سانحہ سیالکوٹ: مذمتی بیان دینے والے ہی قصور وار ہیں!

سانحہ موٹروے تو سب کو یاد ہوگا ، جب ایک خاتون کے ساتھ اُس کے بچوں کے سامنے اجتماعی زیادتی کی گئی تھی۔ اس واقعہ نے پوری قوم کو جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا۔ ”پوری قوم“ لکھنا شاید یہاں مناسب نہیں کیوں کہ اس سانحے پر ہماری قوم کے ایک حصے کو ”خوشی“ بھی ہوئی تھی۔اس کی دلیل کے لیے میں ایک واقعہ پیش کرنا چاہتا ہوں ۔ یہ اُنہی دنوں کی بات ہے کہ میں ایک گراسری سٹور پر گیا، ضرورت کی ایک دو چیزیں خریدنے کے بعد کاﺅنٹر پر پہنچاتو وہاں قدرے رش تھا، اس لیے تھوڑی دیر رکنا پڑا۔ وہیں دو ورکرز ٹائپ لڑکے جن کی عمر 22، 24سال ہوگی، حلیے سے زیادہ پڑھے لکھنے نہیں لگ رہے تھے۔ آپس میں سانحہ موٹروے کو ڈسکس کر رہے تھے۔ اُن کی آواز نہ چاہتے ہوئے میں بھی مجھے سنائی دے رہی تھی۔ ساری باتیں ایک طرف مگر ایک بات کا مجھے خاصا صدمہ ہوا کہ وہ لڑکے ملزم کو داد دے رہے تھے کہ اُس نے ”صحیح ہاتھ صاف کیا ہے“اور ساتھ ہی خاتون کے بارے میں بھی ایسی باتیں کہہ رہے تھے کہ سر شرم سے جھک جائے۔ اُن کی ایسی باتوں نے یقین مانیں مجھے چونکا دیا۔ میں نے حیرانگی سے اُن کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ کیا اُنہوں نے اُس خاتون کو دیکھا ہے؟ اُنہوں نے کہا نہیں! اورساتھ ایک اور برملا جواب بھی دے مارا کہ بھائی جان! جس مہنگی گاڑی میں وہ آئی تھی، کوئی عام خاتون نہیں ہوسکتی.... یقین مانیں! اُن کی یہ باتیں سُن کر مجھ پر سکتہ سا ہوگیااور میرا واپس گھر آنا مشکل ہوگیا۔ میں راستے میں بھی یہی سوچتا رہا کہ ہم بے حسی اور جہالت میں کس قدر آگے نکل چکے ہیں،بلکہ انتہا کو چھو رہے ہیں؟ اُس وقت ذہن میں سوال بھی آرہے تھے کہ ہماری بحیثت قوم بگاڑ کا آخر ذمہ دار کون ہے؟ کس نے ہمیں ذہنی طور پر کرپٹ ، بے حس، غلیظ اور لاپرواہ کر دیا ہے کہ ہماری سوچ اور کردار میں کبھی بہتری آہی نہیں سکتی۔خیر اس کے برعکس اُن دو لڑکوں کی باتوں سے ایک بات ضرور سمجھنے اور سیکھنے کو ملی کہ اس طرح کی سوچ ایک دم نہیں آتی بلکہ دہائیوں سے ہماری قوم کو اس قدر ذہنی پسماندہ بنا دیا گیا ہے کہ اُسے علم ہی نہیں ہے کہ اُس کے لیے اچھا کیا ہے اور برا کیا ہے! اور اب اس طرح کے واقعات تو روٹین کا حصہ لگنا شروع ہوگئے ہیں! اب حالیہ سیالکوٹ سانحہ کو ہی دیکھ لیں، جس کے بعد پوری قوم انگشت بدنداں نظر آرہی ہے ۔ معذرت کے ساتھ مجھے اُتنا شدید دکھ شاید نہیں ہوا جتنا ہونا چاہیے تھا کیوں کہ (اللہ کرے میں غلط ہوں ) یہ نہ تو پہلا واقعہ تھا اور نہ ہی یہ آخری ہوگا۔ایسا میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ آپ جو بوتے ہیں وہی کاٹتے ہیں۔ ایک سادہ سی مثال لے لیں کہ شاید قارئین کو سمجھ آجائے کہ آخر اس ملک میں چل کیا رہا ہے۔ یعنی جب ہم دودھ کو کیتلی میں ڈال کر چولہے پر رکھتے ہیں، اورنیچے آگ جلا دیتے ہیں، تھوڑی دیر میں جب دودھ ابل کر کیتلی سے باہر آ جاتا ہے تو ہم دودھ ہی کے خلاف ایک مذمتی بیان جاری کرتے ہیں کہ دودھ نے ہمارا سر شرم سے جھکا دیا اور یہ بھول جاتے ہیں کہ کیتلی کے نیچے آگ ہم نے خود جلائی تھی۔الغرض ہم دودھ کو اپنے مقصد کے لیے اُبال لیتے ہیں لیکن جب وہ اپنی حدود سے باہر نکل آتا ہے تو پھر ہم سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ یہی حال ریاست کے ٹھیکیداروں کا ہے، کہ اسے ٹھیکے پر دینے والے جب اپنے استعمال کے لیے گروہ بندی تشکیل دیتے ہیں تو وہ اس کو سمیٹتے نہیں بلکہ اُسے عوام پر چھوڑ دیتے ہیں۔ تبھی تو ہمارے معاشرے میں مشال خان کی اندوہناک موت، بہاولپور میں شاگرد کے ہاتھوں استاد کا قتل، کوٹ رادھا کشن میں مسیحی جوڑے کو بھٹی میں زندہ جلادینے کا واقعہ،خوشاب میں سیکورٹی گارڈ کا بینک منیجر کو گولی مارنا اور پھر 2009 میں گوجرہ میں عیسائیوں کے چالیس گھر جلا دینا۔2013لاہور کی جوزف کالونی میں بھی ایک سو سے زائد مسیحیوں کے گھر وں کوراکھ کا ڈھیر بنا دیناجیسے بے شمار واقعات جنم لیتے ہیں۔ خیر! یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کب تک ایسا چلتا رہے گا؟ کیا ریاستی ذمہ داران کو ہوش ہے کہ ریاست میں موجود قوانین کا ڈر اُس کے باسیوں کے اندرسے آہستہ آہستہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ریاستی رٹ اتنی کمزور تو شاید میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی نہیں دیکھی۔ یعنی یہ ہر وقت مصلحت کا شکار ہےں، اُنہیں علم ہی نہیں کرنا کیا ہے؟ اس وقت پوری دنیا میں پاکستان کا نام خراب ہو رہا ہے اور ہمارے ”آقا“ صرف مذمتی بیان داغ رہے ہیں۔ جیسے وزیرا عظم عمران خان نے سیالکوٹ واقعہ پر کہا،پاکستان کےلئے شرم کا دن ہے۔ عثمان بزدار نے کہا،ذمہ دار عناصر انسان کہلانے کے حقدار نہیں۔ تحریک لبیک پاکستان نے کہا،ہم اس افسوس ناک واقعہ کی شدیدالفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔طاہر اشرفی نے کہا،بطور مسلمان میں اس واقعے پر شرمندہ ہوں۔ سراج الحق نے کہا،واقعہ انتہائی قابل افسوس اور اسلام و شرفِ انسانیت کی توہین ہے۔مولانا طارق جمیل نے کہا،اسلام میں تشدد اورشدت پسندی کی کوئی جگہ نہیں۔علامہ سید ظفراللہ شاہ نے فرمایا،ایسے پ±ر تشدد واقعات کسی نئی قانون سازی کے متقاضی ہیں۔سابق وفاقی وزیر پرویز رشید نے کہا ،میں اپنے ہم وطنو ںکو سمجھانے میں ناکام ہوا ہوں، سری لنکا !میں آپ کا مجرم ہوں۔جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ،یہ بہیمانہ قتل انتہائی قابل مذمت اور شرمناک ہے۔فواد چوہدری نے کہا ،جب تک اگلا واقعہ نہ ہو یہ بے حسی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے۔پنجاب حکومت کے ترجمان حسان خاور نے کہا، غفلت پر پولیس کے خلاف کارروائی کریں گے۔وغیرہ یعنی سبھی اگلے سانحے کے ہونے کا انتظار کررہے ہیں!اور میرے خیال میں یہ سب مذمتی بیان دینے والے ہی اس سانحے کے ذمہ داران ہیں، اگر یہ دل سے چاہیں، تو یہ سب آج بھی رک سکتا ہے، مگر یہ نہیں کریں گے! حقیقت میں ان لوگوں کے پولیس مقابلے ہونے چاہیئں! یعنی اگر سب نے بیانات پر ہی گزارا کرنا ہے تو ملک کو کس نے سنبھالنا ہے؟ اس وقت ملک بھر میں ساڑھے 9لاکھ فوج، ایک لاکھ کے قریب رینجرز، پولیس بیورو کے مطابق ملک بھر میں 4لاکھ پولیس اہلکار اور 5لاکھ کے قریب رضاکار موجود ہیں۔ اگر ان سب کے ہوتے ہوئے بھی حکومتی رٹ قائم نہیں ہوسکتی تو پھر ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔ میرے خیال میں حکومت کو اس چیز پر تو غور کرنا چاہیے کہ کیا ریاستیں ایسی ہوتی ہیں؟ کہ عوام خود ہی ملزم ہو، خود ہی منصف بن جائے اور پھر خود ہی مدعی بھی بن جائے؟ حد ہوتی ہے ہر چیز کی؟ معذرت کے ساتھ ہم تو اس ملک کو چنگیز خان اور ہلاکو خان کے دور میں دھکیل رہے ہیں۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکمرانوں کو بنانے والوں کے حوالے سے بھی لگتا ہے کہ اُنہیں ملک سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اپنے مفاد کے لیے وہ گروپس بناتے ہیں، اُنہیں استعمال کرتے ہیں اور پھر اُنہیں معاشرے میں خرابی پیدا کرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیتے ہیں۔ تبھی دنیا بھر میں ہمارے معاشرے اور پاسپورٹ کی عزت ختم ہو چکی ہے، اور پھر پریانتھا کمارا کے ساتھ ہم نے جو کچھ کیا کیا اُس کے بعد لگتا ہے کہ ہمارے بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں پر کیا قیامت گزری ہوگی، کیا کسی کو اس بات سے غرض ہے کہ وہ کس طرح منہ چھپاتے پھر رہے ہوں گے؟ کیا وہ اس وقت یہ نہیں پوچھ رہے ہوں گے کہ خان صاحب نے تو پاسپورٹ کی عزت بڑھانے کا وعدہ کیا تھا؟ لیکن کہا ں ہے عزت؟ ان واقعات کے بعد ہمارے پاسپورٹ کی عزت کیسے بڑھے گی؟ بہرکیف سمجھ سے باہر ہے کہ کون ہے جو پاکستان کودرندوں کی بستی بنا رہا ہے۔ کون ہے جس نے معاشرے میں جاہلیت بھری انتہا پسندی بھر دی ہے، خدارا! ہمارے حکمران ہوش کے ناخن لیں ،سر جوڑ کر بیٹھیں اور سوچیں کہ غلطی کہاں ہوئی کہ پورا معاشرہ مذہب مسلک سیاست نظریات کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم کے بدترین عمل سے گزر رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے آئینے میں آپ کی کٹس میں ڈھلتے ہوئے معاشرے کی بدصورتی تصویر دیکھ سکتے ہیں جہاں زبانیں مخالفین کے خلاف بسا اوقات گھونسوں اور خنجروں کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔جہاں مذہب کے نام پر فساد پیدا کرنا آسان اور سہولت آمیز کام محسوس ہو وہ معاشرہ آتش فشاں کے دہانے پر موجود ہوتا ہے۔جہاں سینکڑوں لوگ کسی پر ظلم ہوتا دیکھتے ہیں تو تماشبین کی طرح نظارہ کرتے ہیں۔ ویڈیو بناتے ہیں، ان کے اندر احساس کی کوئی رمق بیدار نہیں ہوتی۔وہاں یہ سوال اٹھانا بہت ضروری ہے کہ غلطی کہاں ہوئی؟معاشرہ کیسے بے حسی کے اس زوال تک پہنچا ؟ ہمارے تعلیمی نصاب میں کوئی سنگین کمی تھی؟منبر اور محراب سے دیے جانے والے خطبوں میں کوئی سقم تھا۔اہل اختیار کی بنائی ہوئی پالیسیوں میں کہیں اس نا انصافی اور اس بے حسی کے بیج بوئے گئے۔ایسے کسی سانحے میں ملوث یا تماش بین کی طرح شریک ہجوم کے بارے میں معلومات اکٹھی کی جائیں تو میرا یقین ہے کہ ان میں 99.9فیصد افراد غربت جہالت اور بے روزگاری کے مارے ہوئے ملیں گے۔ آگ کہیں سے لگنی شروع ہوئی تھی، تو اسے بجھانے کے لیے کوئی آگے نہیں بڑھا۔بدقسمتی سے اس بڑھتی ہوئی آگ کے ساتھ معاشرے کے بہت سے اسٹیک ہولڈرز نے اپنے مفادات وابستہ کیے ہیں۔ لغرض قصہ مختصر کہ ایک آدھ دن میں پریانتھا کمارا کی لاش کو تابوت میں ڈال کر سری لنکا روانہ کر دیا جائے گا جہاں اُس کی بیوی اور بچے کوئلہ بنی یہ لاش وصول کریں گے۔ اُس کے بعد ہم بے شک اگلے سو سال تک یہ نعرے لگاتے رہیں کہ ہمارا دین امن و آشتی کا درس دیتا ہے، پاکستان اقلیتوں کے لیے سب سے محفوظ ملک ہے، ہم بے حد مہمان نواز قوم ہیں۔ کسی کوہماری بات پر یقین نہیں آئے گا۔پریانتھا کمارا کی لاش ہمیں ہانٹ کرتی رہے گی!اور ہم لاکھ کہتے رہیں گے یہ قصور ہم سے نہیں ہوا۔ لیکن دنیا کہے گی کہ جس نے کیا وہ بھی تمہیں میں سے تھا۔ لہٰذامیں پھر یہی کہوں گا کہ حکومت کو بین المذہبی اور بین الثقافتی معاشرے کو تشکیل دینے کی ضرورت ہے ، اور اسلام کی روسے یہ بتانے کی ضرورت کہ انسانیت سے بڑا کوئی مذہب نہیں ہوتا کہ بقول شاعر مجھے کافر کہوگے تو تمہارا کیا بھلا ہوگا روز محشر میرا بھی وہی خدا نکلا تو تیرا کیا ہوگا #Sialkot incident #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan