شوگرمافیا: پہلے برآمد اورپھر درآمد کا کھیل !

گزشتہ 78سالوں میں ملک میں ایک ہی کھیل ، ایک ہی طریقے اور ایک جیسے کھلاڑیوں کے ذریعے پیش کیا جا رہا ہے،،، فرق صرف یہ ہے کہ پرانوں کی دیکھا دیکھی نئے کھلاڑی بھی اس منافع بخش کھیل میں شریک ہوجاتے ہیں۔ یہ ”کھلاڑی“ عوام اور صنعتوں کو مہنگے داموں چینی تو بیچتے ہی ہیں،،، مگر ہر سال یہ سرکار سے بھی سو دو سو ارب روپے سبسڈی کی مد میں اینٹھ لیتے ہیں۔ آگے چلنے سے پہلے یہ بتاتا چلوں کہ ہوتا کچھ یوں ہے کہ جیسے حالیہ دنوں میں جب چینی کے ریٹ چند دن کے لیے ڈیڑھ سو روپے فی کلو سے اوپر چلے گئے تو شوگر مافیا نے ان چند دنوں میں کم از کم 100ارب روپے کما لیے تھے، اور پھر جب آٹے کا بحران لایا جاتا ہے تو اُس وقت بھی مافیا اربوں روپے کماتی ہے، اسے کہتے ہیں ”مصنوعی بحران“، ”سمارٹ ورک“،”اثرورسوخ“۔ یعنی وطن عزیز میں امیر ہونے کے لیے آپ کو ”سمارٹ ورک“ یا ”شارٹ کٹ“ آتا ہو۔ جیسے آپ چینی کی مثال لے لیں کہنے کو تو یہ زرعی ملک ہے مگر یہ جب زرعی پراڈکٹ (چینی) پیدا کرتا ہے تو اسے سستے داموں باہر بیچ دیا جاتا ہے اور جب یہاںضرورت پڑتی ہے تو دوگنا قیمت پر واپس منگوا کر سبسڈی حاصل کی جاتی ہے اور ملکی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ یقین مانیں ہم تو گدھوں کی طرح ساری زندگی محنت کرتے رہے ، ہمیں بھی علم ہوتا کہ پیسہ کمانا اتنا آسان ہے تو ہم بھی ایک آدھ فلور مل، شوگر مل، دوائیاں بنانے کی فیکٹری یا پٹرول پمپ بنا لیتے یا پھر سیاستدان بن جاتے ۔تو ہم دنوں میں لکھ پتی سے کروڑ پتی اور کروڑ پتی سے ارب پتی بن جاتے۔ پھر اگر ایک آدھ انکوائری لگ بھی جاتی تو کوئی بات نہیں تھی، انکوائری ہینڈلنگ کے لیے مزیدسٹاف رکھ لیتے ، پھر اللہ اللہ خیر صلہ! لیکن اللہ کے حکم سے اتنا پیسہ ضرور کما لیتے کہ پوری دنیا میں جہاں چاہتے لگژری لائف گزار لیتے! پھر لوگ ہمیں مافیا کہتے تو ہمارا سینہ اور بھی چوڑا ہوجاتا اور فخر سے ”مافیا“ ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ! کیوں کہ یہاں جو جتنا بڑا مافیا ہوتا ہے اُس کی اتنی ہی عزت ہوتی ہے، ملک کے تمام ادارے اُس کے سامنے جھکے رہتے ہیں، تمام بڑی شخصیات گھٹنوں کے بل اُن کے سامنے بیٹھی رہتی ہیں اور پھر جب یہ لوگ پارلیمنٹ میں چلے جاتے ہیں یا سینیٹ کا حصہ بنتے ہیں تو پھر انہیں مزید” ترقی“ کرنے سے کوئی بھی نہیں روک سکتا! پھر یہ لوگ مافیا سے ”ڈان“ بن جاتے ہیں اور یہ لوگ ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ جی ہاں یہ ہے پاکستان، جہاں سے اربوں روپے کمانا اتنا مشکل نہیں رہا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ آپ مطمئن ”سمارٹ“ ہوں! خیر بات کہیں اور نکل گئی دل تو کرتا ہے کہ عوام کی پرزور فرمائش پر سخت الفاظ میں برا بھلا کہوں،،، جیسے وہ سوشل میڈیا والے ”چچا جی“ نے کہا مگر تربیت آڑے آجاتی ہے کہ آپ مذمت بھی ایسے الفاظ میں کریں کہ شائستگی اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے۔ لیکن چچاجی کا جو انہوں نے تین دن میں سافٹ وئیر اپ ڈیٹ کیا ہے،،، بس ! سمجھ لیں ان کا زور کمزوروں پر ہی چلتا ہے،،، طاقت ور افراد کے لیے یہ کچھ بھی نہیں ہیں۔ ویسے وزیر اعظم کو کہیں کہ شوگر مل مافیا یا ذخیر ہ اندوز مافیا کا بھی سافٹ وئیر اپ ڈیٹ کروائیں،،، یقین مانیں یہ وہیں بھیگی بلی بن جائیں گے،،،، لیکن ان کو شرم نہیں آتی ،،، عام عوام کی زبان کو تالے لگاتے ہوئے۔ بہرحال بات چینی کی ہو رہی تھی کہ آج عوام کو 200روپے فی کلو چینی بھی دستیاب نہیں ہورہی ،،، جبکہ حکومت سختی کرنے کے بجائے ،،، مذاکرات کے لیے کمیٹیاں تشکیل دے رہی ہے،،، حالانکہ حکومت کو بھی علم ہے کہ یہ شوگر مل مافیا کسانوں سے کس ریٹ پر گنا حاصل کرتا ہے،،، اگر نہیں علم تو بتاتا چلوں کہ یہ 425روپے فی من(40کلو) یعنی 11روپے کے فی کلو کے حساب سے وصول کرتے ہیں،،، اور اس حساب سے انہیں چینی تمام اخراجات نکال کر 50سے 60روپے فی کلو میں پڑتی ہے،،، لیکن تین تین گنا زیادہ قیمت وصول کرکے ناجائز منافع خوری کرنا کہاں کا اصول ہے؟ اور پھر یہی نہیں سب کو علم ہے کہ یہ شوگر ملیں شریف فیملی، زرداری گروپ اور ان کے بعض وزراءکی ملکیت ہیں،،، جن کی تعداد 100کے قریب ہے،،، یہ کیسے چاہیں گے کہ چینی سستی ہو،،، بلکہ یہ تو چاہیں گے کہ چینی کا بحران ہی رہے،،، تاکہ یہ مزید تباہیاں لاتے رہیں،،، اور دن دوگنی ، رات چوگنی ترقی کرتے رہیں،، ،بلکہ اس وقت ملک میں 70لاکھ ٹن چینی استعمال ہو رہی ہے،،،اورپاکستان میں چینی کی فی کس کھپت 28کلوگرام ہے،،، 1999ءمیں پاکستان میں سالانہ فی کس چینی کی کھپت 23 کلو گرام تھی جو 2025ءمیں بڑھ کر 28 کلو گرام ہوگئی ہے۔یعنی ہر شخص ایک سال میں 28کلوگرام چینی کھا لیتا ہے۔ اور سب سے زیادہ مقدار میں چینی بیکری آئیٹمز میں استعمال ہو رہی ہے۔ اور پھر جب چینی، گندم، پٹرول یا ادویات جیسی چیزیں جنہیں خریدنا عوام کی مجبوری ہوتی ہے۔ تو ان چیزوں کو حکومت اپنی تحویل میں لے کر عوام میں تقسیم کرتی ہے اور پھر جب حکومت مافیاﺅں کی آجاتی ہے تو پھرعوام نہ صرف بلیک میل ہوتے ہیں بلکہ بے بس بھی ہو جاتے ہیں۔ اور حکومت میں بیٹھا مافیا ایسی ایسی ”کمائیاں“ کرتا ہے کہ آپ کے ہوش اُڑ جاتے ہیں۔ اور اور پھر جب یہی حکومتی ایوانوں میں بیٹھے افراد پکڑے جاتے ہیں تو کوئی نہ کوئی کمیشن بن جاتا ہے یا کمیٹی بنا دی جاتی ہے جس سے زیادہ طاقتور یہ مافیا ہوتا ہے اور پھران کمیشنوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا ۔ جیسے فروری 2020ءمیں تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے شوگر اسکینڈل کے خلاف ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیاکی سربراہی میں 7رکنی اعلیٰ سطح انکوائری کمیشن، جس میں نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر کے اعلیٰ افسران شامل تھے، کی رپورٹ میںچینی کی قیمتوں اور سپلائی کے بارے میں بے ضابطگیوں کا انکشاف اور اسکینڈل میں ملوث شوگر ملوں کے خلاف کارروائی کرنے کی سفارش کی گئی تھی، جسے سندھ ہائیکورٹ نے مئی 2020ءمیں میر پور خاص اور 19دیگر شوگر ملوں کی درخواست پر عملدرآمد اور کارروائی سے روک دیا تھا۔ اس دوران انکوائری کمیشن کے سربراہ واجد ضیا کو دھمکیاں دی گئیں کہ اگر انہوں نے شوگر ملوں کے خلاف انکوائری نہیں روکی تو ملک میں چینی کی کمی کا شدید بحران پیدا کردیا جائے گا جس سے چینی کی قیمت 110روپے فی کلو تک جاسکتی ہے، پھر سابق ڈی جی ایف آئی اے اور انکوائری کمیشن کے سربراہ یہ تمام معاملات سابق وزیراعظم عمران خان کے علم میں لائے لیکن شوگر مافیا جس کے پیچھے بڑے بڑے سیاستدان ہیں، زیادہ طاقتور نکلا اور چینی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا جبکہ حکومتی مشینری ان ذخیرہ اندوزوں کے کاک ٹیل کے سامنے بے بس نظر آئی۔ اُس وقت عمران خان نے خود بتایا کہ ان ذخیرہ اندوز شوگر ملوں نے جولائی 2021 سے کورٹ سے حکمِ امتناعی لے رکھا ہے جس کی وجہ سے حکومت ان ذخیرہ اندوز شوگر ملوں کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتی۔لیکن خان نے اُس وقت جہانگیر ترین سمیت متعدد افراد کے اس مافیا میں کردار کی وجہ سے انہیں حکومت سے نکال دیا۔۔۔ جس کے بعد اے پی پی وجود میں آئی۔ بہرکیف یہ صرف چینی کی کہانی ہے،،، آپ ادویات کو دیکھ لیں، پٹرولیم مصنوعات کو دیکھ لیں ایسی ایسی کمائیاں ہو رہی ہیں کہ خدا کی پناہ۔ یقین مانیں بار بار سوچتا ہوں کہ اس ملک کے مسائل کا حل کس بات میں ہے۔ کیا ہمارے نظام میں کوئی خرابی ہے یا قیادت میں کمی ہے۔ آخر اس کا علاج کیا ہے۔ نظام کیسے بدلا جا سکتا ہے یا قیادت کہاں سے لائی جا سکتی ہے یا پھر ہم بحیثیت قوم ہی ایسے ہیں کہ اسی مقدر کے سزاوار ہیں جوہم پر عذاب الٰہی کی شکل میں مسلط کر دیا گیا ہے۔ ہم کاہل ہیں، سست ہیں، بددیانت ہیں یا جھوٹے ہیں۔ کیا خرابی ہے ہم میں۔ آخر سوچنا تو ہے ہم کب تک ان اندھیروں میں بھٹکتے رہیں گے۔ سچ پوچھئے تو ہماری کوئی کل سیدھی نہیں ہے۔ ہمارے سارے ادارے تباہ ہو چکے ہیں جو تباہ نہیں ہوئے وہ ان کاموں میں پڑ گئے ہیں جو ان کے کرنے کے لیے نہیں۔یعنی مقتدرہ کاکام اس وقت صرف ایک شخصیت کے گرد گھوم رہا ہے،،، کہ اُسے کیسوں میں کیسے پھنسانا ہے،،، اُسے کیسے جیل کے اندر رکھنا ہے،،، اُسے کیسے عوام کے ذہنوں سے نکالنا ہے،،، کہ غریب آدمی کی آس ہی ختم ہوجائے۔۔۔ بقول شاعر غریب شہر تو فاقے سے مر گیا عارف امیر شہر نے ہیرے سے خودکشی کر لی لہٰذایہ بات تو طے ہے کہ یہ سب کچھ ہمیں تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔ ایک زمانے میں ہمارے ہاں بحث ہوتی تھی کہ ہمیں بار بار جمہوریت کی پٹڑی سے اتارا جاتا رہا جس کی وجہ سے ہم درست راہ پر نہیں چل سکے۔ہرکوئی اس کا الزام سیاست دانوں کو دیتا کہ وہ حکومت چلانے کے اہل نہ تھے۔ حالانکہ آپ اس بات پر غور کریں کہ اگر ہم اپنے ادارے ٹھیک کرنا چاہیں تو کر بھی سکتے ہیں مگر ہم یہ نہیں کر پا رہے! چلیں زراعت ہی کی بات کریں تو ان تین سالوں میں جتنی رقم ہم نے چین اور سعودی عرب سے قرض لی اس سے دگنی رقم ہم نے ایک ڈیڑھ سال میں چینی اور گندم خریدنے پر لگا دی۔ پاکستان کو اللہ نے 21 ملین ہیکٹر قابل کاشت زمین دے رکھی ہے اور توجہ کے ساتھ تھوڑی جدت کے ساتھ اس صلاحیت کو دگنا کیا جا سکتا ہے۔اسرائیل اپنی خوراک میں خود کفیل ہو چکا ہے جب کہ اس کے پاس صرف 2 فیصد زمیں قابل کاشت ہے۔ہماری 40 فیصد کے قریب قابل کاشت ہے لیکن اس کے باوجود ہم اربوں ڈالر کی گندم اور چینی خریدنے پر مجبور ہیں۔پاکستان کے پاس دنیا کا بہترین نہری نظام اور اول درجے کی زرخیز زمین ہے اس کے باوجود عالم یہ ہے کہ ہم دس ارب ڈالر کی چینی اور گندم وغیرہ خریدتے پھر رہے ہوتے ہیں۔ اس وقت میرے خیال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ مقتدرہ اگر ان چوروں کو پہنچاننے سے گریزاں ہے،،، تو کم از کم عوام ہی پہچان کر باہر نکلیں،،، ورنہ آج بجلی و پٹرول مہنگا، کل چینی مہنگی ہوئی،،، اور آنے والے دنوں میں ہر چیز غریب کی پہنچ سے باہر چلی جائے گی،،، پھر عوام کے پاس خودکشی کے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا!