”جیت سے زیادہ کھیل کا وقار اہم ہوتا ہے“

کھیل کسی بھی صحت مند معاشرے کا آئینہ ہوتا ہے، جس معاشرے میں آﺅٹ ڈور یا ان ڈورگیمز کا رجحان نہ پایا جائے وہ معاشرہ مکمل تباہ ہوجاتا ہے، وہاں کی نوجوان نسل نشے، جوا، چوری، ڈکیتیوں اور دیگر سنگین جرائم کی لپیٹ میں آجاتی ہے، آج دنیائے کھیل اولمپکس کا میلہ ٹوکیو میں سجا ہوا ہے، جہاں ہزاروں کھلاڑی اپنی کارکردگی کے جوہر دنیا کے سامنے دکھا کر میڈلز حاصل کررہے ہیں جب کہ پاکستان آج 29سال بعد بھی ”صفر“ پر کھڑا ہے۔ اس مسئلے پر بعد میں بات کرتے ہیں، لیکن اُس سے پہلے ذکر کرتے ہیں گزشتہ روز ہونے والے ”سپورٹس مین سپرٹ“ کے واقعے کی کہ دنیا اخلاقی طور پر اپنے آپ کو کس قدر ”موڈریٹ“ کر رہی ہے اور ہم ابھی تک ذاتی مسائل سے ہی باہر نہیں آرہے۔ گزشتہ روز ٹوکیو اولمپکس میں ہائی جمپ کے فائنل میں اٹلی کے گیان مارکو ٹیمبری اور قطر کے موتاز عیسیٰ بارشم کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہوا جس میں دونوں ایتھلیٹس نے اپنی اپنی باریوں میں 2.37 میٹر کی چھلانگ لگا کر پوائنٹس برابر کردیے تھے۔ اس لیے آفیشلز کی جانب سے کسی ایک ایتھلیٹ کو گولڈ میڈل کا حق دار قرار دینے کیلئے دونوں ایتھلیٹس کو مزید تین تین باریاں دیں گئیں لیکن اس کے باوجود دونوں کھلاڑی ناکام رہے۔بعد ازاں دونوں کو پھر ایک، ایک باری مہیا کی گئی جس میں اٹلی کے گیان مارکو ان فٹ ہونے کے سبب اس باری سے دستبردار ہوگئے تاہم یہ وہ موقع تھا جب قطر کے موتاز عیسیٰ بارشم سونے کے تمغے کے حقدار بن گئے۔اس موقع پر بارشم نے منتظمین سے سوال پوچھا کہ اگر وہ بھی آخری باری سے دستبردار ہوجائیں تو گولڈ میڈل میں دونوں حصے دار بن سکتے ہیں جس پر منتظمین نے جواب ہاں میں دیا۔ منتظمین کا جواب سن کر بارشم نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے آخری باری سے دستبردار ہونے کا اعلان کردیا جس پر اٹلی کے ٹیمبری نے بے انتہا خوشی کا اظہار کیا اور بارشم کے اس فیصلے پر اتنا اچھلے جتنا وہ مقابلے کے دوران نہیں اچھلے ہوں گے۔اٹلی کے ایتھلیٹ کے خوشی میں آنسو بھی رواں تھے اور پھر انہوں نے اپنے حریف کو دل سے گلے بھی لگایا۔بارشم سے جب پوچھا گیا کہ انہوں نے یقینی جیت کو ”شیئر“ کیوں یا تو انہوں نے کہا کھیل ہمیں یہی سکھاتا ہے، یہ وہ انداز ہے جو دلوں کو چھو جاتا ہے جس کے بعد مذہب، رنگ اور سرحدوں کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی۔ پھر سپورٹس مین سپرٹ کا ایک اور واقعہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ 16 اکتوبر 1987ءکے دن قذافی سٹیڈیم لاہور تماشیو ں سے کھچا کھچ بھر ا تھا،سٹیڈیم کے باہر بھی ہزاروں لوگ موجود تھے جبکہ دنیا بھر میں کروڑوں کرکٹ شائقین ٹی وی کے سامنے بیٹھے پاکستان اور ویسٹ انڈیز کا میچ دیکھ رہے تھے۔ ویسٹ انڈیز نے پاکستان کو 216 رنز کا ٹارگٹ دیا تھا جسے پورا کرنے کے لئے آخری اوور کی آخری بال پر پاکستان کو جیتنے کے لئے دو رنز درکار تھے اور اس کا آخری کھلاڑی سلیم جعفر نان سٹرائیکر اینڈ پر موجود تھا جبکہ سٹرائیکر اینڈپر عبدالقادر موجود تھا۔ ویسٹ انڈیز کے لئے یہ میچ جیتنا بہت ضروری تھا،ہار کی صورت میں وہ سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہوجاتا اور کرکٹ ورلڈ کپ کی تاریخ میں اس سے قبل دو دفعہ کا چیمپئین ویسٹ انڈیز ہر بار ورلڈ کپ کے سیمی فائنل تک ضرور رسائی حاصل کر چکا تھا۔میچ کا آخری اوور لیجنڈ فاسٹ باو¿لر کورٹنی والش کرا رہا تھا۔آخری بال کے لئے کورٹنی والش اپنے مخصوص انداز میں بال کرانے کیلئے بھاگا۔کورٹنی والش نے جونہی بال کرانے کے لئے ہاتھ اٹھایا تو فوراًدونوں ہاتھ نیچے کرکے کھڑا ہوگیا کیونکہ نان سٹرائیکر اینڈ پر سلیم جعفر اس دوران کریز سے باہرنکل کر رن لینے کے لئے بال کرانے سے پہلے کریز چھوڑ چکا تھا۔کورٹنی والش اسے آسانی سے رن آو¿ٹ کرکے یہ میچ جیت سکتا تھا لیکن کرکٹ کی روائت کے مطابق اس نے سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے وارننگ دیتے ہوئے کریز میں واپس آنے کا موقعہ دیا اور پھر دوبارہ بال کرانے کے لئے واپس مڑ گیا اور آخری بال کرائی جسے عبدالقادر نے ہٹ لگا کر پاکستان کو میچ جتوا دیا اور تاریخ میں پہلی بار ویسٹ انڈیز کرکٹ ورلڈ کپ کے سیمی فائنل سے باہر ہوگیا۔ بظاہر یہ میچ ویسٹ انڈیز ہار گیا لیکن کورٹنی والش نے جس سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہر ہ کیا اس نے ویسٹ انڈیز کو کرکٹ شائقین کے دلوں میں فتح دلا دی۔آئی سی سی نے کورٹنی والش کے اس عظیم عمل کو سراہا پاکستان نے بھی کورٹنی والش کو سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ کرنے پر ایوارڈ دیا۔ کورٹنی والش نے کہا ”میں ایک کھلاڑی ہوں اور میں میدان میں کھیلے بغیر جیتنا پسند نہیں کرتا،میرے لئے جیت سے زیادہ کھیل کا وقار اہم ہے یہ ایک ایسا عمل ہے جس پر مجھے شرمندگی کی بجائے فخر ہے“ پھر کہاکل کو جب بھی اس میچ کا تذکرہ ہوتا اس جیت پر میرے ملک کے لوگ فخر کرنے کی بجائے شرمندگی محسوس کرتے ویسٹ انڈیز کے نام یہ فتح اعزاز نہیں ایک داغ بن کر ہمیشہ میرے لئے ایک گالی بن جاتا۔میری اولاد یہ میچ دیکھتی تو وہ اپنے باپ کے اس ایکٹ پر ندامت محسوس کرتی آج میرے بچے فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا باپ ایک عظیم انسان ہے اور اس نے سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہر ہ کرکے ہمارے سر فخر سے بلند کردئیے“۔ پھر دسمبر 2012ءمیں سپین کے ایک شہر میں دوڑ کے مقابلوں کے دوران یہ حیرت انگیز واقعہ پیش آیا، مقابلے میں فنش لائن سے چند فٹ کے فاصلے پر کینیا کا اتھلیٹ ابوالمطیع سب سے آگے تھا، اسے احساس ہوا کہ وہ دوڑ جیت چکا ہے چنانچہ رک گیا اسپین کا اتھلیٹ ایون فرڈیننڈز اس کے بالکل پیچھے دوڑ رہا تھا۔ مطیع کے رکنے پر وہ باآسانی چند قدم آگے فنش لائن پر پہنچ کر اپنی فتح کو یقینی بنا سکتا تھا مگر اس نے جان لیا کہ مطیع غلط فہمی کا شکار ہے لہٰذا اس نے آواز دی کہ” دوڑو‘فنشن لائن عبور نہیں ہوئی“ اخبار نویسوں نے فرڈیننڈز سے پوچھا تم نے اپنی یقینی فتح کو مطیع کی غلط فہمی پر قربان کیوں کیا؟ خود فنش لائن عبور کرنے کے بجائے مطیع کو آگے کیوں بڑھایا،فرڈیننڈز کا جواب چشم کشا تھا کہا”میرا خواب ہے کہ ہم ایک ایسا معاشرہ قائم کریں جہاں کوئی دوسرے کا حق مار کر فتح کو یقینی نہ بنا سکے“ مگر تم نے کینیا کے اتھلیٹ کو کیوں جیتنے دیاصحافی نے پھر پوچھا“ وہ ویسے ہی جیت رہا تھا یہ دوڑ اس کی تھی“ صحافی نے اصرار کیا” دوڑ کر تم یہ دوڑ جیت سکتے تھے“ فرڈیننڈز نے صحافی کی طرف خشمگیں انداز میں دیکھا اور کہا ”اس جیت کا میرٹ کیا ہو ؟ ”اس میڈل کی عزت کیا ہوتی“ ” میری ماں میرے بارے میں کیا سوچتی“۔ اس طرح کے اور بھی واقعات ہیں جنہیں یہاں بیان کرنا ممکن نہیں، لیکن یہاں بتانا یہ مقصود ہے کہ جس معاشرے میں ”سپورٹس مین سپرٹ“ ہوگی ، اُس معاشرے کو کوئی ہرا نہیں سکتا۔ جبکہ اس کے برعکس ہمارے معاشرے میں سپورٹس مین سپرٹ کا فقدان ہے، ہر کوئی دوسرے کا حق ہڑپنا چاہتا ہے، ہر دوسرا شخص وعدہ خلافی کا عادی ہو چکا ہے، ہر شخص قومی مفاد کے بجائے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتا ہے۔ تبھی ہم دنیا میں 99فیصد کامیابی کے کاموں میں پیچھے ہیں، آپ ٹوکیو اولمپکس 2020ءکو دیکھ لیں، پاکستان دنیا میں آبادی کے لحاظ سے پانچواں بڑا ملک ہے، یعنی آبادی کے لحاظ پہلے نمبر پر آنے والے چین نے ابھی تک 324میڈل حاصل کیے ہیں، دوسرے نمبر پر بھارت جس نے 12تمغے حاصل کر رکھے ہیں جبکہ امریکا نے 437، انڈونیشیا نے 16اور پاکستان ”حسب روایت“ 0پرکھڑا ہے۔ جبکہ دنیا بھر کے ممالک میں بھی کھیلوں کے حوالے سے آخری چند ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان ٹیلنٹ کے باوجود کھیلوں میں وہ کارکردگی نہیں دکھا سکا جو اُسے دکھانی چاہیے تھی، میری کھیلوں سے مراد صرف کرکٹ، ہاکی، سکوائش وغیرہ نہیں بلکہ وہ تمام کھیلوں سے ہے جس میں دنیا بلند ترین مقام پر اور ہم پست ترین مقام پر کھڑے ہیں۔ اور یہ بات اُس وقت بھی حیرانی کا باعث بنتی ہے جب ایک ”کپتان“ کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے کھیلوں پر بجٹ کو مزید کم کرکے پیش کیا جائے۔ گزشتہ روز جب قوم سے براہ راست فون کال کے دوران وزیر اعظم سے سوال کیا گیا کہ کدھر ہے صحت مند پاکستان تو وزیرا عظم عمران خان نے دعویٰ کیا کہ ان کی کھیلوں میں ٹرپل پی ایچ ڈی ہے اور تسلیم کیا جو وقت کھیلوں کو ملنا چاہیے تھا وہ تاحال نہیں دے پائے۔انھوں نے کہا کہ ”شروع دن سے ہمارے مسائل اتنے بڑھ گئے۔ اس کی وجہ سے جو لوگوں کو تکلیف تھی، مہنگائی تھی جس کی وجہ سے ساری توجہ ان مسائل پر چلی گئی اور جو وقت مجھے کھیلوں کو وقت دینا چاہیے تھا وہ میں نہیں دے سکا۔‘انہوں نے ایک اور مسئلے کی طرف بھی نشاندہی کی کہ سابقہ حکومتوں نے سپورٹس کے اداروں پر اپنے لوگ بٹھائے، سفارشی بٹھائے اور دیکھتے ہی دیکھتے کھیل کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔“ خیر یہ باتیں تو ہم بہت سن چکے، لیکن اب عملی اقدامات کا وقت ہے، خان صاحب اب سابقہ حکومتوں پر ملبہ ڈالنے کے بجائے خود کچھ کریں اور سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کو کھیلوں کے فروغ میں پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کریں، جو شاید یہاں کے نوجوانوں سے چھین لیاگیا ہے ورنہ یہ وہی قوم ہے جسے دنیا ہیروز کی سرزمین کہا کرتی تھی، اور ہم اس پر فخر کیا کرتے تھے! #tokyo olympics #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan #leader news #sports #pakistan