پاکستان کی اشرافیہ اور ہمارا بجٹ

وہ ملک بہت زیادہ خوش قسمت ہوتے ہیں جہاں کی اشرافیہ ملک پر برا وقت آنے پر اپنے خزانے کی تجوریاں حکومت کے لیے کھول دیتے ہیں تاکہ ریاست دوبارہ اپنے پاﺅں پر کھڑی ہو۔ لیکن اس کے برعکس وہ ممالک بدنصیب ہوتے ہیں جہاں کی اشرافیہ یہ کہے کہ ’ہمارے پاس آو¿ گے تو کیا لاو¿ گے۔ ہم تمہارے پاس چل کے آئیں گے تو کیا دو گے۔‘پاکستان بھی شاید انہی ممالک میں سے ایک ہے جہاں اس قسم کی اشرافیہ پائی جاتی ہے۔ ہمارا تو بجٹ بھی انہی اشرافیہ کے ”مسائل“ کو دیکھ کر بنایا جاتا ہے،،،اگر اس اشرافیہ کے کاروبار ی منافع میں رتی برابر بھی فرق آنے لگے تو فوراََ سرکار انہیں ریلیف دیتی ہے،،، یہ ریلیف کیسے ملتا ہے،،، اس کی ایک چھوٹی سی مثال لے لیں،،، کہ اگر آپ کے ملک میں چینی زیادہ پیدا ہوگئی ہے تو آپ اسے بیرون ملک فروخت کرنے کی اجازت دے دیں گے،،، اور پھر اگر اسی چینی کو واپس منگوانا ہو تو پھر حکومت 200ارب روپے تک سبسڈی دیتی ہے کہ چینی مہنگی نہ ہو۔ یعنی اشرافیہ ایک تو چینی بیرون ملک بیچ کر پیسہ کماتی ہے اور پھر درآمد کرنے پر پیسہ کماتی ہے۔ یہ ہیرپھیر چھوٹے لیول پر نہیں بلکہ اوپری سطح پر ہوتا ہے۔ اور کھربوں روپے ڈکارے جاتے ہیں۔ یہ ایک شعبہ کی مثال ہے،،، پورے پاکستان کے بے شمار شعبہ جات میں یہی طریقہ کار اپنا جاتا ہے۔۔ یہ اشرافیہ ایل پی جی گیس درآمد کرتا ہے،،، آپ کو بجلی پیدا کرکے دیتا ہے،،، لیکن وہ آپ سے اس کے عوض کیا لیتا ہے،،، وہ ابھی کل ہی پیش ہونے والے بجٹ کو سامنے رکھ کر آپ خود جائزہ لے لیں کہ حکومت نے مالی سال 25-2024 کا خسارہ بجٹ پیش کیا ، اور اس خسارے والے بجٹ میں آئندہ مالی سال کے لیے 1363 ارب 41 کروڑ سے زائد کی سبسڈیز کی تجویز دی گئی ہے۔یہ سبسڈی کیا آپ کو علم ہے کہ یہ اُن کمپنیوں کو دی جائے گی جو پاکستان میں بجلی پیدا کریں یا نا کریں مگر اُنہیں یہ ادائیگی لازمی کی جانی ہے،،، جبکہ اس کے برعکس ہم نے تعلیم کے لیے محض 40ارب روپے اور صحت کے لیے بھی کم و بیش اتنا ہی بجٹ پیش کیا گیا ہے۔ پھر اشرافیہ کے کمال دیکھیں، ،، ابھی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی اشرافیہ سالانہ 17.4ارب ڈالر یعنی تقریباً 4500ارب روپے کی مراعات لیتی ہے، جس میں پاکستان کا طاقتور کارپوریٹ سیکٹر ملکی GDP کا تقریباً 4.5فیصد یعنی 4.7ارب ڈالر کی مراعات حاصل کرتا ہے جس میں ٹیکس چھوٹ، صنعتوں میں بجلی گیس پر سبسڈی، مفت پیٹرول اور پلاٹ شامل ہیں۔ اسکے علاوہ جاگیردار، زمیندار، وڈیرے اور بڑے بزنس مین جو مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق کی بنا پر پارلیمنٹ میں اثر رکھتے ہیں، مراعات حاصل کرنیوالوں میں پیش پیش ہیں۔ اسی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آبادی کا صرف 20فیصد امیر طبقہ ملکی دولت کا 50فیصد رکھتا ہے جبکہ غریب طبقے کے پاس ملکی دولت کا صرف 7فیصدہے جس سے ملک میں غریب اور امیر کے درمیان واضح فرق نظر آتا ہے جسکی وجہ سے ملک میں مڈل کلاس لوگوں کی تعداد 2009ءمیں42فیصد سے کم ہوکر 2019میں36فیصد رہ گئی اور پاکستان جنوبی ایشیاءمیں ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس میں افغانستان سے پہلے اور خطے کے 6ممالک سے نیچے چلاگیا۔ پاکستان میں دولت کی غیر مساوی تقسیم کے باعث سماجی مسائل پیدا ہورہے ہیں جبکہ حکومتی سطح پر بھی مالی مشکلات درپیش ہیں جس میں پنشن کا بوجھ حکومت کی برداشت سے باہر ہوگیا ہے اور ہر سال 25فیصد اضافے سے 4سال میں پنشن ادائیگی دگنی ہوجاتی ہے جبکہ ہماریGDPگروتھ بمشکل2سے 3فیصد سالانہ ہے۔ بہرحال یہ بات تو طے ہے کہ پاکستان کی اشرافیہ ملک کے 80فیصد وسائل پر قابض ہے۔ اعلیٰ ترین اداروں اور سول بیورو کریسی کے اعلیٰ عہدیدار اور سیاستدان بھی اس اشرافیہ کا حصہ ہیں اور وہ براہ راست یا بالواسطہ اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور ان کو ٹیکس چھوٹیں اور دیگر رعایتیں بہم پہنچانے کا کردار ادا کرتے رہتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ وہ خود بھی ہوس زر اور مراعات میں مبتلا رہتے ہیں اور اپنے بارے میں ہمیشہ یہ تاثر دیتے ہیں کہ ان کے مشاہرے اور مراعات ان کی ضرورت سے کم ہیں اور ان کی سماجی حیثیت اور اعلی رتبے سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ پارلیمنٹرین نہایت خوش دلی سے ان کی تنخواہوں الاﺅنسز اور دیگر مراعات میں اضافے کے لیے قوانین اور قواعد و ضوابط وضع کرتے رہتے ہیں لیکن نچلے درجے کے کم تنخواہ پانے والے ملازمین جو واقعی محتاجی کی زندگی گزارتے ہیں۔ ان کی تنخواہوں میں بھی کبھی کبھار حقیر سا اضافہ کردیا جاتا ہے۔ چونکہ تنخواہ میں ان کا گزارا نہیں ہوتا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کرپشن ان کی مجبوری اور ضرورت ہے لیکن کرپشن سے جو مال ملتا ہے اس کا بھی بڑا حصہ اوپر والے اینٹھ لیتے ہیں۔ یہ ہے ہمارا نظام حکومت۔ مرکز اور دیگر صوبوں میں بھی صورتحال اس سے مختلف نہیں۔ اعلیٰ حکومتی عہدیداروں اور سیاستدانوں کو مراعات دینے پر کثیر وسائل خرچ کیے جاتے ہیں۔ اہم ترین قومی اداروں کے ذمہ داران کا رہن سہن دنیا کے تمام ممالک سے مختلف اور منفرد ہے۔ وہ آزادی کے بعد نہ صرف سیاسی آقا بن بیٹھے ہیں بلکہ ملکی وسائل سے سب سے زیادہ فائدے بھی وہی اٹھارہے ہیں۔ بیورو کریسی سیاستدانوں کو لوٹ مار اور اسراف کا الزام دیتی ہے اور سیاستدان کہتے ہیں کہ بیورو کریسی تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک سیکرٹری پر 5 لاکھ روپے ماہانہ خرچ ہوتا ہے اور اسلام آباد میں مہیا کی گئی رہائش گاہ تین لاکھ سے کم کرایہ پر نہیں ملتی اور اس کے پاس لا محدود اختیارات ہیں۔ حکومتی اخراجات کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بیورو کریسی کا حجم کم کیا جائے۔ اس سے نہ صرف اخراجات میں کمی ہوگی بلکہ محکموں کی استعداد کار میں بھی اضافہ ہوگا۔ اسلام آباد میں بیسیوں بے کاردفاتر عالی شان عمارتوں میں قائم ہیں۔ اسی طرح ملک کے دوسرے حصوں میں بھی ایسے محکمے قائم ہیں جن میں بھاری بھر کم سٹاف ہے۔ وہ وقت اور وسائل کا ضیاع کرنے کے علاوہ عوام کی زندگیوں میں مشکلات پیدا کررہے ہیں۔ ہمارے حکمران، بیورو کریٹ، ججز اور جرنیل بڑے بڑے بنگلوں میں رہتے ہیں اور انہیں تو نوکروں کی فوج بھی مہیا کی گئی ہے۔ وہ ایک لمحے کے لیے بھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ عام آدمی کس طرح کی زندگی گزار رہا ہے یا مر رہا ہے۔ بلکہ وہ تو اپنے ہمسفر نچلے درجے کے ملازمین سے بھی لاتعلق رہتے ہیں۔ وہ ائیرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر غربت مٹانے اور اسی طرح کے دوسرے منصوبے بناتے ہیں۔ سول اور فوجی دونوں حکومتوں کے دور میں حکمرانی کی سطح بہت پست رہی ہے بلکہ کئی ایک نئے آزاد ہونیوالے ملکوں سے بھی بدتر رہی ہے۔ تبھی میں کہتا ہوں کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام شہریوں کے ساتھ برابری کا سلوک کرے اور انہیں تعلیم، صحت اور نقل و حمل کی سہولتیں مہیا کرے۔ تمام وسائل اشرافیہ کی آسودگی اور عیش و آرام پر خرچ ہوجاتے ہیں۔ ہم اگر قائم دائم رہنا چاہتے ہیں تو وی آئی پی کلچر اور اشرافیہ کا ڈھانچہ ختم کرنا ہی ہوگا۔ورنہ یہ آج نہیں تو کل اتنے مضبوط ہو جائیں گے کہ یہ واقعتا اپنے آپ کو ملک کا مالک سمجھنا شروع ہو جائیں گے اور ملک کی باقی 98فیصد عوام کو یہ غلام سے بھی بدتر گمان کریں گے،،، پھر پیچھے کچھ نہیں بچے گا!