فارن فنڈنگ کیس : کسی کو کچھ نہیں ہونے والا!

19جنوری کو اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد پی ڈی ایم ،الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سامنے احتجاج کررہا تھا۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کا آفس سپریم کورٹ آف پاکستان کے سامنے ہے ،علاوہ ازیںیہاں پارلیمنٹ ہاﺅس اور ایوانِ صدر بھی واقع ہیں۔پی ڈی ایم کا یہ احتجاج اُن کے ایجنڈے کے مطابق الیکشن کمیشن سے مطالبہ کرناتھا کہ تحریکِ انصاف جو کہ حکمران جماعت ہے، کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ کے زیرِ التواکیس کا جلد ازجلد فیصلہ سنائے وغیرہ۔ویسے تو احتجاج کرنے والوں کے بارے میں سب کو علم ہے کہ کون کہاں کھڑا ہے؟ اور احتجاج کے پیچھے کیا محرکات ہیں۔ لیکن بیرون ملک سے پیسہ لے کر پاکستان میں سیاست کرنا کوئی نیا کھیل نہیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم جرم کو اس وقت نہیں پکڑتے جب اس کا ارتکاب ہوتا ہے۔ جرم جب چلن بن جائے تو ہمیں ہوش آتا ہے اور ہم بوکھلا کر ہاتھ پاﺅں مارنے لگتے ہیں۔ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ سیاسی استعمال کے لئے پیسہ جب پاکستان آتا ہے تو ہمارا نظام بڑی سہولت سے کبھی ”دوست ملکوں“ کی وجہ سے آنکھیں بند کرلیتا ہے اور کبھی اس کا استعمال عین حلال قرار دے کر زبان بند کرلی جاتی ہے۔ ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ فارن فنڈنگ کوپاکستان کی ہرسیاسی جماعت نے دودھ اور شہد سمجھا۔ آج اس قسم کی فنڈنگ کے خلاف کھڑی جماعتیں دراصل اس جرم کے خلاف نہیں بلکہ تحریک انصاف کے خلاف کھڑی ہیں۔ ان میں سے کسی کی یہ ہمت نہیں کہ وہ اپنے حسابات کے بارے میں سوالوں کے مناسب جوابات ہی دے سکے۔ اس وقت چونکہ حکومت کی گردن اس شکنجے میں پھنسی ہے اس لئے انہیں جھومر ڈالنے کا موقع مل گیا ہے ورنہ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ اپنی جیب میں پڑے پیسوں کی شناخت بھی کسی کو نہیں بتا سکتے۔ اصل معاملہ کچھ اور ہے جس پرتحریک انصاف سمیت کوئی جماعت کبھی کام نہیں کرے گی کیونکہ اس طرح سیاست میں جو بنیادی تبدیلی آئے گی اس کو برداشت کرنے کے لئے ہماری سیاسی جماعتیں تیار نہیں۔ اور وہ کام یہ ہے کہ پاکستان میں الیکشن کو سستا کیا جائے۔ اتنا سستا کہ عام آدمی بھی اس میں حصہ لے سکے۔ اس حوالے سے بعد میں بات کرتے ہیں لیکن سب سے پہلے ”فارن فنڈنگ کیس“ کا ذکر کرتے ہیں کہ یہ کیس اصل میں ہے کیا؟ 2014 کے وسط میں پی ٹی آئی کے بانی ارکان میں سے ایک منحرف رکن اور عمران خان کے سابقہ قریبی دوست اکبر ایس بابر نے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں پیٹیشن دائر کی، جس کے مطابق پی ٹی آئی نے بیرون ملک ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کئے، الیکشن کمیشن نے اکبر ایس بابر کی پیٹیشن سماعت کیلئے منظور کر کے پی ٹی آئی اور اس کے سربراہ جناب عمران خان کو نوٹس جاری کئے، اس کے بعد ہر سماعت پر الیکشن کمیشن نوٹس جاری کرتا رہا، مگر پی ٹی آئی کی جانب سے نہ تو کوئی پیش ہوا نہ کسی نے جواب دیا، 2015 آ گیا، اس سال پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے سامنے یہ موقف اپنایا کہ ایک تو اکبر ایس بابر کو اس معاملے پر پیٹیشن کا حق حاصل نہیں تھا، دوسرا الیکشن کمیشن ماضی کے اکاو¿نٹس کے متعلق ایسی کوئی پیٹیشن سننے کا مجاز ہی نہیں، اب ان دونوں اعتراضات کی سماعت شروع ہوئی، اکثر پیشیوں پر پی ٹی آئی کے نمائندے غیرحاضر رہے، الیکشن کمیشن نوٹس جاری کرتا رہا، آخر الیکشن کمیشن نے یہ دونوں اعتراضات مسترد کر دیے، پی ٹی آئی اس فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ چلی گئی، اس دوران الیکشن کمیشن نے بھی سماعت جاری رکھی مگر پی ٹی آئی ہائی کورٹ کی اپیل کو بہانہ بنا کر الیکشن کمیشن سے بھاگتی رہی اور یوں یہ سال بھی گزر گیا۔ 2016 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان دونوں معاملات پر پی ٹی آئی کو دوبارہ الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کو کہا، الیکشن کمیشن نے دوبارہ ان اعتراضات کی سماعت کے بعد انہیں مسترد کر دیا، پی ٹی آئی اس فیصلے کے خلاف دوبارہ اسلام آباد ہائی کورٹ چلی گئی، اس مرتبہ انہوں نے نہ صرف اپنے سابقہ اعتراضات دہرائے بلکہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے استدعا کی کہ وہ الیکشن کمیشن کو اس کیس کی مزید سماعت سے روکے۔ ہائی کورٹ نے یہ درخواست مسترد کر دی مگر اعتراضات پر سماعت جاری رکھی۔ اب 2017 آ گیا، 2017 میں الیکشن کمیشن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے لگا، کمیشن نے عمران خان اور پی ٹی آئی کو نوٹسز پہ نوٹسز بھیجنا شروع کئے۔ جماعت اور اس کے سربراہ نے اسے نظر انداز کیا جس پر الیکشن کمیشن نے انہیں توہین عدالت کا نوٹس دیا۔ جب اس کا بھی اثر نہ ہوا تو بالآخر الیکشن کمیشن نے عمران خان کی گرفتاری کا حکم جاری کر دیا، اس کے خلاف پی ٹی آئی پھر ہائی کورٹ چلی گئی، اس بنیاد پر کہ الیکشن کمیشن عدالتی اختیارات نہیں رکھتا اس لئے وہ توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنے کا مجاز ہی نہیں، ہائی کورٹ نے گرفتاری کے وارنٹ منسوخ کر دیے تاہم عمران خان کو الیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کی، عمران خان کے وکیل نے الیکشن کمیشن کے سامنے معافی نامہ پیش کیا، بعد ازاں خان صاحب نے کہاکہ وہ معافی نامہ وکیل نے ان کی مرضی کے بغیر دیا تھا۔ قصہ مختصر کہ ماڈل ٹاﺅن میں 14 بے گناہ لوگوں کے قتل کی طرح فارن فنڈنگ مقدمہ بھی 6 سال سے زیر التوا ہے اور آج تک اس کا فیصلہ نہیں کیا جا سکا جبکہ الیکشن کمیشن کے سامنے 200 پیشیاں ہو چکی ہیں۔ پاکستان کے نظام عدل اور قوانین میں ایسی گنجائشیں موجود ہیں جن کی وجہ سے مقدمات کو طول دیا جا سکتا ہے۔ قوانین میں یہ سقم حکمران اشرافیہ نے خود ہی رکھے ہیں تاکہ اگر وہ کسی وقت کرپشن کے الزام میں کسی مقدمے میں پھنس جائیں تو ان کو اس مقدمے سے نکلنے کا راستہ بھی مل سکے۔ پاکستان کی عدالتی تاریخ شاہد ہے کہ عدالتوں میں مقدمات نسل در نسل چلتے ہیں اور ان کا فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ فوری اور سستے انصاف کے اصول پر عدالتی نظام کی تشکیل نو کرنا پارلیمنٹ کا کام تھا۔ افسوس پارلیمنٹ اپنے اس آئینی فرض کی ادائیگی میں ہمیشہ ناکام ہی رہی ہے۔ اگر پارلیمنٹ عدالتی نظام کی اصلاح کے لئے قانون سازی کرتی تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔ پاکستان کے آئین میں جتنی بھی ترامیم کی گئی ہیں وہ سب اقتدار کی بندر بانٹ کے لئے تھیں اور عوام کے بنیادی حقوق سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پاکستان کی حکمران اشرافیہ چاہتی ہے کہ موجودہ سٹیٹس کو برقرار رہے تاکہ وہ آزادی کے ساتھ لوٹ مار کرتی رہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اگراس مقدمے کا فیصلہ تحریک انصاف کیخلاف آجائے تو عمران خان اور تحریک انصاف کے لئے ناقابل تلافی نقصانات ہو سکتے ہیں۔ اور پھر ساتھ دوسری جماعتیں بھی اس گھیرے میں آسکتی ہیں۔ اس کے لیے الیکشن کمیشن ان ساری جماعتوں کو کوئی محفوظ راستہ فراہم کرے، ہوسکتا ہے الیکشن کمیشن ان ساری جماعتوں کو ”فیس سیونگ“ کا محفوظ راستہ دے گی، یا ان کو بچانے کے لیے محفوظ حکمت عملی بنائے گی، میرے خیال میں یا تو ان پر جرمانہ عائد کردیا جائے گا، یا ان سب کو وارننگ دی جائے گی اور آنے والی رقوم کو قومی خزانے میں جمع کروانے جیسے احکامات جاری کیے جائیں گے۔ اور اگر الیکشن کمیشن کی طرف سے کوئی سزا ہو بھی گئی تو اوپر ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ بیٹھے ہیں جہاں یہ لوگ اس کیس کو لے کر سالوں تک بیٹھے رہیں گے۔ لہٰذااگر اس کیس کا فیصلہ آتا ہے تو بہت سے سیاستدان پاکستانی سیاست میںدوبارہ قدم نہیں رکھ سکیں گے، ہوسکتا ہے کہ یہ پاکستان کے لیے انقلابی قدم ہو لیکن فی الوقت ایسا ہوتا ممکن دکھائی نہیں دیتا، کیوں اس سے ساری جماعتیں بیک وقت فارغ ہو جائیں گی، پھر اس مسئلے کا سادہ سا حل یہ ہے کہ الیکشن کو عام آدمی کی پہنچ میں لایا جائے، اخراجات کو کنٹرول کرنے کے لیے کمیشن بنائے جائیں، ضلعی سطح پر کمیشن بنائے جائیں، قارئین کو یاد ہو گا کہ علیم خان اور ایاز صادق کے درمیان لاہور میں ضمنی الیکشن ہوا تھا جس میں ایاز صادق فاتح رہے تھے، میں ایک حلقے کے الیکشن کے لیے اربوں روپے خرچ کیے گئے، لیکن الیکشن کمیشن کو یہ پیسہ نظر ہی نہیں آیا کیوں کہ وہی بات کہ قوانین تو صرف غریبوں کے لیے ہوتے ہیں، امیروں کو لیے تو ہر طرف سے چھوٹ ہے۔ لہٰذااتنا زیادہ پیسہ الیکشن پر نہیں خرچ ہونا چاہیے۔اس کے لیے مقامی سطح پر کمیٹیاں بنائی جائیں جو اس بات کا تعین کرکے الیکشن کمیشن کو رپورٹ کریں کہ فلاں اُمیدوار الیکشن میں بے تحاشہ پیسہ استعمال کر رہا ہے۔ پھر الیکشن کے ضوابط اس طرح کے ہوں کہ ہر حلقے میں جلسہ متعین جگہ کے علاوہ کہیں نہ ہوسکے، ملکی یا صوبائی سطح پر اشتہاربازی کا طے شدہ بجٹ ہزاروں میں ہو لاکھوں میں نہیں اور حلقہ جاتی اشتہارات کے لئے الیکشن کمیشن جگہوں کا تعین کرے جہاں چند ہزار روپے کے خرچ سے کام ہو جائے۔ اس کے بعد خفیہ ایجنسیوں کی مدد بھی لی جائے تاکہ امیدوار ووٹ خریدنے کی کوشش نہ کرے۔ اگر ایسا ہوگیا تو پھرکسی جماعت یا امیدوار کو فارن فنڈنگ تو کیا کسی بھی فنڈنگ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اس کے بعد ترقی یافتہ ملکوں کی طرح عام آدمی بھی الیکشن لڑ کر اسمبلی پہنچ سکے گا اور سیاسی جماعتوں میں بھی جمہوریت پنپ سکے گی۔ اگرایسا نہیں ہوگا اورالیکشن لڑنا اتنا ہی مہنگا عمل ہوگا جتنا اب ہے تو پھر فارن فنڈنگ کیا ہر طرح کا پیسہ ہمارے سیاسی عمل کو تباہ کرتا رہے گا۔ اور ہاں، اگر فارن فنڈنگ کا معاملہ طے ہی کرنا ہے تو پھر ساری جماعتوں کو ایک بار کٹہرے میں کھڑا کرلیں تاکہ پورا سچ تو عوام کے سامنے آئے! ورنہ کسی کا کچھ نہیں ہو سکتا۔