افسوس: کسی کی ذاتی زندگی محفوظ نہیں !

لیں جی! آخر کار اُس طرح کے فیصلے بھی آنا شروع ہوگئے جن کی قوی اُمید کی جا رہی تھی۔ یعنی بانی تحریک انصاف اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو دوران عدت نکاح کیس میں 7،7سال کی سزا سنا دی گئی ، یہ سزا ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد کے سینئر سول جج قدرت اللہ نے سنائی ۔ گزشتہ ایک ہفتے میں بانی تحریک انصاف کے خلاف یہ تیسرا کیس ہے جس میں انہیں سزا سنائی گئی ہے۔اس مقدمے میں سابق وزیراعظم اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر الزام تھا کہ بشریٰ بی بی نے عدت کے دوران عمران خان سے نکاح کیا تھا۔ یہ مقدمہ بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا نے درج کرایا تھا۔آپ حال دیکھیں ہمارے اداروں کا کہ اس کیس کا فیصلہ فوری فوری کیا گیا مثلاََسینیئر سول جج قدرت اللہ نے 16 جنوری 2024 کو اس کیس کی سماعت اڈیالہ جیل میں کی اور پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف فرد جرم پڑھ کر سنائی۔پھر 25جنوری کو گواہان کے بیانات قلمبند کیے گئے۔ حالانکہ عورت کے ذاتی معاملات میں گواہان کہاں سے آگئے؟ پھر 31 جنوری کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کیس کی سماعت کی۔ عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے درخواست گزار اور گواہوں کے بیانات پڑھ کر سنائے اور دلائل دیے کہ یہ کیس ان کے مو¿کلان کی تذلیل کرنے کے لیے دائر کیا گیا اور سیاسی مقاصد کے لیے اسکینڈلائز کرنے کے لیے نوٹسز جاری کیے گئے۔لیکن دوسری جانب سیشن کورٹ نے فریقین کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا اور پھر عجلت میں فیصلہ بھی سنا دیا۔ اس طرح کے فیصلوں پر یقینا ہم افسوس ہی کر سکتے ہیں بلکہ تحریک انصاف کے سخت حریف چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری اس حوالے سے کہتے ہیں ”سیاست میں اس حدتک نہیں جانا چاہیے!“ انہوں نے یقینا ایسا اس لیے کہا کہ اُن کی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف بھی اسی قسم کی اخلاقی گراوٹ کا نمونہ پیش کیا گیا تھا بقول شاعر جس تن لاگے سو تن جانے اور جانیں لوگ من کی پیڑا جانے جس کے جی کو لاگا روگ بہرحال ویسے تو ہماری سیاست کا یقینا جنازہ نکل ہی چکا ہے کہ ہم ہر بار یا تو کسی کو بھینس چوری کے مقدمے میں گرفتار کروا لیتے ہیں، یا 40سال پرانے مقدمے میں اُٹھا لیتے ہیں، یا کسی کو ذاتی عناد پر الیکشن سے ہی باہر کر دیتے ہیں۔ نہیں یقین تو آپ تاریخ پر نظر دوڑا لیں آپ کو بہت سے ایسی مثالیں ملیں گے جس سے آپ کو لگے گا کہ واقعی ہم کس قدر گراوٹ کا شکار ہوچکے ہیں۔مثلاََ یہاں مر د تو دور کی بات خواتین سیاسی رہنماﺅں کو بھی نہیں چھوڑا جاتا ۔ تاریخ گواہ ہے کہ فاطمہ جناح کو بھی نہیں بخشا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے ایک جلسے میں ان پر ہونے والا ذاتی حملہ آج بھی بہت سے لوگوں کو یاد ہو گا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ کہ محترمہ سے پوچھا جائے کہ وہ شادی کیوں نہیں کرتیں؟پھر اُنہیں ایک جنرل کی جانب سے غدار بھی کہا جاتا رہا۔ اس کے بعد خود پیپلز پارٹی کی خواتین بھی اس طرح کے رویے کا نشانہ بنیں ،،، آج جس طرح بشریٰ بی بی پر مقدمات درج ہیں، اُنہیں طرح طرح کے القابات سے نوازا جا رہا ہے، اسی طرح یہ بات بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ بیگم نصرت بھٹو اور سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی نازیبا تصاویر ہیلی کاپٹر سے گرانے کا عمل بھی ہوا۔ اور یہ کسی ادارے کی طرف سے نہیں بلکہ مسلم لیگ نون کے رہنماو¿ں کے اوچھے ہتھکنڈوں میں شامل رہا۔یہ وہی محترمہ تھیں جن کے بارے میں گزشتہ سال نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسینڈہ آرڈرن نے بے نظیر بھٹو کو خراج تحسین پیش کیا اور ان کو سیاست میں آنے والی خواتین کے لیے ایک عمدہ مثال قرار دیا۔ اس کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کی خواتین کواس طرح کے سلوک کا سامنا کرنا پڑا، جہاں سیاسی مخالفین نے نہ صرف سابق وزیر اعظم کی بہنوں کے بارے میں عامیانہ باتیں کیں بلکہ دھرنے میں آنے والی خواتین کو بے جا تنقید کا نشانہ بنایا اور پارٹی ترانوں پر جھنڈے لہرانے والی خواتین کے لیے ”مجرے“ کا لفظ استعمال کیا گیا۔ سابق خاتون اول بشری بی بی کے لیے ”پنکی پیرنی اور جادوگرنی“ کے الفاظ استعمال کیے گئے اور ان کے بارے میں عجیب وغریب کہانیاں نہ صرف سیاسی حلقوں میں بلکہ میڈیا پر بھی گردش کرتی نظر آتی ہیں۔ پھر پارلیمان جو کہ ملک کا اہم ترین ادارہ ہے، وہاں بھی خواتین کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھنے کی بجائے ان پر نازیبا جملے کسے جاتے ہیں اور خواجہ آصف کی طرف سے محترمہ شیریں مزاری صاحبہ کے لیے ”ٹریکٹر ٹرالی“ جیسے الفاظ ان سیاست دانوں کی ذہنی پسماندگی کا ثبوت ہیں۔پھر یہی نہیں بلکہ پچھلے دنوں شوبز کی ایک مشہور شخصیت وینا ملک کا ٹویٹ دیکھا گیا، جس میں ایک خاتون سیاسی رہنما کے بارے میں نہایت بے ہودہ الفاظ استعمال کیے گئے تھے اور جن کا صرف ذکر کرنا ہی ایک باشعور انسان کے لیے باعث شرمندگی ہو گا۔ سلسلہ یہاں نہیں رکا بلکہ اس ٹویٹ کے نتیجے میں سوشل میڈیا پر لوگوں کو اُن کی ذاتیات پر حملے کرنے کا ایک اور موقع مل گیا۔ خیر بات ہورہی تھی عدت نکاح کیس کی تو ویسے تو میں یہاں بتاتا چلوں کہ ہمارے دین میں طلاق کے عمل کو سخت ناپسند کیا گیا ہے۔ اس کی مثال یوں بھی لے سکتے ہیں کہ حضرت عمرؓپر قاتلانہ حملہ ہوا ،ان سے کہا گیا کہ شہید ہونے سے پہلے کسی کو اپنا جانشین نامزد کر دیں۔ مشورہ دیا گیا کہ اپنے بیٹے عبداللہ بن عمرکو تاج وتخت کا وارث قرار دے دیں۔حضرت عمرؓ نے فرمایا،کیا میں اس شخص کوامت مسلمہ کا خلیفہ بنادوں جسے طلاق دینے کا طریقہ نہ آیا۔دراصل ان کے فرزند نے اپنی اہلیہ کو تب طلاق دیدی تھی جب وہ ایام مخصوصہ میں تھی۔لیکن مذکورہ نکاح اور عدت کے حوالے سے فیصلے میں یقینا سیاست کا عمل دخل ہے ورنہ اس قسم کے کیسز تو ذاتی خیال کیے جاتے ہیں اور کورٹ کچہری سے دور ہی رکھے جاتے ہیں۔ میری دانست میں مذہب ،مسلک اور عقیدہ انسان کا ذاتی معاملہ ہے،ریاست کو دخل اندازی نہیں کرنی چاہئے۔اسی طرح طلاق ،شادی اور عدت سے متعلق بھی میری یہی رائے ہے کہ یہ دو لوگوں کا ذاتی معاملہ ہے۔ اور پھر پاکستانی عدالتوں میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے جب عدت میں نکاح سے متعلق کسی کیس پر کارروائی ہوئی ہو۔ اور اس کیس میں فوری فیصلے نے یقینا ہمارے اداروں کی کلی کھول کر رکھ دی ہے۔ بلکہ اس پر ہیومن رائٹس کمیشن نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ” عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو ’غیر قانونی‘ شادی کے الزام میں فوجداری عدالت کی جانب سے سات سال قید کی سزا سنائے جانے پر شدید مایوسی ہوئی ہے۔ اس فیصلے کے لوگوں کی پرائیویسی کے حق، خاص طور پر عدالتی کارروائی کے دوران خواتین کے وقار کے حق اور ریاست کی مداخلت کے بغیر طلاق اور شادی کے بارے میں فیصلے کرنے کے حق پر پریشان کن اثرات مرتب ہوں گے۔انہوں نے مزید کہا ہے کہ اس سے ایس 496 کو سیاسی مقاصد کے لیے ہتھیار بنانے کی مثال بھی قائم ہو سکتی ہے۔ مزید برآں، یہ حقیقت کہ ایک سیاست دان جو اسٹیبلشمنٹ کے حق میں نہیں تھا، اب پانچ ماہ کے دوران چار بار مقدمات کے سلسلے میں مجرم قرار دیا جا چکا ہے۔ جس سے مناسب طریقہ کار، مشاورت کے حق اور منصفانہ ٹرائل کے بارے میں سنگین سوالات پیدا ہوتے ہیں، جو پاکستان میں جمہوریت کی حالت کی ایک واضح عکاسی ہے۔“ بہرکیف اب موجودہ ملکی سیاست اور اس کے بدلتے رنگ کسی بالی وڈ تھرلر سے کم نہیں ہیں لیکن جس موضوع کو عام طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے، وہ مخصو ص سیاست دانوں پر ہونے والے ذاتی نوعیت کے حملے اور سوشل میڈیا پر ان کی کردار ک±شی ہے۔یہ بحیثیت قوم سیاستدانوں کی مخالفت میں ہمارا عمومی رویہ بھی ہے۔ زیادہ ہولناک بات یہ ہے کہ میڈیا کی اہم شخصیات، جن کو ہزاروں لاکھوں لوگ فالو کرتے ہیں، انہیں ایک بہتر اور ذمہ دار رائے قائم کرنے کی بجائے اس گھناو¿نے عمل میں شریک دیکھا جا سکتا ہے۔اور پھر جس ملک میں لوگ ایک دوسرے کے خلاف غصے اور اختلاف کا اظہار ماں، بہن، بیٹی کو گالی دے کر کرتے ہوں، وہاں سیاسی حلقوں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر ان کی کردار کشی اسی معاشرتی بیماری کی عکاسی ہے۔پاکستان جیسے ممالک میں، جہاں ایک طرف تو سیاست ویسے ہی بدنام ہے، وہیں دوسری طرف اس طرح کے رویے ہمیں مزید بدنام کر رہے ہیں۔ لہٰذااس سارے سیاسی منظر نامے اور اس میں عدلیہ کے کردار کے حوالے سے بغور مشاہدہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف سیاست میں ہی اصلاحات کی ضرورت نہیں بلکہ سیاسی رہنماو¿ں اور نمائندگان اور اداروں کی اخلاقی تربیت کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں اس طرح کے اقدامات کو روکا جا سکے۔ اور اگر اس سلسلے کو نہ روکا گیا تو کسی کی بھی ذاتی زندگی محفوظ نہیں رہے گی! اور رہی بات بانی تحریک انصاف کے خلاف مقدمات کی تو جس طرح سے مقدمات کے فیصلے آرہے ہیں اس حساب سے تو لگتا ہے کہ بانی تحریک انصاف اور ان کے ارد گردلوگوں کو9 مئی کے کیس میں جلد یا بدیر پھانسی کی سزا سنا دی جائے گی۔ اور پھر پاکستان ایک بار پھر کسی بڑے سانحے سے دوچار ہوجائے گا!