پی ڈی ایم اپنے منطقی انجام پر !

جیسے جیسے الیکشن قریب آرہے ہیں، سیاسی جماعتیں بھی ”کھل“ کر سامنے آرہی ہیں، کہیں باپ بیٹا آمنے سامنے ہیں تو کہیں بھائی بھائی۔ کہیں بلاول بھٹو اقتدار چاہ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ بوڑھے لوگ سیاست سے ریٹائرڈ ہو جائیں، جبکہ زرداری صاحب اقتدار کے بجائے الیکشن کے بعد کی سیاست پر فوکس کیے ہوئے ہیں ۔ لیکن یہ بات تو طے ہے کہ جس طرح ہم نے کہا تھا کہ پی ڈی ایم کا اگلے الیکشن تک صفایا ہو جائے گا، بالکل اُسی طرح صفایا ہو رہا ہے۔بلکہ بادی النظر میں صفایا کیا جا رہا ہے، کیوں کہ تمام سیاسی جماعتیں ایک بڑی جماعت کو نکڑے لگا کر اب آپس میں گتھم گتھا ہو چکی ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہی ہے کہ ہم پی ڈی ایم کے حوالے سے کہا کرتے تھے کہ یہ غیر منطقی اتحاد ہے، اس اتحاد کا واحد ایجنڈا تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ ہے۔ پھر انہوں نے ملک کو ایک مخلص حکمران سے محروم کرنا تھا، اور اپنے کرپشن کے کیسز ختم کروا کر دوبارہ اُسی ڈگر پر چلنا تھا، یہ اُس وقت بھی کرپشن کیسز ختم کروانے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے،یہ مانتے نہیں تھے! اور اب بھی یہ دوبارہ کرپشن کرنے کے لیے اور عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے نورا کشتی لڑ رہے ہیں، تاکہ ایک اقتدار میں آجائے اور دوسرا اپوزیشن میں ۔ اور دونوں ایک دوسرے کو تحفظ فراہم کریں۔ اورپھر ن لیگ نے اور پیپلزپارٹی نے آج تک جتنے بھی معاہدے کیے ہیں، وہ پورے نہیں ہوئے۔بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کے معاہدوں سے شروع ہو جائیں، آج تک ان کا آپسی معاہدہ کہیں پورا ہوا ہو؟ہاں اس میں ایک بات ضرور ہے کہ زیادہ ترمعاہدے ن لیگ کی طرف سے ہی توڑے گئے۔ کیوں کہ جب یہ اقتدار میں آتی ہے ، تو یہ اشرافیہ کی جماعت بن جاتی ہے۔ بلکہ معذرت کے ساتھ اسے یوں کہہ لیں کہ یہ ایک شوگر مل ایسوسی ایشن ہے۔ آپ ان دونوں جماعتوں کی 35سالہ تاریخ پڑھ لیں، یہ کبھی ملک کے لیے اکٹھی نہیں ہوئیں۔ جب پہلی بار بے نظیر بھٹو کے پاس پیپلز پارٹی کی قیادت آئی تو ان کا سامنا مسلم لیگ (ن) کے تازہ دم قائد نواز شریف سے ہوا ،پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان محاذ آرائی عروج پر رہی ہے۔ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ دونوں جماعتوں کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتی رہی جب پرویز مشرف نے نواز شریف کے بعد بے نظیر بھٹو کو جلاوطنی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دیا تو پھر دونوں کو اپنی غلطیوں کا احساس ہوا اور ان کے درمیان لندن میں مئی 2006 ءتاریخی ”میثاق جمہوریت“ ہوا۔ اس معاہدہ پر پوری طرح عمل درآمد تو نہ کیا گیا لیکن جمہوری عمل کو جاری و ساری رکھنے کے کسی حد تک عمل درآمد ہوا اس معاہدہ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ملک کی دو بڑی جماعتوں کی قیادت پر قائم کیے گئے تمام کیسز سرے سے ہی ختم کر دیے گئے۔ پھر بھلا ہو عمران خان کا جنہوں نے اپنے خلاف تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے کر دیا،ایک سینئر صحافی نے عمران خان سے کہا کہ ”آپ کیسے سیاست دان ہیں۔ نواز شریف اور آصف علی زرداری کو اپنے خلاف اکٹھا کر دیا آپ آصف علی زرداری کو اپنے قریب تر کر کے نواز شریف کو تنہا کر سکتے تھے۔ دشمن کا دشمن دوست بن جایا کرتا ہے۔“ا س خان صاحب نے کہا کہ نہیں یہ کبھی میرے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے۔ بلکہ آپ دیکھیں گے کہ یہ مل کر میرے خلاف اتحاد بنائیں گے۔ اور پھر تاریخ نے یہ ثابت کیا کہ 2020ءمیں پی ڈی ایم وجود میں آئی۔ خیر اُس کے بعد جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے، اسی اتحاد کے ذریعے تحریک انصاف کی حکومت کو ختم کر کے ملک کو غیر مستحکم کیا گیا، ملک تباہی کے دھانے پر کھڑا ہوگیا۔ اور پھر پی ڈی ایم کی حکومت نے اپنی 16ماہ کی حکومت میں عوام کا جو بھرکس نکالا وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ خیر آپ ان جماعتوں کا وژن چیک کر لیں کہ نہ تو ان کے پاس کوئی مستقل لائحہ عمل ہے، نہ ان فیوچر پلان اور نہ ہی کوئی 2030،2040کا کوئی منصوبہ !لیکن اس کے برعکس ان کا دھیان صرف اس طرف ہے کہ کل ہماری حکومت کیسے آئے گی اور ہم ملک سے کیسے پیسے نکالیں گے۔ آپ پی ڈی ایم میں موجود دوسری بڑی جماعت پیپلزپارٹی کو دیکھ لیں، سیاسی طبقات اُسے سیاسی جماعت ضرور سمجھتے ہیں ، مگر وہ بھی تحریک انصاف کی مخالفت میں ن لیگ سے ڈسی ہوئی ہے۔ اور پھر گڈ گورننس کے معاملے میں بھی کبھی پیپلزپارٹی کا اچھا ریکارڈ نہیں رہا۔ آپ اس کی مثال گزشتہ 15سال سے سندھ میں موجود حکومت کی کاردگی کو دیکھ لیں، حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں کسی پارٹی کو کسی صوبے میں بھی اتنا لمبا اقتدار نصیب نہیں ہوا۔ اور پیپلزپارٹی کو تو چاہیے تھا کہ ان 15سالوں میں صوبے کی قسمت بدل کر مرکز میں حکومت لانے کے لیے عوام کے پاس جاتی۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ وہ کس منہ سے عوام میں جائے؟ لیکن اس کے برعکس سندھ میں آج بھی وہی مسائل ہیں جو بلوچستان، کے پی کے، پنجاب ، گلگت بلتستان میں ہیں۔ تو پھر فرق کیا ہے؟ لہٰذااگر یہ کہتے ہیں کہ انہیں دوبارہ اقتدار ملے تو ان سے یہ بھی پوچھا جائے کہ کیا وہ ایسا دعویٰ کرنے کے مجاز ہیں؟ لہٰذامقتدرہ قوتیں اس وقت ذاتی غصے اور لڑائی کی وجہ سے ملک کی سب سے بڑی جماعت کے خلاف جا رہی ہےں۔ تبھی پی ٹی آئی کی سیاسی مشکلات کم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ پارٹی کمزور سے کمزور ہو رہی ہے، مگر ووٹر ٹس سے مس نہیں ہو رہا۔ بڑے بڑے رہنما پارٹی کو خیرباد کہہ رہے ہیں اور پی ٹی آئی کو بطور سیاسی جماعت لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں مل رہی۔ انہیں جلسے کرنے کی آزادی ہے نہ انتخابی مہم چلانے کی سہولت۔ پنجاب ہی نہیں‘ خیبر پختونخوا میں بھی یہی صورتحال ہے، وہاں بھی پارٹی ورکرز سخت پریشان ہیں، مگر حوصلے بلند ہیں۔ اسی پر پشاور ہائیکورٹ نے گزشتہ روز سخت ریمارکس دیے کہ ان کے احکامات پر عمل درآمد نہیں ہو رہا اور پی ٹی آئی کو سیاسی سرگرمیاں نہیں کرنے دی جا رہیں۔ پشاور ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے ”ایسالگ رہا ہے کہ نگران حکومت اور الیکشن کمیشن فیل ہوگئے ہیں۔ باقی سیاسی پارٹیاں جلسے کر رہی ہیں مگر پی ٹی آئی کو یہ آزادی نہیں۔ شفاف الیکشن نہیں کروا سکتے تو پھر چیف الیکشن کمشنر کس کام کے ہیں“۔خیر اگر حالات یہ ہوں تو میرے خیال میں یہ ملک کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔ اور پھر اس کے بعد الیکشن کی طرف جانا ہی اپنی جگہ ایک سوال ہے۔ لہٰذامیں تو یہی کہوں گا کہ اس قسم کے ہتھکنڈوں سے اس وقت ملک عالمی تنہائی کا شکار ہو رہا ہے۔ لہٰذاایک اچھی قیادت جب بھی اس ملک میں پروان چڑھنے لگتی ہے تو عین اُسی وقت کہیں سے کوئی نہ کوئی مسئلہ آڑے آجاتا ہے۔ میں یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ہم تحریک انصاف کے کبھی سپورٹر نہیں رہے، میں توآج تک کبھی بنی گالہیا زمان پارک نہیں گیا، لیکن ہم پاکستانی ہیں، اور پاکستان کے لیے جو بہتر ہے ہم اُنہیں سپورٹ کر یں گے۔ اور جو وطن عزیز کے لیے برا کر رہا ہے ہم اُس کو کبھی سپورٹ نہیں کریں گے۔ کیوں کہ پاکستان ہے تو ہم ہیں، یہ پاکستان امانت ہے ہمارے پاس قائداعظم کی، یہ امانت ہے اُن شہیدوں کی جنہوں نے پاکستان کے لیے قربانیاں دیں۔ اس لیے ہمیں ڈرنے، جھکنے اور بکنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ہم نے پی ٹی آئی کے حق میں کبھی کالم لکھا ہے تو اُس کی غلط پالیسیوں پر کھل کر تنقید بھی کی ہے۔ لہٰذاان آزمائے ہوﺅں کا ساتھ دینے کے بجائے اس وقت مقتدرہ قوتوں کو سچ کا ساتھ دینا چاہیے،یقین مانیں، یہ وہ آزمائے ہوئے لوگ ہیں، جو ملک کو ایسے نچوڑ رہے ہیں جیسے ایک گنے کا جوس نکالنے کے لیے بار بار اُسے نچوڑا جاتا ہے۔ یعنی تین بار ن لیگ اور 3بار ہی پیپلزپارٹی ملک کو نچوڑ چکی ہے، لہٰذااب اس میں سے کیا نکالنا ہے،ا نہوں نے۔لہٰذاصرف ذاتی غصے کی وجہ سے ان لوگوں کو آگے لایا جائے تو کون انہیں سمجھدار کہے گا۔ قصہ مختصر یہ کہ اس وقت پی ڈی ایم جو اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہی ہے کی جماعتیں عمران خان کے ووٹ بینک کو نوچنے کی تیاریوں میں ہیں۔بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی سمیت پی ڈی ایم کی جماعتیں طاقتور حلقوں کی خوشنودی کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے سرگرداں ہیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ مستقبل میں بننے والی حکومت میں اپنا زیادہ سے زیادہ حصہ یقینی بنانے کے لیے پی ڈی ایم اپنے چھبیس نکاتی لائحہ عمل کو بھی بھول چکی ہے۔ مقتدر حلقوں کی خوشنودی کی اس دوڑ میں ن لیگ نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ان کی پالیسیوں کی وجہ سے ان کا مستقبل تو روشن ہے لیکن ان کی تابعداری کی وجہ سے اس وقت ملک میں افراتفری اور بے چینی کا عالم ہے۔ اللہ ہم سب کو اس پریشانی سے نکالے!(آمین)