اسٹیبلشمنٹ بری ہے یا سیاستدان ؟

پاکستانی سیاست اور سیاستدان ہر گزرتے دن کے ساتھ پہلے سے بھی زیادہ تقسیم کا شکار نظر آتے ہیں۔ 2018 کے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن مشکلات کا شکار نظر آ رہی تھی تو اب 2024 کے الیکشن میں تحریک انصاف بظاہر ویسی ہی صورتحال کا سامنا کر رہی ہے۔ اور اپنی اپنی مشکل کے وقت میں ان دونوں ہی جماعتوں نے اس مشکل کا الزام ’اسٹیبلشمنٹ‘ کے سر ڈالا ہے۔جبکہ ملک کی تیسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے ’اسٹیبلشمنٹ‘ سے گلے شکوے تو پرانی بات ہے۔اس صورتحال میں عام صارفین کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ جب کل اور آج مسئلے کی جڑ، سیاسی جماعتوں کے مطابق‘ ایک ہی ہے تو یہ جماعتیں اس معاملے پر ایک پیج پر کیوں نہیں آتیں؟لیکن کیا کریں اقتدار کی ہوس دونوں جانب سر چڑھ کر بول رہی ہے۔ مجھ سمیت ہر کوئی اداروں پر الزام تو دیتا ہے ، کہ وہ اقتدار کے لیے بندے منتخب کرتی ہے۔ مگر سیاستدانوں سے نہیں پوچھا جاتا کہ آپ کسی کے ذریعے کیوں منتخب ہونا چاہتے ہیں؟ کیا پھر اسے عرف عام میں یہ نہیں کہیں گے کہ سیاستدان ہی اقتدار کے بے انتہا پجاری ہیں جو بطور مہرہ استعمال ہوجاتے ہیں ،،، بلکہ دعوت دیتے ہیں کہ وہ دستیاب ہیں اُن سے ”بات چیت“ کی جائے۔ لیکن دستیابی کے باوجود جب اُنہیں اقتدار نہیں ملتا تو تب اُنہیں سمجھ آتی ہے کہ اُنہیں اقتدار کیوں نہیں ملا؟ پھر وہ اداروں پر ایسا غصہ نکالتے ہیں کہ ایسے لگتا ہے جیسے تمام برائیوں کی جڑ یہی لوگ ہیں۔ لیکن اس کے برعکس جب انہیں اقتدار مل جاتا ہے تو پھر وہ یہ باتیں بھول جاتے ہےں کہ اقتدار کے لیے اُنہیں کیوں چنا گیا ہے،،،باقیوں کو کیوں نہیں چنا گیا؟ اور پھر ہماری یہ والی جنگ آج سے نہیں بلکہ 1988ءسے شروع ہے۔ 1988ءمیں بے نظیر بھٹو کو اقتدار دیا گیا تو اُس سے پہلے انہوں نے اداروں کے متعلق کیا کچھ نہیں کہا۔ 1986ءمیں جب وہ لاہور آئیں تو اُن کا تاریخی استقبال کیا گیا،،، بلکہ جنہوں نے اُس استقبال کو دیکھا ہو تو وہ گواہ ہیں کہ لاہور ائیرپورٹ سے لے کر مینار پاکستان تک عوام ہی عوام تھے۔ جو محترمہ کے استقبال کے لیے بے قرار تھے۔ انہوں نے اپنی پہلی تقریر میں ہی اُن شخصیات کو للکارا جنہوں نے بھٹو کو پھانسی دی تھی۔ لیکن جب محترمہ کو اقتدار ملا تو وہ مکمل خاموش ہو گئیں، اور ہمیں یوں لگا جیسے ”سب اچھا “ ہو گیاہے۔ لیکن پھر جب 1990ءمیں اُن سے اقتدار واپس لیا گیا تو وہ اُن کے خلاف ہوگئیں۔ (ویسے اُنہیں جب اقتدار سے الگ کیا گیا تو وہ بھی بہت دلچسپ صورتحال تھی۔ )یعنی 6اگست 1990ءکی دوپہر ایک ڈیڑھ بجے تک محترمہ کو علم نہیں تھا کہ اُن کی اسمبلیاں آج توڑ دی جائیں گی، اور نہ ہی اُن کو ایجنسیوں نے ایسی خبر دی تھی، لیکن افواہوں کی بنیاد پر اُنہوں نے صدر غلام اسحاق خان سے کال پر بات کی تو اُنہوں نے کہا یہ سب افواہیں ہیں۔ ایسا کچھ نہیں ہے،،، لیکن دو تین گھنٹوں بعد یعنی ساڑھے چار بجے کے لگ بھگ سینیئر صحافیوں کو فوری طورپر ایوان صدر پہنچنے کے لیے کہا گیا، جہاں شام پانچ بجے صدرغلام اسحاق خان نے ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ صدر کی پریس کانفرنس میں بے نظیر حکومت کے خاتمے کی جو وجوہات بیان کی گئیں وہ کم وبیش وہی تھیں جو جنرل ضیاءالحق نے 29 مئی 1988 کو محمد خان جونیجو حکومت کے خاتمے کے وقت بیان کی تھیں۔ تاہم حقائق کچھ اور تھے۔ حکومت کی برطرفی کا اعلان کرنے کے بعد غلام اسحاق خان ایوان صدر کی بالائی منزل پرپہنچے تو بے نظیربھٹو سے تمغہ جمہوریت حاصل کرنے والے چیف آف آرمی سٹاف جنرل اسلم بیگ سمیت پاک فوج کی پوری قیادت وہاں موجودتھی۔بادی النظر میں غلام مصطفیٰ جتوئی کا دیرینہ خواب پورا ہونے جا رہا تھا۔ وہ چور دروازے سے ہی سہی لیکن وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ صدرغلام اسحاق خان نے فوجی قیادت کی موجودگی میں غلام مصطفیٰ جتوئی سے نگران وزیراعظم کا حلف لیا۔ ان کے ساتھ چار رکنی کابینہ نے بھی حلف اٹھایا، جس میں رفیع رضا، غلام مصطفیٰ کھر، سرتاج عزیز اور الٰہی بخش سومرو شامل تھے۔ اسی روز پنجاب میں غلام حیدر وائیں اور سندھ میں جام صادق علی نے نگران وزرائے اعلیٰ کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا۔اُن کی حکومت کے خلاف سازشوں میں شیخ رشید اور نواز شریف پیش پیش رہے، جن پر ”مہرے“ ہونے کا الزام بھی تواتر سے لگ رہا تھا۔ اور محترمہ پر غدار ہونے تک کے الزامات لگا دیے۔ خیر محترمہ کی حکومت کے خاتمے بعد محترمہ نے اسٹیبلشمنٹ پر طرح طرح کے الزامات کی بوچھاڑ کر دی۔ خیر بات ہو رہی تھی سیاستدانوں کے رویوں کی کہ جب وہ ”ان“ ہوتے ہیں تو کیا بولتے ہیں اور جب اُنہیں ”آﺅٹ“ کر دیا جاتا ہے تو وہ کیا بولتے ہیں۔ جیسے جب 1990ءمیں اقتدار نواز شریف کو دیا گیا تو اُس وقت محترمہ نے بھی اداروں کو متوجہ کرنے کے لیے اُن کے خلاف بھرپور مہم چلائی اور اداروں کو برا بھلا کہا ،،، لیکن جیسے ہی 1993ءمیں نواز شریف کی حکومت کو چلتا کیا گیا تو پھر ویسے ہی الزامات نواز شریف نے لگا نا شروع کردیے۔ یہ بالکل ایسے ہی تھا جیسے اقتدار کا لالی پاپ اگر آپ کے منہ میں دے دیا جائے تو آپ چپ،،، ورنہ رونا دھونا شروع۔ لہٰذاجب نواز شریف کو دوبارہ 1997ءمیں دوتہائی اکثریت سے اقتدار ملا تو انہیں سب کچھ اچھا لگنے لگا۔ لیکن جیسے ہی جنرل مشرف نے اُنہیں اقتدار سے نکالا تو وہ ایک بار پھر اداروں کے خلاف ہوگئے۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اُس وقت ملک کے تمام جمہوری حلقے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ تھے۔ جنہوں نے مشرف کو Appreciate کیا۔ خیر نواز شریف باہر چلے گئے،،، اُنہوں نے اداروں کے خلاف زہر اگلا، ،،پھر جیسے ہی میثاق جمہوریت ہوااور اقتدار کی بھنک پڑنے لگی تو انہوں نے قدرے خاموشی اختیار کر لی۔ پھر بے نظیر شہید ہوگئیں اور اقتدار پیپلزپارٹی کو ملا۔۔۔ اس دور میں تاریخ گواہ ہے کہ اداروں کو کسی نے کچھ نہیں کہا۔ کیوں کہ ایک پارٹی اقتدار میں تھی تو دوسری اقتدار سے باہر،،، لیکن دونوں ڈھکے چھپے انداز میں اتحادی تھے۔ پھر اُس کے بعد کے حالات سے آپ بخوبی واقف ہیں کہ ”مجھے کیوں نکالا“ اور زرداری صاحب کے اداروں کے خلاف بیانات جیسی تحریکیں شروع کی گئیں،،، اور پھر جیسے ہی انہیں اقتدار ملا یہ خاموش ہوگئے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی ان کو حکومت ملتی ہے، انہیں اسٹیبلشمنٹ بہتر محسوس ہوتی ہے،،، لیکن جب ان سے اقتدار واپس لیا جاتا ہے،،، تو یہ اداروں کے خلاف پاگل ہو جاتے ہیں۔ لہٰذاملک کے عوام اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سب لوگ اقتدار کے بھوکے ہیں،،، ہر کوئی کہتا ہے کہ یا تو وہ اقتدار میں آئے یا اُس کا اپنا بندہ اقتدار میں آئے۔۔۔ ورنہ نا تو وہ سیاست کو مانے گا، نہ الیکشن کو اور نہ ہی ریاست کو۔سوال یہ ہے کہ پاکستان کے لیے کون کام کر رہا ہے؟ کیا پاکستان کے لیے یہی باتیں رہ گئی ہیں کہ 75سال کا سارا گند عمران خان نے ڈالا ہے،،،، یا یہ باتیں رہ گئی ہیں کہ آئی پی پیز کے معاہدے تحریک انصاف کے دور میں ہوئے تھے۔چلیں مان لیا،،، لیکن اب یہ لوگ اقتدار میں نہیں ہیں تو پھر بتایا جائے کہ آئی پی پیز کے معاہدے Extendکون کر رہا ہے۔ حالانکہ یہ معاہدے تو بے نظیر دور میں،،، پھر نواز شریف دور اور پھر مشرف دور میں ہوئے تھے،،، جن کا خمیازہ ہم آج بھگت رہے ہیں۔ اور پھر کسی میں ایسی جرا¿ت ہے کہ وہ عوام کو بتائے کہ ان آئی پی پیز کے اصل مالک کون ہیں؟ خیر بات ہو رہی تھی اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کی تو میرے خیال میں آج ادارے جتنے مضبوط ہو چکے ہیں اتنے شاید ہی ماضی میں ہوئے ہوں۔ تبھی تو 8فروری کا الیکشن ہائی جیک ہوگیا اور اُنہی کو اقتدار ملا جو پہلے بھی ملک کا خانہ خراب کرتے رہے ہیں۔ آپ مجھے چھوڑیں وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹ دیکھ لیں جس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ شریف برادران نے کے الیکٹرک کے سودے میں کرپشن کی۔ اور یہ کرپشن 20ملین ڈالر تھی۔ مطلب یہ ایک سادہ سی کرپشن ہے،،، تفصیل میں جائیں تو بات بہت دور تک نکل جائے گی،،، بقول شاعر بات نکلے گی تو پھر د±ور تَلَک جائے گی لوگ بے وجہ اُداسی کا سبب پوچھیں گے بہرکیف میرے خیال میں اب لڑائی یہ ہے کہ اقتدار میں موجود دونوں بڑی پارٹیاں کہتی ہیں کہ اُنہیں حکومت کرنے دو، اُنہیں کرپشن کرنے دو، اُنہیں کمیشن کھانے دو،،، لیکن اُنہیں چھیڑو مت ۔لہٰذااب یوں لگ رہا ہے جیسے ان کے درمیان آپس میں صرف پیسوں کی لڑائی ہے، جب یہ زیادہ پیسے مانگتے ہیں تو وہ ناراض ہوجاتے ہیں،،، اور جب وہ پیسے زیادہ مانگتے ہیں تو یہ ناراض ہو کر کہتے ہیں کہ اب تو مقدس گائے کا بھی آڈٹ ہونا چاہیے۔ لہٰذایہی وجہ ہے کہ پاکستان اب تک ٹھیک نہیں ہوسکا۔ کیوں کہ یہ لوگ پاکستان کا نہیں بلکہ اپنا اپنا سوچتے ہیں۔۔۔ اور سوچتے ہیں کہ اقتدار میں کیسے آیا جائے،،، کسے کس وقت خوش رکھا جائے اور کس وقت ناراض کیا جائے،، یہ سب جانتے ہیں،،، صاحب اقتدار لوگ یہ بھی جانتے ہیں عوام کو کیسے Engageکرنا ہے،،، عوام اسی لیے التجاءکرتے ہیں کہ بس کیجئے، اقتدار کی لڑائی کو بس کیجئے، پاکستان کا سوچیں،،، ایسا نہ ہو کہ یہ سب لڑائیاں بیچ میں رہ جائیں اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں گے!