پی ایس ایل : فائدہ جواریوں کا اور خواری عوام کی!

پی ایس ایل کا آغاز ہو چکا ہے، مگر آدھی سے زیادہ عوام تنگ ہے،،، کہ یہ نواں پی ایس ایل ہے جس میں لگاتار عوام نہ صرف خوار ہو رہی ہے، بلکہ ذہنی طور پر مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ کبھی راستے بند، تو کبھی سڑکیں بند تو کبھی کاروبار.... بندہ پوچھے ایسی کھیلوں سے کیا عوام خوش ہو سکتے ہیں؟ لیکن یہ سب کچھ عوام کو ہنستے، روتے ، دھوتے یہ دیکھنا اور جھیلنا ہی پڑرہا ہے۔ جھیلنا اس لیے کہ جس جگہ میچ کھلایا جا تا ہے، اُس شہر میں کرفیو کا سماں ہوتا ہے۔یقین مانیں جیسے ہی جنوری فروری کی تاریخ ہمارے سامنے آتی ہیں تو فوراََ پی ایس ایل ذہن میں آجاتا ہے، اور پی ایس ایل کے ذہن میں آنے کے بعد ٹریفک کی خواری بھی اچھی طرح ذہن نشین ہوجا تی ہے۔ اور یہ پریکٹس آج کی نہیں بلکہ گزشتہ 10سال سے جاری ہے۔ نہ آج تک اس کے حل کے بارے میں کسی نے سوچا ہے اورنہ ہی عوام کے بارے میں ۔ بلکہ ہر بار یہی کہا جاتا ہے کہ ملک میں کرکٹ کی بحالی کے لیے عوام کو اگر تھوڑی بہت قربانی دینی پڑتی ہے تو اس میں مسئلہ کیا ہے؟ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا قربانی دینے کے لیے عوام ہی رہ گئے ہیں؟ اور فائدہ اُٹھانے کے لیے جواری! خیر موجودہ پی ایس ایل 9ملک کے چار بڑے شہروں میں کھیلا جا رہا ہے، جن میں لاہور، کراچی، ملتان، راولپنڈی شامل ہیں۔ اور یہ کم و بیش سوا مہینے تک جاری رہے گا، یعنی اس ٹورنامنٹ کا فائنل 18مارچ کو رکھا گیا ہے۔ جبکہ ان مذکورہ شہروں میں جہاں یہ میچز ترتیب دیے گئے ہیں وہاں جو ٹریفک پلان ترتیب دیا گیا ہے اور پریکٹس میچزکے دوران بھی سڑکوں کی بلاوجہ بندش سے شہری گھنٹوں ٹریفک جام میں پھنسے رہتے ہیں۔بلکہ لاہور کا ذکر تو بعد میں کرتے ہیں ، آپ پہلے کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم کا ذکر کر لیں یہ اسٹیڈیم جہاں واقع ہے وہاں قریب ہی لیاقت نیشنل اورآغا خان یونیورسٹی اسپتال موجود ہیں۔ اور ان ہسپتالوں میں ہر گھنٹے میں اوسطاََ سو دوسو مریض آتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسے میں مریض کہاں جائیں، شدید بیمار لوگوں کے لیے ٹریفک جام میں پھنسے رہنا ان کی جان کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔نیشنل اسٹیڈیم سے تھوڑا اور آگے رعنا لیاقت علی خان گورنمنٹ کالج آف ہوم اکنامکس، خاتونِ پاکستان گورنمنٹ ڈگری گرلز کالج اور لیاقت نیشنل کالج بھی موجود ہیں، اس کے علاوہ ڈالمیا روڈ بھی عام طور پر بند کی جاتی ہے جس کی وجہ سے نجی یونیورسٹی کے طالب علموں کا مقررہ وقت پر یونیورسٹی پہنچنا محال ہوجاتا ہے۔ پھر عوام اور ہیوی ٹریفک کے لیے صرف شاہراہِ فیصل، شاہراہِ پاکستان اور یونیورسٹی روڈ ہی باقی رہ گئے ہیں جن پر ایک ہی راستہ کھلا ہونے کے سبب شدید ٹریفک جام گھنٹوں تک رہتا ہے، جس کا فائدہ راہزن اٹھاتے ہیں اور ٹریفک جام میں گاڑیوں میں سوار افراد سے لوٹ مار شروع ہوجاتی ہے۔ پھر آپ لاہور میں قذافی اسٹیڈیم کو دیکھ لیں جو لاہور کے سینٹر میں واقع ہے جس سے ملحقہ تین بڑے روڈز گزرتے ہیں، فیروز پورروڈ، جیل روڈ اور لبرٹی چوک وغیرہ اور پھر ان کھلاڑیوں کی رہائش کے لیے فائیو سٹار ہوٹل مال روڈ پر واقع ہے، اور مال روڈ سے اسٹیڈیم تک کا فاصلہ 8،9کلومیٹر ہے،،، جب ٹیموں نے اس روٹس سے گزرنا ہوتا ہے تو سڑکیں بلاک کر دی جاتی ہیں۔ آپ سڑکیں بلاک کیوں کر رہے ہیں؟ ٹیم کو ہیلی کاپٹر پر اسٹیڈیم میں پہنچا دیں۔ قذافی کے ارد گرد بے شمار جگہیں ہیں جنہیں ہیلی پیڈ کے لیے مختص کیا جا سکتا ہے، یہی حل باقی شہروں میں بھی کیا جائے۔ مگر مجال ہے کہ ایسا کیا جائے۔ اور پھر کیا 10سالوں میں انہیں کوئی ایک انویسٹر ہی نہیں ملا جو ان سٹیڈیم کے گردو نواح میں جہاں اتنی جگہ موجود ہے، وہاں کیوں نہیں فائیو سٹار ہوٹل بنائے جاتے؟ خیر آپ راولپنڈی سٹیڈیم کو دیکھ لیں، اس سٹیڈیم کی تاریخ زیادہ پرانی تو نہیں مگر زیادہ نئی بھی نہیں ہے، اسے بنے ہوئے 37سال ہوگئے ہیںیہ سٹیڈیم بھی آہستہ آہستہ آبادیوں کے درمیان میں آچکا ہے۔اور یہ سٹیڈیم نہایت گنجان آباد علاقے میں واقع ہے، یہاں ٹریفک کا حال لاہور اور کراچی سے بھی زیادہ برا ہے۔ اور ملتان اسٹیڈیم بھی اسی قسم کا احوال پیش کر رہا ہے۔ الغرض جس شہر میں میچ ہوتا ہے، اُس کے 10کلومیٹر کے اندر اور کوئی کام ہی نہیں ہوتا۔ اور پھر پبلک کو کیا مل رہا ہے اس سے ذلالت؟میں تو یہ کہوں گا کہ پی ایس ایل میں فائدہ جواریوں کا ہے،اور ذلیل و خوار عوام ہو رہے ہیں، کیا کسی مہذب ملک میں ایسے ہوتا ہے؟ کیا آئی پی ایل کے دوران انڈیا میں ایسے ہوتا ہے؟ آپ یقین مانیں کہ دنیا کے 150ممالک میں 50ہزار چھوٹے بڑے سٹیڈیم ہیں جہاں بین الاقوامی مقابلے منعقد کروائے جاتے ہیں، اور ان 50ہزار میں سے 48ہزار سٹیڈیم ایسے ہیں جن سے فائیو سٹار ہوٹلز کا فاصلہ واکنگ Distanceپر ہے۔ یعنی دنیا کے بیشتر ممالک ایسی جگہ سپورٹس کمپلیکس تعمیر کرتے ہیں جہاں فائیو سٹار ہوٹلز قریب ترین ہوں یا سپورٹس کمپلیکس کے اندر ہی بڑے بڑے ہوٹلز بنا دیے جاتے ہیں تاکہ کھیلیں اور عام زندگی ساتھ ساتھ چلتی رہے۔ جبکہ اس کے برعکس پاکستان میں تمام شہروں میں بنائے گئے سٹیڈیم اس انداز میں بنائے گئے ہیںکہ فائیو سٹار ہوٹلز کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔ اسی وجہ سے جب کھلاڑیوں کو سٹیڈیم تک لایا جاتا ہے تو پورا شہر بند کرنا پڑتا ہے۔ جس سے شہریوں کو کھیلوں کی سرگرمیاں بحال ہونے پر بجائے خوشی ہونے کے کوفت اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ قصہ مختصر کہ قوم کب تک قربانی دے گی؟ کیوں اس کے لیے مناسب انتظامات نہیں کیے جاتے، ہمارے ہاں غلط منصوبہ بندی کا یہ عالم ہے کہ ایک میچ کے لیے سٹیڈیم کے باہر کم و بیش 20لاکھ افراد متاثر ہو رہے ہوتے ہیں،جہاں ٹیمیں ٹھہرتی ہیں اُس کے اطراف میں بھی اتنی ہی تعداد متاثر ہونے والوں کی نظر آتی ہے۔ حالانکہ دنیا بھر میں کوئی پولیس افسر سڑک بند کرکے اپنی کارکردگی ثابت نہیں کرتا۔ کوئی افسر یہ نہیں کہتا کہ ہم دس سڑکیں بند کرکے دس لوگوں کو مرنے سے بچا سکتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے کہ آپ ڈکیتی کے خوف سے دکان ہی بند کر دیں یا پھر ٹریفک حادثے کے خوف سے گاڑی چلانا ہی چھوڑ دیں۔ اس کے علاوہ کراچی اور لاہور میں کاروبار ٹھپ ہوجانا اوردکانوں کی بندش سے بھی شہریوں کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔سیکیورٹی کے نام پر عوام کو یرغمال بنانے کے بجائے صرف کھیل کے وقت کچھ دیرکے لیے ٹریفک روکا جائے تو عوام اس کھیل کو برداشت کر سکتے ہیں لیکن موجودہ حالات میں یہ میلہ لوگوں کے لیے عذاب بنتا جا رہا ہے، حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ عوام کو فوری ریلیف دے۔ قارئین! حیرت ہوتی ہے کہ ہم جس چیز کی عادت بنا لیں اُسے اپنا حق سمجھنا شروع کر دیتے ہیں، جیسے پی سی بی کو یہ عادت پڑ گئی ہے کہ اُس نے جہاں بھی میچ کروانے ہیں وہاں کے سٹیڈیم سے ملحقہ تمام روڈز کو بلاک کر دیا جائے، اب اگر اگلے کئی سال کرکٹ ہونی ہے تو دیکھ لیجیے گا کہ یہی پریکٹس دہرائی جائے گی ! حالانکہ پاکستان میں کرکٹ بحال ہوئے دس سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔ اس عرصے میں پی سی بی نے پی ایس ایل سے ہی کروڑوںاربوں روپے کمائے ہیں، میرے خیال میں پی سی بی کو Manageکر لینا چاہیے۔کہ سٹیڈیم کے قریب فائیو سٹار ہوٹل بنا دیا جائے۔ بلکہ اب تو محسن نقوی کی شکل میں قابل چیئرمین پی سی بی بھی اپنے جو ہر دکھا رہے ہیں ،حالانکہ محسن نقوی نے پنجاب میں جو بطور نگران وزیرا علیٰ کام کیے ہیں وہ قابل تعریف ہیں، میرے خیال میں ان سے اچھا نگران وزیر اعلیٰ ابھی تک نہیں آیا۔ صحت کے معاملات ہوں،صفائی ستھرائی کے یا اسموگ سے نمٹنے کی حکمت عملی انہوں نے حقیقت میں سو فیصد دیا ہے۔ اور اب جبکہ وہ پی سی بی کے چیئرمین بن چکے ہیں، تو اُن سے یہی اُمید کی جا سکتی ہے کہ وہ اس حوالے سے یقینا کچھ سوچیں گے۔ اور اگلے سال پی ایس ایل 10میں جو اس وقت خواری ہو رہی ہے وہ نہیں ہوگی۔ بہرکیف اس مسئلے کا آسان حل ایک تو یہ ہے کہ سٹیڈیم کو شہری آبادی سے باہر لے جایا جائے ، اس کے قریب ہی غیر ملکی کھلاڑیوں کی رہائش کیلئے ہوٹل بھی تعمیر کیا جائے تاکہ کھلاڑیوں اورعوام کو کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے، سوال یہ ہے کہ جب سری لنکن ٹیم پر حملہ ہوا ، تب سے انکو علم تھا کہ اب حالات ویسے نہیں رہے۔ لہٰذاگراﺅنڈز کے قریب ہی ہوٹل کو تعمیر کیوں نہیں کیا جاتا؟ یا اگر فوری حل درکار ہے تو سٹیڈیم کے اندر یا ملحقہ اطراف میں ہی چالیس پچاس کمروں پر مشتمل گیسٹ ہاﺅس بنا لیں یا سٹیڈیم کے اندر ہی ہوسٹل کو اپ گریڈ کریں، یا پھر ٹیموں کو بذریعہ ہیلی کاپٹر سٹیڈیم میں لے کر جائیں تاکہ عوام اس ایونٹ کو انجوائے کریںاور کسی قسم کی پریشانی سے نہ گزریں۔ ہم محسن نقوی صاحب سے اُمید کرتے ہیں کہ آئندہ کسی بڑے ٹورنامنٹ میں یا کسی بڑی سیریز میں ان بڑے شہروں میں یقینا کرفیو کا سما نہیں باندھا جائے گا اور شہریوں کو ریلیف دیا جائے گا تاکہ عالمی کرکٹ ٹیموں اور کھلاڑیوں کا ”استقبال“ کرتے کرتے عوام کو اس کھیل سے نفرت نہ ہو جائے!