4اپریل: بھٹو کی پھانسی کے بعد سب کچھ بدل گیا!

عدلیہ کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں اور تاریخ کے اپنے، وقت دونوں کو موقع دیتا ہے اپنے آپ کو درست کرنے کا، ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کا وہ سیاسی کردار ہے جس کے چاہنے والے بھی بہت ہیں اور ناپسند کرنے والے بھی۔ وہ غدار بھی ٹھہرا اور محبِ وطن بھی مگر جس چیز نے اسے امر کر دیا وہ اس کا تاریخی فیصلہ کہ تاریخ کے ہاتھوں مرنے سے بہتر ہے کسی آمر کے ہاتھوں پھانسی چڑھ جانا۔ان کے ایک سال اور سات ماہ کوٹ لکھپت جیل سے اڈیالہ جیل کے پھانسی گھاٹ تک کے سفر نے اسے اپنی موت کے چالیس سال بعد بھی زندہ رکھا۔ یہ الگ بات کہ اُن کی پارٹی شاید اس کے نظریے کا بوجھ نہ اٹھا سکی، اس پر پچھلے کالموں میں کافی دفعہ بات کر چکا ہوں۔ بھٹو کے آخری ایام کو اس کی زندگی سے نکال دو تو اس کی سیاسی زندگی سے اختلاف کی بڑی گنجائش ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ جب تک زندہ رہا بڑے بڑے سیاسی رہنما ’بونے‘ نظر آئے، شاید اسی وجہ سے پارٹی کے اندر اور باہر اس کیخلاف سازشوں میں شریک رہے، کچھ رہنماﺅں نے ضرور کوشش کی، اس کی جان بچانے کی، غیر ملکی سربراہانِ مملکت نے بھی اپیل کی، ایک آخری کوشش سابق وزیراعظم غلام مصطفیٰ جتوئی نے کی مگر جب بیگم بھٹو کے ذریعے بھٹو صاحب کو پتا چلا کہ کسی ”این آر او“ کی بات ہو رہی ہے تو انہوں نے پیغام دیا کہ تم لوگ کیوں چاہتے ہو کہ میں تاریخ کے ہاتھوں مارا جاﺅں، میری پھانسی کا فیصلہ بہت پہلے ہو چکا، تم لوگ مجھے کمزور نہ کرو۔بھٹو پھانسی چڑھ گیا مگر اس کی مقبولیت کی گواہی بعد میں ان سے ملی جو اس کے سخت مخالف تھے۔ آج 4اپریل کو بھٹو کی برسی پر اُنہیں ہر سال اس لیے بھی یاد کیا جاتا ہے ، کہ وہ تاریخ میں امر رہیں۔ آج بھی ہم اُنہیں اس لیے یا د کر رہے ہیں کہ وہ ایک مقبول رہنما تھے، وہ عوام دوست رہنما تھے۔ ہم نے اپنے مقبول سیاسی رہنما کا اپنا ہاتھوں سے قتل کیا۔ آج بھی حالات ویسے ہی ہیں، ایک شخص جس کی مقبولیت کا گراف اس وقت 80فیصد کے قریب پہنچ چکا ہے ہم اُس کی سیاست کو ختم کرنا چاہتے ہیں، ہم اُس کا عدالتی قتل چاہتے ہیں، ہم اُسے پیچھے دھکیلنا چاہتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ ایک بار پھر ایسا ہوا تو تاریخ ہمیں ایک بار پھر معاف نہیں کرے گی۔ اگر بھٹو صاحب کی بات کریں تو آج 44سال گزر گئے مگر اُن کے ساتھ ہوئی ظلم و زیادتی آج بھی سب کو یاد ہے۔ اُن کے ساتھ زیادتی کی انتہاتو یہ تھی کہ اُن کے عدالتی قتل کے بعد راولپنڈی جیل میں ان کی لاش ایک فوٹو گرافر کے حوالے کر دی گئی اور یہ فوٹو گرافر لاش کا پاجامہ اتار کر بھٹو صاحب کے پوشیدہ اعضاءکی تصاویر بناتا رہا؟ اس جیل کے سکیورٹی انچارج کرنل رفیع الدین نے اپنی کتاب ”بھٹوکے آخری 323دن “میں لکھا ہے کہ یہ فوٹو اس لئے بنوائے گئے تاکہ معلوم ہو سکے کہ ان کے ختنے ہوئے تھے یا نہیں؟ جنرل ضیاءالحق کی حکومت نے جیل حکام کو بتایا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی ماں ہندو تھی جسے ان کے والد نے زبردستی اپنی بیوی بنایا تھا اور بھٹو صاحب کا اصلی نام نتھا رام تھا تاہم کرنل رفیع الدین نے گواہی دی ہے کہ جب فوٹوگرافر نے بھٹو صاحب کے جسم کے درمیانی حصے کے بہت نزدیک سے فوٹو لئے تو پتا چلا کہ ان کا اسلامی طریقے سے ختنہ ہوا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی موت کو کئی دہائیاں گزر گئیں لیکن ان کی موت آج بھی ایک راز ہے۔ کرنل رفیع الدین نے لکھا ہے کہ جب بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی تو وہ بھوک ہڑتال پر تھے اور جیل میں ان پر کوئی تشدد نہیں کیا گیا تھا لیکن بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو یقین تھا کہ بھٹو صاحب کو پھانسی سے پہلے ہی قتل کردیا گیا تھا۔ بلکہ ذوالفقار علی بھٹو کی نماز جنازہ پڑھانے والے مولوی محمود احمد بھٹو اور بھٹو خاندان کے ایک ملازم عبدالقیوم تنولی سمیت ایسے کئی عینی شاہدوں کے بیانات شامل ہیں جن کا دعویٰ تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی گردن سلامت تھی اور پھانسی کا کوئی نشان نہیں تھا۔ 1979ءمیں بریگیڈیئر تفضل حسین صدیقی آئی ایس پی آر کے سربراہ تھے۔ انہوں نے اپنے ایک نوجوان افسر کیپٹن صولت رضا کو ایک فلم ایڈیٹنگ کے لیے دی تھی جس میں بھٹو صاحب کا جسدِ خاکی نظر آ رہا تھا۔ صولت رضا بریگیڈیئر بن کر ریٹائر ہوئے تو انہوں نے ایک کالم میں لکھا کہ ”یہ غسلِ میت سے پہلے کا منظر تھا“۔ اسی کالم میں بریگیڈیئر (ر) صولت رضا نے لکھا کہ ”اللہ شاہد ہے کہ پھانسی کے شارٹس اس فلم میں نہیں تھے“۔ خیر یہ بات تو سب پر عیاں ہو چکی ہے کہ بھٹو کی پھانسی ایک قتل تھا۔ ایک سیاسی قتل۔ لیکن اُس وقت حالات کچھ اور تھے، آج کچھ اور ہیں۔ اُس وقت میڈیا اتنا عام نہیں تھا جتنا آج ہے، اُس وقت عوام میں اتنا شعور نہیں تھا جتنا آج ہے۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد اگر آج بھی حالات نہیں سنبھل سکے تو اُسکی یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی قیادتوں کا گلا اپنے ہاتھ سے گھونٹتے ہیں۔ وہ محسن پاکستان اس لیے بھی تھے کہ انہوں نے پاکستانی سیاست کارُخ بھی بدلا، معیشت کو بھی متاثر کیا، اور پاکستان کو بہت کچھ دے کر، اور اس سے بہت کچھ لے کر اِس دنیا سے کوچ کر گئے۔ اُن کے بعد جنرل ضیاءالحق آئے اور انہوں نے سب سے پہلے نمایاں طور پر ”نظریہ ضرورت“ دریافت کیا جو آج بھی ہمارے ایوانوں، اداروں اور شخصیات میں موجود ہے۔ بقول شاعر تو دل تابِ نشاطِ بزم عشرت لا نہیں سکتا میں چاہوں بھی تو خواب آور ترانے گا نہیں سکتا اگر بات کی جائے کہ بھٹو کی پھانسی کے بعد سب کچھ بدل گیا تو اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں۔ اُن کے بعد 11سالہ ڈکٹیٹر شپ کے دور میں وہ فیصلے بھی ہم پر مسلط کیے گئے جو اُن سے انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ نے اپنی خواہشات کے مطابق کروائے۔ حالانکہ جنرل ضاءسے پہلے بھٹو کے دور اقتدار سے آپ لاکھ اختلاف کریں مگر انہوں نے اپنے دور اقتدار میں خاصے اچھے کام بھی کیے جن کا ذکر نہ کیا جائے تو میرے خیال میں زیادتی ہوگی، ان کے دورِ اقتدار میں پاکستان کا آئین بنایا گیا، جوہری پروگرام شروع ہوا، سٹیل ملز اور ہیوی مکینیکل کمپلیکس جیسی صنعتیں لگیں، مزدوروں کے حقوق کے لیے قانون سازی سمیت متعدد ترقیاتی کام کیے گئے۔اُنہوں نے میٹرک تک سکول کی فیس معاف کی۔ طلباءکو انہوں نے سفری سہولیات کے ساتھ 10پیسے مہیا کیے ، انہوں نے مزدور کو تحفظ فراہم کیا، کرایہ دار کو مالک مالکان کے حوالے سے تحفظ دیا، بھٹہ ملازمین کو تحفظ دیا، پھر انہوں نے ملک کی بڑی صنعتوں کو قومی تحویل میں لے لیا، اس بارے میں مختلف آراءموجودہیں، لیکن میری رائے میں یہ ایک اچھا فیصلہ تھا، جس سے عام آدمی کو خاصا فائدہ ہوا،الغرض بادی النظر میں جتنے کام انہوں نے پانچ برسوں میں کیے اِتنے کام ان کے بعد آنے والے فوجی یا سیاسی لیڈر کئی برسوں میں بھی نہیں کر پائے۔ لیکن اُن کے جانے کے بعد جیسے میں ذکر کر چکا ہوں کہ جنرل ضیاءالحق نے ملک کا چہرہ ہی بدل دیا۔ اُن کے 11سالہ اقتدار کا نچوڑ یہ تھا کہ انہوں نے امریکی ایما پر افغان روس جنگ کے لیے جہادی تیار کیے، جنہوں نے بعد میں پاکستان کی چولیں ہلاد یں، انہوں نے ملک کا چاہتے نا چاہتے ہوئے بھی شدت پسند بنایا، کلاشنکوف کلچر کو عام کیا۔ اور سب سے بڑا بلنڈر اُنہوں نے1985ءمیں غیر جماعتی الیکشن کروا کر کیا۔ یعنی ملک کے تیسرے انتخابات 25 فروری 1985ءکو ہوئے ،صوبائی اسمبلیوں کے لیے الیکشن کا انعقاد 28 فروری کو ہوا۔ جس میںجنرل ضیاءالحق نے سیاسی پا رٹیوں پر انتخا بات میں حصہ لینے پر پابندی لگا دی تھی۔سیاسی جماعتیں1973ءکے آئین کی بحالی کا مطالبہ کرتی رہیں۔انتخابات سے پہلے بہت سے قوانین اور قواعد میں تبدیلیاں کی گئیں اور جداگانہ انتخابات کا طریقہ کار متعارف کرایا گیا۔عام انتخابات کے نتائج کے مطابق 207 آزاد امیدوار کامیاب ہوئے،اور پھر سندھ سے تعلق رکھنے والے محمد خان جو نیجو کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔اس الیکشن کا بڑا نقصان یہ ہوا کہ غیرسیاسی افراد نے الیکشن میں شمولیت اختیار کی۔یعنی پہلی بار بزنس مین سیاست میں آئے اور اس مقدس پیشے کو سیاست کا رنگ دیا۔ الیکشن میں پیسے کی ریل پیل شروع ہوگئی، جو آج تک نہ رک سکی۔ بڑے بڑے نامور سیاستدان پیچھے دھکیل دیے گئے۔ اُن کی جگہ کاروباری شخصیات نے لے لی۔ اور پھر ہر ایک سیٹ کروڑوں روپے میں بکنے اور منتخب ہونے لگی۔ پھر 90کی دہائی میں حکومتیں آئیں اور چلی گئیں،پاکستان غیر مستحکم ہوتا گیا، پھر مشرف آئے اُن کے دور میں پاکستان کی معیشت قدرے بہتر تھی، مگر انہوں نے بھی طالبان کو پاکستان لانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اور آج بھی ہم ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ جبکہ اُن کے بعد آنے والی حکومتوں کی کارکردگی بھی سب کے سامنے ہے کہ آج پاکستان پر 150ارب ڈالرسے زائد کا قرضہ چڑ ھ چکا ہے۔ جسے علم نہیں کیسے اُتارا جانا ہے۔کوئی بھی اس ملک کے لیے مخلص نہیں ہے، سب اپنی اپنی جیبیں بھر رہے ہیں۔ اور جو شخص نہیں بھر رہا اُس کے راستے میں کانٹے بچھائے جا رہے ہیں۔ ہمیں یہ یقین کرنا چاہیے کہ خدارا اس ملک میں سیاسی اداروں کو اپنے فیصلے خود کرنے دیں ورنہ تاریخ ہمیں نہ تو کبھی معاف کرے گی اور نہ ہی ہم کبھی زندگی میں آگے بڑھ سکیں گے! اللہ اس ملک کے ساتھ مخلص قیادت کی حفاظت فرمائے (آمین)۔