بیکری واقعہ: قاضی صاحب نظر انداز کردیتے تو زیادہ بہتر تھا!

چیف جسٹس پاکستان سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائض عیسیٰ کے ساتھ ہونے والا واقعہ نہایت افسوسناک تھا، جس نے پاکستان کے ہر طبقہ فکر کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے، کہ ہم غلط سمت میں جا رہے ہیں۔ اور پھر بُرا فعل تو برا ہی ہے،،، اور اس سے برا کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔ خواہ برا کا م کوئی بھی کرے، یا کسی کے ساتھ بھی ہو،،، برے فعل کی کبھی بھی حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی۔ بلکہ یہ بات تو سوچنا ہی غلط ہے کہ قاضی صاحب کے ساتھ زیادتی نہیں کی گئی۔ قاضی صاحب کی جگہ کوئی بھی ہوتا تو ہم نے اُس کی بھی مذمت ہی کرنی تھی۔ کیونکہ یہ چیزیں معاشرے میں بگاڑ پیدا کرتی ہیں۔ لیکن تصویر کا دوسرا رُخ یہ بھی ہے کہ سوشل میڈیا کے اس دور میں جب ایک ایک قدم بھی پھونک پھونک کر رکھنے کی ضرورت ہے، تو ہمارے ارباب اختیار ایسی کوتاہیاں کر جاتے ہیں کہ وہ خود جگ ہنسائی کا باعث بن جاتے ہیں۔ گزشتہ روز سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے واقعے کو ہی دیکھ لیں، کہ اگر ایسا واقعہ رونما ہوگیا جس کو ہر گز نہیں ہونا چاہیے تھا، اورجس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔تو اس واقعہ کو وہیں رفع دفع کردینا چاہیے تھا،قاضی صاحب کو بڑے پن کا مظاہر ہ کرنا چاہیے تھا، اگر وہ کوئی نوجوان تھا تو اُس کی وہیں پر اصلاح کی جا سکتی تھی، محتاط رویہ اپنانا چاہیے تھا، یا اُس موقع پر کھڑے کھڑے اُسی کیمرے سے اُسی نوجوان کی اصلاح کرتے اور وہ بھی وائرل کرتے تو زیادہ بہتر تھا۔ لیکن اب بیکری کو بند کرکے ملزم کو فیملی سمیت غائب کرکے آپ نے اُس کو خود ہیرو بننے کا موقع دے دیا۔ اور اُس بیکری کی جہاں پورے سال میں اتنی سیل نہیں ہوئی جتنی ایک دن میں ہوگئی ہے تو اس کا بھی کریڈٹ ، اُس مبینہ ویڈیو کو جاتا ہے۔ لہٰذامعاملہ خراب ہوا جس کی وجہ سے اس واقعہ کا جہاں چند لوگوں کو علم ہونا تھا وہیں، اس وقت پورے پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اس واقعہ کو موضوع بحث بنا دیا گیاہے۔ اور پھر پہلی بات یہ ہے کہ اتنے برے حالات میں آپ کو پبلک پلیس پر جانا ہی نہیں چاہیے تھا ، اگر چلے گئے ہیں تو ایک نادان شخص نے نادانی کر دی ہے تو اس کا کسی کو پتہ بھی نہیں چلنا تھا۔ مگر آپ نے خود ہائپ کری ایٹ کروا دی۔ میرے خیال میں بڑے لوگوں کا ظرف بھی بڑا ہونا چاہیے، لیڈروں کے ساتھ ایسا ہو جاتا ہے مگر وہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ نواز شریف کو 2018ءمیں ایک شخص نے جوتا مارا تھا، اُنہوں نے وہیں اُس شخص کو معاف کر دیا تھا، یہ اُن کا بڑا پن تھا۔ کیوں کہ جو واقعہ پبلک کے درمیان ہوتا ہے ، اُس واقعہ پر بڑے لوگ بہت زیادہ محتاط رویہ اپناتے ہیں۔ پھر ایک کنونشن کے دوران خواجہ آصف پر سیاہی پھینک دی گئی، انہوں نے بھی مخالف کو کچھ نہیں کہا۔ پھر شہباز گل پر سیاہی پھینکی گئی، انہوں نے بھی کوئی خاص ردعمل نہیں دیا۔ پھر مشرف دور کا سب کو یاد ہوگا کہ ایک شخص نے وزیر اعلیٰ سندھ غلام ارباب رحیم پر جوتا برسایا تھا، لیکن اُنہوں نے اُسے وہیں معاف کردیا تھا۔ پھر ایرانی صدر احمدی نژاد کو کئی بار عوامی غم و غصے کا نشانہ بنایا گیا ، مگر انہوں نے صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا۔ یہی نہیں بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ بھی عوام کے غم و غصے سے نہ بچ سکے،اُنہیں بھی 2009ءمیں جوتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر ہیلری کلنٹن، پرویز مشرف، پرویز رشید، ڈونلڈ ٹرمپ سمیت سینکڑوں افراد کے ساتھ پبلک پلیس پر واقعات رونما ہوئے ہیں، جن سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ ظاہر ہے جب آپ عوامی سطح کے عہدوں پر ہوتے ہیں تو بہت سے لوگ آپ کے حامی ہوتے ہیں اور بہت سے لوگوں کو آپ سے اختلاف بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ نیچرل سی بات ہوتی ہے۔ لیکن ان بڑی سیٹوں کے افسران کے مقابلے میں سیاستدان زیادہ صبرو تحمل کا مظاہرہ کرتے ہیں، یہ روزانہ لوگوں کو برداشت بھی کر رہے ہوتے ہیں، کارکنوں کا غصہ بھی برداشت کرتے ہیں اور عوام کا بھی۔ ابھی حال ہی میں میں نے لیڈرز فورم میں شاہد خاقان عباسی کو مدعو کیا تھا، بہت سے دوست اُن سے ملاقات کرنا چاہتے تھے۔ فورم میں تو انہوں نے ڈیڑھ دو گھنٹے ہی گزارے مگر لوگوں نے اُن سے ملاقاتیں کر کر کے سیلفیاں بنوا بنوا کر مزید تین چار گھنٹے اُن کے ضائع کیے۔ مگر مجال ہے کہ اُن کے ماتھے پر ایک شکن بھی پڑا ہے۔ جبکہ دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو اس وقت عوام بھی شدید پریشانی کا شکار ہے، وہ اپنی فرسٹریشن کہاں نکالیں؟ وہ اپنے دل کی بھڑاس پھر ایسے موقع پر ہی نکال سکتے ہیں۔ کیوں کہ نہ تو عوام کو انصاف مل رہا ہے، نہ کہیں سے ریلیف مل رہا ہے، نہ روزگار مل رہا ہے اور نہ ہی سرکار اُن کی تعلیم پر کوئی پیسہ خرچ کر رہی ہے۔بلکہ ادارے اپنے تئیں کمائیاں کرنے کے بے ڈھنگے طریقے اپنا رہے ہیں۔ جیسے پبلک سروس کمیشن نے چند آسامیوں کا اشتہار شائع کیا، اور اُمیدواروں سے کروڑوں روپے بٹورے لیکن بعد میں آسامیاں ہی منسوخ کردیں۔ اب بندہ پوچھے کہ اکٹھے کیے جانے والے کروڑوں روپے کا حساب کون دے گا۔۔۔ تو کیا اس سے عوام میں غم و غصہ نہیں بڑھے گا؟ اورپھر رہی سہی کسر تو موجودہ دور میں تحریک انصاف پر پابندیاں لگا کر نکالی جا رہی ہیں۔ کبھی اس جماعت سے اُس کا انتخابی نشان چھین لیا جاتا ہے، کبھی اس پر پابندی لگانے کی باتیں ہورہی ہوتی ہیں، اس کے رہنما تو ویسے ہی 9مئی کے کیسز میں پابند سلاسل ہیں بلکہ خاص طور پر 8فروری کے الیکشن نے تو بہت سے اداروں کو عوام کی نظر میں بری طرح گرا دیا ہے۔ ایسے حالات میں کیسے ممکن ہے کہ آپ فرداََ فرداََ عوام کو روک سکیں یا اُن کی اصلاح کر سکیں۔ اور پھر عام آدمی کے حالات میں بہتری کی اُمید بھی نہیں دلائی جا رہی، کبھی سفاری پارک جیسا منصوبہ بنانے کے لیے میٹنگز بلائی جاتی ہیں تو کبھی نہرکے اوپر چیئر لفٹ لگانے کے لیے منصوبے بنائے جاتے ہیں، جبکہ عام عوام کو ریلیف دینے، مہنگائی سے نجات دلانے جیسے منصوبوں کا کہیں نام و نشان بھی نہیں ہے۔ لہٰذاعوام کے بنیادی مسائل حل کریں، اگر یہ نہیں ہوں گے تو عوام میں بے چینی پھیلتی ہے، اور اس جیسے واقعات جنم لیتے رہیں گے۔ آپ یقین جانیں، باہر عوام میں نکلو تو اُن کا بنیادی مسئلہ روٹی کا ہے،روٹی کے حصول کیلئے عوام مارے مارے پھر رہے ہیں اور نوالے کی تلاش میں ہاتھ پیر مار رہے ہیں اور نوالہ ہے کہ ان کے ہاتھ نہیں آتا ہے۔خاص کرپاکستانی نظام کے سیاسی مسخروں نے عوام کو مہنگائی، خوف اور بھوک کے تحفے کے اور کچھ نہیں دیا ہے جب بھی انہیں ضرورت ہوتی ہے وہ عوام کے سڑکوں پر نکلنے کی بات ضرور کرتے ہیں لیکن ان کے پاس عوام کے بنیادی مسائل کا کوئی حل نہیں ہے،،، تبھی ہمارے معاشرے میں فرسٹیشن پیدا ہو چکی ہے، اس بنا پر عوام نہ سڑکوں پر نکلتے ہیں اور نہ جمہوریت اور آمریت میں ان کی دلچسپی ہے ان کیلئے وہی لیڈر اچھا ہے جو ان کے بنیادی مسائل حل کرسکے۔گزشتہ 77برسوںمیں پاکستان پر مسلط نظام نے داﺅپیچ تو بہت کھائے ہیں اور روپ بدلنے میں کافی شہرت حاصل کی ہے اگر چہ اس کا حقیقی چہرہ چھپا ہوا ہے اور طاقت کی ڈوری جس کے ہاتھ میں ہوتی ہے وہ کبھی سامنے نہیں آتا ہے۔ ہم نے اس نظام کو عسکری وردی ہی میں دیکھا ہے اس کے علاوہ یہ نظام کبھی واسکٹ اور شیروانی کی نمائش کرتا ہے اور کبھی کوٹ پینٹ ی کی صورت میں سامنے آتا ہے جب بھی یہ نظام اپنا رنگ بدلتا ہے تو غریب آدمی اگر چہ خوشی سے شادیانے بجاتا ہے اور تالیاں پیٹ کر اپنے سرخ کرتا ہے مگر اسکے چہرے کی سرخی زائل ہوتی جاتی ہے اور اسکے چہرے کی زردی میں اور اضافہ ہوتا جاتا ہے۔یہ ہمارا ایک قومی المیہ ہے کہ جو روٹی اور کپڑ ا اور مکان کی بات کرتا ہے اوسے تحسین کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ہے اور اسے سوشلسٹ اور کیمونسٹ وغیرہ قرار دیکربدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کےخلاف فتوے اس طرح داغے جاتے ہیں جس طرح میزائل داغا جاتا ہے اور اسے پھانسی وغیرہ دینے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا ہے جس کی مثالیں موجود ہیںاور جو فتویٰ دینے والے ہیں وہ اس کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ انسان روح اور جسم دونوں سے مرکب ہے اوردونوں کے تقاضے الگ الگ ہیں۔ اس انسان نے اسی سوسائٹی میں زندگی گزارنی ہے اور یہاں پنا وقت پورا کرنا ہے اسکے روح کے بھی کچھ تقاضے ہیں اور جسم کے بھی کچھ تقاضے ہیں۔ میرے خیال میں جو حکومت ان کو پورا نہیں کرے گی وہ مکمل فیل ہو جائے گی۔ اور پھر قابل احترام جسٹس قاضی فائض عیسیٰ جیسے واقعات جنم لیں گے۔ بہرکیف ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ غریبی اور مفلسی اوراور محتاجی نے ہر شخص کو دوسرے نفرت کرنے پر مجبور کردیا ہے سیاسی اور معاشی ڈھانچہ میں خرابی کے باعث ہر شخص دوسرے سے دست وگریبان ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک سے غربت اور مہنگائی اور بیروزگاری کو ختم کیا جائے عوام کو نہ جمہوریت سے دلچسپی ہے اورنہ آمریت سے بلکہ عوام کو ایک ایسے صالح نظام کی ضرورت ہے جو عوام کے مسائل حل کرسکے اور انکے حقوق کا تحفظ کرسکے۔