15جولائی : ترکی میں جمہوری یکجہتی کا دن !

15 جولائی 2016ءبروزجمعہ دنیا بھر کے لیے ایک معمولی دن تھا۔لیکن اُس شام جو کچھ ہوا، اُسے نا تو کبھی ترک بھلا پائیں گے، نا عالم اسلام اور نا ہی دنیا۔ اُس شام کو ترکی کی جمہوری حکومت پر فوج کے باغی گروپ کی جانب سے جسے مبینہ طور پر امریکی اور فتح اللہ گولن (ترکی میں اپوزیشن جماعت کے بڑے لیڈر اور ترک صدر طیب اردگان کے سب سے بڑے مخالف ) کی سرپرستی حاصل تھی، نے سرکاری عمارتوں کو قبضے میں لینے،اُس وقت کے آرمی چیف اور طیب اردگان کے دست راست ”حلوصی آکار “ سے زبردستی دستخط سمیت پورے ملک پر قبضہ کرنے کی مذموم کوشش کی۔ اس کوشش میں اُس رات ڈھائی سو سے زائد افراد شہید ہوئے۔ لیکن طیب اردگان جو اُس وقت گزشتہ 13سال سے اقتدار میں تھے نے اس کوشش کو کیسے ناکام بنایا، یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ مگر سب سے پہلے اُس رات کیا کیا ہوا اُس پر روشنی ڈالتے ہیں ۔ سب سے پہلے اُس شام خبر آئی کہ باغی گروپ نے باسفورس برج کو ٹینکوں اور بکتربند گاڑیوں سے بند کئے رکھاہے۔ اِسی طرح استنبول میں اتاترک ائیرپورٹ پر بھی فوجیوں کے قبضہ کی خبر ملی۔کثیر تعداد میں باغی فوجیوں پر مشتمل ایک ٹولہ اسلحہ سے لیس ترکی کے دارلحکومت انقرہ میں آرمی ہیڈکواٹرزمیںآکر آرمی چیف آف اسٹاف خلوصی آکارلر کے آفس میں زبردستی داخل ہوا۔ جب آرمی چیف کے گارڈز نے باغیوں کو روکنے کی کوشش کی تو باغیوں نے اُن پر گولی چلاکر آرمی چیف آف اسٹاف کے گارڈز کو شہید کردیا۔اُن باغیوں نے خلوصی آکارسے یہ مطالبہ کیا کہ اُن کا ساتھ دے کر حکومت کی برطرفی کے الٹی میٹم پر دستخط کریں تو چیف آف آرمی نے اِس مطالبے سے صاف انکار کردیا، مطلب طیب اردگان نے آرمی چیف ایسے شخص کو بنایا تھا جس پر وہ آنکھیں بند کرکے اعتماد کر سکتے تھے۔ اِس پر اُن لوگوں نے خلوصی آکارلر کو گرفتار کرکے ہیلی کاپٹر کے ذریعے کسی اور چھاو¿نی میں لے گئے۔ پھر یہ باغی گروپ ایک باغی جنرل کی قیادت میں آرمی اسپیشل فارسز کے ہیڈکوارٹر میں اسپیشل فارسزکے کمانڈر میجر جنرل ذکائی آق صاقاللی کو گرفتار کرنے اور اس کے ہیڈکوارٹر پر قبضہ کرنے پہنچا مگر میجر جنرل ذکائی آق صاقاللی کے ایڈجوائنٹ نے یہ سن کر ایک پل بھی تامل کئے بغیر اپنا پستول نکالا اور باغی جنرل کے ماتھے پر گولی چلائی اور اُسے ڈھیر کردیا۔ یہ دیکھ کر باغی جنرل کے ساتھیوں نے بھی اُن پر گولیاں چلاکر اُنھیں شہید کردیا، مطلب سپیشل فورسز پر بھی طیب اردگان کا مکمل کنٹرول تھا، اور ہر جگہ اعتماد کے لوگ بیٹھے تھے۔ پھر ممبران پارلیمنٹ کی اپنے قائد اور ملک کے لیے جرا¿ت کا اندازہ لگائیں کہ ترکی پارلیمنٹ کے تمام پارٹیوں کے ممبران جو اُس وقت انقرہ میں تھے پارلیمنٹ میں جمع ہوئے تاکہ بغاوت کے خلاف ایک قرارداد پاس کرسکیں۔ اُس وقت رات کے اُس پہر میں ڈیڑھ سو سے زائد پارلیمنٹ کے ممبر مذاکرات کے ہال میں اکھٹے ہوئے جن میں ترکی کے سیکولر خیالات و تصورات کے علم بردار او ر رجب طیب ایردوغان کے سخت مخالف جمہوری خلق پارٹی کے ممبر بھی شامل تھے۔ اِس کی اطلاع ملتے ہی باغی فوج نے ایف 16 بھیج کر ترکی کی پارلیمنٹ پر بمباری کرادی۔لیکن اُنہیں ناکامی ہوئی۔ پھر اسی دوران طیب اردگان جو چھٹیوں کے لیے ترکی کے مارماریس شہر کے ایک ہوٹل میں مقیم تھے اُس ہوٹل سے ذرا جلدی نکلے۔ اُن کے ہوٹل سے الگ ہونے کے پندرہ منٹ بعد باغی فوج کے اسپیشل فورسز کے چالیس سپاہیوں نے ہوٹل میں بم بھی پھینکا اور فائرنگ بھی کی۔ بغاوت کی ناکامی کے بعد اِس سپیشل فورس کے چالیس سپاہی جنگل کی طرف بھاگ نکلے ، جو بعد میں پکڑے گئے۔ صدر کی حفاظت پر مامورجنرل، جو اُس دوران انقرہ میں تھا،نے بار بار صدر مملکت کے ساتھیوں کو فون کرکے صدر کے ہوائی جہاز کا روٹ دریافت کرنا چاہا مگر اُن لوگوں نے معلومات دینے سے انکار کیا۔ پھر معلوم ہوا کہ وہ جنرل بھی اِس بغاوت کا حصہ ہے ، جسے بعد میں گرفتار کر لیاگیا۔مطلب یہاں بھی اُن کے وفاداروں نے معلومات دے کر اپنے لیڈر کو بچایا۔ پھر آجائیں ترک خفیہ ایجنسی کی طرف جہاں باغی گروپ ہیلی کاپٹرز کے ذریعے اُترا اور اترتے ہی خفیہ سروس کے اہلکاروں پر فائرنگ شروع کردی تو پولیس اہلکار بھی جوابی فائرنگ کرنے لگے۔ باغیوں کی پہلی فائرنگ میں کافی تعداد میں خفیہ سروس کے پولیس شہید ہوگئے مگر پھر بھی پویلس فارسز نے باغیوں کو گرفتار کرنے تک لڑائی جاری رکھی۔ مزید بر آں باغیوں نے پولیس اسپیشل فورسز کے ہیڈکوارٹر پرایف 16سے بمباری کی جس کی وجہ سے پولیس کے 47اہلکار جن میں خواتین بھی تھیں، شہید ہوگئے۔پھر آجائیں پولیس فورس کی جانب، باغی گروپ کی جانب سے پولیس چیف کو ہراساں کیا گیا مگر وہاں بھی اُن کی ایک نہ چلی اور پولیس نے بھی باغی گروپوں کا ساتھ دینے سے مکمل انکار کردیا۔ پھر ان سب سے بڑھ کر ترکی کے عوام ہیں جنھوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے اِس بغاوت کو ناکام کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اُس رات جب ترک صدر نے ٹی وی پر ترکی کے عوام کو سڑکوں پر آنے کی دعوت دی ۔ تو 5سے 10منٹ کے اندر باسفورس برج تک کئی کلومیٹر تک کا راستہ انسانوں سے بھرا ہوا تھا اور آگے بڑھنا بہت مشکل تھا۔اِس مجتمع میں مرد بھی تھے خواتین بھی تھیں، جوان بھی تھے اور بوڑھے بھی۔ کچھ خواتین کے ساتھ اُن کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے۔ سیکولر لوگ بھی تھے، مذہبی لوگ بھی تھے اور حکومت کے مخالف قوم پرست پارٹی کے کارکن بھی تھے۔ترک بھی تھے، کرد بھی تھے اور عرب بھی تھے۔ بلکہ تمام ترکی کے لوگ تھے بلکہ یہ کہئے تو بہتر ہوگا وہاں بذات خود ”ترکی“ موجود تھا۔ آگے بڑھتے ہوئے پیغامات ملنے لگے کہ باغی فوجیوں نے لوگوں کے اوپر فائرنگ شروع کردی ہے اور کافی تعداد میں شہید اور زخمی ہیں۔ مگر اِس خبر کے ملنے کے باوجود کسی نے بھی تامل نہیں کی نہ ہی واپس لوٹنے کے لیے سوچا۔ پھر خبریں آنے لگیں کہ باغی فوجیوں نے ٹینکوں کو لوگوں پر چلاکر بہت سے لوگوں کو کچل دیا ہے اور فوجی ہیلی کوپٹروں سے لوگوں پر فائرنگ کررہے ہیں۔ مگر نہ کوئی مرد نہ کوئی زن پیچھے ہٹی اور سب لوگ آگے بڑھتے چلے گئے۔ دوسری طرف تمام مساجد سے صلوٰة الشریفہ کی آوازیں بلند ہونے لگیں تاکہ لوگوں کو سڑکوں پر بلایا جائے۔صلوٰة شریفہ تو یا جمعہ کی نماز یا جنازہ کی نماز کی دعوت دینے کے لیے مساجد سے بلند ہوتی ہے۔ اِس طرح سے مساجد سے یہ پیغام مل رہا تھا کہ آپ مرنے پر تیار ہوکر سڑکوں پر نکلیں۔ الغرض اُس رات ترکی عوام ، باغی فوجیوں کو روکنے کی خاطر گولیوں کے سامنے سینہ سپر ہوگئے، اُس رات ٹینکوں کو روکنے کی خاطر لوگ ٹینکوں کے نیچے لیٹ گئے۔ اُس رات لوگوں نے باغی فوجیوں کو ناکام بنانے کی خاطر ٹرکوں، بسوں اور گاڑیوں کو لے کر چھاو¿نیوں کے دروازے بند کئے۔ اُس رات ٹرک ڈرائیوروں نے فوجی لڑاکا طیاروں کو روکنے کے لیے فوجی ہوائی اڈوں میں اپنے ٹرکوں کو گھساکر فلائٹ ٹریکوں کو لاک کیا۔اُس رات لوگوں نے دھواں پیداکرکے لڑاکا طیاروں کو ٹیک آف کرنے سے روکنے کے لیے فوجی ہوائی اڈوں کے آس پاس موجود اپنے کھیتوں کو آگ لگا دی۔اُس رات ترکی کے عوام نے نہ صرف اپنی منتخب حکومت کو بچانے کے لیے بلکہ اپنے ملک کو اور اپنی عزت کو بچانے کے لیے شہید ہوئے، بہت سے بچے یتیم ہوئے اور خواتین بیوہ ہوئیں۔ اُس رات ترکی میں شہیدوں کے خون سے جمہوریت کو بچایاگیا۔ اگر اُس رات ترکی میں کوئی جمہوریت پسند شش و پنج میں پڑتا یا اپنی جان و مال کی فکر میں تامل کرتا توآج ترکی میں باغیوں کی حکمرانی ہوتی اور جو حال مصر کا ہے یعنی وہ مغربی طاقتوں کا کٹھ پتلی بنا ہوا ہے وہی حال ترکی کا ہوتا۔ اس بغاوت کے بعدطیب اردگان نے بھی باغی فوجیوں کے ساتھ وہ غیر انسانی سلوک کیے جسے دنیا ہمیشہ یاد رکھے گی، انہوں نے کئی ہزار فوجیوں کو نوکریوں سے فارغ کیا، کئیوں کو پھانسیاں دیں اور کئی افسران آج بھی عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں، اس کے بعد کے سالوں میں ترکی پر معاشی مشکلات کا دور بالکل اسی طرح آیا جس طرح کا پاکستان میں آج کل دور دورہ ہے، اُس وقت ترکی دنیا میں مہنگائی میں دوسرے نمبر پر تھا اوروہاں انفلیشن 30فیصد تک بڑھ گئی۔مہنگائی کے ساتھ دوسرا بڑا بحران مقامی کرنسی لیرا کی قدر میں خوف ناک کمی کی صورت میں پیدا ہوا، 2017میں ایک ڈالر ساڑھے9 لیرے کے برابر تھا لیکن پھر لیرا گرنا شروع ہوا اور یہ چند ماہ میں فی ڈالر 18.25لیرا کے برابرہو گیا گویا قدر میں 100فیصد کمی آ گئی اور یہ طیب اردگان کی سیاسی زندگی کا دوسرا بڑا بحران تھا، وہاں بھی لوگ یورو اور ڈالر خرید کر لیرا کو نظر انداز کر رہے تھے، لیکن ترکی نے اس دوران اپنی ایکسپورٹ بند نہ کیں اورایک بڑا ایکسپورٹر بن گیا۔ یہ ہر سال180بلین ڈالر کی مصنوعات ایکسپورٹ کررہا تھا، کورونا کے دوران بھی ترکی نے ایکسپورٹ سے169بلین ڈالر کمائے، لیکن معیشت ڈولنا شروع ہوئی تو 20 دسمبر2021کو طیب اردگان نے نئی معاشی پالیسی کا اعلان کر کے پوری دنیا کے معاشی ماہرین کو ہلا کر رکھ دیا، آپ پالیسی کا کمال دیکھیے، صرف دو دن میں لیرا ساڑھے 18 سے 11 پر آگیا یعنی ترک شہری پالیسی سے پہلے ایک ڈالر ساڑھے اٹھارہ لیرا میں خرید رہے تھے اور پالیسی سے دو دن بعد ایک ڈالر 11 لیرے کا ہوچکا تھا، یہ تبدیلی معاشی تاریخ میں معجزے سے کم نہیں تھی، اردگان نے صرف ایک اعلان کیا”عوام کو ڈالرز اور یوروز اکاو¿نٹس کھولنے کی کوئی ضرورت نہیں‘ آپ اپنی سیونگز لیرا میں رکھیں اور بینکوں میں جمع کرا دیں‘ آپ جب بھی رقم نکلوائیں گے تو آپ کو ڈالر کی مالیت کے مطابق پیسے ملیں گے“ مثلاً آپ نے ایک لاکھ لیرا جمع کرائے‘ یہ رقم آج 5600 ڈالرز کے برابر ہے، آپ ہفتے بعد یہ رقم نکلواتے ہیں اور اس وقت یہ پانچ ہزار ڈالرز کے برابر ہو جاتی ہے تو چھ سو ڈالرز کا نقصان حکومت پورا کرے گی۔مطلب انہوں نے ایسے انداز میں اپنے ملک کو بحرانوں سے نکالا کہ دنیا حیران رہ گئی اور ترکی آج بھی مستحکم ممالک کی فہرست میں آتا ہے۔ لہٰذااگر یہاں بھی کوئی لیڈر اپنے پاﺅں جمانا چاہتا ہے یا ملک کو بدلنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے اداروں کو ٹھیک کرے، عوام کے دلوں میں راج کرے اور پھر ”انقلابی“ اقدام اُٹھائے یا ”ٹکر“ لینے کا سوچے! ورنہ براحال ہوجائے گا!