متفقہ آئینی ترامیم کے بغیر ملک کیسے چل سکتا ہے؟

آخری خبریں آنے تک آئینی ترامیم کے حوالے سے حکومت اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان ایک بار پھر ڈیڈلاک پیدا ہوگیا، جبکہ اس وقت مزے کی بات یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے گھر چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری بھی پہنچ چکے ہیں، جبکہ وہاں پہلے سے پی ٹی آئی وفد بھی موجود ہے۔ بلاول و حکمران اتحاد بدھ کی رات تک مکمل پرُاُمید تھے کہ مولانا فضل الرحمن آئینی ترامیم پر متفق ہو گئے ہیں ، مگر گزشتہ روز انہوں نے تحریک انصاف کے ساتھ مل کر ایک بار پھر حکومت کو دھو ڈالا اور کہا کہ وہ دھونس اور دھمکیوں سے ڈرنے والے نہیں ہیں۔ اُن کے اس بیان سے بظاہر تو یہی لگ رہا ہے کہ موصوف کسی اور کو پیغام دینا چاہ رہے ہیں۔ لیکن ابھی بھی مولانا صاحب تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ”دولہے راجہ“ بنے ہوئے ہیں۔ نہ جانے یہ سلسلہ کہاں تک جائے گا، اس کے بارے میں علم نہیں، لیکن جہاں تک بھی جائے ، اللہ کرے تمام سیاسی جماعتیں اس ترمیم پر متفق ہوں، ورنہ یہ فائدہ پہنچانے کے بجائے یقینا ملک کے لیے نقصان دہ ثابت ہوں گے۔ اور پھر اہم بات یہ ہے کہ مسودے کا رف ڈرافٹ بھی ابھی تک کسی کے ساتھ شیئر نہیں کیا گیا۔ لیکن اتنا ضرور سنا ہے کہ مجوزہ آئینی ترمیم کا حکومتی مسودہ 12 صفحات اور 24 نکات پر مشتمل ہے ،جبکہ صحافتی ذرائع کے مطابق متن کے نئے آرٹیکل 191اے میں سپریم کورٹ میںآئینی ڈویژن کا قیام شامل ہے ، ججزکی تعداد جوڈیشل کمیشن مقرر کرے گا، ججز کیلئے ممکنہ حد تک تمام صوبوں کو برابر کی نمائندگی دی جائے گی، سپریم کورٹ کا کوئی جج اوریجنل اختیار سماعت، سوموٹو مقدمات کا مجاز نہیں ہوگا، سپریم کورٹ کا کوئی جج آئینی اپیلوں یا صدارتی ریفرنس کی سماعت کا مجاز نہیں ہوگا۔سوموٹو، اوریجنل جورسڈکشن کی سماعت اور فیصلہ آئینی ڈویژن کا 3 رکنی بینچ کرے گا، صدارتی ریفرنسز کی سماعت اور فیصلہ بھی آئینی ڈویژن کا 3 رکنی بینچ کرے گا، آئینی اپیلوں کی سماعت اور فیصلہ آئینی ڈویژن کا 3 رکنی بینچ کرے گا۔مزید یہ کہ آئینی ڈویژن سپریم کورٹ کے 3 سینئر ترین جج تشکیل دیں گے ، سپریم کورٹ میں آئینی ڈویژن کے دائرہ اختیار میں زیرالتوا کیسز اور نظرثانی درخواستیں منتقل ہوں گی۔مسودے میں چیئرمین جوائنٹ چیفس، سروسزچیفس کی دوبارہ تقرری اور توسیع کے قوانین کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔ اس کے لیے آئین میں نئے آٹھویں شیڈول کا اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔ آرٹیکل 243میں نئی شق 5 کا اضافہ تجویز ہے جس میں ترمیم کے بغیر ان قوانین میں ردوبدل نہیں ہوسکے گا۔ ہائی کورٹ کو سوموٹو نوٹس لینے کا اختیار نہیں ہوگا، آرٹیکل 175 اے ، جوڈیشل کمیشن کے موجودہ ارکان برقرار رکھے گئے ہیں،4 ارکان پارلیمنٹ شامل کیے جائیں گے ، کمیشن کے ایک تہائی ارکان چیئرپرسن کو تحریری طور پر اجلاس بلانے کی استدعا کرسکتے ہیں۔ آرٹیکل 179 میں ترمیم کی جائے گی، چیف جسٹس کی مدت زیادہ سے زیادہ 3 سال ہوگی، چیف جسٹس کی عمر 65 برس سے کم بھی ہوگی تو ریٹائر ہو جائیں گے ، آرٹیکل 63 میں ترمیم ہوگی اور دہری شہریت کا حامل الیکشن لڑنے کے لیے اہل قرار پائے گا، منتخب ہونے پر 90 روز میں غیر ملکی شہریت ترک کرنے کی پابندی ہوگی، آرٹیکل 63 اے میں ترمیم ہوگی، منحرف رکن کا ووٹ شمار ہو گا۔وغیرہ وغیرہ ایسی آئینی ترامیم پر یقینا شبہات پائے جاتے ہیں، بلکہ دیکھا جائے تو یہ ترامیم آئین کو ری رائیٹ کرنے کے مترادف ہیں۔ اور پھر مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر تمام سیاسی جماعتیں اس پر متفق نہ ہوئیں تو پھر کیا ہوگا؟ کیا ہم ایک بار پھر بحرانی کیفیت کا شکار ہو جائیں گے، بالکل اُسی طرح جس طرح ہم پاکستان بننے کے بعد سے لے کر آج تک اس کیفیت سے نکل نہیں سکے۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ سیاسی جدوجہد کے ذریعے معرضِ وجود میں آنے والے ملک کو آئینی بحران نے توڑ ڈالا۔ یہ آئینی بحران کسی اور نے نہیں بلکہ ماورائے آئین حکمرانی کے شوقین کرداروں نے پیدا کیا تھا۔ 14 اگست 1947ءسے لے کر 12 اپریل 1973ءتک عوام کی براہِ راست منتخب کردہ کسی اسمبلی کو آئین بنانے کی اجازت نہ دی گئی۔ اس دوران محرومیاں نفرت میں بدل گئیں اور شکایتیں بغاوت میں تبدیل ہو گئیں، لیکن جن طبقات کے منہ کو پاکستان کے وسائل کا خون چوسنے کا چسکا پڑ گیا تھا، آئین ہمیشہ ا±نہیں اپنا بدترین وِلن نظر آتا رہا۔ 1970ءکے عشرے میں پہلی باراُمید پیدا ہوئی کہ وَن مین وَن ووٹ کے اصول کے تحت اقتدار عوام کی مرضی سے منتخب ہونے والے نمائندوں کے حوالے ہو جائے گا۔ چنانچہ مشرقی اور مغربی پاکستان میں عام انتخابات کی انتخابی مہم میں عام ووٹر نے انتہائی پ±رجوش طریقے سے حصہ لیا۔ اسے اس الیکشن کے ذریعے اپنی طاقت کا شعور ملا۔ مغربی پاکستان کی بہت کم پارٹیوں نے مشرقی پاکستان میں امیدوار کھڑے کیے جبکہ مشرقی پاکستان کی کئی سیاسی جماعتوں نے مغربی پاکستان میں امیدوار بھی کھڑے کیے اور جلسے بھی منعقد کیے‘ جن میں سوشلسٹ لیڈر مولانا عبدالحمید بھاشانی‘ شیخ مجیب الرحمن‘ پروفیسر غلام اعظم اور نور الامین شامل تھے۔ یہاں یہ حقیقت فراموش نہیں کی جا سکتی کہ ڈھاکہ سرنڈر کرنے کے بعد بھی وہ تجربات تسلسل سے جاری ہیں جن کی وجہ سے آدھے سے زیادہ ملک ہمارے ہاتھ سے جاتا رہا۔ الغرض منتخب حکمرانوں کے بجائے جس طرح آج ”سرکاری ملازمین“ ملازمین کے ذریعے آئین میں ترامیم لائی جا رہی ہیں اُس وقت بھی ایسی ہی سازشیں رچائی جا رہی تھیں، یعنی قیامِ پاکستان کے ایک سال کے عرصے کے اندر سرکاری ملازموں نے‘ جو فرنگی دور کے بھرتی کردہ تھے‘ عوامی خواہشات کے بجائے محلاتی سازشوں کے ذریعے پاکستان کو چلانا شروع کردیا۔ ان میں سے پہلی مبینہ سازش قائداعظم کی ایمبولینس میں پٹرول ختم ہونے کی کہانی سے شروع ہوئی اور آخری سازش لیاقت علی خان کے قتل پر ختم ہوئی۔ یوں نئے نویلے پاکستان کے پہلے پنج سالہ دور میں غیرمنتخب سرکاری ملازموں نے پاکستان پر اپنا قبضہ مکمل کر لیا۔ یہیں سے ہماری بربادیوں کی داستان کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلا جو 1970ءکے عام انتخابات تک‘ 23سال مسلسل چلتا رہا۔ اس دوران تین مارشل لا بھی لگائے گئے۔ یہ مارشل لا نان سویلین مقتدرہ اور عسکری طاقتوں کے درمیان کھلی لڑائی تھے جس میں ملک دولخت ہونے کے دہانے پر پہنچ گیا۔ پھر اس کے بعد بھی یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ بڑھتا چلا گیا، یہاں سے آگے یحییٰ خان اور اس کے ٹولے کا مکروہ کردار شروع ہوتا ہے جس کی تفصیل ہمیشہ قوم سے چھپائی گئی۔ عبوری حمود الرحمن کمیشن رپورٹ اور فائنل حمود الرحمن کمیشن رپورٹ‘ دونوں میں پوری داستان شہادتوں اور سارے ثبوتوں سمیت لکھی ہوئی کیبنٹ ڈویژن میں موجود ہے، جس کے کچھ حصے بھارت سمگل ہو کر پبلک ہو چکے ہیں۔ یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ مشرقی پاکستان کے بنگالیوں نے اس بارے میں درجنوں کتابیں لکھیں۔ پاکستان کے لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ملک کے دو ٹکڑے ہونے والے سب سے بڑے قومی سانحے پر ہمارے اپنے ہاتھوں سے لکھی تاریخی دستاویز پبلک کرنے سے ہماری سلامتی اور ملکی مفاد کو کون سا نقصان پہنچے گا؟پھر اس کے بعد جنرل ضیاءدور میں بھی ایسی ہی آئینی ”اصلاحات“ سرکاری ملازمین کے ذریعے کروانے کے سلسلے کو آگے بڑھایا گیا۔ یعنی اگلا باب 1977ءمیں جنرل ضیاءکے ساڑھے گیارہ سالہ مارشل لاءسے شروع ہوا۔ اس مارشل لاءنے باقیاتِ مارشل لاءکی باقاعدہ پنیری لگائی۔ اُس دور کے مقتدر سیاستکاروں اور سیاسی جرنیلوں کی اولادیں ارب پتی نہیں بلکہ کھرب پتی بن گئیں۔ قومی وسائل کی لوٹ مار کا یہ سلسلہ ساڑھے نو سال جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاءمیں بھی آگے بڑھتا رہا۔ جو بچا تھا وہ ل±ٹانے کے لیے عمران خان دور کے جنرل کی سیاسی ڈاکٹرائن آ گئی۔ انہوں نے ملک کی فیڈریشن کو متفقہ آئین کے بجائے من مرضی کے مطابق چلانے کا چلن رائج کیا۔ وطن کے طول و عرض میں غدار بنانے کی نئی فیکٹریاں لگ گئیں۔ آئین کے ساتھ ساتھ ملک کی نوجوان آبادی کو قبضہ گروپ نے نیا وِلن بنا ڈالا۔ بنیادی انسانی حقوق کہیں گ±م ہو گئے۔ گمشدہ افراد جو کبھی صرف دور دراز علاقوں سے ا±ٹھائے جاتے‘ اب یہ عالم ہے کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کہنے پر مجبور ہوئے کہ اسلام آباد کی ہر گلی سے ہر روز بندہ غائب کیا جارہا ہے۔ ایسے میں دوربین تو کیا خورد بین سے بھی آئینی نظام تلاش کرنا ممکن نہیں رہا۔ جس قدر کھلا ریاستی تشدد اپنے شہریوں پر کیا جا رہا ہے‘ اس سے شہ پا کر آدھی رات کو آئینی نظامِ عدل اور دستوری حقوق لپیٹنے والی ترامیم کے لفافے آگئے۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ اس آئینی ترامیم میں جس میں اعلیٰ عدلیہ پر قبضہ کرنے کی بو آرہی ہے، اسے پاس کروانے میں ہماری ہر دل عزیز محترمہ بے نظیر بھٹو کے لخت جگر بلاول پیش پیش ہیں، اُنہیں شاید علم نہیں کہ انہی کے نانا نے متفقہ آئین 1973ءدیا تھا، جسے اس وہ روند رہے ہیں۔قصہ مختصر کہ اس تباہ ک±ن طرزِ حکمرانی سے ایک ہی سوال ابھر کر سامنے آیا ہے‘ کیا متفقہ آئین کے بغیر فیڈریشن چل سکتی ہے؟آج ہی ایک سٹڈی سامنے آئی جس کے مطابق پاکستان کی معیشت نے 76 سالوں میں 26 بار کریش کیا۔ ہم نے ہر دفعہ آئی ایم ایف سے بیل آﺅٹ پیکیج لے کر قوم کو بتایا کہ ہم ایشین ٹائیگر بن گئے۔ 77ویں سال میں پھر سات ارب ڈالر کا قرض آئی ایم ایف سے لے لیا۔ کیا اس قرض سے فیڈریشن چلے گی یا متفقہ آئین سے؟یقینا متفقہ آئین سے۔ ورنہ ترقی یافتہ پاکستان بھی عوام کے سامنے کھڑا کردیں، تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا!