جگ جیوندیاں دا میلہ !

17اگست کو سابق صدر جنرل ضیاءالحق کی برسی گزری ، تو ماسوائے اُن کے بیٹے کے جو انہوں نے کالم لکھا کسی نے اُنہیں یاد کرنا بھی گنوارا نہ کیا۔ حالانکہ اُن کے ہاتھوں سے بنائی ہوئی مسلم لیگ نے بھی اُن کی یاد میں کوئی ایک تقریب بھی منعقد نہیں کی۔ میرے خیال میں اگرہم اسے احسان فراموشی کہیں گے تو بہتر ہوگا۔ ایک بھی تقریب انہوں نے اس حوالے سے منعقد نہیں کی ۔ حالانکہ آپ ن لیگ کا جنرل ضیاءالحق کے تعلق کو پڑھ لیں تو آپ کو ہر جگہ یہی لکھا ہوا ملے گا کہ میاں نواز شریف کے جنرل ضیا الحق کے ساتھ فیملی ٹرمز تھے۔ پہلے نواز شریف کو1981ءمیں وزیر خزانہ بنایاگیا، پھر 1985ءمیں انہیں وزیر اعلیٰ پنجاب بنایا، پھر جونیجو کے ساتھ نواز شریف کے اختلاف کی بڑی وجہ تھی کہ وہ اسے بدلنا چاہتا تھا، مگر نواز شریف نے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب 23 اکتوبر کو انتہائی جذباتی تقریر کے بعد اعتماد کا ووٹ مانگا۔ ایوان میں موجود مسلم لیگ کے جملہ اراکین اسمبلی نے، ماسوائے 5 کے بلند آواز اور پر جوش نعروں کے ساتھ اپنی حمایت کا اعلان کیا۔ اور میاں صاحب نے ایوان کا اعتماد حاصل کر کے اپنے سیاسی مستقبل کو بچایا۔ جنرل ضیا اعتماد کے ووٹ کی کارروائی کے ایک ہفتہ بعد لاہور کے دورہ پر آئے تو انہوں نے یہ کہہ کر نواز شریف کی علانیہ حمایت کا اعلان کیا کہ ”ان کا کِلّہ بڑا مضبوط ہے“۔ جس سے ان کی مراد یہ تھی کہ نواز شریف کو ان کی ٹھوس پشت پناہی حاصل ہے۔ انہوں نے بڑے پراسرار انداز میں یہ بھی کہا کہ پیر پگاڑا اور محمد خان جونیجو نواز شریف کو ان کی جگہ سے ہٹانے میں ناکام ہو گئے ہیں۔“ اس کے بعد پھر جب میاں نواز شریف نے پہلی بازر وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا تو بیگم شفیقہ ضیاءالحق (جنرل ضیاءکی بیوی ) نے مسرت کا اظہار کیا اور کہا کہ میں محسوس کرتی ہوں کہ میرا بیٹا وزیراعظم بن گیا۔ انھوں نے میاں نواز شریف کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ نئے وزیراعظم ملک کو موجودہ سیاسی بحران سے نکالیں گے اور پاکستان کے عوام کے مسائل حل کریں گے جیسا کہ وہ پہلے بھی پنجاب میں وزیراعلیٰ کی حیثیت سے ایسا کرچکے ہیں۔ میاں نواز شریف بھی جنرل ضیاءالحق کی تعریف کرتے تھے۔ ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا کہ ”ضیاءالحق صاحب، بھٹو صاحب سے بہتر ہیں۔ ضیاءالحق نے اس ملک کی بڑی خدمت کی ہے اور وہ ملک جو تباہی کے کنارے پر چلا گیا تھا، انھوں نے اس کی معیشت کو دوبارہ بحال کیا۔ ضیاءالحق پر کئی لوگ تنقید کرتے ہیں۔ ضیاءالحق صاحب نے جب ”ٹیک اوور“ کیا تھا تو انھوں نے شکر کے نفل ادا کیے تھے“ ”ہیرالڈ“ کو دسمبر 1990ءمیں انٹرویو دیتے ہوئے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے کہا تھا ”فوج کی ترجیحات اور ملک کی ترجیحات ایک ہیں۔ آئین میں فوج کا اپنا کردار ہے اور میں وزیراعظم کی حیثیت سے پاکستان میں جو کچھ ہوتا ہے، کنٹرول کرتا ہوں۔ اس لیے میں نہیں سمجھتا کہ کسی کے ساتھ کسی قسم کا تنازع کا کوئی سوال ہے“ خیر ان کے فیملی مراسم کے حوالے سے آگے چلتے ہیں تو آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ 1990ءمیں وزیراعظم کی حلف برداری تقریب میں جنرل ضیاء الحق کے صاحبزادے اعجازالحق اور بیٹی زین ضیا بھی شریک ہوئی۔ نوازشریف حلف اٹھانے کے بعد چائے کی میز کی طرف جا رہے تھے تو مرحوم ضیاءالحق کی چہیتی بیٹی نے نواز شریف کو مبارک باد دیتے ہوئے سوال کیا کہ آپ بادشاہ بن گئے ہیں۔ کیا اب بھی ہمارے گھر آیا کریں گے۔ نواز رشریف نے زین ضیاءکے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ ضرور آﺅں گا۔ تم میرے لیے دعا کرو۔ یہ تھے میاں نواز شریف کے جنرل ضیاءالحق کی فیملی سے تعلقات۔ پھر یہی نہیں بلکہ جنرل ضیاءالحق کے دور کی بیشتر دائیں بازو کی جماعتوں نے بھی کبھی نہیں جنرل ضیاءکی برسی منائی اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی تقریب منعقد کی ہے۔ آپ جماعت اسلامی کو ہی دیکھ لیں، جنرل ضیا الحق کے دور میں، سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں جنگ لڑنے سے لے کر ہر سیاسی محاذ پر جماعت اسلامی جنرل ضیاءکی ہم خیال رہی ۔لیکن جنرل ضیاءکے بعد یہی جماعت اسلامی پہلے نوازشریف کی زیر قیادت اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کا حصہ بنی اور پھر ضیاءاور اس کے ساتھیوں سے قطع تعلق ہوگئی۔ الغرض ان لوگوں نے احسان فراموشی کی حد کر دی ہے، بلکہ انہوں نے تو جنرل ضیاءکی برسی کے دنوں میں عوام کو نام نہاد ریلیف دیا جس میں کم یونٹ استعمال کرنے والے پیچھے رہ گئے، جبکہ اگر آپ کو ریلیف چاہیے تو آپ کو کم از کم 200یونٹ لازمی استعمال کرنا ہوں گے۔اور یہ 14روپے والا ریلیف مستقل نہیں بلکہ 2ماہ کے لیے ہے، بندہ پوچھے اُس کے بعد کیا کریں گے؟ خیر یہ ہمارا آج کا موضوع نہیں ہے، بلکہ موضوع یہ ہے کہ ہم کس قدر احسان فراموش قوم ہیں کہ زندوں کے آگے پیچھے اورمُردوں کی خبر تک نہیں لیتے۔ اس سے تو یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ یہ ”جگ جیوندیاں دے میلے“ ہیں۔ اگر آپ زندہ ہیں، طاقت میں ہیں تو آپ کی اہمیت ہے، آپ کی پہچان ہے، اگر آپ گئے سو گئے! نہیں یقین تو آپ جنرل ضیاءالحق والے حادثے میں جاں بحق ہونے والے بقیہ افراد کے بارے میں بھی دیکھ لیں کہ کتنی تحقیقات ہوئی ہیں اس حوالے سے؟ ان کی اولادوں نے کتنی ان کے قتل کی کتنی تحقیقات کروائی ہیں، چار دہائیاں ہونے کو ہیں لیکن اس سوال کا جواب نہیں مل سکا۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ نہ کوئی اس سوال کو سنجیدگی سے پوچھتا ہے نہ کسی نے اس کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ شہید کی اپنی اولاد نے بھی نہیں۔ اس فوج نے بھی نہیں جس کے نصف درجن سینیئر جرنیل اسی حادثے میں ہلاک ہوئے، نہ امریکہ نے جس کا پاکستان میں سفیر مارا گیا اور نہ ہی اس قوم نے جس کے محبوب صدر کا طیارہ فضا میں پھٹ گیا۔ میں یہ اس لیے نہیں کہہ رہا کہ اب گھڑے مردے اُکھاڑے جائیں لیکن جب کسی معاشرے میں حقائق میسر نہ ہوں تو ایک خلا پیدا ہوتا ہے۔ اس خلا کو لطیفوں، کہانیوں اور سازشی تھیوریز کے ذریعے پر کیا جاتا ہے۔بہرحال اگر بوجوہ جنرل ضیاءالحق کے بارے میں کوئی نہیں سوچ رہا، نہ اُن کے کاموں کو کوئی یاد کر رہا ہے اور نہ ہی اُن کے دور میں ہوئی اصلاحات کو ،،، تو سمجھ لیجیئے کہ زبردستی کی حکمرانی اور عوام پر زبردستی مسلط ہونے والوں کا انجام کیا ہوتا ہے؟ آج اُن کا کوئی نام لیوا نہیں ہے، حتیٰ کہ وہ بھی اُن کا نام لینے سے گریز کررہے ہیں جن پر انہوں نے درجنوں نہیں سینکڑوں احسانات کیے ہیں۔ میرے خیال میں ایسے لیڈرز کسی قوم کے سگے نہیں بن سکتے جو اپنے رفقاءکو یاد نہیں کرتے۔ آج آپ جو کچھ بھی ہیں لیکن آپ اگر اپنا ماضی بھول گئے ہیں تو پھر آپ کامیاب نہیں ہوسکتے۔ بہرکیف جنرل ضیاء الحق 17 اگست 1988ءکو بستی لال کمال میں ایک فضائی حادثے میںہو گئے ، اُس وقت ن لیگ کی طرف سے یہ نعرہ لگایا جاتا تھا کہ ہم ”شہید“ کا مشن پورا کریں گے۔ حالانکہ ان کا مشن تو جمہوریت کے خلاف تھا۔ جنرل ضیاءالحق نے یوم اقبال کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے کہا تھا میں حیران ہوں کہ اس ملک کے لوگوں کے ذہن سے جمہوریت کا کیڑا کیوں نہیں نکلتا۔ ضیاءالحق کا مشن جمہوریت سازی نہیں، جمہوریت کی نفی یا جمہوریت سوزی تھی۔ جمہوریت کے بعض اصول ہیں اور ان کے مطابق ہی ہم نے چلنا ہے۔ سب سے اہم چیز جمہوریت کو چلانے کے لیے یہ ہے کہ عوامی مینڈیٹ کا احترام کیا جائے۔ خواہ کوئی بھی کامیاب ہو کے آئے۔ اس میں دشمنی کی بات نہیں ہے۔ ہار اور جیت کو زندگی اور موت کا مقصد نہیں بنانا چاہیے۔ یہ جمہوریت کا طریقہ نہیں ہے۔ جمہوریت تبھی چل سکتی ہے اگر آپ میں رواداری ہو۔ اگر آپ اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتے تو پھرآپ جمہوریت کے مستحق نہیں ہیں۔ پھر یہاں آمریت کا دور رہے گا۔ جنرل ضیاءالحق کے دور میں سنسر شپ بہت سخت تھا۔ یہاں تک کے علامہ اقبال کے اشعار بھی سنسر کی زد میں آ جاتے۔ ضیاءالحق کا مارشل لا سب سے طویل عرصے تک رہا۔ ہمیشہ اقتدار کی جنگ ہوتی رہی۔ عوام کی بہبود کا پہلو سامنے نہیں آیا۔ عوام کے مینڈیٹ کا احترام کرنے کا خیال کسی کے ذہن میں نہیں آیا۔ پاکستان میں اشرافیہ آئے یا ان کے حامی۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، فرق صرف اس بات سے پڑتا ہے کہ کوئی بھی عوام کے مینڈیٹ کا کتنا احترام کرتا ہے، اگر آپ عوامی مینڈیٹ کا احترام نہیں کرتے تو پھر آپ کو بھی ضیاءکی باقیات گنا جائے گا، تبھی آپ کو بھی اسی طرح بھلا دیا جائے گا!