پنجاب کا کلچر شیشے کی طرح شفاف ہے!

ثقافت، زبان، رسم و رواج، اقدار، رہن سہن اور آداب و اخلاق وہ عناصر ہیں، جنہیں قومیں اپنا فخر سمجھتی ہیں۔ انہیں جدید دور کے سماجی اطوار کے ساتھ مربوط بنانا ایک چیلنج سے کم نہیں ہوتا۔ لیکن جو قومیں اپنی تہذیبی و ثقافتی ورثے کی حفاظت کرنا چاہتی ہیں وہ ہر دور کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری نبھا رہی ہیں۔بالکل اسی طرح پنجاب بھی ایسا ہی خطہ ہے جہاں کی ثقافت، زبان، رسم و رواج، اقدار ، رہن سہن پوری دنیا میں موضوع بحث بنتے رہے ہیں۔ یہ وہ خطہ ہے، جس کے بارے میں محققین کا خیال ہے کہ شاید زندگی نے اسی خطے میں اپنی آنکھ کھولی اور اس سفر آغاز کیا جو دائم جاری ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ زندگی کا دارومدار پانی پر ہے اور یہ دریاﺅں کی سرزمین ہے۔ پنجاب رنگا رنگ ثقافتوں کی سرزمین ہے۔ پنجاب کی تاریخ کی طرح اس کی ثقافت بھی صدیوں پرانی ہے۔ ہڑپہ سے شروع کریں یا ٹیکسلا سے حیران کن خوبصورتیاں آپ کی منتظر ہوں گی۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ہمیں، جو ثقافتی رنگ نظر آتے ہیں، ان میں خوبصورتی کم اور بدنمائی غالب دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی میں اراکین کا آئے دن بحث و تکرار اور آپس میں گتھم گتھا ہونا تو یہاں کی ثقافت کا ہمیشہ ہی سے ایک حصہ رہا ہے۔ تاہم زبانی، کلامی تصادم سے بڑھ کر ہاتھا پائی، شور وغل، ایک دوسرے پر آوازیں کسنا اور ایک دوسرے کو ”خوبصورت القابات“ سے نوازنے کا رواج کچھ عرصے سے عام ہوتا جا رہا ہے۔ خاتون ہو یا مرد بلا تفریق کسی کی عزت اُچھالنا، کسی پر طنز کرنا یا اپنی بلند آواز سے دوسرے کی آواز کو دبانا، یہاں تک تو معاملات ایک عرصے سے چل ہی رہے تھے کہ اب نوبت گالی گلوچ تک آ پہنچی ہے۔ اور اس ”گالی کلچر “ کو پنجاب کے ساتھ منسوب کرنے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے، یہ بات گزشتہ ہفتے شیخ روحیل اصغر ممبر قومی اسمبلی نے کی ۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ ” گالی دینا پنجاب کا کلچر ہے“۔ ان کا یہ فقرہ نہ صرف تمام پنجابیوں کی دل شکنی کا سبب بنا ہے بلکہ اس سے ملک میں پہلے سے ہی پائے جانے والے تعصبات کو مزید تقویت ملی۔اور حد تو یہ ہے کہ وہ مختلف پروگراموں میں اس کا دفاع بھی کرتے نظر آرہے ہیں۔ حالانکہ اگر وہ تاریخ کا مطالعہ کر لیتے تو شاید ایسا نہ کہتے ۔ لیکن کیا کریں ہمارے 90فیصد اراکین اسمبلیوں کو نہ تو مطالعہ کا شوق ہے، اور نہ ہی اُن کا تعلیم سے دور کا کوئی تعلق ہے۔ دل کی بات کہوں تو دل بہت دکھا ہے۔ اس بات پہ تو ضرورکہ معزز رکن پارلیمنٹ نے کیا بات کہی، مگر اس سے زیادہ اس بات پہ کہ عصرِ حاضر کے پنجاب کے فکری اور سیاسی رہنما پنجاب کی ثقافت سے کتنے نابلد ہیں۔ ہزاروں سال سے یہ زرخیز خطہ اپنے رنگارنگ پانیوں کے بہاﺅ کے ساتھ کتنے زمانے دیکھ چکا ہے۔ کبھی سوچا، اس خطے نے کتنے بابوں، ادیبوں، مفکروں اور علم و حکمت کے خزانوں کو جنم دیا۔ حضرت داتا گنج بخشؒ کی صرف ایک ”کشف المحجوب“ ہزاروں کتابوں کا اختصار ہے۔جہاں حضرت بلھے شاہ جیسے صوفی بزرگ ہو اس کا کلچر گالی کیسے ہو سکتا ہے۔ مسجد ڈھا دے مندر ڈھا دے ڈھیندا جو کچھ ڈھا دے اک بندے دا دِل ناں ڈھاویں رب دلاں وچ رھیندا.. پھر جس دھرتی میں حضرت وارث شاہ جیسے بزرگ سو رہے ہو ںتو وہ کلچر کیسے گالی ہو سکتا ہے۔بقول وارث شاہ کئی بول گئے شاخ عمر دی تے،ایتھے آہلھناکسے نہ پایا ای کئی حکم تے ظلم کما چلے،کس نے ساتھ لدایا ای پھر جہاں پر حضرت سلطان باہو ؒ جیسی بزرگ ہستیاں ہوں صوفی شاعر ہوں تو وہ کلچر کیسے گالی ہو سکتا ہے۔ الف اللہ چنبے دی بوٹی میرے من وچ مرشد لائی ہو نفی اثبات دا پانی ملیا ہر رگے ہر جائی ہو الغرض جہاں پر حضرت بابا فرید شکر گنج ، حضرت میاں محمد بخش ؒ ، خواجہ غلام فرید، شاہ حسین، فیض احمد فیض ، بابا گرونانک ، بھگت کبیر اور دیگر سینکڑوں شخصیات جیسی عظیم ہستیاں اپنی خدمات سر انجام کر چکی ہوں ، گالی اُس کلچر کا حصہ کیسے ہو سکتی ہے؟ ان صوفیا کی کون سی کتاب میں گالیاں ہیں؟ گالیاں تو ہر زبان میں ہوتی ہیں۔ کون سی زبان ان سے خالی ہے۔ موجودہ انگریزی خاص طور پر امریکن انگریزی میں کون سی روزمرہ گفتگو ہے جو چہار حرفی لفظوں سے بے نیاز ہو۔ فکشن اور ناولز تک میں موجود ہے۔ گھروں میں بھی لڑکیاں لڑکے عام بول رہے ہوتے ہیں‘ لیکن کیا اس سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ گالی برطانوی یا امریکی کلچر کا حصہ ہے؟“میں اکثر امریکا جاتا ہوں ، وہاں بھی گالی کلچر عام ہے، بیشتر لوگ بات بات پر گالی نکال رہے ہوتے ہیں ، تو کیا یہ اُن کے کلچر میں ہے۔ لہٰذافرق اتنا ہے کہ عربی ، عربی زبان میں گالی نکالتے ، انگریز انگریزی زبان میں نکالتے جبکہ ہم پنجابی زبان میں گالی نکال کر اپنے کلچر پر تہمت لگوا بیٹھتے ہیں !آپ ان بزرگان دین کوایک طرف رکھیں،اورسوچیں کہ اس ملک کے جتنے پنجابی سیاستدان گزرے ہیں، اُن میں سے کتنے سیاستدان گالیاں دیتے رہے؟ پنجاب سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں میاں مشتاق گورمانی، میاں ممتاز احمد دولتانہ، نوابزادہ نصراللہ خان، محمد حنیف رامے، ملک معراج خالد، جسٹس رفیق تارڑ، میاں نواز شریف، چودھری شجاعت حسین میں سے کسی کی شہرت گالی بکنے والے شخص کی نہیں۔ حالانکہ وہ بھٹو صاحب کمال کے عوامی مقرر تھے۔ مجمع پر چھا جاتے۔ عام آدمی کے ساتھ بات کرنے پہ ایسا ملکہ حاصل تھا جو بعد میں ہم کسی دوسرے رہنما میں نہ دیکھ سکے۔ ان کی تقریر جذبات‘ امنگوں‘ خود اعتمادی اور مسیحائی کا مرقع ہوتی تھی۔ 1977 کی انتخابی مہم کے دوران لاکھوں لوگ ان کے جلسوں میں آتے۔ بعض اوقات تقریر میں شدتِ جذبات سے کچھ کہہ جاتے تو معذرت بھی کر لیتے۔ ایک مشہور تقریر میں انہوں نے سیاسی مخالفوں کے بارے میں کچھ غلط کہہ دیا, پھر فوراً کہا ”کاٹ دو، کاٹ دو“۔ احساس تھا کہ غلط بات کہہ دی ہے۔ مجموعی طور پر اپنے سیاسی مخالفین کو پچھاڑتے بھی تھے۔ اور پھر کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ بانی ایم کیو ایم جن کا تعلق کبھی پنجاب سے نہیں رہا مگر انہوں نے پاکستان کے سب سے زیادہ مہذب شہر کراچی میں جو کلچر متعارف کرایا،اُسے مہاجروں یا اردو زبان بولنے والوں سے منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ اور پھر ظلم تو یہ ہے کہ پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہونے کے باوجود یہاں پر صدر ضیاءالحق اور نوازشریف کے علاوہ کسی کو وزیر اعظم تک نہیں بنایا گیا۔ اور پھر اسی لیے معذرت کے ساتھ پنجابی جیسی پر لہجہ زبان ہونے کے باوجود اُردو کو قومی زبان کا نام دیا گیا۔ یعنی یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جانے لگی کہ پنجابی بولنا بدتمیزی ہے، جبکہ اردو بولنے والا مہذب ہوتا ہے۔ جس سے میرے خیال میں پنجاب کا کلچر تباہ ہوگیا۔اور یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دنیا کا ہر شخص اپنی مادری زبان بولنا فخر سمجھتا ہے، لیکن پنجابی واحد زبان ہے جس کے بولنے والے پر اعتراض لگا دیا جاتا ہے۔ یعنی آپ دیکھیں کہ سندھ میں سندھی زبان کو پروموٹ کیا جاتا ہے، وہاں ہر نوٹس بورڈ پر سندھی زبان درج ہے۔ سندھ والے توآپ کے درمیان بیٹھ کر سندھی میں بات کر رہے ہوتے ہیں ۔ کے پی کے میں پشتو میں بات کی جاتی ہے۔ لیکن ہم پنجابیوں کو Complex کا شکار بنادیا گیا ہے۔ میرے خیال میں پنجاب تاریخ میں کبھی اتنا کمپلیکس کا شکار نہیں ہوا جتنا آج ہے۔ تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں کہ یہ دنیا کا خوشحال ترین خطہ تھا، جہاں جنگجو اسے فتح کرنے نہیں بلکہ مال غنیمت اکٹھا کرنے آتے تھے۔ پھر یہاں کے لوگوں کی وفاداریاں مشہور ہیں۔ انگریزوں نے سب سے زیادہ بھرتی پنجاب سے کی۔ فوج میں بھی زیادہ لوگ پنجاب ہی کے ہیں، بلکہ بھارتی فوج جس پر فخر کرتی ہے یا جسے ہر اول دستہ سمجھتی ہے، وہ بھی پنجاب ہی کی فوج ہے۔ اور اگر پنجابی زبان کی بات کریں تو پنجاب کلچر اور پنجابی تو 1947ءکے بعد تقسیم ہوگئی، پھر معذرت کے ساتھ انہوں نے پنجابی کی حفاظت کی اور ہم نے اُس کا گلا گھونٹ دیا۔ بلکہ پنجابی کے حوالے سے اگر کہا جائے تو یہ آج کینیڈا کی دوسری بڑی زبان بن چکی ہے۔ بہرکیف ہمیں اپنی اسمبلیوں میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔ تاریخ پاکستان میں پہلی دستور ساز اسمبلی میں تو قدآور شخصیات تھیں۔لیکن آج ممبر اسمبلی اُسے بنایا جاتا ہے جو طوفان بدتمیزی پیدا کرنے والوں میں پیش پیش ہوتا ہے۔ تبھی ہمارا دنیا کے 167ممالک کی فہرست میں بدتہذیبی کے لحاظ سے 153واں نمبر ہے۔ اور جن 17ممالک کو تہذیب دار ملک قرار دیا ہے ان میں یورپ، سکینڈ نیوین ، کینیڈا، جاپان نمایاں ہیںوہاں باقاعدہ فہرست ہوتی ہے، جس میں وہ الفاظ یا فقرے درج ہیں، جن کو غیر پارلیمانی قرار دیا جا چکا ہے، اور ممبران سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ان کے استعمال سے اجتناب کریں۔ مثال کے طور پر دنیا کی بیشتر اچھی اور کامیاب جمہوریتوں میں کسی ممبر کو ”جھوٹا“ کہنا غیرپارلیمانی لفظ قرار دیا جا چکا ہے۔ کینیڈین پارلیمان نے تو بہت پہلے 1959ءمیں ہی اس لفظ کو غیر پارلیمانی قرار دے دیا تھا۔بھارت میں پارلیمنٹ نے اس سلسلے میں 2012میں ایک کتاب شائع کی تھی۔ اس کتاب میں ان الفاظ اور فقروں کی فہرست ہے، جن کو غیرپارلیمانی قرار دیا جا چکا ہے۔ ان میں علی بابا اور چالیس چور، گھٹیا آدمی، برا آدمی، بدمعاش، اندھا، بہرا، بے وقوف، کنفیوزڈ آدمی، ڈاکو، غنڈا، سست اور جھوٹا سمیت کئی الفاظ اور فقرے شامل ہیں۔ اسی طرح آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی پارلیمانوں کی ویب سائٹس پر ایسے الفاظ اور فقروں کی فہرست موجود ہے، جو غیر پارلیمانی تصور کیے جاتے ہیں۔ برطانیہ کے ہاﺅس آف کامنز کی اس سلسلے میں دنیا بھر میں اور خصوصاً کامن ویلتھ میں نقالی کی جاتی ہے۔ بلکہ اب تو جتنا مرضی کرپٹ شخص سامنے کھڑا ہو، اسمبلی میں اُس کے لیے بھی ”آنریبل“ یعنی عزت مآب کا لفظ استعمال کرنا پڑتا ہے۔ ایک ممبر کی طرف سے دوسرے عزت مآب ممبر کو چور، ڈاکو یا لچا لفنگا کہنا کافی عجیب لگتا ہے۔ دنیا بھر کی پارلیمان اور اسمبلیوں کے اندر ممبران کو ناشائستہ، غیراخلاقی یا غیر پارلیمانی زبان کے استعمال سے روکنے کا باقاعدہ میکنزم اور طریقہ کار موجود ہے۔لہٰذااپنے ”ہاﺅس“ کو ٹھیک کرنے کے لیے ان طریقہ کار پر توجہ دیں کہ آپ کی اسمبلیوں کی کارروائیاں چل سکیں۔ اور کوشش کریں کہ کسی کی ثقافت کو نہ ہی چھیڑیں۔ کیوں کہ ثقافت آنے والی نسلوں کی موجودہ نسلوں کے پاس ضمانت ہوتی ہے! #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan #Punjab culture #cultural heritage #Pakistan #National Assembly of Pakistan #Sheikh Rohail Asghar