پاکستان کا آئین : اللہ جنت نصیب کرے!

کیا آ پ کو معلوم ہے کہ انڈیا نے” فل میڈ اِن انڈیا“الیکٹرانک مرسیڈیز کار لانچ کر دی، یہ کار ایک دفعہ چارج ہونے پہ 850 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر سکتی ہے، پھر آپ کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ گزشتہ ہفتے ہی ”میڈ ان انڈیا “ الیکٹرک ٹرین کا افتتاح بھی کیا گیا۔ پھر آپ کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ بھارت کا پہلا میڈ ان انڈیا الیکٹرک ٹرک گجرات میں نمائش کے لیے تیار ہے۔ برقی ٹرک کھیڑا ضلع میں ٹرینٹن کمپنی نے بنایا ہے۔یہ ٹرک گجراتی باشندے ہمانشو پٹیل کی ملکیت والی کمپنی نے بنایا ہے،پھر آپ کو یہ بھی معلوم ہو گا کہ ترکی کی پہلی مقامی طور پر تیار کردہ کار” ٹوگ ٹی 10 ایکس ای وی“ کو دنیا بھر سے صرف 100 دنوں میں ایک لاکھ پری آرڈر مل گئے ہیں۔ پھر آپ دوبارہ انڈیا میں آجائیں جہاں بی ایم ڈبلیو نے سیاسی و معاشی حالات کو بہتر گردانتے ہوئے 19مختلف کاروں کے ماڈلز بشمول الیکٹرک گاڑیاں لانچ کرنے کے لیے تیا ر ہے۔ جبکہ مشہور کمپنی ایپل نے بھی انڈیا میں سٹورز کھولنے شروع کردیے ہیں۔ چین تو ویسے ہی ہم سے بہت آگے ہے،اور رہی بات افغانستان کی تو اُس کی کرنسی ہم سے فی الحال مضبوط ہوئی ہے اور آگے چل کر وہ جنہیں ہم ”ڈل مائنڈڈ“ افغانی کہتے ہیں وہ کیا کریں گے یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر ان ہمسایہ ممالک کے برعکس یہاں کی خبریں سن لیںکہ .... گزشتہ روز سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان سے خفیہ اداروں کے افسران نے خفیہ ملاقات کی ہے جس میں آئندہ الیکشن کے حوالے سے کوئی حکمت عملی طے ہوئی ہے۔ اور اب وزارت دفاع نے سپریم کورٹ میں سربمہر رپورٹ جمع کروا دی جس میں انتخابات کا حکم واپس لینے کی استدعا کی گئی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک بھر ایک ساتھ انتخابات کرائے جائیں، دہشتگردوں اور شرپسندوں کی جانب سے انتخابی مہم پر حملوں کا خدشہ ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا واقعی حالات الیکشن کروانے کے قابل نہیں ہیں؟ اس کا جواب جاننے کے لیے چلتے ہیں 2008ءکے الیکشن کی طرف تو اُس وقت انتخابات سے چند مہینے قبل صورتحال تاریک نظر آتی تھی، اس وقت سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں قتل کیا گیا تھا، کراچی میں 180 افراد کو مارا گیا تھا جبکہ لال مسجد آپریشن بھی جاری تھا اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو بنایا جار ہا تھا۔ نہیں یقین تو اس حوالے سے پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (پی آئی سی ایس ایس) کی رپورٹ پڑھ لیں جس کے اعداد و شمار کے مطابق 2007 میں 639 دہشت گرد حملے ہوئے تھے، جس میں 1940 افراد ہلاک اور 2870 زخمی ہوئے تھے۔جبکہ جنوری 2008 میں 39 حملوں میں سے زیادہ تر خیبرپختونخوا اور فاٹا میں کیے گئے تھے، جس کے نتیجے میں 459 افراد مارے گئے تھے۔قصہ مختصر کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے محض 50دن بعد 18فروری 2008ءکو الیکشن کا انعقاد ہو چکا تھا۔ اور پھر آپ 2013کے انتخابات کی رپورٹ بھی پڑھ لیں کہ 2013 کے انتخابات کے دوران عوامی نیشنل پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی اوراُس وقت کی متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور دیگر آزاد امیدواروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔عسکریت پسندوں نے 60 دن کے الیکشن کے عمل کے دوران امیدواروں، الیکشن دفاتر، مختلف سیاسی جماعتوں کے عوامی اجلاسوں، پولنگ اسٹیشنز اور الیکشن کمیشن کے دفاتر پر 59 حملے کیے تھے جس کے نتیجے میں کم از کم 119 افراد ہلاک اور 438 افراد زخمی ہو گئے تھے۔2013 میں عام انتخابات 11 مئی کو منعقد ہوئے تھے، اور مئی 2013 میں انتخابات سے قبل 4 مہینے میں ملک بھر میں دہشت گردی کے 366 حملے کیے گئے جس میں 1120 افراد جاں بحق اور 2151 زخمی ہوئے تھے، اس کا مطلب ہے کہ 4 ماہ سے 52 فیصد زیادہ اموات ہوئی تھیں۔پھر آپ 2018ءکے انتخابات کو دیکھ لیں جو نسبتاََ پرامن تھے اور 2008 اور 2013 کے انتخابات کے مقابلے میں زیادہ کم خوف کا شکار تھے۔ 2018 میں دہشت گردی کے حملوں میں 579 افراد قتل اور 960 زخمی ہوئے تھے۔ اور ان تینوں انتخابات کی نسبت آپ 2023کا اندازہ لگالیں۔ کہ ان حملوں میں 72فیصد تک کمی آچکی ہے اور حالات پہلے سے بہت بہتر ہیں۔ اگر کہیں بہتری نہیں ہے تو وہ نیت میں ہے۔ تبھی الیکشن کے انعقاد میں دیر کی جار ہی ہے۔ حالانکہ ملک میں 1973 کے متفقہ آئین میں یہ طے پایا تھا کہ قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90 دن کے اندر انتخابات کا انعقاد ضروری ہے، جبکہ 1977 سے 2023 تک 10 بار قومی اسمبلی کے عام انتخابات کا انعقاد ہو چکا ہے۔اسی آئین کے تحت ہی ماسوائے ایک دو بار کے ہر بار ہی وقت پر الیکشن کروائے گئے تو اب ایسا کیوں نہیں؟ نہیں یقین تو خود دیکھ لیں کہ 10 جنوری 1977 کو جب قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے 56 دن بعد 7 مارچ 1977 کو ملک میں عام انتخابات منعقد ہوئے، اسی طرح 12 جنوری 1985 کو صدر ضیاءالحق نے قومی اسمبلی کے انتخابات کا اعلان کیا جس کے نتیجے میں 47 دن بعد 28 فروری 1985 کو ملک میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا (حالانکہ یہ ڈکٹیٹر شپ کا دور تھا)غلام اسحاق خان کی جانب سے 6 اگست 1990 کو پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تحلیل کیے جانے کے بعد قومی اسمبلی کے عام انتخابات 79 دنوں کے بعد 24 اکتوبر 1990 کو ہوئے، 18 جولائی 1993 کو صدر غلام اسحاق خان نے وزیر اعظم محمد نواز شریف کی حکومت کو تحلیل کرکے قومی اسمبلی کے نئے عام انتخابات کا اعلان کیا تھا، جن کا انعقاد 80 دنوں کے بعد 6 اکتوبر 1993 کو ہوا ۔وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت کو صدر فاروق لغاری نے 5 نومبر 1996 کو تحلیل کر دیا جس کے نتیجے میں قومی اسمبلی کے انتخابات 91 دن کے بعد 3 فروری 1997 کو منعقد ہوئے ۔ جنرل مشرف نے ن لیگ حکومت کا 1999ءمیں تختہ اُلٹا، جس کے بعد ملک میں 11 جولائی 2002 کو قومی اسمبلی کے عام انتخابات کا اعلان کیا گیا، یوں، 90 دنوں کے وقفے کے بعد 10 اکتوبر 2002 کو قومی اسمبلی کے انتخابات ہوئے۔پھر 15 نومبر 2007 کو مسلم لیگ (ق) کی حکومت کے تحلیل ہونے کے بعد ملک میں عام انتخابات کیلئے 8 جنوری 2008 کی تاریخ مقرر کی گئی، تاہم سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی شہادت کے باعث ملک میں پیدا ہونے والی صورتحال کے پیش نظر انتخابات صرف 41 دنوں کیلئے ملتوی کر دیے گئے، 18 فروری 2008 کو ملک میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا، جن میں 95 دنوں کا وقفہ آیا۔17 مارچ 2013 کو تحلیل ہونے والی قومی اسمبلی کے بعد ملک میں عام انتخابات کا انعقاد 60 دنوں کے بعد 16 مئی 2013 کو ہوا۔ پھر 31 مئی 2018 کو تحلیل ہونے والی قومی اسمبلی کے بعد ملک میں عام انتخابات کا انعقاد 55 دنوں کے بعد 25 جولائی 2018 کو ہوا ۔ اوراب جب ہمارا آئین ہر طرف سے دفن ہو رہا ہے تومجھے لگتا ہے کہ اگر اب الیکشن نہ ہوئے تو اکتوبر میں بھی الیکشن ہوتے مجھے نظر نہیں آرہے۔ بلکہ شاید اکتوبر 2024ءتک بھی نہ ہوں۔ اس لیے دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ جس طرح 1956ءکے آئین کو جنرل ایوب خان نے دفن کیا اسی طرح 1973ءکے آئین کو بھی اللہ جنت الفردوس میں جگہ دے۔کیوں کہ اس آئین کو بھی ہم اپنی مرضی سے استعمال کر رہے ہیں، اوربادی النظر میں اس کی حالت یہ ہو چکی ہے کہ اب یہ پانی بن چکا ہے، جسے ہم اپنے مطابق ڈھال کر اپنے من پسند برتن میں ڈال سکتے ہیں۔ لہٰذااس آئین کی قدر کی جائے۔ کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ہمارے ہمسایہ ممالک اس قدر ترقی کیوں کر رہے ہیں، حالانکہ وہاں بھی آئے روز قتل و غارت کی وارداتیں ہوتی ہیں، بھارت میں مودی کی حکومت کے دوران کونسا کام نہیں ہوا؟ مثلاً کرنسی نوٹوں کی یکایک تبدیلی، جنتا پارٹی کے بعض اہم رہنماﺅں کے اقلیتوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات ،خاص طور پر گزشتہ برس نئی دہلی میں کسانوں کا بڑا دھرنا ، طویل ہڑتال اور جلسے جلوس کی تحریک کے دوران بھارتی حکومت کا رویہ اور پالیسی کسی طور جمہوری اقدار اور بنیادی حقوق کے حوالے سے قطعی مناسب نہ تھی بلکہ حکومت اس کے برعکس عمل کرتی رہی۔ کسانوں کے احتجاج کے خلاف ریاستی طاقت کا استعمال کیا گیا،مگر دنیا ان سب چیزوں کو ملک کا ”اندرونی“ مسئلہ سمجھتی ہے۔ دنیا دیکھتی ہے کہ ادارے مضبوط ہیں، کام کر رہے ہیں، جمہوریت ہے؟ اس جمہوریت میں کسی بیرونی و اندرونی طاقت کا عمل دخل تو نہیں؟ جب یہ سب باتیں ٹھیک ہیں تو پھر ملک بھی ترقی کرتا ہے، آئین کی اہمیت بھی برقرار رہتی ہے اور سب سے بڑھ کر آئین کو دفن کرنے کی بھی ضرورت نہیں رہتی! آخر میں راقم گزشتہ کالم کے حوالے سے ایک چھوٹی سی وضاحت پیش کرنا چاہتا ہے کہ روزنامہ 92ہی کی کالم نگار محترمہ سعدیہ قریشی کے کالم کا ایک چھوٹا سا حصہ سہواََ میرے کالم کا حصہ بن گیا یا بنا دیا گیا، جس کے لیے میں محترمہ سعدیہ قریشی سے معذرت خواہ ہوں ، لیکن ساتھ ہی شکوہ کناں بھی ہوں کہ اُنہوں نے مجھ سے بغیرکسی وضاحت کے طلب کیے میرے بارے میں نامناسب الفاظ کا استعمال کرکے ایک پوسٹ سوشل میڈیا کی زینت بنا دی۔ جس کا چند موقع پر ست دوستوں نے خوب فائدہ اُٹھایا اور اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ میری تما م قارئین اور دوست احباب سے دست بستہ گزارش ہے کہ سوشل میڈیا کو دوستوں کی اچھائی کے لیے بھی استعمال کریں۔ یقین مانیں ایسا کرنے سے خود کا ضمیر بھی مطمئن رہے گا اور وطن عزیز بھی گلستان بن جائے گا۔ دعاﺅں کا طلبگار رہوں گا:شکریہ !