ملک میں کڑے ”احتساب“ کی شنید! شور یا حقیقت !

اس وقت ملک بھر میں ایک ہی بحث چل رہی ہے کہ اب ہوگا احتساب! اب ہر کوئی شکنجے میں آئے گا! جبکہ دوسرا گروپ کہہ رہا ہے کہ یہ سب کچھ فیک ہے، ملک ایسے ٹھیک نہیں ہوتے، ہر کوئی اپنی حدود میں رہ کر کام کرے وغیرہ وغیرہ ۔ جبکہ رہی نگران حکومت کی بات تو نگران حکومت نے معاشی بہتری کے لئے جو فوری اور ناگزیر فیصلے کئے ہیں ان میں بجلی کی چوری، ڈالروں کی سٹے بازی، چینی اور پیٹرولیم مصنوعات کی سمگلنگ، ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری اور سٹریٹ کرائمز کے منظم گروہوں کے خلاف کریک ڈاﺅن سب سے اہم ہے۔ اس مقصد کے لئے پولیس کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد بھی حاصل کی جارہی ہے۔انہی سختیوں کی وجہ سے آپ یہ دیکھیں کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر 25روپے تک نیچے آیا، چینی بھی اتنے ہی روپے نیچے آئی، جبکہ سنا ہے کہ اسٹیٹ بنک بھی منی ایکسچینجرز سے بھر گیا جو جوق در جوق ڈالر جمع کروانے آرہے تھے، یہ بات خوش آئند ہے، مگر کیا کبھی کسی نے سوچا یا اس کا سدباب کرنے کی کوشش کی کہ ہم اس نہج تک کیسے پہنچے کہ پورا ملک کی کرپٹ ہو گیا ہے، ہمارا کرپشن انڈکش 140ملک میں 133ویں جبکہ عدالتی نظام میں ہم 140ملکوں میں137ویں نمبر پر ہے۔ یہ سب کچھ کیسے ہوا؟ اس کے لیے ہمیں تاریخ میں جھانکنے کی ضرورت ہے ۔ یعنی سب سے پہلے ہم نے قومی سطح پر ”احتساب“ کا لفظ جنرل ضیاءالحق کے دور میں سنا تھا، جب انہوں نے جونیجو حکومت کو برطرف کیا تھا، لیکن بعد میں ثابت ہوا کہ جنرل ضیاءالحق غلط تھے ، انہوں نے حکومت برطرف کرنے کے لیے یہ صرف عذر بنایا تھا، اور من گھڑت کہانی رچی تھی۔ لیکن تصویر کا دوسرا رُخ یہ بھی ہے کہ ہم نے 80کی دہائی میں کرپشن کی داغ بیل ڈال دی تھی۔ اور اب وہ پھل پھول بھی رہی تھی۔ آپ تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں کہ ہم 1977ءتک کرپٹ کیوں نہیں تھے؟ بھٹو حکومت یا ایوب خان حکومت پر آپ ہر طرح کے الزامات لگا سکتے ہیں، لیکن کرپشن کا الزام نہیں لگا سکتے۔ گورنر امیر محمد خان اور گورنر جنرل موسیٰ خان آرمی میں بہت بڑا نام تھے، لیکن اُن پر آج تک کوئی کرپشن کا الزام نہیں لگا۔ اُس وقت کرپشن تو بہت بڑی لعنت تھی، لیکن اب عزت بنا دی گئی ہے۔ 1977ءکے بعد ہمارے ہاں کوئی تھنک ٹینک ہی نہیں بیٹھا کہ ہم کرپٹ ہوئے کیوں؟ میری ناقص رائے میں ہم ضیاءالحق اور محمد خان جونیجو کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے کرپٹ ہوئے ہیں۔ یعنی جنرل ضیا نے سب سے پہلے سیاسی جماعتوں کو منظر عام سے غائب کرنے کا غلط قدم اُٹھایا اور 1979ءاور 1983ءکے بلدیاتی الیکشن غیر جماعتی کروا ڈالے۔ اُس میں ہمارے سیاستدانوں کی ایک کرپٹ پود پیدا ہوئی جس میں چیئرمین ضلع کونسل، چیئرمین میونسپل کمیٹی ، وائس چیئرمین ، ممبر ضلعی کونسل، مئیر وغیرہ جیسی سیٹوں پر غیر سیاسی لوگ آگئے، چونکہ یہ سیاستدان نہیں تھے، اس لیے انہوں نے یا تو برادری سسٹم کو فروغ دیا یا پیسے پھینک کر بندے خریدے۔ پھر جب 1985ءمیں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن ہوئے تو وہ بھی غیر جماعتی تھے، چن چن کر کاروباری حضرات کو الیکشن میں کھڑا کیا گیا، اور بدلے میں ان حضرات نے سیاست کو بطور ”کاروبار“ متعارف کروایا۔ جبکہ دوسری جانب خالص سیاسی جماعتوں نے ان الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا اور مقتدرہ قوتوں کو مزید موقع مل گیا کہ وہ اپنی پسند کے بندے مارکیٹ میں لے آئیں۔ اس میں میرے خیال میں بے نظیر بھٹو کا سب سے زیادہ قصور تھا کہ اگر وہ اس الیکشن کا بائیکاٹ نہ کرتیں تو آج حالات مختلف ہوتے۔ غلط فیصلہ اس لیے بھی کہوں گا کہ بے نظیر کے اس فیصلے نے قوم کو غلط اور کاروباری قسم کی کرپٹ لیڈر شپ فراہم کردی۔ اور پھر جو شخص اپنے کسی منشور پر الیکشن جیت کر نہ آیا ہوتو آپ اُس سے کیسے اُمید کر سکتے ہیں کہ وہ عوام کی اُمیدوں پر پورا اُترے۔ پھر اس کے بعد سب سے بڑا ظلم یہ ہو ا کہ ہم نے ان کاروباری حکومتی افراد کو ترقیاتی فنڈز دینا شروع کردیے۔ اب جس کو فنڈز ملے ہوں وہ کیسے ممکن ہے کہ سب سے پہلے اپنا الیکشن کا خرچ نہیں نکالے گا۔ پھر اس کارخیر میں اُس نے اپنے ساتھ افسران کو ملایا، ٹھیکیداروں کو ملایا ۔ پھر وہ کرپشن آہستہ آہستہ معاشرے میں جڑیں پکڑ گئیں۔ جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ قصہ مختصر کہ ہم نے قومی پیسہ کرپشن اور اگلا الیکشن کیش کروانے کی نذر کیااور اس تمام عمل میں آپ یہ دیکھیں کہ الیکشن کمیشن جو اس وقت شیر بنا بیٹھا ہے، اور اکڑ رہا ہے، اس کے سامنے ایک ایک الیکشن میں اربوں روپے خرچ ہونے کے باوجود کبھی کسی کو ڈسکوالیفائی نہیں کیا۔ کبھی کسی کو عبرت کا نشان نہیں بنایا۔ بلکہ اب تو ہر سیٹ پر الیکشن کا خرچ لاکھوں روپے نہیں بلکہ کروڑوں اربوں روپے ہو چکا ہے، مگر مجال ہے کہ الیکشن کمیشن کسی پر چیک اینڈ بیلنس رکھے۔ میرے خیال میں اگر کہیں سسٹم میں بگاڑ پیدا ہوا ہے تو اس میں قصور کسی اور کا نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کا بھی ہے جو اراکین اسمبلیوں کو بے دریغ پیسہ استعمال کرنے سے نہ روکنے کی وجہ سے خوار ہمارا الیکشن مہنگا کر بیٹھا اور آج ہر مافیا (چینی مافیا، پٹرول مافیا، بجلی مافیا، کرنسی مافیا ، پراپرٹی مافیا) اقتدار میں جا بیٹھا ہے۔ اور اپنے لیے سہولتیں مانگ رہا ہے، بلکہ ماضی میں جو سہولتیں ان ایوان اقتدار کے لوگوں کے لیے مختص کی گئی تھیں، اُنہیں کیوں بڑھایا گیا؟ اُس زمانے میں ججز، صحافی اور سیاستدانوں کی عزتیں اسی لیے تھی کہ لوگوں کے آپسی اختلافات نظریات کی بنیاد پر ہوتے تھے، لوگ پیسے کے لیے ایک دوسرے سے نہیں جھگڑتے تھے، جبکہ اس کے برعکس ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی تمام لڑائیاں ہی محض پیسوں پر ہوتی رہی ہیں۔ لہٰذااس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ سب سے پہلے ان وجوہات کو تلاش کرنا ہوگا جو اس معاشرے میں کرپشن کی وجہ ہیں۔اس حوالے اس آپ خواہ کسی بڑی یونیورسٹی سے آپ ریسرچ بھی کروالیں، آپ کو من و عن یہی اعداد وشمار ملیں گے۔ لہٰذااگر مرض مل جائے تو پھر اس کا مداوا کریں، اس کا علاج کریں یعنی سب سے پہلے اگر آپ اس ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو الیکشن کمیشن کو بلائیں جیسے آپ دیگر اداروں کے سربراہان سے ملاقاتیں کرتے ہیں ،،، اُنہیں احکامات جاری کریں۔ کہ ہر اُمیدوار کی حدود کیا ہوں گی؟ یعنی الیکشن کو سستا کر دیں۔ ہر امیر غیریب کے لیے الیکشن لڑنے کی ایک حد مقرر کر دیں، اس کے لیے وہ دو چار بڑے اُمیدواروں کو نااہل کر دیں۔ کوئی دو درجن افراد کو جرمانے کریں یا اُنہیں وارننگ دی جائیں۔ تو ایسا کرنے سے ہر کوئی الیکشن لڑ سکے گا۔ عوام پر کوئی اُمیدوار بوجھ نہیں بنے گا۔ اور نہ ہی عوام پر بھی الزام آئے گا کہ اُنہوں نے اپنے ووٹ بیچے ہیں۔ اور پھر میرے خیال میں ایسا اُمیدوار جو ووٹ خرید رہا ہو، اُسے تاحیات نااہل قرار دے دیا جائے۔ بہرکیف میں آج بھی یہی کہوں گا کہ پچھلے احتساب کو ہم بھول جائیں، جبکہ نئے احتساب کو بھی بھول جائیں لیکن فی الوقت کرپشن کے آگے بندھ باندھ دیں، اُس کے لیے ایک ایسا سسٹم ترتیب دینا ہوگاجس سے عام آدمی کو فائدہ ہوسکے، عام آدمی کا اس سسٹم پر اعتماد برقرار رہ سکے، عام آدمی کبھی اس حوالے سے شش و پنج میں مبتلا نہ ہوسکے۔ اسی سے ملک سنور سکتا ہے ورنہ وقتی احتساب جتنے مرضی کر لیں کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔