنظیم بن کر رہ گئی۔ اس کا ثبوت اس کے حالیہ اجلاسوں سے بھی مل جاتاہے۔ جن میں کشمیر، فلسطین جیسے دیگر متنازعہ علاقوں کے بارے میں صرف رسمی بات چیت کی گئی۔ اب بھی نازک حالات میں ”سنجیدگی کی انتہا“ دیکھ لیں کہ عملی اقدامات کے بجائے او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں فلسطین کے حق میں اور اسرائیلی مظالم کے خلاف صرف قرارداد منظور کی گئی ہے۔ اس اجلاس میں نہ تو اقتصادی بائیکاٹ کی بات کی گئی، نہ کسی اور ایکشن کا مطالبہ کیا بلکہ فلسطین پر اسرائیلی بمباری اور وحشیانہ حملوں کو ایک روایتی قرار داد منظور کرکے نمٹادیا، جبکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسرائیل اور دیگر ممالک نے اس مذمت کے بعد اپنا موقف پیش کرنا تو دور کی بات اس کا ذکر کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ اس کی وجہ کچھ بھی ہو ،لیکن یہ 57اسلامی ممالک کے لیے شرم کی بات ہے۔ اورایسا نہیں ہے کہ یہ تنظیم آغاز ہی سے صرف مذمتوں پر کام چلاتی آئی ہے بلکہ ایک وقت تھا جب اقوام متحدہ کے بعد اسے دنیا کی دوسری بڑی تنظیم سمجھا جاتا تھا۔ او آئی سی کا قیام 1969ءمیں عمل میں لایا گیا، یہ تنظیم 21 اگست 1969ءکے روز یہودیوں کے مسجدِ اقصیٰ پر حملے کے ردِ عمل کے طور پر اگلے ہی ماہ 25 ستمبر 1969ءکو مراکش کے شہر رباط میں او آئی سی قائم کر لی گئی تاہم اس تنظیم نے مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ پر زیادہ سنجیدگی نہیں دکھائی۔ او آئی سی کا پہلا سربراہی اجلاس مراکش کے شہر رباط میں 1969ءمیں ہوا۔ دوسرا پاکستان کے شہر لاہور میں 1974ءمیں، تیسرا 1981ءمیں سعودی عرب کے شہر مکہ اور طائف میں منعقد ہوا۔اب تک او آئی سی کے 14 عام اجلاس اور 7 غیر معمولی اجلاس منعقد ہوچکے ہیں جن میں مسلم ممالک کو درپیش مسائل اور ان کے حل کیلئے عالمی سطح پر آواز اٹھائی گئی۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ایسا نہیں ہے کہ او آئی سی نے کبھی کچھ اچھا نہ کیا ہو بلکہ اس تنظیم نے ماضی میں اچھے کام بھی کیے جیسے اس تنظیم کے آرمی سروس کور سکول نے بنگلہ دیش، بوسنیا، فلسطین، ترکی جیسے مسلم ممالک کے 30 افسران کو تربیت دی۔ پاکستان آرمی ملٹری کالج آف سگنلز نے برما، بحرین، بنگلہ دیش، بوسنیا، گیمبیا، گھانا، انڈونیشیا، عراق، ایران، اردن، لیبیا، ملائشیا، عمان، نائیجیریا جیسے مقامات سے سینکڑوں افسروں کی تربیت کی۔ 2005 میں، او آئی سی نے دہشت گردی، اسلامو فوبیا، ناقص حکمرانی، اور معاشی عدم مساوات سمیت مسائل کو حل کرنے کیلئے دس سالہ منصوبہ اپنایا۔ جبکہ 2008 میں انسانی تعاون تنظیموں کی سرگرمیوں کو ہم آہنگ کرنے کیلئے اسلامی تعاون ہیومنٹری افیئرز ڈپارٹمنٹ (ICHAD) قائم کیا وغیرہ۔ لہٰذااس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ او آئی سی کے مسلمان ممالک اسرائیل اور بھارت کے آگے کیوں بے بس ہیں؟جواب بہت آسان ہے۔ اسرائیل مصر، اردن، بحرین، متحدہ عرب امارات، سوڈان، مراکش اور ترکی سمیت متعدد مسلمان ممالک سے سفارتی تعلقات رکھتا ہے۔بے شک یہ دو طرفہ تعلقات اسلام کی بجائے مفادات کی بنیاد پر قائم کیے گئے ہیں لیکن یہ سب ممالک او آئی سی کے اہم رکن ہیں۔ ایسے میں پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک جو او آئی سی سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اسرائیل یا بھارت کے خلاف فلسطین اور کشمیر کے مسائل پر ایکشن لے، انہیں خود غور کرنا ہوگا کہ ان کا یہ مطالبہ کس حد تک حق بجانب ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمیں اس وقت کیا کرنا چاہیے؟ لہٰذامیرے خیال میں سب سے پہلے اس تنظیم کو مکمل فعال کرنا ہوگا، اس کے سربراہان پر مشتمل کانفرنس منعقد کرنا ہوگی، اس سلسلے میں پاکستان، ترکی اور ملائشیا بنیادی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ کیوں کہ اگر 1974ءمیں ذوالفقار علی بھٹو، شاہ فیصل ، کرنل قذافی اور یاسر عرفات پورے یورپ کا تیل بند کر کے انہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتے تھے، تو اب بڑے اسلامی ممالک مل کر ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ او آئی سی کے پلیٹ فارم سے یہ اعلان ہونا چاہیے کہ تمام اسلامی ممالک غیر معینہ مدت تک اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کر رہے ہیں، اور جو اسلامی ملک اس اعلان یا فیصلے کا ساتھ نہیں دیتا اُسے او آئی سی سے نکال باہر کرنا ہوگا۔ پھر کوئی اسلامی ملک اُس ملک سے تعلقات قائم نہیں رکھے گا، نہ تجارتی، نہ سیاسی اور نہ ہی اخلاقی۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر امریکا، اقوام متحدہ ، یورپی یونین، دولت مشترکہ جیسی تنظیمیں دوسرے ملکوں پر اقتصادی پابندیاں لگا سکتی ہیں تو او آئی سی کیوں نہیں لگا سکتی، حالانکہ دنیا کی کل معیشت کا 25فیصد اسلامی ملکوں کے پاس ہے۔اور رہی بات عرب لیگ کی تو عرب لیگ اس وقت امریکا کے تلوے چاٹنے سے فارغ نہیں ہو رہی ، تو ایسے میں وہ اسرائیل کے خلاف کیا اقدام کرے گی ۔ اس لیے اگر مذکورہ بالا اقدامات کرنے بھی مشکل ہوں تو فی الوقت پاکستان کے عمران خان، ترکی کے طیب اردوان اور ایران کے آیت اللہ خامنائی و حسن روحانی اتنا ہی کر دیں کہ وہ دنیا کو اسرائیل کے توسیع پسندانہ خونی عزائم اور اسرائیلی قیادت کی نازی ذہنیت سے آگاہ کریں۔ اور اس کام میں یقینا کوئی محنت بھی درکار نہیں ہوگی!