شعبہ میڈیکل اور حکومتی پالیسیاں !

جب ہم ایک طرف دنیا کا مقابلہ کرنے کی باتیں کریں اور دوسری طرف تعلیم کے میدان میں محدود وسائل ، پالیسیوں کا فقدان ، غیر تربیت یافتہ پالیسی میکر، سفارشی کلچر، کرپشن اور بے ضابطگیاں منہ چڑھا رہی ہوں تو دنیا کا مقابلہ کرنا تو دور ہم کسی ملک کے ساتھ بھی کھڑے نہیں ہوسکتے، تبھی ہم تعلیم کے میدان میں دنیا کے137ممالک میں 100ویں نمبر پر آتے ہیں۔ جبکہ بھارت جیسا پسماندہ ملک 34ویں نمبر پر آتا۔ دونوں ملکوں میں فرق صرف یہ ہے کہ وہاں تعلیم و صحت کی پالیسیوں میں تسلسل ہے، جبکہ یہاں ہر آنے والی حکومت تعلیم جیسے حساس شعبہ سے چھیڑ چھاڑ کرتی ، ذاتی مفادات تلاش کرتی اور ایسے ذرائع تلاش کرتی کہ جس سے ”دیہاڑیاں“ لگنا یقینی ہو جائے۔ اب جبکہ نیا مالیاتی بجٹ 2021-22ءپاس ہوا ہے، اس میں تعلیم جیسے شعبے میں محض 2.1فیصد بجٹ رکھا گیا ہے(اُس میں سے بھی چند ارب روپے بچا کر صوبوں اور وفاق کو واپس کر دیے جاتے ہیں تاکہ آپ کو حکام بالا کی جانب سے شاباشی مل جائے) جبکہ اس کے برعکس ترقی یافتہ یا پاکستان جیسے ممالک میں یہ تناسب 5فیصد سے اوپر ہوتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب ہم پاکستان کے نظام میں بہتری کی بات کرتے ہیں، یا لوگوں کا معیار زندگی بلند کرنے، یا معیشت میں بہتری، یا اپنے پاﺅں پر کھڑے ہونے کی بات کرتے ہیں تویہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہ سب تعلیم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ مطلب! یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک طرف معاشرہ پسماندگی کی طرف جا رہا ہو اور دوسری طرف آپ ترقی کے بلند و بانگ دعوے کریں اور کہیں کہ وطن عزیز میں ”انقلابی تبدیلی“ آنے والی ہے تو یہ دیوانے کے خواب کے سوا کچھ نہیں ہے۔ حالانکہ تعلیم، صحت جیسی سہولیات حکومت وقت کی بنیادی ذمہ داریاں ہوتی ہیں لیکن افسوس حکومت ان ذمہ داریوں کا 35فیصد بھی نہیں نبھا رہی۔ یہ تو بھلا ہو پرائیویٹ سیکٹر کا کہ اُس نے باقی کا 65فیصد حصہ سنبھالا ہوا ہے۔ جی ہاں !65فیصد !خیر آپ اس پرائیویٹ سیکٹر سے آپ کو لاکھ شکایات سہی مگر آج بھی آپ اپنے بچے کو گورنمنٹ کے بجائے پرائیویٹ سیکٹر میں داخل کروانے کو ترجیح دیں گے اور اگر آپ کا کوئی پیارا بیمار ہو جائے تو آپ کی آخری حد تک کوشش ہوتی ہے کہ اگر اُس کی جان بچانی ہے تو اُسے گورنمنٹ کے بجائے پرائیویٹ ہسپتال میں داخل کروایا جائے۔ اس میں قصور پرائیویٹ سیکٹر کا نہیں بلکہ حکومت کا ہے کہ اگر وہ مکمل 100فیصد سہولیات فراہم کرے تو یقینا پرائیویٹ سیکٹر کی حوصلہ شکنی ہوگی اور وہ اس میدان میں نہیں آئے گا جس میں حکومت اچھا کام کر رہی ہو۔ لیکن اگر حکومت خود بھی بہتر ذمہ داریاں پرفارم نہ کر رہی ہوا ور توقع کرے کہ کوئی دوسرا بھی نہ کرے تو میرے خیال میں یہ عوام کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ اس کی ایک مثال آپ نجی شعبہ میڈیکل کی لے لیںگزشتہ دنوں ٹی وی پر پرائیویٹ میڈیکل شعبہ کی نمائندہ تنظیم ”پامی“ کے عہدیداران پریس کانفرنس کر رہے تھے، میں نے ان عہدیداران کو دیکھا تو وہ بڑے بڑے پرائیویٹ میڈیکل کالجز کے سربراہان تھے، میں نے ہلکی سی مسکراہٹ دی اور سوچا کہ دیکھو ”پرائیویٹ مافیا“ جو فیسیں بٹورتے بٹورتے خود ارب پتی مافیا بن گیا ہے وہ بھی حکومت سے مطالبات کرنے آگیا۔ لیکن جب اُن کے مطالبات پر کان دھرا تو سوچ میں پڑ گیا کہ کیا واقعی اس سیکٹر میں بھی حکومتی مفاد پرست ٹولہ آگیا ہے جو حقیقی معنوں میں تعلیم کی تباہی میں رہی سہی کسر بھی نکال رہا ہے۔ اگر مذکورہ بالا پریس کانفرنس کی تفصیل میں جائیں تو پامی یعنی پاکستان ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ میڈیکل اینڈ ڈینٹل انسٹی ٹیوشن میں ملک بھر سے 114سے زائد میڈیکل اور ڈینٹل کالجز ہیں ، جنہیں پاکستان میڈیکل کمیشن PMCجو ڈاکٹروں اور کالجز کو ریگولیٹ کرنے کا ادارہ ہے، سے درجنوں شکایات ہیں۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ پاکستان کے کل میڈیکل کالجز کی کھپت 65فیصد نجی میڈیکل کالجز پورے کر رہے ہیں(یعنی 173میں سے 114پرائیویٹ اور 59پبلک سیکٹر میڈیکل کالجز)پرائیویٹ کالجز میں طلبہ کی تعداد10300ہے۔ اور ہر سال فارغ التحصیل ڈاکٹرز کا 60سے 70فیصد بھی نجی میڈیکل کالجز ہی پوراکر رہے ہیں۔ اور ویسے بھی پاکستان کی رینکنگ (صحت کی بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی اور ڈاکٹرز کی کمی کے حوالے سے )دنیا کے 192ممالک میں 165ویں نمبر پر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حال ہی میں انٹرنیشنل اداروں جیسے انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف میڈیکل ریگیولیٹری اتھارٹییز(آئی اے ایم آر اے) اور ورلڈ فیڈریشن آف میڈیکل ایجوکیشن (ڈبلیو ایف ایم ای) سمیت متعدد بین الاقوامی اداروں نے سخت انتباہ کیا ہے کہ اگر پاکستان نے تجربہ کار افراد پر مشتمل ”الیکٹڈ کونسل“ کے قیام میں سنجیدگی کامظاہر ہ نہ کیا اور شعبہ طب کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات نہ کیے تو اسے بین الاقوامی فورمز سے آﺅٹ کر دیا جائے گا۔اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو یہ پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہوگا۔کیوں کہ دنیا بھر میں ہمارے ڈاکٹرز کی ڈگری کو تسلیم نہیں کیا جائے گا اور پاکستانی ڈاکٹرز جنہیں امریکا، یورپ اور دیگر ممالک میں خاص اہمیت حاصل ہے، ہم اس ”اعزاز“ سے اربوں ڈالر کے فارن ریمنٹنس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔جبکہ بھارت، بنگلہ دیش جیسے ممالک اس کمی کو فوری پورا کرکے مالی فوائد حاصل کرلیں گے۔ اور اس کا ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ موجودہ حکومت ہوگی! لہٰذااس شعبہ کی اہمیت کے حوالے سے اگر کسی کو کوئی شک رہ گیا ہے تو وہ پی ایم سی کی ویب سائیٹ پر جا کر دیکھ لے کہ کل پرائیویٹ اور گورنمنٹ میڈیکل کے تعلیمی اداروں کی تعداد کتنی ہے؟ خیر پامی کی پہلی شکایت کے مطابق پی ایم سی کی ناتجربہ کار اور سیلکٹڈ کونسل کے ایڈمیشن ریگولیشن 2021-22کے ذریعے کیے جانے والے تجربات کی وجہ سے میڈیکل اور ڈینٹل کا شعبہ شدید تباہی کا شکا ر ہے۔ کیوں کہ اس ریگولیشن میں نہ تو پرائیویٹ سیکٹر کی مشاورت شامل کی گئی ہے اور نہ ہی کسی اسٹیک ہولڈر کی تجویز پر عمل کیا گیا ہے۔ میں اس پریس کانفرنس کا بغور جائزہ لے رہا تھا ، اور اس میں کی جانے والی باتیں واقعی حیران کن تھیں بعد میں راقم نے اپنے تعین انٹرنیٹ کو کھنگالا تو اس میں 90فیصد سے زائد حقائق پر مبنی باتیں کی گئی تھیں، کیوں کہ یہ سراسر عدالتوں کے فیصلوں کی خلاف ورزی ہو رہی تھی، جبکہ عدالت عالیہ کے فیصلوں کے مطابق پی ایم سی کے عہدیداروں میں اُن تمام افراد کو شامل کیا جائے تو جو اس کے اسٹیک ہولڈرزہیں۔ لیکن اس کے برخلاف پی ایم سی تمام عہدیداران مبینہ طور پر سفارشی بھرتی کیے گئے ہیں۔ خیر آخر میں عہدیداران سخت مایوس نظر آئے اور کہا کہ اگر حکومت نے اس شعبہ کی جانب ترجیحی بنیادوں پر توجہ نہ دی تو وہ دن دور نہیں جب پرائیویٹ میڈیکل کالجز جو اس وقت سالانہ 60فیصد سے زائد ڈاکٹر پروڈیوس کر رہے ہیں ، تالا بندی پر مجبور ہو جائیں گے۔ ایسا کرنے سے جہاں طلبہ کا تعلیمی حرج ہوگا وہیں ہزاروں کی تعداد میں ڈاکٹرز، میڈیکل سٹاف اور دیگر انتظامی عہدیداران بے روز گار ہو جائیںگے ،اور لاکھوں مریض پرائیویٹ ٹیچنگ ہسپتا لوں میں فری علاج کی سہولت سے محروم ہو جائیں گے!ساتھ ہی کالج مالکان جنہوں نے اس شعبہ میں خدمت انسانی کی غرض سے اربوں روپے جھونک دیے وہ بھی دیوالیہ ہو جائیںگے اور شعبہ ہیلتھ کیئر میں حکومت پاکستان کا ایک بازو ناکارہ رہ جائے گا۔ بہرکیف میں یہ نہیں کہتا کہ اس طرح کی پرائیویٹ تنظیمیں 100فیصد سچ بولتی ہوں گی، لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ اگر یہ لوگ اربوں روپے کما رہے ہیں تو یہ سڑکوں پر آنے کی دھمکی کیوں دے رہے ہیں؟ انہوں نے حکومت کے کہنے پر اربوں روپے لگائے اور اب ان کی بات سننے والا اگر کوئی نہیں ہے تو یہ یقینا زیادتی ہوگی۔ لہٰذااگر حکومت آج کل بجٹ میں مصروف ہے تو اُسے یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ بجٹ پیدا کرنے والے اسٹیک ہولڈرز پرائیویٹ سیکٹر، تاجر اور دیگر شعبے اُن سے نالاں کیوں ہیں؟حکومت یہ سوچے کہ کس طرح تعلیم کے شعبے میں بہتری لا کر وہ عوام کی خدمت کر سکتی ہے۔ حکومت یہ سوچے کہ کس طرح خواندگی جو پنجاب میں 50فیصد، سندھ میں 34فیصد اور بلوچستان و کے پی کے میں اس سے بھی کم ہے اُسے کیسے اوپر لا سکتی ہے۔ عمران خان اگر واقعی ایک وژنری لیڈر ہیں تو انہیں تعلیم کو بہتر بنا کر اپنے ویژن کو پروموٹ کرنا ہوگا۔ اگر کہیں پرائیویٹ سیکٹر، سرکاری سیکٹر یا دیگر شعبوں میں مسائل نظر آرہے ہیں تو اُنہیں خود دیکھنا ہوگا۔ یہ نہیں کہنا ہوگا کہ یہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کا مسئلہ ہے۔ حالانکہ صوبے بھی تو پاکستان کے ہیں ۔ اور پھر اٹھارویں ترمیم وفاق کو یہ بھی تو اجاز ت دیتی ہے کہ وہ صوبوں کے مسائل کی نشاندہی کر ے۔ جیسے وفاق سندھ حکومت سے اس حوالے سے پوچھ سکتا ہے کہ سندھ کے کئی اضلاع میں سکول کی عمارتوں کے مخدوش ہونے سے بچے درخت کے نیچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ سندھ ہائی کورٹ کہہ رہی ہے کہ صوبہ میں غیر فعال اور گھوسٹ اسکولوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ سندھ میں پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں میں سائنس لیب اور لائبریری نہ ہونے، پینے کے پانی کی عدم فراہمی اور بیت الخلاءکی سہولت نہ ہونے کی شکایات عام ہیں۔لہٰذاحکومت کو اس شعبہ میں بھی سخت توجہ کی ضرورت ہے، حکومت کو چاہیے کہ تعلیم کے شعبہ کو گراس روٹ لیول سے شروع کرے اور شرح خواندگی میں اضافہ کرنے کی سکیمیں شروع کرے۔ بھارت کی مختلف ریاستوں میں بچوں کو اسکول میں داخلہ کے لیے ان کے والدین کے لیے کشش پیدا کرنے کے لیے مختلف اسکیموں کے حوصلہ افزاءنتائج برآمد ہوئے۔ان اسکیموں میں بچوں کو ناشتہ اور دودھ دینے ، یونیفارم ، کتابوں اورکاپیوں کی فراہمی کے ساتھ ان کو اتنا وظیفہ دینے کی اسکیمیں شامل تھیں ، جو ان کے والدین کی آمدنی میں اتنا اضافہ کرتیں۔ بھارت میں ان پالیسیوں کی وجہ سے خواندگی کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔اس کے ساتھ بھارت نے پرائیویٹ سیکٹر کی بھی حوصلہ افزائی کی ۔ لہٰذاہم بھی اسی طرح پرائیویٹ سیکٹر اور گورنمنٹ سیکٹر میں بہتری لا کر واقعی ملک کی خدمت کر سکتے ہیں ورنہ ہم بقول پامی اس شعبہ میں بھی اپنے بازو کٹوا بیٹھیں گے! #Medical education and budget #Government Policies #Medical #Pakistan #Talkhiyan #Ali Ahmed Dhillon