بلوچستان کو عزت دو!

یہ بات تو طے شدہ ہے کہ ریاست کے آگے کسی جتھے، گروپ، جماعت، عسکری ونگ یا گروہ کی بدمعاشی نہیں چل سکتی، ریاست ریاست ہوتی ہے، اور ریاست سے زیادہ طاقت کسی کے پاس نہیں ہوتی۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ریاست یہ طاقت کس پر کس وقت اور کس لیے استعمال کرتی ہے۔ لیکن ریاست اگر حکمت عملی کے ساتھ کام لے تو یہ طاقت اُس کے وجود اور اُس کی ترقی کے لیے کارآمد لیکن اگر ریاست اس طاقت کو بغیر کسی لانگ ٹرم پالیسی، یا خاص حکمت عملی کے استعمال کرے تو سب کچھ بگڑ جاتا ہے۔ آپ بلوچستان کے مسئلے کو ہی دیکھ لیں،،، اُسے ہم نے کبھی طاقت کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کی کبھی غیر ضروری لوگوں یا کسی ایک گروپ کے ساتھ بات چیت کرکے حل کرنے اوار اُنہیں انعامات دے کر اُن کے دل جیتنے کی کوشش کی مگر حالات خراب سے خراب تر ہوتے گئے۔ سمجھ سے یہ بات باہر ہے کہ فیصلہ کرنے والے یہ کیوں بھول بیٹھے ہیں کہ اُنہیں سب پتہ ہے؟ اگر اُنہیں سب پتہ ہوتا تو سب سے پہلے وہ بلوچستان کے اصل مسئلے کو سمجھتے۔ عین ممکن یہ بھی ہے کہ اُنہیں غلط رپورٹس جا رہی ہوں،،، لیکن مجال ہے کہ یہاں ”انا“ کے مسئلے نے سب کو روند دیا ہوا ہے۔ تبھی آپ غورکریں کہ بلوچستان دوسرے صوبوں سے الگ کیوں دکھائی دیتا ہے؟ یہاں بحرِ سیاست کی موجیں ہمیشہ مضطرب کیوں رہتی ہیں؟ اقتدار کا کھیل کسی قاعدے ضابطے میں کیوں نہیں ڈھل سکا؟ قومی سیاسی جماعتیں یہاں بے اثر کیوں ہیں؟ بلوچستان کے مقدر کا فیصلہ مقامی وادیوں کے بجائے راولپنڈی کے ایوانوں میں کیوں ہوتا ہے؟ بلوچستان کا حقیقی نمائندہ کون ہے اور اس کا فیصلہ کیسے ہو گا؟آج ایک بارپھر بلوچستان اخبارات اور ٹی وی چینلز کی شہ سرخیوں میں ہے۔ میں نے بارہا یہاں کی سیاست کو سمجھنے کی کوشش کی لیکن سچ یہ ہے کہ معاملہ کبھی گرفت میں نہیں آ سکا۔ اگر کوئی سرا ہاتھ لگا بھی تواس کے بیان کا یارا نہ ہوا۔ کبھی فہم کی کمی آڑے آئی اور کبھی جرا¿ت کی۔ ویسے یہ کہنا شاید درست نہ ہوکہ بلوچستان کی بہتری کیلئے کسی نے نہیں سوچا یا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ اچھے کام بھی ہوئے مگر ان کی نوعیت ایسی ہی ہے جیسے ایک بے ترتیب اور بدذوقی کی مظہر کتاب میں چند اچھے جملے۔ خیر ہمیں بلوچستان کے مسئلے کو ڈسکس کرنے سے پہلے اس مسئلے کو سمجھنا از حد ضروری ہے، یعنی دنیا میں اگر اس قسم کے فسادات ہیں تو وہ تین طرح کے خطے ہیں۔ ایک وہ جہاں قبائلی معاشرت جدید ریاست کے نظام سے ہم آہنگ نہ ہو سکی؛ جیسے افریقہ۔ دوسرا وہ جہاں ریاست اورعوام کے مفادات ایک دوسرے سے متصادم ہو گئے؛ جیسے بشار الاسد کا شام۔ تیسرا وہ جہاں جدید دنیا کے معماروں نے، اس دنیا کا نقشہ بناتے وقت،اپنے مفادات کے تحت تنازعات کو دانستہ باقی رکھا یا اپنے مفادات کے لیے مداخلت کی؛ جیسے مشرقِ وسطیٰ۔ آج زمین پر جہاں بھی فساد برپا ہے، ان تین میں سے کم ازکم کوئی ایک سبب اس کی بنیاد ہے۔ بلوچستان کے فساد میں یہ تینوں عوامل کارفرما ہیں۔ بلوچستان پاکستان کا وہ خطہ ہے جہاں قبائلی روایت سب سے زیادہ مضبوط ہے۔ دوسرے صوبوں کے شہری اور دیہی علاقوں میں بھی تفاوت ہے مگر وہ ثقافتی ہے۔ بلوچستان میں اس کی نوعیت مختلف ہے۔ قبائلی سردار آج بھی طاقتور ہے۔ آج بھی اس کا خیال ہے کہ وہ برہمن ہے اوردوسرے شودر۔ وہ آج بھی وسائل پر قابض ہے اوران میں صوبے کے عوام کو شریک نہیں کرنا چاہتا۔ اس کا مزاج آج بھی وہی ہے جو صدیوں پہلے تھا۔ چند دن پہلے کراچی میں ایک بلوچ سردار کے محافظوں کی گاڑی ایک شہری کی گاڑی سے جا ٹکرائی۔ شہری نے احتجاج کیا تو سردار نے اسے وہیں سزا دے ڈلی۔ قانون اس پر قادر نہیں تھا کہ اس کو گرفت میں لے۔اور ابھی تک مجال ہے کہ اُس کی گرفتاری عمل میں لائی جاسکی ہو۔ یہ سردار اور اُس کے علاقے میں بسنے والے عام بلوچ، آج بھی سمجھتے ہیں کہ ان کے مابین آقا اور غلام کا تعلق ہے۔ ریاست ان کی اس حیثیت کو چیلنج نہیں کرتی اور اپنے اختیارات سے رضا کارانہ طور پر دستبردار ہو جاتی ہے۔ اکبر بگٹی کے عہد میں، ان کے علاقے میں،ان کی اجازت کے بغیر سکول نہیں بن سکتا تھا۔ سکولوں کے اساتذہ کی تنخواہیں ان کے حوالے کی جاتی تھیں۔ بغیر سکول کے‘ وہ کن اساتذہ میں اسے تقسیم کرتے تھے، یہ خدا جانتا ہے یا ریاست۔ دوسرے سرداروں کا معاملہ بھی یہی ہے۔ ان کے گھر ہر بڑے شہر میں ہیں اور لندن میں بھی۔ چند برس پہلے قبائلی روایت کے تحت وہاں لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیا گیا اور ثنا اللہ زہری جیسے سرداروں نے پارلیمان میں اس کا دفاع کیا۔ جو سردار ریاست کے وجود کو چیلنج نہیں کرتے‘ ریاست ایک خاص خطے میں انہیں من مانی کی اجازت دیتی ہے۔ وہ لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیں تو بھی قانون حرکت میں نہیں آتا۔ انہیں صوبے اور مرکز میں مناصب بھی دیے جاتے ہیں۔ بعض سرداروں کو ریاست سے گلہ ہے۔ وہ ریاست کے وجود کو چیلنج کرتے ہیں۔ دنیا کی کوئی ریاست اس کو گوارا نہیں کرتی۔ یوں ریاست اور ان کے مابین تصادم کی فضا پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ ایک ریاست کی بصیرت اور دانش کا امتحان ہوتا ہے۔ ہماری ریاست اس امتحان میں ہمیشہ ناکام رہی۔ وہ ان کی طاقت کے خاتمے کے لیے صوبے سے مصنوعی قیادت پیدا کرتی ہے جو عصبیت سے محروم ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ ریاست کو زعم ہے کہ اس کے پاس طاقت ہے جو ہر مسئلے کا حل ہے۔ مصنوعی قیادت کی ایجاد اور طاقت کے استعمال سے پیدا ہونے والا یہ امتزاج کبھی کامیاب نہیں ہوا۔ ریاست کا اصرار ہے کہ وہ اس کو جاری رکھے گی۔ یوں صورتِ حال خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔ بلوچستان کا جغرافیہ بھی ایسا ہے کہ بین الاقوامی اور علاقائی طاقتوں کے مفادات اس سے وابستہ ہیں۔ چین سی پیک اور گوادر کی بندرگاہ کے باعث ایک بڑے معاشی انقلاب سے گزرے گا۔ خطے میں اس کا اثر ورسوخ کئی گنا بڑھ جائے گا۔ یہ امریکہ کو گوارا نہیں۔ گوادر بحیرہ عرب کے کئی بندرگاہوں پر ہونے والی کاروباری سرگرمیوں میں بڑا حصہ دار ہو گا۔ یہ بات ہمارے ہمسائیوں اور علاقائی قوتوں کو پسند نہیں۔ بلوچستان کو خدا نے جن معدنی وقدرتی وسائل سے نوازا ہے‘ اس پر بھی دوسری طاقتوں کی نظر ہے۔ ریاست سے ناراض طبقات کے ذریعے‘ یہ قوتیں چاہتی ہیں کہ یہاں مسلسل شورش برپا رہے۔ ریاست کی نااہلی یہ رہی کہ وہ عوام کی آسودگی کے لیے کوئی بڑا منصوبہ نہیں بنا سکی جس سے ریاست کے ساتھ عوام کا تعلق گہرا ہوتا۔ ریاست نے عوام کو سرداروں اور نااہل و بدعنوان اہلکاروں کے حوالے کر دیا۔ اس نے جس سماجی اضطراب کو جنم دیا‘ وہ آج مقامی اور عالمی قوتوں کے مفادات کا ایندھن بن گیا ہے۔ اس نااہلی کا ایک مظاہرہ ہم نے چند دن پہلے دیکھا۔ جو لوگ ریل گاڑی کے اغوا میں ملوث تھے‘ بہتر ہوتا کہ عوام کو ان کے بارے میں بتایا جا تا۔ ان کی شناخت کرائی جاتی اور ریاست اس بنیاد پر دہشت گردوں کے خلاف اپنا مقدمہ مضبوط کرتی۔ ایسا نہیں ہوا۔ اس سے ریاست کو ہدف بنانے والوں کو ایک ہتھیار مل گیا‘ جسے وہ ریاست کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر جاری مہم کا بھی کوئی موثر جواب نہیں دیا جا سکا۔ ماہ رنگ بلوچ کو ہیرو سمجھنے والے ملک بھر میں ہیں۔ ریاست یہ مقدمہ موثر طور پر پیش نہیں کر پائی کہ ان کی حقیقت کیا ہے؟ وہ پاکستان کے خلاف تو بولتی ہیں، سرداروں کے خلاف کیوں آواز نہیں اٹھاتیں؟ آج دہشت گردوں کا سیاسی بازو پوری طرح متحرک ہے مگر ریاست کا کوئی سیاسی بیانیہ موجود نہیں۔میں اس بحث میں جا ہی نہیں رہا کہ وہ قصور وار ہے ، وہ بیرونی ایجنڈے پر کام کر رہی ہے، یا وہ مظلوم ہے یا وہ بلوچ رہنما ہے۔۔۔ لیکن یہ ضرور جانتا ہوں کہ اُس کی اور اُس کے ساتھیوں کی گرفتاری کے بعد سے بلوچستان کے شہروں میں روزانہ کی بنیاد پر شٹر ڈاﺅن ہڑتال جاری ہے،،، ٹھیک ہے وہ ہماری نظر میں دہشت گرد ہے،،، مگر کیا ہم نے مقامی لوگوں کی سنی؟ کہ اُن کا کیا موقف ہے،،، ماہ رنگ یا اُس کی دیگر ساتھیوں کے بارے میں۔ میں جانتا ہوں کہ وہاں پر موجود سرداران کبھی کسی بیرونی مداخلت کو برداشت نہیں کرتے،،، خواہ وہ کان کنی ہو، انتظامات کا معاملہ ہو، سیاسی معاملات کا تعلق ہو یا دیگر اُمور یہ سردار کبھی اپنے اوپر کسی کو برداشت نہیں کرتے۔ یہ ان کی نیچر ہے یا کچھ اور انہیں سمجھنا اور اس کے مطابق ردعمل دینا ریاست کا کام ہے۔ اور پھر یہ سیاسی حکومت کا کام بھی ہے کہ وہ سیاسی محاذ ان عوامل کا پتہ چلائے کہ وہاں کی عوام مرکز سے متنفر کیوں ہو رہے ہیں؟ آج ایران میں ہم سے زیادہ مسئلے ہیں،،، وہ تن تنہا مشرق وسطیٰ میں اسرائیل و امریکہ جیسی طاقتوں سے نبرد آزما ہے،،، لیکن وہ اندرونی طور پر مضبوط ہے،،، جبکہ ہم اندرونی طور پر خلفشار کا شکار ہیں،،، یہ کیسی بات ہے کہ دہشت گرد کارروائیاں کرتے ہیں اور ہمارے لوگ ہی اس کی مذمت کرنے کے بجائے حکومت اور اداروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور دہشت گردوں کو ڈھکے چھپے الفاظ میں درست قرار دے رہے ہوتے ہیں۔ تو کیا کبھی نے اس حوالے سے سوچنے کی کوشش کی کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا کسی نے بلوچستان کے حوالے سے دس سالہ منصوبہ بنایا کہ جس میں وہاں کے عوام کی ترقی بنیادی شرط ہو۔ کیا وہاں کے عوام کو بلوچ سرداروں کے تسلط سے نکالنے کی کوشش کی؟ کیا وہاں پر تعلیم کو عام کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی؟ لہٰذافیصلہ کرنے والے اپنی انا اور ضد چھوڑیں دس سالہ پلان ترتیب دیں ،،، اورسب سے اہم اس کے لیے ڈائیلاگ کریں، ڈائیلاگ کو یقینی بنائیں، کیوں کہ دنیا کی ساری جنگوں کا خاتمہ ٹیبل پر ہی ہوتا ہے، اس سے ریاست بھی مضبوط ہوگی اور وہاں کے عوام بھی نارمل زندگی گزاریں گے اور پھر بلوچستان کو بھی عزت ملے گی جس کی اس وقت اشد ضرورت ہے!