کیا کوئی پاکستانی غدار یا دہشت گرد ہونے سے رہ تو نہیں گیا؟

وطن عزیز کا نظام اس وقت اس قدر بگڑ چکا ہے کہ عوام تو سڑکوں پر ہیں ہی، صحافی، تاجر اور عدلیہ بھی سراپا احتجاج ہیں،،، عوام مہنگائی میں پسے جا رہے ہیں، تاجر نت نئے ٹیکسوں کا رونا رو رہے ہیں، صحافی پیکا ایکٹ کے خلاف سڑکوں پر ہیں،،، اور اعلیٰ عدلیہ کے ججز سینیارٹی لسٹ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے اور دوسری عدالتوں سے ججز کو امپورٹ کرنے کے خلاف چیف جسٹس سپریم کورٹ اور دیگر چیف جسٹس صاحبان کے سامنے سراپا احتجاج ہیں۔ جبکہ حکومت ہر بولنے والے کو بزور قوت چپ کروانے کے حربے استعمال کر رہی ہے۔ ان حربوں میں غدار قرار دینا، دہشت گردی کے پرچے قائم کرنا، اور لاپتہ افراد میں شامل کروادینا عام سی بات ہے۔ تبھی ملک میں شاید ہی کوئی خاندان بچا ہو جس کا کوئی نہ کوئی فرد ”غداری“ یا دہشت گردی جیسے القابات سے نوازا نہ گیا ہو۔ آپ خود دیکھ لیں کہ سیاسی لوگوں پر مقدمات تو قائم کیے ہی گئے تھے، مگر ساتھ ہی اُن کے پاسپورٹ ہی بلاک کر دیے گئے ہیں،،، مطلب! تاریخ میں شاید ہی کوئی ”حکمران“ ایسا گزرا ہو جو اتنی سرعت کے ساتھ مخالفین کا پیچھا کرے۔ جیسے شہباز گل کا ناصرف پاسپورٹ بلاک کیا گیا، بلکہ اُس پر دہشت گردی کا پرچہ بھی قائم کیا گیا،،، بقول اُس کے کہ اُسے دہشت گرد قرار دے کر اس کا پاسپورٹ تو بلاک کیا ہی تھا، مگر یہ ڈیٹا یورپی ممالک کے ساتھ بھی شیئر کردیا گیا ،،، وہ کہتے کہ مجھے یورپ کے سفر پر جانا تھا، تو جیسے ہی میں ائیر پورٹ پر اُترا تو امیگریشن والوں نے مجھے سائیڈ پر کر دیا، اور کہا کہ آپ کا پاسپورٹ بلاک ہے؟ اور آپ پر تو دہشت گردی کا پرچہ بھی ہے،،، اس پر میں نے اُن سے کہا کہ یہ میں آپ کے سامنے ہوں،،، خوب چیک کریں کہ میرا امریکا میں ریکارڈ کیسا ہے؟ حالانکہ وہاں تو سب چیزیں کمپیوٹرائزڈ ہیں،،، اگر میرا ریکارڈ خراب ہوتا تو وہاں ہوتا۔ لہٰذاچھان بین کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ پاکستان میں مجھ پر جھوٹے مقدمات درج ہیں، اور ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں،،، لہٰذاانہوں نے مجھے باعزت بری کر دیا۔ بلکہ انہوں نے میرے کیسز کے حوالے سے حکومت پاکستان پر بھی تعجب کا اظہار کیا کہ یہ لوگ سیاست میں کس حد تک مخالفین پر کیسے کیسے مقدمات درج کرواتے ہیں۔“ ویسے حد ہے ہماری حکومت پر کہ وہ بیرون ملک میں اپنا مذاق خود بنوا رہی ہے،،، اور رہی سہی کسر اسلام آباد ہائی کورٹ کے سات ججز نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی اور صدر آصف علی زرداری کو ایک خط میں لکھ کر نکال دی ہے کہ کیسے کسی دوسری ہائی کورٹ سے ججز کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں تعیناتی کرکے اپنی مرضی کا چیف جسٹس لگا دیا جائے گا؟ یہ عدلیہ کے لیے تباہ کن ہوگا.... لہٰذاان ججز نے اگر احتجاج جاری رکھا تو معذرت کے ساتھ ان پر بھی غدار ی اور دہشت گردی کے پرچے کاٹ دیے جائیں گے۔ اور یہ سب کچھ آج کا نہیں بلکہ شروع سے ہی ہوتا آیا ہے،،، یہ لوگ اپنی مرضی کے سیاستدانوں اوپر لاتے ہیں اور باقیوں پر غداری کے فتوے لگا دیتے ہیں،،، کبھی بے نظیر سکیورٹی رسک قرار پاتی ہیں، تو کبھی نواز شریف غداری کے الزام میں عمر قید کاٹ رہے ہوتے ہیں، کبھی زرداری سزا کاٹ رہے ہوتے ہیں،،، ہمیں یہ ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ جنرل ایوب جب اپنی طاقت کے جوبن پر تھے تو انہوں نے اپنے سیاسی حریفوں کا کس طرح ناک میں دم کر رکھا تھا۔ ان ہی کے دور میں بانی پاکستان قائداعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح پر کیا کیا الزامات نہیں لگائے گئے تھے اور انہیں غدار تک کہا گیا تھا، ان کو الیکشن میں ہروایا گیا تھا۔ جنرل ایوب کے بعد جنرل یحییٰ اور بھٹو کے دور میں مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوگیا تو پھر کسی نے جنرل یحییٰ کو، تو کسی نے بھٹو کو ملک کا غدار قرار دے دیا۔ بھٹو کے بعد جنرل ضیاءالحق نے 90 دن کے وعدے پر تقریباً گیارہ سال اس ملک پر بلاشرکت غیرے حکومت کی۔ لیکن اُنہیں کسی نے غدار نہیں کہا۔ حالانکہ آئین کے ساتھ غداری انہی مارشل لاءایڈمنسٹریٹرزنے کی تھی۔ پھر اگست 1988 کے بعد اس ملک خداداد میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق کے ادوار آئے، جس میں ان سب نے ایک دوسرے کی مٹی پلید کر کے رکھ دی۔ ان جمہوری حکومتوں کے درمیان 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے بھی حکومت سنبھالی۔ جس کے دوران بھی مختلف قسم کے واقعات رونما ہوتے رہے۔ کوئی غدار ٹھہرتا رہا تو کوئی محب الوطنی کے تمغے سینے پر سجاتا رہا۔ اس کے بعد 2008 میں پھر پیپلز پارٹی اور 2013 میں مسلم لیگ ن کی حکومت اس ملک کے نصیب میں آئی، جس میں ان دونوں پارٹیوں نے اپنے پچھلے ادوار اقتدار کی نسبت ایک دوسرے کے خلاف قدرے ہاتھ ہولا رکھا،لیکن پھر اس آسمان نے ایسے مناظر بھی دیکھے جب ایک دوسرے کی جان کے دشمن اور ایک دوسرے کو ملک کےلیے سیکیورٹی رسک اور مودی کے یار کہنے والے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے نظر آئے اور آج کل دونوں پارٹیاں شیر و شکر بنی ہوئی ہیں اور عوام کے مفاد کےلیے اپنی مخالف پارٹی پاکستان تحریک انصاف کے سامنے ڈٹی ہوئی ہیں اور پورا زور لگا رہی ہیں کہ تحریک انصاف کے قائدین، ورکرز اور عوام جو سوشل میڈیا پر احتجاج کر رہی ہے، کو غدار اور سیکیورٹی رسک ثابت کیا جاسکے۔اور رہی بات تحریک انصاف کی تو یہ بھی دودھ کی دھلی نہیں، بلکہ جب ان کی حکومت آئی تو انہوں نے بھی وہی وطیرہ قائم کیا، اور اپنی تمام توانائیاں مخالفین کو غدار ٹھہرانے میں صرف کیں۔۔۔ اور پھر جب آپ ہر کسی کو غدار ٹھہرائیں گے، سسٹم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کریں گے، ہر کسی کو دہشت گرد ٹھہرائیں گے، تو پھر انقلاب آئے گا،،، آج بھی سپریم کورٹ کے ججز فوجی عدالتوں کے کیس میں حکومت سے یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ بتایا جائے کہ بم دھماکے کروانے والوں اور سیاسی قیدیوں میں کیا فرق رہ گیا ہے؟ لہٰذافیصلہ کرنے والے ہوش کے ناخن لیں، کیوں کہ کسی ملک میں آج تک مہنگائی کی وجہ سے انقلاب نہیں آیا، بلکہ انقلاب ہمیشہ نظام کی خرابی کی وجہ سے آتا ہے،،، اور پاکستان میں نظام خراب ہو چکا ہے، عدلیہ جوڈیشل کمیشن کو خطوط لکھ لکھ کر احتجاج کر رہی ہے، کہ اُن کے اختیارات میں کچھ نہیں رہا، وکلاءسڑکوں پر ہیں، سیاستدان سڑکوں پر ہیں، اساتذہ سڑکوں پر ہیں اور صحافی رہ گئے تھے وہ بھی سڑکوں پر آچکے ہیں۔ قصہ مختصر کہ غدار غدار کی گردان آج تک رُک نہ سکی، لیکن اس دور میں فرق صرف اتنا ہے کہ یہ گردان سفر کرتی ہوئی بیرون ملک میں موجود پاکستانیوں تک جا پہنچی ہے جو خاصے پریشان دکھائی دے رہے ہیں،،، اُن پر اس حوالے سے کیا بیت رہی ہے، یہ وہی بتا سکتے ہیں، مجھے اُمید ہے کہ وہ حکومت کے ان اقدامات کے بعد بھی محب وطن پاکستانی رہیں گے، اور رہنا بھی چاہیے،، کیوں کہ مجھے اُمید ہے کہ جب اگلی حکومت اگر تحریک انصاف کی ہوئی تو یہی غدار پل بھر میں ”محب وطن“ بن جائیں گے!کیوں کہ یہ غداری کا الزام بھی پیارے پاکستان میں گویا میوزیکل چیئر کا کھیل بنا ہوا ہے یا پھر وہ ہما پرندہ جسکے کاندھے پر جا کر بیٹھے۔ جو بولے سو نہال۔ جو کچھ کہے وہ غدار۔ قحط الرجال ملک میں ”غداروں“ کاکوئی قحط نہیں۔ جس طرح کہاوت ہے کہ ایک قوم کا غدار دوسری قوم کا ہیرو ہوتا ہے۔ اسی طرح ہمارے ملک میں ایک دور کا غدار دوسرے دور کا محب وطن، یا ایک دور کا سب سے بڑا محب وطن دوسرے دور کا غدار کہلائے جاتا رہا ہے۔ جہاں آزادی کی جنگیں ”غدر“ کہلاتی ہیں وہاں ہیرو غدار اور غدار راتوں رات محب وطن ہو جاتے ہیں۔ یہ کالونیل دور سے چلتا آ رہا ہے۔ اسی لیے تو ہر چند سالوں بعد کوئی کتاب لکھ دیتا ہے ”غدار کون“ جیسے ”قاتل کون“ ”ڈکٹیٹر کون“۔ اگر مجھ سے پوچھو ”غدارکون“ تو میں کہوں ”شاید کوئی بھی نہیں“۔ سب ٹیم ٹیم کا گیم ہے۔ آج کل یہ قرعہ فال سابق وزیر اعظم عمران خان کے نام نکلا ہوا ہے۔ اور ہم بھی ماضی میں تحریک انصاف کے سپورٹ رہے ہیں، تو یہ قرعہ ہمارے نام بھی نکل سکتا ہے،،، فکر نہ کریں آپ کے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے،،، کیوں کہ بقول شاعر فراز: میں مقتل میں بھی مقدر کا سکندر نکلا قرعہ فال میرے نام کا اکثر نکلا اور رہی بات کہ ان میں سے بہت سے غدار 9مئی کے کیس کی وجہ سے ہیں تو آپ اُس پر شفاف تحقیقاتی کمیشن کیوں نہیں بنا دیتے؟ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا اور پھر دنیا بھی مطمئن ہو جائے گی کہ اصل ذمہ دار کون تھا؟ لہٰذادنیا جانتی ہے کہ یہاں غدار کتنی آسانی سے بنا دیے جاتے ہیں،،، حالانکہ غدار اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے ملک، قوم، یا کسی گروہ کے ساتھ وفاداری چھوڑ کر دشمن سے جا ملے یا نقصان پہنچانے کے لیے سازش کرے۔اور یہ لوگ تو پاکستان کے علاوہ کسی کی بات بھی نہیں کرتے،،،اور کیا حکومت کے ایسے اقدامات کے بعد یہ مزید متنفر نہیں ہوںگے؟ ضرور ہوں گے،،، اس لیے میں اکثر کہتا ہوں کہ ان سیاستدانوں نے جو غلطیاں کی ہیں انہیں اُس پر ایسی سزا دیں کہ دوبارہ کوئی کرپشن کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے، لیکن ایسی حرکتیں کہ فلاں غدار ہے اور فلاں محب وطن اس حوالے سے فیصلے عوام پر چھوڑ دیں ، لیکن اس کے برعکس اگر آپ فیصلے خود کریں گے تو پھر تو پھر میرے خیال میں چاروں طرف غدار ہی غدار ہوں گے، میڈیا بھی غدار ہوگا، عدلیہ بھی غدار ہوگی، بلکہ 25 کروڑ آبادی ہی غدار ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ ماسوائے ایک دوکے تمام سیاسی جماعتیں بھی غدار تصور کی جائیں گے،،، پھر پارلیمنٹ بھی غدار ہوگی اور صرف چند لاکھ وہ لوگ محبِ وطن ہوں گے جو یا تو حکومت میں ہوں گے یا حکومت کرنے والوں کے ہمراہ ہوںگے۔ تب شاید ہی سمجھ آجائے کہ ملک کےلیے سکیورٹی رسک کون ہے اور ملک کا رکھوالا کون ہے؟