کچے کا علاقہ: ریاست کے اندر ریاست!

یہ بات آپ کے علم میں ضرور آئی ہوگی کہ دو روز قبل پنجاب کی نگران حکومت نے کچے کے علاقے میں ایک گرینڈ آپریشن کی منظوری دی ہے جس میں 11ہزار پولیس اہلکار حصہ لیں گے اور کروڑوں روپے کا اسلحہ استعمال میں لایا جائے گا۔ اس آپریشن کی بظاہر وجہ تو یہی بتائی جا رہی ہے کہ رواں مہینے چار اپریل کی صبح 11 بجے پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کے قصبہ گڑھی خیر محمد جھک میں کسان مرد اور خواتین گندم کی فصل کی کٹائی میں مصروف تھے جب اچانک دو موٹر سائیکلوں پر سوار چھ مسلح افراد وہاں پہنچے اور کھیتوں میں کام کرنے والے کسانوں پر جدید اسلحہ تان لیا۔کسان مرد اور خواتین کو ڈرانے دھمکانے کے بعد ڈاکوو¿ں نے وہاں موجود ایک 16 سالہ بچے کو اغوا کرکے اپنے ساتھ لے جانے کا فیصلہ کیا۔ بچے کے بوڑھے والد موقع پر موجود تھے اور ڈاکوو¿ں کے یہ تیور دیکھ کر انھوں نے مزاحمت کی اور مقامی روایت کے مطابق انھیں قرآن پاک کے واسطے دیے۔انھوں نے ڈاکوو¿ں سے التجا کی کہ ان کے کم عمر بیٹے کو ساتھ لے جانے کے بجائے انھیں لے جایا جائے مگر ڈاکوو¿ں نے ایک نہ سنی۔بوڑھے والد پر تشدد کیا گیا اور لڑکے کو قریب ہی واقع کچے کے علاقے میں اپنے ڈیرے پر لے گئے۔پولیس کی ہیلپ لائن پر کال کی اور تھوڑی ہی دیر میں علاقہ پولیس وہاں پہنچ گئی مگر ڈاکوو¿ں کے ڈیرے پر جانا پولیس کے لیے کسی امتحان سے کم نہ تھا۔پولیس نے ٹال مٹول سے کام لیا ، جس کے بعد کچھ معززین دیہاتیوں کو لے کر ڈاکوو¿ں کے ڈیرے پر چلے گئے۔ اُن کے ہاتھ میں ایک قرآن پاک بھی تھا۔ مقامی روایت کے مطابق اگر ہاتھ میں قرآن ہو تو ڈاکو کوئی نقصان نہیں پہنچاتے۔ ڈاکوو¿ں نے اُنہیں عزت سے بٹھایا اور اُن کی بات سنی۔ انہوں نے اپنے بچے کی رہائی کا مطالبہ کیا جس پر ڈاکوو¿ں نے کہا کہ وہ بچہ ہم آپ کو نہیں دے سکتے۔ ہماری پولیس سے لڑائی ہے اور اس لڑائی میں ہمیں مزید بندے بھی اٹھانے پڑے تو اٹھائیں گے۔بچے کے لواحقین نے ڈی پی او رحیم یار خان ، آر پی او بہاول پور اور آئی جی پنجاب سے بھی رابطہ کیا۔ لوکل سرداروں سے بات بھی کی۔ الغرض ہر در کھٹکھٹایا۔جس کے بعد آئی جی پنجاب نے ایک پولیس ٹیم تشکیل دی، ایس ایچ او کی سربراہی میں اس ٹیم نے ”کراچی کچے“ میں ڈاکوو¿ں کے ٹھکانے پر ریڈ کیا جس کے باعث بچے کو رہاکروا لیا گیا۔ لیکن بعد ازاں علاقے میں اسی نوعیت کی بڑھتی کارروائیوں کے باعث بڑے آپریشن کا فیصلہ کیا گیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب کچے کے علاقوں میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن کیوں کیا جا رہا ہے اور اس کا دائرہ کتنا وسیع ہے؟ کیا یہ اس لیے تو نہیں کیا جا رہا کہ الیکشن سے بھاگنے کے لیے ساری توجہ اس جانب مبذول کروائی جائے۔ اور حکومت کو ایک بہانہ مل جائے کہ فورس اس طرح مصروف ہے اس لیے فی الوقت الیکشن کروانا قدرے مشکل ہے۔ حالانکہ صوبے بھر میں ڈھائی لاکھ سے زائد پولیس اہلکارموجود ہیں ۔ خیر یہ تو الگ بحث ہے مگر ہم کچے کے علاقوں کو ہی آج موضوع بحث بناتے ہیں تاکہ ہمیں اندازہ ہوسکے کہ پاکستان میں کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جہاں عام آدمی کی رسائی ممکن نہیں ۔ اور ایسے علاقوں میں سرفہرست ”کچے کے علاقے “ ہیں۔ جی ہاں! یہ کچے کے علاقے ایک ایٹمی ریاست میں وہ علاقے ہیں جہاں کسی دوسرے شہر سے آئے شخص کو تو ویسے ہی تحفظ حاصل نہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ مقامی افراد بھی یہاں کے ڈاکوﺅں کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ خیر اگر ہم اس مذکورہ علاقے کی بات کریں تو یہ علاقہ پنجاب سے شروع ہو کر(دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ) سندھ تک جاتا ہے، یعنی دریائے سندھ کے دونوں کناروں پر مٹی کی موٹی دیواروں جیسے بڑے بند بندھے ہوئے ہیں، تاکہ جب دریا میں تغیانی ہو تو دریا کا پانی باہر نکل کر سیلاب کا سبب نہ بنے۔ دیوار نما بندوں کے درمیان دریا کا فاصلہ کہیں زیادہ چوڑا تو کہیں کم۔دونوں کناروں پر موجود بندوں کے درمیاں کہیں 22 کلومیٹر کا فاصلہ ہے، اور کہیں دریا کے دونوں بندوں کے درمیان کا فاصلہ فقط دو کلومیٹر ہے، جیسے سیہون کے قریب لکی شاہ صدر کے مقام پر ہے۔ دریا سندھ کے دونوں کناروں پر موجود دیوار نما ان بندوں کے درمیان والے علاقے کو ”کچے کا علاقہ“ کہا جاتا ہے۔ اگر پنجاب کی جانب سے سندھ میں داخل ہوں تو دریا سندھ کے بائیں یا مشرقی جانب سندھ کے اضلاع بشمول گھوٹکی، سکھر، خیرپور، نوشہروفیروز، نواب شاہ، حیدرآباد اور سجاول لگتے ہیں۔ جبکہ دریا کے دائیں یا مغرب کی جانب کندھ کوٹ، شکارپور، لاڑکانہ، دادو، جامشورو اور ٹھٹھہ واقع ہیں۔ موسم گرما میں سخت گرمی کے باعث پاکستان کے شمالی پہاڑی علاقوں میں موجود گلیشیئر پگھلنے اور بعد میں جون اور جولائی میں مون سون بارشیں کے باعث دریا سندھ میں طغیانی آ جاتی ہے اور دریا کے دونوں کناروں پر موجود بندوں کے درمیاں دریا کی پوری چوڑائی پانی سے بھر جاتی ہے۔ مگر سردیوں میں دریا صرف درمیان میں ایک پتلی لکیر کی طرح بہتا ہے اور باقی علاقہ خالی رہتا ہے۔کسی دور میں کچے کے علاقے میں بڑے پیمانے پر دریائی جنگلات ہوا کرتے تھے جو اب کم ہو گئے ہیں۔ دریا میں طغیانی ختم ہونے کے بعد کچے میں کئی جگہوں پر جزیرے بن جاتے ہیں۔اگر ڈاکوﺅں کی پناہوں گاہوں کی بات کریں تو کچے کے مختلف علاقے بشمول شاہ بیلو، باگڑجی بیلو، راو¿نتی، شریف پور، الف کچو، ناگ واہ، گبلو، سدھوجا، ل±ڈڑ یا گیمڑو کا کچا ، کچہ کراچی، کچہ روجھان، بنگلہ اچھا، کچہ ماچکہ ، کچہ عمرانی ، کچی جمال ، کچہری عمرانی ، لنڈا موڑ، نوز بنداور پنوعاقل کا کچا بھی ڈاکوو¿ں کی پناہ گاہ ہیں۔ جبکہ مشہور گینگز میں بنوں ، عمرانی ، دولانی، لٹھانی ، سکھانی گینگز شامل ہیں۔ اگر ہم یہاں کے ڈاکوﺅں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو سندھ میں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ فوجی آمر جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاءکے خلاف سندھ میں چلنے والی موومنٹ فاردار یسٹوریشن آف ڈیمو کریسی(ایم آر ڈی )یعنی تحریک بحالی جمہوریت کی کامیابی کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے مقابلے میں ایک سیاسی قوت بنانے کا سوچا اور ایک سازش کے تحت ڈاکو کو متعارف کرائے گئے اور انہیں کچے میں چھپنے کا کہا گیا اور بعدمیں ڈاکوﺅں کے خلاف آپریشن کے نام پر کچے میں موجود بڑے رقبے پر جنگلات کو کاٹ کر زمینیں سندھ کے20جاگیر دار گھرانوں میں بانٹی گئیں،تاکہ وہ زراعت کا استعمال کر کے طاقتور بن سکیں اور انہیں وقت آنے پر پاکستان پیپلز پارٹی کے مقابلے میں کھڑا کیاجا سکے۔یہ الگ بات ہے کہ بعد میں وہی جاگیر دار گھرانے پی پی پی میں شامل ہو گئے۔مگر تین دہائیاں گزرنے کے باوجود شمالی سندھ میں دریا سے لگنے والے اضلاع میں تاحال ڈاکو راج قائم ہے۔بلکہ سندھ میں1984سے1994کا عشرہ،ڈاکوﺅں کی دہائی،کے طور پر مشہور تھا۔اس کے دوران دن دیہاڑے لوٹ مار اور اغواءبرائے تاوان کی وارداتیں عام تھیں۔تحقیق کے مطابق اس عشرے میں ڈاکوﺅں نے سندھ میں11ہزار436افراد کو اغواءکر کے ان سے تقریبا تین ارب روپے کا تاوان وصول کیا۔پھر یہاں1993-94میں پاک فوج نے ”آپریشن بلیو فاکس“نامی کلین اپ آپریشن شروع کیا جو دو سالوں تک جاری رہا۔اس آپریشن میں کئی ڈاکو مارے گئے اور بڑی تعداد میں ڈاکو روپوش ہو گئے،پھر2006ءسے اب تک کچے کے علاقے میں چھ بڑے آپریشن ہو چکے ہیں۔مگر ڈاکو راج کامکمل خاتمہ نہ ہو سکا۔2016ءمیں بھی اس علاقے میں چھوٹو گینگ کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کی گئی جس کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ یہ علاقہ دوبارہ جرائم پیشہ عناصر کی آماجگاہ نہیں بنے گا لیکن علاقے میں کنٹرول زیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھا جا سکا۔ اگر یہاں اسلحے کی بات کی جائے تو ان ڈاکوﺅں کے پاس ہتھیاروں کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ آپریشن میں ڈاکوﺅں نے پولیس کی بکتر بند گاڑی پرراکٹ داغا جو بکتر بند گاڑی کے آر پار ہو گیا ۔اور اس میں سوار2پولیس اہلکار اور ایک فوٹو گرافر شہید ہوئے۔اور پاکستان میں کلاشنکوف پہلے سندھ کے ڈاکوﺅں نے استعمال کی اور بعد میں پولیس کے پاس پہنچی اور کلاشنکوف ملنے کے بعد ڈاکو طاقتور بن گئے اور جرم کرنے میں آسانی ہو گئی،جبکہ پولیس اور دیگر فورسز سے لڑنے کے لیے ڈاکوﺅں نے راکٹ لانچر اور دیگر بھاری ہتھیار بھی خرید لیے تھے ۔ان ڈاکوﺅں کے پاس آر آر75جیسے جدید ہتھیاروں کے ساتھ مارٹر جسے ڈاکو اپنی زبان میں ہشٹڈو کے نام سے پکارتے ہیں اور12.7اور12.14بور کی گنز ہیں۔جبکہ پولیس کے پاس جی تھری اور ایس این کی گن ہیں،جن کا ڈاکوﺅں کے پاس موجود جدید اسلحے سے مقابلہ کیا ہی نہیں جا سکتا۔ بہرحال اس مرتبہ پنجاب پولیس سندھ کے ساتھ مل کر کچے کے علاقے خاص طور ضلع رحیم یار خان کے کچے کے علاقے میں دوبارہ آپریشن کرنے جا رہی ہے ، دعا ہے کہ یہ آپریشن صاف نیت کے ساتھ کیا جا رہا ہو۔ اور یہ دوبارہ جگ ہنسائی کا باعث نہ بنے کہ دنیا کہے کہ ایک ایٹمی طاقت کیسے ممکن ہے کہ ملک میں موجود چند سو کلومیٹر کا ایریا بھی واگزار نہیں کروا سکتی تو دنیا کا مقابلہ کیسے کرے گی؟ اور پھر صاف نیت کی بات میں نے اس لیے کی کہ میں پھر یہی کہوں گا کہ بقول شخصے حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ کچے کے علاقوں میں جرم ہونا کوئی نئی بات نہیں تو ایک ایسے موقع پر جب سپریم کورٹ پنجاب میں الیکشن کے احکامات دے چکی ہے تو مبینہ طور پر جانتے بوجھتے ہزاروں اہلکاروں پر مشتمل نفری کو اب ہی کیوں اس آپریشن کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔لہٰذااگر حکومت اس لیے آپریشن کر رہی ہے کہ الیکشن سے بھاگا جائے تو میرے خیال میں یہ پاکستان کے گلے بھی پڑ سکتا ہے، جس سے ممکن ہے کہ مزید جگ ہنسائی ہو اور ہم منہ دکھانے کے قابل بھی نہ رہیں!