فیض حمید :ادارے پر اعتماد مجروح ہوا!

فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید پر سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی، اختیارات اور سرکاری وسائل کے غلط استعمال اور افراد کو مالی نقصان پہنچانے سے متعلق 4الزامات ثابت ہونے پر 14 سال قید بامشقت سنا دی۔فیض حمید کی تازہ بہ تازہ سزا نے ملکی سیاسی عدم استحکام کو مزید ہوا دے دی ہے۔ ویسے تو اس سزا کے حوالے سے سبھی سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والوں کو علم تھا، کیوں کہ بادی النظر میں بذریعہ فیض حمید کسی اور کو اپنے منطقی انجام تک پہنچنا ہے۔لیکن یہ بھی اچنبھے کی بات ہے کہ ملک میں موجودو مرحوم”سیاسی غداروں“ کی فہرست میں ایک ایسے ادارے کا سربراہ بھی غدارثابت ہوا جس کی تنظیم دنیا کی بہترین تنظیموں میں سے ایک ہے۔ اس لیے لگ رہا ہے کہ اب پاکستان میں کوئی بھی غدار ہو سکتا ہے۔ سیاستدان بھی غدار ہو سکتاہے، بیوروکریٹ بھی، جج بھی، عام شہری بھی اور سب سے بڑھ کر سکیورٹی اداروں کے سربراہان بھی۔ لیکن کیا یہ بات افسوس کے ساتھ نہیں کہنا پڑ رہی کہ فیض حمید کی سزا سے ایک ادارے کا وقار مجروح ہوا ہے،،، معذرت کے ساتھ ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ ان کا چیک اینڈ بیلنس کا نظام اور خود احتسابی کا نظام اتنا طاقتور ہے، کہ اس ادارے میں کوئی کرپشن کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا،،، اور نہ ہی کوئی اس حوالے سے سوچ سکتا ہے،،، کہ وہ اپنے حلف سے غداری کریں۔ ہم تو ہمیشہ سیاستدانوں کی کرپشن دیکھتے رہے،اُن کی غداریاں دیکھتے رہے،،،کورٹ کچہریاں بکتی دیکھتے رہے،،، ججز کی جعلی ڈگریاں دیکھتے رہے ہیں،،،ہم تو ابھی تک اس حیرانی سے نہیں نکلے تھے کہ ایک شخص کیسے ہائیکورٹ کا جج بن گیا کہ جس کی ڈگری ہی چیک نہیںہوئی۔ بلکہ اس حیرانی سے بھی نہیں نکلے تھے کہ کیسے بار بار اُنہی سیاستدانوں کو لایا جاتا ہے، جو کرپشن میں پہلے ہی ملوث ہیں۔ لیکن اس بار ایک ایسا شخص غدار قرار پایا جسے ہم نے دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسی دے رکھی تھی،،، جی ہاں! یہ وہ خفیہ ایجنسی ہے جس کے بارے میں دنیا بھر ہماری پذیرائی ہوتی ہے،،، جس پر ہم آنکھیں بند کر کے اعتماد کیا کرتے تھے،،، جس کی قابلیت پر دنیا کو کبھی شک نہیںہوا، جس کی دہشت دنیا کے تمام براعظموں میں ہے،بلکہ سی آئی اے کے سابق اہلکار اینڈ ریو بسٹامنٹے کے مطابق دنیا کے کئی ممالک میں سب سے بہترین جاسوسی نیٹ ورک پاکستان کا ہے۔امریکی خفیہ ایجنسیاں بھی اس حوالے سے پاکستان سے تعاون مانگتی ہیں۔اور انہی باتوں کی وجہ سے ہر جگہ پر ہماری بہترین خفیہ ایجنسی کی بدولت ہمارا سینہ چوڑا ہو جاتا تھا،،، مگر وہاں پر بھی ”غدار“ لوگ چیف بن جاتے ہیں،،، اس کا ہمیں بالکل اندازہ نہیں تھا،،، اوریہ بھی اہم بات ہے کہ موصوف آرمی چیف بنتے بنتے رہ گئے،،، یعنی جنرل فیض 99پر آﺅٹ ہوئے،،، اُن کے آرمی چیف بننے میں محض ایک رنز کا فرق رہ گیا تھا،،، یعنی اگر جنرل باجوہ کے ساتھ ان کی نہ بگڑتی تو یہ اگلے چیف ہوتے،،، اگر ایسا ہو جاتا تو کیا کوئی غدار ہماری تمام فورسز سے بڑی بری فوج کا سربراہ ہوتا؟ یہ سوچ کر بھی ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔۔۔ خیر یہ بات تو طے ہے کہ مذکورہ فیصلے کے بعد اس ادارے کا وقار مجروح ہوا ہے،،، اور یہ آج ہی نہیں بلکہ گزشتہ دوسالوں سے مسلسل ہو رہا ہے،،، نہیں یقین تو آپ صرف 9مئی کو لے لیں،،، ہم نے 9مئی کو دیکھا کہ ان اداروں کا اپنا دفاع، سکیورٹی اور حفاظت کرنے والا نظام انتہائی ناقص ہے،،، ورنہ کبھی ایک جتھہ ہمارے کنٹونمنٹ بورڈ پر حملے نہ کرتا،،، میں بذات خود لاہور کا رہائشی ہوں،،، ماضی قریب میں جب بھی کورکمانڈر ہاﺅس لاہور سے گزرتا تھا، تو ہم اُس کی سکیورٹی پر بہت خوش ہوا کرتے تھے،،، کہ سکیورٹی ہو تو ایسی ہو،،، ماضی کو چھوڑیں،،، آج بھی آپ دیکھ لیں کہ لاہور یا دیگر شہروں میں کینٹ کے علاقے سے جب بھی گزرتے ہیں تو ہمیں بہت محتاط رویہ اختیار کرنا پڑتا ہے،،، ہمیں بہت چاق و چوبند ہونا پڑتا ہے کہ آگے ایک مضبوط ناکہ ہمارا انتظار کر رہا ہوتا ہے، ،، جو ہم سے سوال جواب کرتا ہے،،، ہماری شناخت چیک کرتا ہے،،، ہمارے ارد گرد کیمروں کا ایک حصار ہوتا ہے،،، جو ہمیں تحفظ کا احساس دلاتا ہے،،، لیکن 9مئی کے واقعہ نے ہمیں احساس دلایا کہ یہ بہت کمزور سے ناکے ہیں،،، جو کنٹونمنٹ بورڈ، جی ایچ کیو یا کورکمانڈر ہاﺅس، کی سکیورٹی کے لیے ناقص ہیں،،،کیوں کہ یہ اپنی حفاظت کے لیے کچھ نہ کر سکے اور انہوں نے 9مئی ہونے دیا۔ الغرض مجھے پہلی مرتبہ حیرانی ہوئی کہ ہم جن پر اعتماد کرتے ہیں،،، یا جو لوگ ہماری حفاظت پر مامور ہیں، اُن کی اپنی سکیورٹی اتنی کمزور ہے،،، اور پھر یہی نہیں ان فورسز کا وقارگزشتہ سال 26نومبر کو بھی مجروح ہوا تھا جب انہوں نے احتجاج کرنے والے اپنے ہی لوگوں پر سیدھی گولیاں چلائی تھیں،،، میں یقین نہیں کرسکتا تھا کہ اپنی بہادر فوج اپنے ہی لوگوں کو پرتشدد اور بے ڈھنگے طریقے کے ساتھ بھگائے گی؟ اور پھر مریدکے کا واقعہ بھی سب کے سامنے ہے،،، کہ جس میں لاشیں ہی غائب کر دی گئیں،،، اور پھر اب یہ والا واقعہ جس نے دنیا بھر میں ہمارے سکیورٹی اداروں پر سوال کھڑے کرنا شروع کردیے ہیں۔ بلکہ اس سے پہلے بھی ایک سابق ائیر مارشل کو امریکا میں موجود اپنے بھائی کو حساس معلومات دینے کی وجہ سے فیلڈ کورٹ مارشل کی کارروائی کی گئی ،،، جس کے بعد اُنہیں 14سال قید کی سزا سنائی گئی۔ موصوف یہاں تک معلومات فراہم کر تے رہے کہ میانوالی ایئربیس پر کون، کون سے جنگی جہاز کھڑے ہیں۔ حالانکہ یہ اُسی فضائیہ کے ائیر وائس مارشل تھے،،، جس فضائیہ پر ہمیں ناز تھا اور ہے بھی کہ جس نے انڈیا کو ناکوں چنے چبوا ئے ،،، لیکن حیران اس لیے بھی ہیں کہ اُس کا ائیر وائس مارشل بھی غدار نکل آیا،،، آخر یہ ہو کیا رہا ہے؟ لہٰذامیں سمجھتا ہوں کہ حالیہ دو سال دفاعی لحاظ سے اور ہمارے اداروں کے حوالے سے انتہائی خوفناک ثابت ہوئے ہیں۔ کہ ہم اتنے کمزور ملک اور ہمارا دفاع اتنے کمزور ہاتھوں میں ہے؟ جن کا نہ ہی اپنا خود احتسابی نظام ہے، نہ ہی اپنی ذاتی سکیورٹی کا نظام درست ہے،،، اگر درست ہوتا تو کبھی 9مئی نہ ہوتا۔ ویسے میرے خیال میں اگر جنرل فیض Guiltyتھے بھی تو اسے خفیہ رکھنا چاہیے تھا،،، تاکہ ہمارا وقار مجروح نہ ہوتا، نہ ہی دنیا بھر میں ہماری جگ ہنسائی ہوتی،،، نہ ہی بھارت جیسا دشمن ملک بار بار یہ خبر چلا کر اس پر تجزیے کرتا کہ ان کا اپنا چیف ہی غدار نکلا۔ کیوں کہ ان کے پہلے بھی کورٹ مارشل ہوتے رہے ہیں،،، ان کا ہمیں بھی علم نہیں ہوتا تھا،،، ان میں نمایاں طور پر سقوطِ ڈھاکہ کے بعد مختلف ریجمنٹس کے چند افسران کا کورٹ مارشل ہوا، ان میں سے زیادہ تر کے فیصلے خفیہ رہے اور عوامی سطح پر تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔پھر 1980ءمیں بریگیڈیئر ایم اے حفیظ پر کرپشن اور اختیارات کے غلط استعمال پر کارروائی ہوئی،،، کورٹ مارشل کی تفصیلات جزوی طور پر خفیہ رکھی گئیں۔پھر 1980 اور 1990کے دوران چند سینئر فوجی افسران پر مالی بے ضابطگیوں کے الزامات کی بنیاد پر کارروائیاں کی گئیں۔زیادہ تر کیسز اندرونی فوجی قوانین کے تحت خفیہ رہے۔حتیٰ کہ فوجی افسران کے نام بھی خفیہ رہے۔ پھر میجر جنرل شاہد عزیز کے دور کے کیسز کے بارے میں کسے علم نہیں؟ ان پر ترقی اور احتساب کے معاملات میں الزامات سامنے آئے،،، متعدد افسران کا کارروائی کے بعد کورٹ مارشل ہوا، عوامی سطح پر تفصیلات شائع نہیں کی گئیں،،، پھر جنرل مشرف کے دور کو دیکھ لیں،،، کچھ میجرز اور کرنلز کے خلاف انکوائری اور کورٹ مارشل ہوئے۔فوج نے ہمیشہ ان کی تفصیلات کو رازداری میں رکھا۔پھر 2015سے2017تک دہشت گردی اور جاسوسی کے الزامات پر کورٹ مارشل ہوئے جس میں لیفٹیننٹ کرنل، میجر، سپاہی اور سویلین افراد کا کورٹ مارشل ہوا۔ISPR نے صرف نتائج کا اعلان کیا، لیکن مقدمات کی کارروائی اور شواہد خفیہ رکھے گئے۔حالانکہ جنرل فیض حمید کے دور (2022) میں دو افسران کا کورٹ مارشل ہوا، ISPR نے صرف ناموں کا ذکر کیا، تفصیلات خفیہ رہیں۔ قصہ مختصر کہ پاکستان سمیت دنیا میں فوجی قوانین کے تحت کورٹ مارشل کی کارروائی عام لوگوں کو نہیں دکھائی جاتی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں قومی سلامتی کے معاملات شامل ہوتے ہیں۔فوج کی اندرونی کمان اور ڈسپلن پر اثر پڑتا ہے۔سیکریٹ انفارمیشن اور آپریشنل تفصیلات مقدمات میں آتی ہیں۔فوج اپنی ریپیوٹیشن کے لیے ایسے معاملات کو محدود رکھتی ہے۔لیکن حالیہ فیصلے میں ایسا نہیں کیا گیا،،، سب کچھ سامنے رکھا گیا کہ حتیٰ کہ کرپشن تک۔ بہرکیف ہمارا اعتماد آرمی سے بھی زیادہ آئی ایس آئی پر تھا،،، اور ہم اس کے بارے میں کوئی بات بھی سننے کو تیار نہیں تھے،،، اور ہم یہ سمجھتے تھے کہ آئی ایس آئی ،سی آئی اے کے قریب ہے۔ اُمید ہے آنے والے دنوں میں ایسا کچھ نہیں ہوگا جس سے اس ادارے کی ساکھ خراب ہو؟ اس حوالے سے ادارے کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی ساکھ دوبارہ بحال کرنے کے لیے کام کرے اور رہی بات فیض حمید کی تو اُن کے لیے جو قسمت میں ہے وہی لکھا ہے،،، اُمید ہے بات اس سے آگے نہیں بڑھے گی،،، اور یہ جو باتیں اُڑائی جا رہی ہیں کہ اس کے بعد سیاسی لوگوں کے بارے میں فیصلے ہوں گے،،، تو میرے خیال میں اس سے سیاسی عدم استحکام بڑھے گا،،، اس کے علاوہ کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہونے والا!