ہماری عدلیہ بھی ”انصاف“ کی منتظر !

26ویں آئینی ترمیم کے اثرات اس قدر شدید ہیں کہ وہ تمام صوبوں کے ہائیکورٹس پر بھی اثر انداز ہورہے ہیں،،،لگ ہی نہیں رہا کہ کوئی بھی ادارہ میرٹ پر چل رہا ہے بلکہ یوں محسوس کیا جا رہا ہے کہ جیسے اسے کہیں سے کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ آپ اس چیز کا یہیں سے اندازہ لگا لیں کہ گزشتہ روز اسلام آباد ، پشاور، سندھ اور بلوچستان ہائیکورٹس کے مستقل چیف جسٹس صاحبان کا تقرر کر دیا گیا، جس کے مطابق جسٹس سرفراز ڈوگر کو اسلام آباد ہائیکورٹ، جسٹس ایس ایم عتیق شاہ کوپشاور ہائیکورٹ، جسٹس روزی خان کو بلوچستان ہائیکورٹ جبکہ جسٹس محمد جنید غفارکو سندھ ہائیکورٹ کے مستقل چیف جسٹس کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔ مطلب! سینیارٹی کی بنیاد پر چیف جسٹس بننے کے بجائے موسٹ سینئر ججز کے نام جوڈیشل کمیشن میں جائیں گے جس کے بعد وہاں فیصلہ ہوگا کہ متعلقہ کورٹ کا چیف جسٹس کون ہوگا؟ یہ یقینا ملاوٹ شدہ اصول ہے،،، جسے کسی فورم پر بھی سراہا نہیں جا سکتا۔ اور اسی چیز پر مذکورہ اجلاس کے آغاز سے قبل ہی جوڈیشل کمیشن کے رُکن سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے اعتراض کیا تھا کہ چاروں ہائی کورٹوں میں مستقل چیف جسٹسز کی تقرری سے قبل سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف دائر درخواستوں کا فیصلہ ہونا چاہیے۔ اس بات پر اپوزیشن کے دو اراکین اور وزیر قانون خیبرپختوا نے بھی انکی رائے سے اتفاق کیا، تاہم اس اعتراض کو بالکل اسی طرح مسترد کردیا گیا جس طرح ماضی میں جسٹس منصور علی شاہ کے بیانات و فیصلوں کو مسترد کیا جاتا رہا ہے۔ معذرت کے ساتھ اب ہوگا یہ کہ سپریم کورٹ بھی اپنی ، ہائیکورٹس بھی اپنی ، دیگر عدالتیں تو ہیں ہی اپنی،،، ایسے میں گلیاں ہوجان سنجیاں تے وچ مرزا یار پھرے والا حساب ہوگیا ہے۔ کیوں کہ اب عدالتوں میں سیاسی وابستگیوں والے بہت سے ججز تعینات ہوگئے ہیں،،، بلکہ سیاستدان یا دیگر ادارے اپنی اپنی فہرستیں تیار کرکے بھجوا رہے ہیں کہ کس جج کو کس کورٹ کا حصہ بنایا جائے اور اسے کونسا عہدہ دیا جائے۔ ایسا اس لیے بھی ”جرم“ سمجھا ہے کیوں کہ جس سیاستدان کی وساطت سے کوئی بھی جج تعینات کیا جائے گا تو وہ ساری زندگی اُس شخصیت، اُس سیاسی جماعت یا اُس ادارے کی مرہون منت کام کرے گا، کبھی اپنے ”احسان مندوں“ کے خلاف فیصلہ نہیں دے سکے گا، جبکہ وہ کبھی عدلیہ کی بہتری کے لیے کام نہیں کرے گا، وہ کبھی عدلیہ کی آزادی کے بارے میں نہیں سوچے گا۔ جبکہ اس کے برعکس میرٹ پر تعینات ہونے والا جج یا مقابلے کا امتحان پاس کرکے آنے والے جج کے پاس ایک وژن ہوگا، ایک عزم ہوگا، جوش ہوگااور ولولہ ہوگا۔ ورنہ تو ماضی میں ایسے سفارشی ججز بھی تعینات رہے جنہیں فیصلے لکھنے بھی نہیں آتے تھے۔ بادی النظر میں ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ بڑے بڑے سیاسی فیصلے کروانے میں ہمارے سیاستدانوں کو دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ہاں امریکا میں بھی شروع شروع میں عدالتی فیصلوں کا بہت بڑا عمل دخل سیاست کی صورت میں نکلتا تھا اور اس حوالے سے عدلیہ پر ہمیشہ دباﺅ رہتا تھا۔ اسی دباﺅ کے حوالے سے امریکی سپریم کورٹ کے مشہور جج جسٹس اولیور ہومز نے امریکی سپریم کورٹ کے ایک مشہور فیصلے میں اختلافی نوٹ لکھا، اس میں ایک بڑا دل چسپ جملہ لکھا کہ مشکل مقدمات کی طرح بڑے کیسز کے نتیجے میں جو قانون سامنے آتا ہے وہ بہت برا ہوتا ہے۔ بڑے کیسز سے مراد وہ جن میں ججز پر بہت زیادہ دباو¿ ہوتا ہے، جو میڈیا پر بہت زیادہ نمایاں ہوئے ہیں جن سے لوگوں کو بہت زیادہ توقعات وابستہ ہوں، جب ان کیسز کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو ہومز کے بقول وہ صحیح فیصلہ نہیں ہوتا، ہارورڈ کے ایک پروفیسر کی کتاب کا عنوان یہی ہے کہ ”بڑے مقدمات برے قانون کو جنم دیتے ہیں“، اس کتاب میں انہوں نے امریکا کے چوبیس بڑے بڑے کیسز کو جمع کرکے تجزیہ کیا کہ ان کے نتیجے میں جو قانون بنے وہ صحیح تھے یا غلط۔ پھر اس کتاب میں ماضی میں امریکا کی عدالتوں میں ”سیاسی ججز“ کی بھرتیوں اور اس میں ہونے والے نقصانات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے، مصنف لکھتا ہے کہ کسی بھی عدالت میں ایک جج کی بغیر میرٹ کے بھرتی پورے سسٹم پر بھاری پڑتی ہے، کیوں کہ عدلیہ میں ایک غلط فیصلہ پورے سسٹم میں ایک ”حوالے“ کے طور پر لکھا جاتا ہے۔ خیر انہی تجزیوں اور تبصروں کے نتیجے میں قانون آگے بڑھتا ہے اور اصلاح کا موقع ملتا ہے۔ لہٰذااگر آپ عدلیہ کی بہتری چاہتے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ دنیا اس سسٹم کی تعریف کرے اور ملک آگے بڑھے تو بہتر یہی ہے کہ بیوروکریسی کی طرز پر عدلیہ میں بھی تعیناتیاں کی جائیں،یعنی ججز کی کوالیفیکیشن اور میرٹ بالکل سی ایس پی افسران کی طرز پر ہونا چاہیے، جیسے ہی کوئی وکیل سول جج بھرتی ہو، اُس کے بعد اُس کی 2سال کی ٹریننگ ہو، جس کے بعد وہ مقدمات سنے اور سینیارٹی کی بنیاد پر اُس کی ترقی ہوتی رہے۔ اس وقت دنیا بھر کے ٹاپ رینکنگ عدالتی نظام جن میں سویڈن، نیوزی لینڈ، ناروے، ڈنمارک، ہالینڈ، برطانیہ، آسٹریلیا، امریکا اور دیگر ممالک میں ججز کی تعیناتی اسی طرز پر کی جاتی ہے، وہاں عدلیہ میں سیاسی عمل دخل تو بہت دور کی بات اس حوالے سے سوچنا بھی گناہ کبیرہ میں شمار کیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ ججز ٹی وی کے پروگرام بھی نہیں دیکھتے اور نہ ہی اخبار دیکھتے ہیں کہ اُن کی رائے نہ بدل جائے، جبکہ یہاں پر ججز ہر شادی بیاہ، تقریب بلکہ ہر جگہ پر نظر آتے ہیں، یہاں تک کہ کسی ریسٹورینٹ کے افتتاح بھی اکا دکا ججز کو دیکھا گیا ہے۔ یہ اسی لیے ہوتا ہے کہ یہاں ججز کی تعیناتیاں سیاسی، اور طاقتور افراد کرتے ہیں۔ تبھی ہم 139ممالک کی فہرست میں 130ویں نمبر پر موجود ہیں۔ لہٰذافوری طور پر جوڈیشل کمیشن کی کاروائی کے طریقہ کار اور اس ضمن میں مرتب کیے جانے والے رولز کا ازسر نو جائزہ لے کر اسے قانون سازوں کی منشا سے ہم آہنگ بنایا جائے۔ ہر ہائیکورٹ کی سطح پر معزز ججوں کی ایک کمیٹی جج کے طور پر تعیناتی کے لیے ہر قانونی شعبے سے موزوں ناموں کی فہرست ایک مسلسل اور شفاف عمل کے ذریعے مرتب کرے۔ اس فہرست کو مرتب کرنے میں وکلا کی تعلیمی کارکردگی اور پیشہ وارانہ صلاحیت دونوں کو مد نظر رکھا جائے۔ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ عدالتوں میں پیش ہونے والے پرائیویٹ پریکٹشنرز، قانون کی تدریس سے منسلک، قانون کے محقق، ماتحت علیہ کے ججز، انسانی حقوق کے لیے خدمات فراہم کرنے والے، حکومتی اداروں اور دیگر کارپوریشنز کے قانونی شعبوں سے وابستہ، پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ، اٹارنی جنرل آفس اور ایڈووکیٹ جنرل آفس کے لا آفیسرز، نیز کہ قانون کے ہر شعبہ میں غیر معمولی کارکردگی کے حامل اہل قانون دانوں کو اس فہرست میں شامل کیا جائے اور جوڈیشل کمیشن میں کسی بھی نام کو تجویز کرنے کی بجائے کمیشن مذکورہ فہرست میں شامل قانون دانوں پر غور و خوض اور حقیقی مشاورت کے بعد کثرت رائے سے ان میں سے قابل ترین ناموں کا انتخاب کرکے پارلیمانی کمیٹی کو بھیجے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں ججز کی تعیناتی کے لیے ایسا معیاری نظام متعارف کروایا جائے جس پر کوئی انگلی نہ اُٹھا سکے، جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ اس کے لیے آپ سی ایس ایس کے امتحانات یا پی سی ایس کے امتحانی نظام سے بھی مدد لے سکتے ہیں۔ بہرکیف اگر ایسا نہیں ہوتا تو اعلیٰ عدلیہ پر کوئی تنقید تو نہیں کر سکتا مگر اس کی کارکردگی کے حوالے سے ”خطوط“ ضرور لکھے جائیں گے ،،، جیسا کہ اب تک ہو رہا ہے،،، اور پھر مرضی کے فیصلے بھی مسلط کیے جائیں گے، جیسے کہ گزشتہ ہفتے مخصوص سیٹوں کا فیصلہ سپریم کورٹ کی جانب سے آیا ہے۔ کہ ایک طرف سپریم کورٹ نے چار مرتبہ کہا کہ آپ تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں جاری کریں،،، مگر مجال ہے کہ الیکشن کمیشن نے کان دھرا ہو۔ پھر 26ویں آئینی ترمیم آگئی جس کے بعد تو یہ ویسے ہی شیر ہوگئے۔ پھر کیا تھا آئینی بینچ بنا اور فیصلہ تحریک انصاف کے خلاف آگیا اور اس سے سیٹیں لے کر حکمران اتحاد کو ایسے بانٹ دی گئیں جیسے ”بندر بانٹ“ بھی شرما جائے۔ لہٰذااب ہوگا یہ کہ جب بھی نئی حکومت بنتی ہے، تو پرانی حکومت کے افراد خواہ انہوں نے کچھ کیا ہے یا نہیں،،، وہ جیل ہی میں جائیں گے۔ اُن پر طرح طرح کے کیسز بنیں گے۔ آپ خود دیکھ لیں کہ کون کون جیل میں نہیں گیا،،، بے نظیر، زرداری، نواز شریف، شہباز شریف، یوسف رضا گیلانی، بانی پی ٹی آئی، شاہ محمود قریشی، راجہ پرویز اشرف، شاہد خاقان عباسی، اسحاق ڈار ، خورشید شاہ وغیرہ سبھی کو جیل یاترہ کرنا پڑی ہے۔یعنی جب بھی حکومت بدلتی ہے تو یہی عدالتیں استعمال ہوتی ہیں جس کی وجہ سے عدلیہ کا ادارہ انہوں نے کبھی مضبوط نہیں ہونے دیا۔ کبھی انہوں نے اس حوالے سے کوششوں کو پروان بھی نہیں چڑھنے دیا۔ لہٰذااگر ہمیں عدلیہ کے وقار کو بلند کرنا ہے تو ہمیں فوری انصاف مہیا کرنا ہوگا، اگر فوری انصاف ہوگا تو عدالتوں میں موجود 22لاکھ زیر التواءمقدموں کا فیصلہ بھی ہو جائے گا، جن سے کوئی نہیں کم و بیش 50لاکھ خاندان جڑے ہیں۔ میرے خیال میں اس وقت پاکستان میں ججز سب سے زیادہ تنخواہ لینے والا طبقہ ہے، جیسے سپریم کورٹ کے ججز کی تنخواہ لیفٹیننٹ جنرل اور گریڈ 22کے بیوروکریٹ سے زیادہ ہے،اس لیے ہمیں قوم کے بارے میں سوچنا چاہیے کہ اُنہیں کیسے بہترین انصاف فراہم کرنا چاہیے ، یہ تبھی ممکن ہوگا جب میرٹ پر قابل ججز کی بھرتیاں ہوں گی ورنہ ہمارا کچھ نہیں ہوسکتا! اور رہی بات ججز کی تعیناتی کے حوالے سے تو یہ سراسر فیورٹزم ہے اور کچھ نہیں ،،،ایسا کرنے سے ہم وقتی فائدے تو حاصل کرسکتے ہیں مگر دیرپا نہیں،،، اور پھر اگر حکمرانوں کے مخالفین یعنی اپوزیشن کی حکومت برسراقتدار آگئی تو یہی 26ویں ترمیم ان کے گلے پڑ جائے گی،،، اور پھر یہ جیلوں میں ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے کہ ہم سے بہت سی غلطیاں سر زد ہوئیں!