ڈاکٹر ہسپتال (لاہور )یا ڈاکو ہسپتال ؟

جب سرکار خاموش تماشائی بن جائے تو پرائیویٹ مافیاسر اُٹھاتا ہے اور اُن جگہوں پر سرمایہ لگاتا ہے، جہاں حکومت فلاپ ہوتی ہے، آپ تعلیم کو دیکھ لیں، ملک میں صرف 30فیصد سرکاری تعلیمی ادارے جبکہ 70فیصد پرائیویٹ مافیا کا قبضہ ہے۔ آپ رہائشی سکیموں کو دیکھ لیں، 100فیصد مافیا قابض ہے۔ اور تو اورشعبہ صحت کو دیکھ لیں، 80فیصد مریض پرائیویٹ ہسپتالوں یا ڈاکٹرز کے پاس جانے پر مجبور ہیں۔ اور یہ 80فیصد مریض اُن ڈاکٹرز، پروفیسرز اور انتظامیہ کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں جن کے اندر رحم نام کی چیز ہی نہیں ہوتی۔ اور پھر تف ہے اُس وقت پر کہ جب کوئی ڈاکٹر بن جائے اور دکھی انسانیت کو اپنی جگہ تڑپتا ہوا چھوڑ کر خود پیسوں کا ایسا پجاری بن جائے، کہ پھر اپنی بات کا بھرم رکھنے کی بھی فرصت نہ ملے۔ میں سمجھتا ہوں وہ شخص نہایت خوش نصیب ہے جس کو اللہ اپنی مخلوق کی شفا کے لیے منتخب کرتا ہے لیکن وہ شخص انتہائی بدقسمت ہے جو ڈاکٹر بننے کے باوجود انسانوں پر رحم نہیں کھاتا۔ خیر بات ہو رہی تھی پرائیویٹ مافیا کی تو یہ حکومت کی ناکامی ہے، کہ پرائیویٹ مافیا اس ملک میں بری طرح سے پنجے گاڑ چکا ہے۔ یہ عوام کو دونوں ہاتھوں سے ایسے لوٹ رہے ہیں کہ خدا کی پناہ! ابھی گزشتہ دنوں ہی میرا براہ راست واسطہ اسی طرح کے ایک ”مافیا ہسپتال“ یعنی ڈاکٹر ہسپتال لاہور سے پڑا ، جہاں میں نے اپنے بھتیجے کو داخل کروایا، بھتیجے کو ”نرو سسٹم“ کا مسئلہ تھا۔ یہاں آکر دیکھا تو یہاں ڈاکٹرز کے روپ میں ڈاکو پائے گئے۔ ہوا کچھ یوں کہ جس بیماری کی وجہ سے مریض کو یہاں لایا گیا، وہ جوں کی توں رہی، بلکہ پہلے سے زیادہ حالت خراب ہو گئی ۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہاں پر دیگر امراض کی بھی تشخیص ہوئی۔ مگر علاج صفر بٹا صفر رہا۔ جبکہ ہر دوسرے دن ایک پرچی تھما دی جاتی کہ آپ اپنے مریض کی ”جان بخشی“ کے لیے اتنے پیسے ایڈوانس میں جمع کروادیں۔ جو چاہتے نا چاہتے ہوئے بھی کروانے پڑ رہے تھے۔ ٹھیک ہے !آپ پرائیویٹ ہسپتال میں ہیں، آپ پیسے لیں، مگر اس کے عوض سروسز تو دیں، مریض کا علاج معالجہ تو کریں، یہاں کئی کئی بار فون کرنے کے بعد ڈاکٹرز ہی دستیاب نہ ہوتے تھے، پھر نہلے پر دہلا یہ کہ جس ڈاکٹر کی اپوائنٹمنٹ ہوتی تھی وہ اپنے وقت سے بھی ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹہ لیٹ آرہا تھا۔ پھر اگر اُس نے چیک کیا ہے یا نہیں کیا۔ آپ کے اکاﺅنٹ میں اُس ڈاکٹر کی فی چکر بھاری بھرکم فیس لکھ دی جائے گی اور اسی طرح پورے ایک ہفتے کا بل 10لاکھ کے قریب بنا دیا گیا۔ لیکن مریض کو ایک فیصد بھی فرق نہیں پڑا بلکہ اُلٹا حالت مزید بگڑتی جا رہی تھی۔ مطلب! جہاز میں اگر بزنس کلاس تین گنا مہنگی ہوتی ہے، تو اُس میں سہولیات بھی تو اسی حساب سے ہوتی ہیں، اگر فائیو سٹار ہوٹل میں آپ کو ایک کمرہ 40ہزار روپے میں دستیاب ہے، تواس کے عوض آپ کو اسی طرح کی سہولیات دیتا ہے۔ لیکن یہاں پرائیویٹ روم میں مریض رکھنے کا ایک دن کا کرایہ 30سے 40ہزار روپے لیا گیا، جہاں سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں۔ جبکہ اس کے علاوہ سنتے جائیے اور شرماتے جائیے کہ ایک ہفتہ بھرپور ذلیل و خوار کرنے کے بعد مریض کو” جواب“ دے دیا گیا۔ اب مریض کے ہسپتال سے ”اخراج“ میں کم از کم 6گھنٹے لگے، مطلب ! وہاں کوئی بات سننے کو تیار نہیں تھا، پھر جس ڈاکٹر نے مریض کو ہسپتال سے نکالنے کے لیے دستخط کرنے ہیں وہ 4گھنٹے سے دستیاب ہی نہیں تھا۔ آخر میں ادویات، ٹیسٹوں تک کا حساب نہیں دیا گیا کہ کون سے ٹیسٹ کتنے میں ہوئے ہیں، حتیٰ کہ صرف پانچ منٹ کی فزیو تھراپی کا بل 16ہزار روپے ڈال دیا گیا ۔ پھر جو ادویات یا سامان منگوایا گیا، اُس کا واپس ہونا ممکن ہی نہیں۔ اور لواحقین کو یہ بھی علم نہیں کہ کونسی دوائی مریض کو لگائی گئی ہے اور کونسی نہیں ۔ اور پھر جو ڈسچارج سلپ تھمائی گئی ہے، اُس پر واضح لکھا تھا کہ ”مریض کی خواہش کے مطابق “ اسے ہسپتال سے ڈسچارج کیا جا رہا ہے، حالانکہ یہ نہیں لکھا گیا کہ اس مرض کاعلاج ہسپتال میں ممکن ہی نہیں! یقین مانیں وہاں کئی مریضوں کے ورثاءکو روتے دیکھا گیا، جن کے بلز لاکھوں روپے میں بنے ہوئے تھے۔ الغرض ڈاکٹر ہسپتال یا اس قسم کے ہسپتال پورا ایک گورکھ دھندہ ہے، جہاں پروفیسرزاورانتظامیہ کی ملی بھگت سے عوام کو لوٹا جاتا ہے، جہاں زندگیوں کی قیمت لگتی ہے۔ پھر آپ ان ڈاکٹرز کے لائف سٹائل کو دیکھ لیں، کوئی بھی ڈاکٹر 5کروڑ کی گاڑی سے کم پر آپ کو دکھائی نہیں دے گا۔ ڈی ایچ اے میں پہلے خوبصورت بنگلے سمگلروں، ڈاکووں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے ہواکرتے تھے لیکن اب ان کے مدمقابل ڈاکٹروں کی نہایت دیدہ زیب اور خوبصورت کوٹھیاں اور بنگلے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ پرانے وقتوں میں لوگ کہا کرتے تھے کہ خدا کسی کو ڈاکٹر سے واسطہ نہ ڈالے۔ پھر ڈاکٹر کے پاس کوئی شوق سے جاتا بھی نہیں ہے لیکن جب کوئی ان کے پاس چلا جاتا ہے تو پھر واپسی کا راستہ بھول جاتا ہے کیونکہ بیماری کو ختم کرنے کی بجائے طول دینے ،ٹیسٹوں پر ٹیسٹ کروانے کے لیے مریض کو یا تو مکان فروخت کرنا پڑتا ہے یا عمر بھر کی کمائی داﺅ پر لگانی پڑتی ہے ۔ بیماری پھر بھی ختم نہیں ہوتی بلکہ کہیں نہ کہیں موجود رہتی ہے۔ بہرکیف اس ملک میں ڈاکٹر ڈاکو بن گئے ہیں۔ وہ لوٹ مار میں شریک ہیں۔ ڈرگ مافیا اور پرائیویٹ ہسپتال مافیا بن جائے تو کیا وہ ملک رہنے کے قابل ہے مگر سن لو ظالمو! کہ ہم یہاں مرنے کے لئے زندہ ہیں۔ ہم اپنے وطن میں مریں گے۔ قتل ہو کے مریں تو یہ اعزاز ہے مگر ہم ایڑیاں رگڑ کر بھی مرنے کیلئے تیار ہیں۔ میرے دیس کے حکمرانوں‘ افسروں اور ”مسیحاﺅں“ کے پاس درندگی ہے۔ ہماری بے بس زندگی‘ شرمندگی اور درندگی کے درمیان سسک رہی ہے۔ الغرض ہم سب بے ایمان ہیں۔ وہ جو مسیحا کہلاتے ہیں درد و غم سے بھی خالی ہیں۔ وہ بے رحم ہیں۔ میرے خیال میں پرائیویٹ ہسپتال سرکاری ہسپتالوں سے زیادہ مقتل ہیں۔ سارے پرائیویٹ ہسپتال ایسے ہیں بلکہ ایسے ویسے ہیں۔ وہاں ڈرگ مافیا کا راج ہے اور پرائیویٹ ہسپتال مافیا بھی چھا چکا ہے جو افسروں اور لوٹ مار کا بازار گرم کرنے والے انسپکٹروں کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حکمران لوٹ مار کر رہے ہیں اور لوگوں کو ذلیل و خوار کر رہے ہیں تو ہم کیوں نہ کریں۔ پرائیویٹ ہسپتالوں میں غیر تربیت یافتہ لوگ سپیشلسٹ ہوتے ہیں جنہوں نے ہاﺅس جاب بھی نہیں کیا ہوتا۔ سرکاری ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں بھی ایسے ہی جونیئر ڈاکٹروں کو لگایا جاتا ہے۔ کوئی سینئر ڈاکٹر نہیں ہوتا۔ مریض تڑپتے رہتے ہیں اور ڈاکٹرز تاش کھیلتے ہیں۔ کرکٹ کا میچ دیکھتے ہوئے توجہ نہیں کرتے اور ایمرجنسی مریض کا بیڑہ غرق کر دیتے ہیں۔پھر ان پرائیویٹ ہسپتالوں کی لوٹ مار کا ایک طریقہ یہ بھی ہوتا ہے کہ انہوں نے کئی لوگوں کو اپنے ساتھ ملایا ہوا ہے اور ہسپتال کے باہر بھی ایک فارمیسی بنا لی ہے۔ اس کے ساتھ ایک ہوٹل بھی بنا لیا ہوتاہے۔ سارے کاروبار اور دواﺅں کا کاروبار ایک جیسے ہیں۔ ضمیر فروشی اور وطن فروشی بھی کاروبار ہے۔ سیاست و حکومت بھی کاروبار ہے۔ ہسپتال کی فارمیسی میں کئی زائد المیعاد دوائیں اور غیر رجسٹرڈ دوائیں تھیں۔ فریج میں رکھی جانے والی دوائیں اکثر فرش پر پڑی ہوتی ہیں۔ اور پھر ڈاکٹر ہسپتال میں کوئی ایک کیس نہیں ہوا جس کی مثال دی جائے بلکہ یہاں تو ایک چھوٹی سی بچی ایمان کو تین تین غلط انجیکشن لگا کر مار دیا گیا تھا، جس کے بعد ڈاکٹر ہسپتال کی انتظامیہ نے تسلیم کیا تھا کہ ہم سے غلطی ہوئی ہے۔ یہ غلطی نہیں ظلم تھااور ظالم کو معاف کر دینے سے مظلوم مزید مظلوم ہو جاتے ہیں۔پھر اس ہسپتال ہی کی بات نہیں بلکہ اسی طرح کے ملک کے کئی ہسپتالوں کا یہی حال ہے، وسیم اکرم کی اہلیہ بھی نیشنل ہسپتال کی مہنگائی اور شہرت میں مس ہینڈلنگ اور ناتجربہ کاری کا شکار ہوئیں اور بھارت جا کر فوت ہو گئیں۔ بہرحال ایک اور بات بتاتا چلوں کہ مریض کو جب چیک اپ کے لیے لے کر ان ہسپتالوں میں جایا جاتا ہے، تو یہ اس وقت مریض یا اُس کے لواحقین کی کونسلنگ ایسے کرتے ہیں کہ بس مریض چند دن کا مہمان ہے، لہٰذااسے فوری داخل کروادیں، مریض یا اُس کے لواحقین چاہتے، نا چاہتے ہوئے بھی اُسے داخل کروانے پر مجبور ہوتے ہیں اور پھر ان کا ڈرامہ شروع ہو جاتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسا سکواڈ تشکیل دے جو ان بڑے بڑے ہسپتال جن میں ڈاکٹر ہسپتال، حمید لطیف، نیشنل ہسپتال ڈیفنس، فاروق ہسپتال، اتفاق، مسعود ہسپتال، مڈ سٹی ، عمر ہسپتال و دیگر ہسپتالوں کی کڑی نگرانی کریں، ان ہسپتالوں میں موجود لواحقین یا مریضوں سے اندر کے احوال جاننے کی کوشش کرے۔ یا حکومت اس حوالے سے کوئی شکایت سیل قائم کردے، تاکہ ان ہسپتالوں کو کسی اتھارٹی کا ڈر ہو۔ لیکن مجھے علم ہے کہ یہ ایسا نہیں کریں گے۔ کیوں کہ یہاں سب کچھ حکومت و ہسپتال انتظامیہ اور ڈرگز مافیا کی ملی بھگت سے چلایا جاتا ہے۔ قصہ مختصر کہ طب کا پیشہ انتہائی متبرک اور قابل احترام ہونے کے ساتھ ساتھ انسانیت دوست بھی تھا لیکن جیسے جیسے مال و زر کی ہوس بڑھتی گئی مسیحائی کا پیشہ بھی اس سے متاثر ہوتا گیا۔ ہرایم بی بی ایس کی ڈگری رکھنے والا’مسیحا‘ نہیں ہوتا، بلکہ اس کے ساتھ ’خدمتِ خلق‘ مشروط ہے۔اگرکسی کا جذبہ کھوٹا اور نیت میں فتور ہو تووہ چاہے طب کی کتنی ہیبڑی سندیں رکھتا ہو، مسیحا نہیں بلکہ ڈاکو اور موت کا سوداگر ہے۔حالانکہ ان ڈاکٹر ز کی اکثریت ان ڈاکٹرز پر مشتمل ہے جنھوں نے سرکاری اداروں میں محض چندہزار روپے ماہانہ فیس ادا کر کے ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کی ہے۔ جبکہ حکومت نے ان کی تعلیم میں صرف ہونے والے لاکھوں روپے خرچ کا بوجھ برداشت کیا اوریہ اخراجات عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ ہوتے ہیں۔ افسوس صد افسو س !جن غریبوں نے لاکھوں روپے ٹیکسوں کی مد میں خرچ کر کے ان مسیحاو¿ ں کے اخراجات برداشت کیے اور ان کو اس مقام تک پہنچایا آج وہی ڈاکٹر ان غر یبوں کے علاج معالجے سے انکاری ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈاکٹروں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت بھی کی جائے۔کہ جب یہ لوگ کسی پرائیویٹ یا سرکاری ادارے میں اپنی خدمات سرانجام دیں تو کم از کم انسانیت کا خیال رکھیں، مرنا سبھی نے ہے، مگر کسی کو وقت سے پہلے مار دینا کسی بڑے ظلم سے کم نہیں ہے۔ لہٰذاپرائیویٹ ہسپتالوں یا سکولوں پر اس وقت سخت قسم کے چیک اینڈ بیلنس کی ضرورت ہے ورنہ ہم سب اسی کا شکار ہوتے رہیں گے اور ایک وقت آئے گا عوام سب کچھ ملیامیٹ کردیں گے اور وہی انقلاب کی پہلی سیڑھی ہوگی!