”عید“ تو صرف بچوں کی ہوتی ہے!

کل عید ہے، اس وقت ایک مقروض ملک عرف عام وطن عزیز کی رعایا خوب شاپنگ میں مصروف ہیں،،، ناک رکھنے کے لیے کہیں سود پر قرض اُٹھائے جا رہے ہیں تو کہیں زیور بیچ کر خریداریاں کی جا رہی ہیں اور اگر پھر بھی کوئی حل نہیں نکل رہا تو سڑکوں پر بھیک مانگ کر بھی اپنی ضروریات پوری کی جا رہی ہیں،،، تو ایسے میں مجھے بتائیں کہ کیسی عید ہوگی ہماری؟ حالانکہ اس وقت پورا ملک مقروض ہے،،، ایک ایک شخص پر 5،5لاکھ روپے قرض ہے۔ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے،،، بلکہ معیشت دان کہتے ہیں کہ کب کا ہوچکا! اور پھریہی نہیں بلکہ جس ملک میں چادر اور چار دیواری کا تحفظ ہی پامال کیا جاتا ہو، ہزاروں بے گناہ جیلوں میں بیٹھے ہوں،،، پھر یہاں کیسی عید؟ آپ یہ بات بھی چھوڑیں ،،، بلکہ اس بات پر حیران ہوں کہ اس وقت پاکستان سے رمضان میں 23لاکھ سے زائد افراد عمرہ کرنے سعودی عرب گئے ہیں۔ یہ تعداد ایک مہینے میں کسی بھی ملک سے دوسرے ملک میں زیارتوں کے حوالے سے ایک ریکارڈ ہے۔ کیا ان سے حساب نہیں لیا جائے گاکہ آپ کا ہمسایہ بھوکا رہا،،، خودکشیاں کرتا رہا اور آپ خود مہنگی عبادتیں کرنے میں مصروف رہے،،، اور پھر کیا ہمیں یہ معلوم نہیں ہے کہ اللہ کے حقوق کے ساتھ ساتھ افضل درجہ حقوق العباد ہے۔ کیا ہم بندوں کے حقوق بھول چکے ہیں؟ حدیث مبارکہ ہے کہ ”جو شخص کسی مسلمان کی کوئی دنیاوی تکالیف میں سے کوئی تکلیف دور کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کے دن کی مصیبتوں میں سے کوئی مصیبت دور فرمائے گا، جو شخص کسی تنگ دست کیلئے آسانی پیدا کرے گا، اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کیلئے آسانی پیدا فرمائے گا، جو شخص دنیا میں کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پوشی فر مائے گا۔اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے“پھر ایک اور جگہ آپ نے فرمایا کہ ”جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی کوئی ضرورت پوری کرنے کے سلسلے میں چلتا ہے یہاں تک کہ اسے پورا کر دیتا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر پانچ ہزار فرشتوں کا سایہ کر دیتا ہے وہ فرشتے اس کیلئے اگر دن ہو تو رات ہونے تک اور رات ہو تو دن ہونے تک دعائیں کرتے رہتے ہیں اور اس پر رحمت بھیجتے رہتے ہیں، اور اس کے اٹھنے والے ہر قدم کے بدلے اس کیلئے نیکی لکھی جاتی ہے اور اس کے رکھنے والے ہر قدم کے بدلے اس کا ایک گناہ مٹا دیا جاتا ہے“ .اور پھر فرمایا کہ جس کا ہمسایہ بھوکاسویا،،، اُس کا آپ سے حساب لیا جائے گا،،، یعنی حدیث مبارکہ ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک مسلمان اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی اتنا بے فکر اور بے حس ہوجائے کہ خود پیٹ بھر کر خوابِ خرگوش میں مدہوش ہوجائے جب کہ اس کے پہلو میں اس کا ہمسایہ بھوک سے بلبلا رہا ہو۔ ایسے نابکار شخص سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اظہارِ لاتعلقی کیا ہے اور واشگاف طور پر اعلان فرمایا ہے کہ اس کا یہ طرزِعمل خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے منافی اور ان کے بتائے ہوئے طریقے سے ہٹا ہوا ہے۔ ایک آسودہ حال مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے پڑوسی خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، کی تمام ضروریات پر نگاہ رکھے اور مشکل اور دشواری کے موقع پر اس کی دستگیری کرے اور ا±س وقت تک چین سے نہ بیٹھے جب تک وہ اپنی حدِ استطاعت تک اس دشواری سے اپنے پڑوسی کو نجات دلانے کی نتیجہ خیز کوشش نہ کرلے۔ خیر یہ تو صاحب استطاعت لوگ ہیں،،، جن کے فعل پر ہمیں اعتراض نہیں ہونا چاہیے لیکن کیا عید منانے سے قبل کبھی کسی نے سوچا کہ اس ملک کے ساتھ حکمران کیا کر رہے ہیں؟ شوگر مل والے ملک کے ساتھ کیا کر رہے ہیں،، واپڈا والے ملک کے ساتھ کیا کر رہے ہیں،،، پولیس کیا کر رہی ہے،،، اسٹیبلشمنٹ ملک کے ساتھ کیا کر رہی ہے؟ سیاستدان ملک کے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟ بیوروکریسی ملک کے ساتھ کیا کررہی ہے؟ یقینا سب کچھ علم ہوگا مگر بے بسی کا عالم بھی ہوگا! تو صاحب! اگر حالات یہ ہوں تو پھر کیسی عید! اسی لیے ہم بچپن میں صحیح سنا کرتے تھے ہم کہ عید تو صرف بچوں کی ہوتی ہے۔ کیوں کہ وہ بے خبر ہوتے ہیں،،، معصوم ہوتے ہیں،،، اور بھولے ہوتے ہیں،،، اُن کے نزدیک اُن کاباپ دنیا کا امیر ترین شخص ہوتا ہے،،، اُن کے مطالبات کیا ہوتے ہیں؟ محض چھوٹے چھوٹے سے! لیکن جب اُن کو سمجھ بوجھ آجاتی ہے،،، خود باپ بن جاتے ہیں تو پھر اُنہیں سمجھ آتی ہے،،، کہ حالات کیا ہیں؟ ہمیں یاد ہے کہ چند سال پہلے عید صرف عید ہوا کرتی تھی، لیکن آج ہم بٹ گئے ہیں۔ غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوگیا ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ وہ خوش قسمت کون ہوںگے جو بھرپور انداز سے عید کی مسرتوں کو انجوائے کر رہے ہوں گے۔ میرے چاروں سمت تو دکھوں، فاقوں، زخموں اورآنسوﺅں کے گدلے پانیوں کی رات ہے۔ اس ”جھیل“ کی تہہ میں مجھے تو خوشی کا کوئی دمکتا موتی دکھائی نہیںدیتا۔ اس معاشرہ میں جہاں 90فیصد گھروں میں غربت، تنگدستی، فاقہ مستی، خود سوزی اور خودکشی کی وارداتوں نے آج بھی صف ماتم بچھا رکھی ہے،بلکہ موجودہ دور حکومت نے تو سانس لینا بھی دشوار کر دیا ہے، حیران ہوں کہ ان تیرہ و تاریک گھروں کے 23 کروڑ مکین کیونکر عید منائیں گے؟ پاکستانی میں طبقاتی تفریق پہلے اس قدر زیادہ اور اتنی نچلی سطح تک نہیں تھی، جتنی آج نظر آتی ہے۔ امیر اور غریب کی عید میں پہلے کتنا اور کیسا فرق تھا اور آج کیا صورتِ حال ہے؟ اس بارے میں آپ بازاروں میں چلے جائیں آپ کو خود اندازہ ہوجائے گا کہ ہمارا معاشرہ کس قدر تقسیم کا شکار ہوچکا ہے۔ کل میں نے اور آپ نے تبدیلی کے خواب دیکھے تھے اور آج بھی ہم پھر اسی قسم کے خواب آنکھوں میں سجائے ”ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم“ کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔وہ دن کب آئے گا جب محروم طبقات کے جھونپڑوں میں روشنی ہوگی اور غاصب مقتدر طبقات کے محلات کو انقلاب کا سیل بے پناہ بلڈوز کر کے دھرتی کے ناسوروں کا خاتمہ کریگا اور جناح آبادیوں، لالو کھیتوں اور دھوپ سڑیوں کے مکین بارگاہ رب العزت میں فرط مسرت سے سجدہ شکرانہ ادا کرتے ہوئے کہیں کہ ”اے زمینوں اور آسمانوں کے مالک! تیرا شکریہ کہ تو نے اس پاک سرزمین کو ان ناسوروں سے پاک کر دیا، جنہوں نے اربوں ڈالر کے اثاثے بیرون ملک بنائے اور کھربوں کے قرضے بغیر سانس لئے ڈکار لئے۔ ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا کیوں کہ یہ لوگ اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں اور اسمبلیاں تو ”مقدس“ہیں اور اس مقدس اسمبلی میں بھی کبھی غریب کی بات نہیں کی گئی.... ریکارڈ گواہ ہے کہ پارلیمنٹ میں مہنگائی کے موضوع پر بحث کے دوران ارکان کی حاضری افسوسناک حد تک کم ہوتی ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ مہنگائی ارکان اسمبلی کا مسئلہ نہیں۔ ارکان پارلیمنٹ کی اکثریت معاشرے کے مقتدر طبقات سے تعلق رکھتی ہے، یہ وہ بااختیار مقتدر طبقات ہیں کہ زرعی اراضی سے سالانہ 700 ارب کی دولت سمیٹتے ہیں لیکن قومی خزانہ میں ایک پھوٹی کوڑی بطور ٹیکس جمع کروانے کے روادار نہیں۔ ان جاگیرداروں اور دیہہ خداﺅں کے کتے بھی تازہ گوشت کھاتے ہیں ۔اور حد تو یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت کے بعد دوبارہ ملک انہی جاگیرداروں کے ہاتھوں میں دے دیا گیا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے یہ وہ” برہمن“ ہیں جو ہر سال کتا دوڑ،ریچھ کی لڑائی اور دیگر عیاشیوں پر 14ارب 82 کروڑ 27لاکھ روپے پانی کی طرح بہا دیتے ہیںلیکن کوئی احتساب بیورو ان ”مقدس بچھڑوں“ پرہاتھ ڈالنے کا تصور بھی نہیںکر سکتا۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے7فیصد جاگیردار 63 فیصد زمین پر قابض ہیں جبکہ 93فیصد کسان صرف 37فیصد زمین کے مالک ہیں۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے عید سے پہلے تو اپنی تنخواہوں میںخاطر خواہ اضافہ فرما لیا مگر انہیں غریب کا خیال نہیں آیا۔ بقول شاعر مہنگی ہر شے ہے رضا انسان سستا ہو گیا خودکشی پر اس لئے وہ کمر بستہ ہو گیا آپ ہمارے روایتی سیاستدانوں کی اہلی اور نا اہلی کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ہر سال عید آتی ہے اور ہر سال مہنگائی کا رونا رویا جاتاہے .... ہر سال سیلاب آتے ہیں اور ہرسال سینکڑوں لوگ مرتے ہیں .... لیکن کوئی سد باب نہیں کیا جاتا.... اور نہ ہی اس طرف کوئی سنجیدہ کوشش عمل میں لائی جاتی ہے .... قصہ مختصر یہ کہ عید کے دن جیسے جیسے قریب آتے جاتے ہیں، عام لوگوں کا بلڈپریشر بڑھنے لگتا ہے، اس سال بھی گزشتہ سالوں کی طرح مارکیٹوں اور شاپنگ سینٹرز میں خریداروں کا ہجوم تو نظر آرہا تھا،خریدار کم تھے!عوام جانتے ہیں کہ اس وقت حکومت مشکل میں ہے، جسے سابقہ ”گناہوں“ کا کفارہ بھی ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ لہٰذاحکومت کو چاہیے کہ وہ شفاف انتخابات کا انتظام کرے تاکہ کم از کم چیک اینڈ بیلنس کا نظام ہی بہتر ہو جائیں، کیوں کہ ابھی تو ذخیرہ اندوز بھی یہی سمجھ رہے ہیں۔ کہ موجودہ حکومت میں غیر یقینی حالت زیاد ہ ہے ۔ اس لیے ہر کوئی اپنی من مانی کر رہا ہے۔ ہر کوئی موقع کی تلاش میں ہے۔ یہ عید غریب آدمی اور سفید پوش طبقے کے لیے کسی پہاڑ سے کم نہیں ہوتا۔ نہیں یقین تو کسی غریب آدمی سے پوچھ کر دیکھ لیں۔ بلکہ ماہانہ 2لاکھ روپے کمانے والے سے پوچھ لیں، کہ اُس نے عید کا انتظام کیسے کیا؟ ایسا کرنے سے یقینا ہمارا ضمیر بھی مطمئن ہوگا اور اسلام بھی بچا رہے گا! تبھی میں کہتا ہوں کہ خود کو چھوڑیں اور بچوں کو عید منانے دیں،،، کیوں کہ یہ عیدیں صرف بچوں ہی کی ہوا کرتی ہیں!