میاں منظور وٹو(مرحوم): مفاہمتی سیاست کا ایک باب ختم ہوا!

پاکستان کی سیاست میں کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو عوامی نعروں، بڑے جلسوں اور جذباتی خطابت سے نہیں بلکہ پسِ پردہ اثر و رسوخ، سیاسی سمجھ بوجھ اور موقع شناسی سے پہچانی جاتی ہیں۔ میاں منظور وٹو کا شمار بھی انہی سیاست دانوں میں ہوتا ہے۔ وہ86برس کی عمر میں گزشتہ روز انتقال کرگئے،،، ان کے بارے میں لوگوں کی رائے ہمیشہ دو انتہاو¿ں کے درمیان رہی،،، کچھ انہیں حقیقت پسند سیاست دان کہتے تھے اور کچھ موقع پرست۔یعنی ان کے حامیوں کے نزدیک میاں منظور وٹو کی سب سے بڑی خوبی ان کی صاف گوئی تھی۔ وہ پاکستانی سیاست کے کھوکھلے نعروں پر یقین نہیں رکھتے تھے اور کھل کر کہتے تھے کہ سیاست ایک مشکل اور مفاد سے جڑی حقیقت ہے۔ حامیوں کا کہنا تھا کہ وٹو صاحب منافقت نہیں کرتے تھے؛ وہ جیسے تھے، ویسے ہی نظر آتے تھے۔جبکہ ناقدین کے نزدیک وہ ہر دور میں طاقتور فریق کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے تھے، جس کی وجہ سے ان کی سیاست کو نظریاتی کم اور عملی زیادہ سمجھا جاتا تھا۔لیکن ایک کہاوت ہے کہ ”واسطہ پڑھے تو نسلوں کاپتاچلتا ہے باتوں سے توہر کوئی خاندانی لگتا ہے“ پھر ایک اور پنجابی کی ایک خوبصورت کہاوت ہے کہ ”راہ پیا جانے یا واہ پیا جانے“۔ یعنی میرا اُن سے جتنا تعلق رہا، وہ ہمیشہ بڑے بھائی جیسا سلوک کرتے تھے،،، خاندانی اس قدر تھے کہ رواں سال جون کی شدید گرمی میں اُن کے آبائی شہر اوکاڑہ میں اُن کے ایک دوست میاں محمد نواز وٹو وفات پا گئے،،، منظور وٹو صاحب خود بھی شدید علیل تھے،،، مگر دوست کی نماز جنازہ بھی نہیں چھوڑ سکتے تھے،،، وہ جنازہ میں شرکت کی غرض سے جناز گاہ پہنچے،،، تو اُن کے ڈاکٹرز نے سخت دھوپ میں نکلنے سے منع کیا ہوا تھا،،، لہٰذاانہوں نے گاڑی میں ہی نماز جنازہ ادا کی،،، جس پر اُن پر خاصی تنقید بھی ہوئی، کہ انہوں نے نماز جنازہ گاڑی میں ہی کیوں پڑھا وغیرہ ،،، لیکن بعد ازاں اُنہوں نے کہا کہ میاں نواز بچپن کے دوست تھے،،، نماز جنازہ میں شرکت کرکے دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا،،، ورنہ دوستی کی تڑپ رہتی کہ اے کاش! میں آخری سفر میں اُس کے ساتھ ہوتا۔ اُن سے آخری سالوں میں زیادہ ملاقاتیں تو نہ رہیں ،،، کیوں کہ وہ 2018ءکے الیکشن اور کورونا کے بعد بیماری کی وجہ سے دوست احباب سے کم ہی ملتے تھے،،،لیکن اُن سے میری جتنی ملاقاتیں ہوئیں اُن سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ،،، ایک ملاقات میں ، میں نے اُن سے مزاحاََ کہا کہ لوگ آپ کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ خاصی اچھی سلام دعا ہے،،، اس پر انہوں نے کہا یار! اس ملک میں جو سیاستدان یہ کہتا ہے کہ وہ کبھی اسٹیبلشمنٹ کے لوگوں سے نہیں ملا ،،، وہ اس دور کا سب سے جھوٹا شخص ہے،،، انہوں نے کہا کہ ملاقاتیں سب کی ہوتی ہیں،،، مگر یہ Dependکرتا ہے کہ کون کتنا اور کس قدر استعمال ہوا ہے،،، وہ مجھ سے اکثر کہا کرتے تھے کہ پاکستان میں ہمیشہ ان سیاستدانوں کے کردار کی وجہ سے ڈکٹیٹر شپ کا دور دورہ رہا ہے۔ ہماری اپنی غلطیوں کی وجہ سے ملک میں جمہوریت کمزور ترین ادارہ بن چکا ہے۔ وٹو صاحب نے 70 کی دہائی میں طلبہ دور سے سیاست سے آغاز کیا یہ وہ دور تھا جب طلبا سیاسی محاذ پر سرگرم کردار ادا کررہے تھے۔ یہ بھی ان طالب علم رہنماو¿ں میں سے ایک تھے جو فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف چلنے والی طلبہ تحریک کی صف اول کی قیادت میں شامل تھے۔اور پھر زیر ک سیاستدان وہ پہلی بار 1983میں اوکاڑہ ضلع کونسل کے چیئرمین منتخب ہوئے، اس کے بعد 1985کے عام انتخاب میں پہلی مرتبہ رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے۔ ا±س وقت وہ صوبائی اسمبلی کے اسپیکربھی منتخب کیے گئے۔1988میں ایک بارپھر بطور آزاد امیدوار پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے لیکن اس کے فوراً بعد انہوں نے پاکستان مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی تھی جو ا±س وقت اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کا حصہ تھی۔ اس مرتبہ بھی وہ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر منتخب کیے گئے۔منظور وٹو کی سیاست کا عروج 90کی دہائی میں دیکھا گیا۔ وہ دور جب نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان اقتدار کی آنکھ مچولی جاری تھی، وٹو صاحب نے اپنی سیاسی بصیرت اور جوڑ توڑ کی مہارت سے وہ کر دکھایا جو بظاہر ناممکن تھا۔ 1993 میں جب وہ پنجاب اسمبلی کے سپیکر تھے، انہوں نے میاں نواز شریف کے جیتے ہوئے صوبے میں ایسی بساط بچھائی کہ میاں صاحب کے اپنے ہی ساتھی ٹوٹ کر وٹو صاحب کے ساتھ جا کھڑے ہوئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ایک چھوٹی سی سیاسی جماعت (جونیجو لیگ) کے سربراہ ہونے کے باوجود پنجاب کے وزیر اعلیٰ بن گئے۔حالانکہ اُس وقت پنجاب اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ (نواز) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس تقریباً برابر 100,100 نشستیں تھیں۔ لیکن جونیجو لیگ 18نشستوں کے ساتھ گیم چینجر حیثیت اختیار کر گئی۔ پہلے جونیجو لیگ نے ن لیگ کا ساتھ دیا تو غلام حیدر وزیر اعلی منظور وٹو سپیکر بن گئے۔ لیکن کچھ عرصہ بعد جب میاں نواز شریف کی وفاق میں حکومت ختم ہوئی اور محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں تو میاں منظور وٹو نے پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر وزارت اعلی کا عہدہ دینے کی شرط پر غلام حیدر وائیں کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب کرائی اور خود وزیر اعلی بن گئے۔ پھر 1996میں وہ اپنے قائم کردہ سیاسی دھڑے کے پلیٹ فارم سے رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔اُس وقت انہیں بدعنوانیوں کے الزامات کا سامنا بھی کرنا پڑا اور اس حوالے سے قائم ایک مقدمے میں انہیں سزا بھی ہوئی۔جنرل پرویزمشرف کے دور میں رہائی کے بعد، انہوں نے مسلم لیگ ق میں شمولیت اختیار کی۔ وہ سابق صدر کے قریبی دوست تھے اور پرویز مشرف کے کہنے پر ہی انہوں نے اپنے سیاسی دھڑے مسلم لیگ جناح کو مسلم لیگ ق میں ضم کیا تھا۔ 2008کے عام انتخابات میں وٹو نے قومی اسمبلی کے دو حلقوں این اے 146(اوکاڑہ چار) اور این اے 147(اوکاڑہ پانچ) سے حصہ لیا اور دونوں پرکامیاب ہوئے۔اکتوبر 2012میں وٹو کو پی پی پی وسطی پنجاب کا صدر نامزد کیا گیا۔ پھر بعد ازاں وہ تحریک انصاف میں شامل ہوئے لیکن یہ تجربہ اُن کے لیے موزوں نہ تھا اس لیے وہ دوبارہ پی پی پی میں آگئے اور آخری وقت تک پیپلزپارٹی میں رہے،،، وٹو صاحب سے میں نے پیپلزپارٹی چھوڑنے کی وجہ پوچھی تو وہ کہا کرتے تھے کہ ہم اپنے اصل مقصد سے پیچھے ہٹ چکے ہیں، وہ دکھی انداز میں کہا کرتے تھے ہمارا مقصد کچھ اور تھا جب کہ ہمیں اقتدار کی حوس لے بیٹھی ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ پارٹی کے چندکرپٹ لوگ کرپشن کرتے ہیں اور جو لوگ کرپٹ نہیں ہوتے اُن کو بھی پارٹی میں زندہ رہنے کے لیے سسٹم کا حصہ بننا پڑتا ہے۔ الغرض منظور وٹو صاحب نے انسانی معاشرے کی معراج یعنی جمہوریت کو کبھی شرمندہ نہ ہونے دیا۔بقول شاعر کردار ہی کی بات ہے وگرنہ عارف قد میں تو سایہ بھی انسان سے بڑا ہوتا ہے بہرحال عوامی سطح پر میاں منظور وٹو کو کبھی بھی ایک مقبول عوامی لیڈر کے طور پر نہیں دیکھا گیا۔ وہ ایسے رہنما نہیں تھے جن کے نام پر بڑے جلسے ہوں یا جن کا کوئی مضبوط نظریاتی ووٹ بینک ہو۔ عام لوگوں میں یہ بات مشہور تھی کہ وٹو صاحب کی اصل طاقت ووٹ سے زیادہ سیاسی بندوبست میں ہے۔ اسی لیے ایک عام جملہ زبان زدِ عام تھا کہ وہ الیکشن جیتنے سے زیادہ حکومت بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔صحافی اور سیاسی تجزیہ کار میاں منظور وٹو کو ایک نہایت چالاک اور سمجھ دار سیاست دان قرار دیتے تھے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ طاقت کے مراکز کی نبض پہچانتے تھے اور حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے تھے۔ کئی کالم نگاروں کے نزدیک وہ پنجاب کی سیاست میں ایک ایسا کردار تھے جو منظرِ عام پر کم مگر پسِ منظر میں نہایت مو¿ثر نظر آتا تھا۔ مجموعی طور پر میاں منظور وٹو کو پاکستان کی سیاست میں ایک ریئلسٹ سیاست دان کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ وہ نہ تو عوامی ہیرو تھے اور نہ ہی کسی نظریاتی تحریک کی علامت، مگر وہ اس نظام کی درست عکاسی ضرور کرتے تھے جس میں اصول کم اور مصلحت زیادہ چلتی ہے۔ ان کے بارے میں لوگوں کی رائے دراصل انفرادی شخصیت سے زیادہ پاکستانی سیاست کے مجموعی مزاج کی عکاس ہے۔ان کی شخصیت میں ایک عجیب ٹھہراو¿ اور لچک تھی ۔ وہ ان سیاست دانوں میں سے نہیں جو دیوار سے ٹکر مار کر اپنا سر زخمی کر لیں، بلکہ وہ دیوار میں راستہ بنانا جانتے ہیں۔ ان کی اسی صفت کی وجہ سے انہیں”موقع شناس“ بھی کہا گیا اور ”اصولی سیاست کا باغی“ بھی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے ثابت کیا کہ پارلیمانی جمہوریت میں نمبرز کی گیم کیسے کھیلی جاتی ہے۔منظور وٹو نے اپنی عمر کا بڑا حصہ مسلم لیگ کے مختلف دھڑوں میں گزارا، لیکن جب وہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے تو وہاں بھی انہوں نے اپنی جگہ بنائی۔ صدر زرداری کے دورِ حکومت میں انہیں پنجاب کی صدارت سونپی گئی، جو اس بات کا اعتراف تھا کہ پیپلز پارٹی کو پنجاب میں دوبارہ قدم جمانے کے لیے وٹو صاحب جیسے تجربہ کار اور زمینی حقائق سے واقف کھلاڑی کی ضرورت ہے۔ بہرکیف آج کی سیاست بدل چکی ہے۔ بیانیہ، سوشل میڈیا اور نوجوان ووٹرز نے پرانی وضع قطع کی سیاست کو چیلنج کر دیا ہے۔ مگر اوکاڑہ اور دیپالپور کی حدود میں آج بھی ”وٹو فیکٹر“کو نظر انداز کرنا ناممکن ہے۔ اگرچہ وہ آخری دنوں میں خود شاید اس متحرک انداز میں نظر نہیں آتے تھے، لیکن ان کے خاندان کے افراد اب بھی انتخابی سیاست کا اہم حصہ ہیں۔لہٰذامیاں منظور وٹو جو آج ہم میں نہیں رہے،،، کی سیاست کا تجزیہ کیا جائے تو ایک بات واضح ہے کہ وہ اقتدار کے ایوانوں کے وہ ”مستنصر“ تھے جو جانتے تھے کہ ہواو¿ں کا رخ کب بدلنا ہے۔ ان پر تنقید کرنے والے انہیں ”مفاد پرست“ کہیں یا ان کے چاہنے والے انہیں ”سیاسی گرو“ مانیں، اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پنجاب کی سیاسی تاریخ ان کے ذکر کے بغیر ادھوری رہے گی!