آہ ! اسمٰعیل ہانیہ !

فلسطین اسرائیل جنگ میں آج کا سب سے بڑا اور افسوسناک واقعہ ہوگیا، یعنی حماس کے سربراہ اسمٰعیل ہانیہ جن کی تلاش امریکاو اسرائیل کو جنگ کے آغاز سے ہی تھی کو ایران میں اُس وقت قتل کر دیا گیا، جب وہ نو منتخب ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے بعد پاسداران انقلاب (ایران) کے ریسٹ ہاﺅس میں موجود تھے۔ میزائل حملہ رات 2بجے کے قریب کیا گیا۔ مسعود پزشکیان کی حلف برداری کی تقریب میں 70 سے زائد ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی تھی۔ویسے تو اس جنگ کے آغاز میں یعنی گزشتہ سال اکتوبر میں میں نے کالم لکھا تھا جس میں کہا تھا کہ ”اسرائیل کو یہ خیال دل سے نکال دینا چاہیے کہ جارحیت سے وہ فلسطینیوں کو دبا لے گا اور خطے میں امن قائم کر لے گا۔ اور معذرت کے ساتھ حماس کو بھی یہ بات نہیں سوچنی چاہیے کہ وہ ایران یا کسی دوسری طاقت کے ساتھ مل کر اسرائیل و امریکا کو ہرا دے گا۔ کچھ زمینی حقائق بھی ہیں جن کی وجہ سے ہم یہ تسلیم کر ہی نہیں سکتے کہ حماس اسرائیل سے مضبو ط ہے۔ تبھی فلسطینی رہنما اسماعیل ہانیہ بھی اپنے آپ کو ”شہید“ ہی سمجھ رہے ہیں، کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ اسرائیل آج نہیں تو کل، اُنہیں ضرور نشانہ بنائے گا!“ اور پھر ایسا ہی ہوا کہ ہانیہ شہادت کے رتبے پر فائض ہوگئے۔ میں نے اُس وقت یہ بھی تحریر کیا تھا کہ ”حماس نے اسرائیل پر حملہ کرکے بڑی غلطی کی ہے، کیوں کہ بیشتر اسلامی ممالک جن میں ایران، لبنان سرفہرست ہیں، کی فلسطین کو اخلاقی حمایت تو حاصل تھی مگر سب کے علم میں ہے کہ وہ اسرائیل و امریکا سے زیادہ طاقت ور نہیں ہیں۔ اور پھر جب آپکی تیاری نہ ہو اور آپ طاقتور پر حملہ کردیں تو پھر آپ جیت کی اُمید نہ رکھیں۔ لہٰذااب یہ حماس کا امتحان ہے کہ وہ کس طرح غزہ کے شہریوں کو انسانی کھال جلانے والے فاسفورس بموں کی بارش اور خوراک ، پانی ، دوا اور بجلی کے نہ ہوتے ہوئے اپنے گھروں کے اندر روک پاتی ہے۔اگر ایسا نہ کرسکے تو پھر میرے خیال میں حماس نے بغیر تیاری اور بغیر ہوش مندی کے اتنا بڑا فیصلہ کیسے کر لیا کہ اس وقت لاکھوں متوقع اموات اور کھربوں ڈالر کے نقصان کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ غزہ کو چند دنوں میں ہی شام بنا دیا گیا ہے، اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتوں کو اس مسئلے کے حل کی طرف جانا چاہیے ورنہ بہت بڑا انسانی بحران سامنے آئے گا اور اس سے امریکا و اسرائیل مزید مضبوط بھی ہوں گے اور دنیا کے سامنے اپنی وحشت دکھا کر مزید دبدبہ قائم کریں گے اور فلسطین جیسے ممالک کے لیے Surviveکرنا بھی مشکل ہو جائے گا!“ لہٰذاوہی کچھ اسرائیل نے فلسطین کے ساتھ کیا، کہ غزہ کو کھنڈر بنا دیا، ایسا کھنڈر کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق جس کا ملبہ اُٹھانے میں اگلے 20سال لگ سکتے ہیں۔ پھر یہی نہیں بلکہ 40ہزار سے زائد بچوں ، خواتین اور بوڑھوں سمیت فلسطینیوں کو شہید کردیا۔ جبکہ زخمی افراد کی تعداد کئی لاکھ بتائی جاتی ہے۔ اور پھر اسی پر بس نہیں بلکہ حال ہی میں اسرائیل نے لبنان پر بھی میزائل حملہ کیا اور اب اسمٰعیل ہانیہ کو قتل کرنے کے لیے ایران پر میزائل داغ دیا۔ یہ سب کچھ دیکھ کر اُمت مسلمہ کا ہر فرد اشکبار ہے، فلسطین میں بربریت کی ایسی ایسی ویڈیوز سامنے آتی ہیں کہ دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ہم مسلمان یہ سب کچھ دیکھ کر پراسرار خاموشی اختیار کیے رکھتے ہیں کیوں کہ ہم کچھ کر نہیں سکتے! اور جو ممالک کچھ کر سکتے ہیں وہ امریکا کے زیر اثر ہیں۔ مطلب! ہمیں مان لینا چاہیے کہ اس وقت دنیا میں اگر کوئی سپرپاور ہے تو وہ امریکا ہے، جس نے اتحادی ممالک کو تو اپنے ساتھ ملایا ہی ہوا ہے بلکہ بزور طاقت اسلامی ممالک کو بھی اپنے ساتھ ملایا ہوا ہے، اس لیے کسی کی جرا¿ت نہیں ہے کہ وہ امریکا کی مرضی کے خلاف اقدام کر سکے۔ خیر بات ہورہی تھی اسمٰعیل ہانیہ کی شہادت کی ۔ تو وہ ایک عظیم لیڈر تھے، جنہیں صدیوں یاد رکھا جائے گا،اُنہوں نے اس جنگ میں اپنے تین بیٹے، بہن، پوتے پوتیوں سمیت 60سے زائد خاندان کے افراد کھوئے۔ اسمٰعیل ہنیہ کے تینوں بیٹے ہازم، محمد اور عامر اپنی گاڑی میں جارہے تھے کہ اس دوران غزہ کے الشاتی کیمپ میں ان کی گاڑی پر اسرائیل نے بمباری کی جس سے ان کے تینوں بیٹوں شہید ہوئے تھے۔ اس حملے میں اسمٰعیل ہنیہ کے 3 بیٹوں کے علاوہ 4 پوتے بھی شہید ہوئے تھے، جن میں 3 لڑکے اور ایک لڑکی شامل تھی۔آپ اندازہ لگائیں کہ کسی صاحب اولاد کے لیے اس سے بڑا حادثہ کیا ہو سکتا ہے، لیکن وہ ثابت قدم رہے اور آخری دم تک جنگ بندی کے لیے کوشاں رہے۔ اسمٰعیل ہانیہ حادثاتی لیڈر بھی نہیں تھے، وہ ایک عرصہ تک حماس کے رکن رہے۔وہ 1980 کی دہائی میں حماس میں شامل ہوئے، وہ 2006 میں وہ فلسطینی اتھارٹی کے وزیرِ اعظم نامزد ہوئے تھے۔اسمٰعیل ہانیہ حماس کے سیاسی سربراہ اور حماس کے پولیٹیکل بیورو کے چیئرمین تھے، 2017 میں انہیں خالد مشعال کی جگہ حماس کا سیاسی سربراہ مقرر کیا گیا۔اسمٰعیل ہنیہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں رہائش پذیر تھے، جس کی وجہ سے وہ غزہ کی ناکہ بندی کے دوران سفری پابندیوں سے محفوظ تھے، یہی وجہ ہے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی سے متعلق مذاکرات میں اہم کردار ادا کررہے تھے، جب کہ وہ حماس کے اتحادی ایران سے بھی بات چیت کررہے تھے۔ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے جنگجوو¿ں کی جانب سے اسرائیل پر حملے کے بعد قطر سے الجزیرہ ٹی وی پر اپنے اعلان میں اسمٰعیل ہنیہ نے کہا تھا کہ عرب ریاستوں کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ معاہدے اس تنازع کو ختم نہیں کریں گے۔ بہرحال اس وقت دنیا دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے، ایک حصہ فلسطین کے حق میں جبکہ دوسرا اسرائیل کے حق میں ہے۔ اسرائیل کے حق والا حصہ دنیا کا امیر ترین طبقہ ہے، جس میں پورا یورپ، امریکا، بھارت وغیرہ شامل ہیں۔ جبکہ فلسطین کے لیے کھڑے ہونے والے وہ ممالک ہیں جو پہلے ہی امریکی پابندیوں کی زد میں ہیں جن میں ایران، لبنان سرفہرست ہیں۔ جبکہ چین، روس بھی فلسطین کے ساتھ ہیں مگر وہ کھل کر اس کا اظہار کرنے کے بجائے دونوں ممالک پر زور دے رہے ہیں کہ وہ مذاکرات کے لیے بیٹھیں۔ جبکہ حالات یہ ہیں کہ فلسطینیوں کے لیے اس وقت مزید برا ہونے والا ہے۔ جس طرح 1948میں اسرائیل سے ساڑھے سات لاکھ سے زائد فلسطینی خانوادوں کو خوف و دہشت اور بندوق کے زور پر گھروں کو چھوڑ کے سرحد پار دھکیلا گیا۔بعینہہ ان فلسطینیوں کی غزہ میں آباد چوتھی نسل کو بھی باہر دھکیل دیا گیا ہے۔ جس طرح 1948میں مکینوں کے نکلتے ہی مکان ڈھا دیے گئے اور قصبوں اور دیہاتوں کے نام تک بدل دیے گئے۔اسی طرح جب موجودہ بے خانماں فلسطینی واپس غزہ شہر لوٹیں گے تو وہاں کوئی گھر ہی نہ ہوگا۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ ہم مسلمان ابھی اتنی جدید ترین ٹیکنالوجی سے آراستہ نہیں جتنی مغربی دنیا یا امریکا ہے۔ اور پھر حماس کی فاتحانہ کارروائیوں سے دنیا حیران و پریشان تو ہوئی تھی مگر اس کے بہرصورت مہلک نتائج نکلے ہیں۔ تشدد کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتا، حتیٰ کہ عارضی فائدہ بھی بہت کم ہوتا ہے، اور اگر ہو بھی جائے تو اس کا مستقبل میں آپ کو زیادہ شدت سے نقصان ہوتا ہے، حالانکہ اس سے پہلے اسرائیل کی طرف سے یہ اعلانات ہوتے رہے ہیں کہ اگر ایک اسرائیلی مرے گا تو ہم ہزار فلسطینی ماریں گے، اور وہ پھر مارتے بھی رہے۔ تو کیا ہوا اس سے جنگ ختم ہوئی؟لہٰذااسرائیل اور فلسطینیوں کو چاہیے کہ ٹیبل ٹاک کریں، آپ کسی بھی گروہ کو تشدد سے ختم نہیں کرسکتے! جاپانیوں پر ایٹم بم گرے تھے، تو اُس وقت بھی جاپانی ختم نہیں ہو گئے تھے، چنگیز خان کے قتل عام نے بھی دنیا کو ختم نہیں کر دیا تھا، نادر شاہ اور تیمور کے دہلی میں قتل عام سے دہلی ختم نہیں ہوگیا تھا،تشدد اور پابندیاں ہر مسئلے کا مستقل حل نہیں ہوتیں، بلکہ عارضی حل بھی نہیں ہوتیں۔ یہی بات پاکستان کو بھی سوچنی چاہیے کہ تشدد کے ذریعے کسی کو وقتی طور پر تو دبا سکتے ہیں، مگر اُسے دیرپا ختم نہیں کر سکتے۔ نہیں یقین تو آپ بھٹو کو دیکھ لیں، اُن کا 1979ءمیں تختہ اُلٹا گیا تو آج تک ہم مستحکم نہیں ہوسکے۔ مستحکم ہونے کے لیے ڈائیلاگ کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ بہرکیف اسمٰعیل ہانیہ کا قتل پوری اُمت مسلمہ کے لیے لمحہ فکریہ ہے، خاص طور پر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ملایشیا اور پاکستان جیسے بڑی افواج رکھنے والے ممالک کے لیے۔ انہیں فوری طور پر اوآئی سی کا اجلاس بلانا چاہیے تاکہ دنیا کے 57اسلامی ممالک یک آواز ہو کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں اور کم از کم غزہ میں معصوم فلسطینیوں پر مزید ظلم و ستم بند ہو۔ ورنہ آپ نوٹ کر لیں کہ اسرائیل مزید ایسے حملے کرے گا اور ”کامیابیاں“ سمیٹے گا!