” اسلامی جمہوریہ پاکستان “میں غیر اسلامی و غیر جمہوری قانون سازی!

ضیاءالحق دور میں جب راقم شاہی قلعہ میں پابند سلاسل تھا تو اُس وقت شہید حسن ناصر بھی ہمارے ساتھ قید تھے، جنہیں بدترین ریاستی تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا گیا تھا، گزشتہ روز اُن کی برسی منائی جا رہی تھی،،، اور ساتھ ہی 1973ءکے آئین کو دفنانے کی تیاریاں کی جا رہی تھیں،،،اب آپ کہیں گے کہ شکرہے 1973ءکا ”مشترکہ“ آئین اس وقت ملک میں موجود ہے،،، لیکن جتنی اس میں ترامیم ہو گئی ہیں،،، اور آئین سے کریم نکال کر اُسے بدل دیا گیا ہے،،، یہ اپنی اصل حالت میں رہا ہی نہیں ہے،،، چلیں! اگر مکمل آئین دفن نہیں ہوا تو رہی سہی کسر 28ویں ترمیم میں نکل جائے گی،،،پھر آپ مان جائیں گے؟ لیکن یہاں ایک بات کلیئر کر دوں کہ پچھلی تمام ترامیم میں سے سب سے زیادہ خطرناک ترمیم 27ویں ثابت ہو رہی ہے،،، کیوں کہ بنیادی طور پر یہ ترمیم محض قانونی عبارت نہیں بلکہ ریاستی طاقت کے بہاﺅ میں ایک گہرا موڑ ہے۔اس میں سب سے اہم کہ افواج پاکستان کی کمان بدلنے جا رہی ہے،،، یعنی آرمی چیف کو چیف آف ڈیفنس فورسز بنانے کی تجویزدی گئی ہے،،، پھر فیلڈ مارشل جنرل اور صدر مملکت کے لیے تاحیات استثنیٰ ہے،،،الیکشن کمیشن کے سربراہ کا فیصلہ،،، اس کے علاوہ آئینی عدالت کا قیام،،، سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس لینے کے اختیار کا خاتمہ اور ہائیکورٹ کے ججوں کے تبادلوں کا اختیارشامل ہے،،، اگر ہم سب سے پہلے عدلیہ میں ترامیم کے حوالے سے بات کریں تو دیگر اہم معاملات کی طرح عدلیہ کے ڈھانچے میں جو تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں، وہ ماضی کے تمام آئینی تجربات سے زیادہ سنگین نتائج کی حامل دکھائی دیتی ہیں۔ اس ترمیم کے تحت ایک نئی وفاقی آئینی عدالت قائم کی جائے گی۔ ماہرین اسے عدلیہ کی آزادی پر کاری ضرب قرار دے رہے ہیں کیونکہ اسی ترمیم کے تحت سپریم کورٹ کے آرٹیکل 184(3) یعنی ازخود نوٹس کے اختیار کو محدود کر کے آئینی عدالت کے سپرد کیا جا رہا ہے۔ مطلب! اب سپریم کورٹ کی حیثیت ”سپریم“ نہیں رہے گی بلکہ عام عدالت کے برابر ہو جائےگی۔اسی طرح الیکشن کمیشن کی تشکیل میں بھی ایک متنازع طریقہ کار متعارف کرایا جا رہا۔ اگر حکومت اور اپوزیشن مشاورت میں ناکام ہو جائیں تو حکومت خود ہی چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کر سکے گی۔ بظاہر تو یہ تعیناتی کا عمل تیز کرنے کی کوشش ہے مگر اصل میں انتخابی ادارے کو سیاسی اثر میں لانے کی ایک نئی سبیل ہے۔ میرے خیال میں اسے 2028ءکے انتخابات سے پہلے سیاسی انجینئرنگ کا آئینی راستہ سمجھتی ہے۔ پھر ان ترامیم کا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا،،، جیسے یہاں ”جمہوریت، آئین اور قانون“ سے تاحیات استثنیٰ حاصل کیا جارہا ہے۔ میں نے اس حوالے سے خاصی ریسرچ کی مگر کسی بھی جمہوری معاشرے میں شاذو نادر ہی آپ کو ”تاحیات یا استثنیٰ“ جیسی اصطلاحات ملیں گی ،،،حالانکہ اسلام میں خلیفہ بھی عوام کا جواب دہ ہوتا ہے،،، آپ اس حوالے سے تاریخ کو ازخود مطالعہ فرمالیں کہ جب حضرت عمرؓ خلیفہ بنے تو ایک دن انہوں نے جمعہ کے خطبے میں ایک چادر اوڑھ رکھی تھی جو عام مسلمانوں کو بیت المال سے ملی تھی۔ یہ چادر اونچی اور بڑی تھی، عام چادر سے زیادہ۔ اس پر ایک صحابی کھڑے ہو گئے اور کہا:اے عمر! ہم تجھ سے نہیں سنیں گے جب تک آپ ؓ یہ نہ بتا دے کہ یہ چادر کہاں سے آئی؟ ہم سب کو بیت المال سے ایک ایک چادر ملی تھی، لیکن تیری چادر بڑی ہے!“حضرت عمرؓ نے فوراً جواب نہیں دیا بلکہ اپنے بیٹے عبداللہ بن عمرؓ کو بلایا۔ انہوں نے وضاحت کی:”میں نے اپنی چادر اپنے والد کو دے دی تھی تاکہ وہ اپنی چادر کے ساتھ جوڑ کر ایک بڑی چادر بنا سکیں، کیونکہ وہ قدآور ہیں۔“یہ سن کر وہ صحابی بولے: ”اب ہمیں کوئی اعتراض نہیں ،، بولیے عمر، ہم سننے کو تیار ہیں۔“ یہ واقعہ اس بات کی علامت ہے کہ حضرت عمرؓ کے دور میں عوام کو خلیفہ سے بھی سوال کرنے کا حق حاصل تھا، اور خلیفہ خود کو عوام کے احتساب سے بالاتر نہیں سمجھتے تھے۔اگر اسلام میں ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں تو تاحیات استثنیٰ کیسا؟ پھر جو عہدے چیف ایگزیکٹو کے ماتحت ہیں ،،، اُنہیں استثنیٰ کیسا؟ کیا اسلام میں سپہ سالار کو وقت کے خلیفہ کے ماتحت نہیں رکھا؟ حضرت خالد بن ولیدؓ اسلامی تاریخ کے سب سے عظیم سپہ سالاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی قیادت میں مسلمانوں نے یرموک، قادسیہ، موتہ اور دیگر کئی بڑی فتوحات حاصل کیں۔ تاہم حضرت عمر فاروقؓ نے خلافت سنبھالنے کے بعد ایک موقع پر انہیں سپہ سالاری سے معزول کر دیا۔یعنی جنگ یرموک (یا بعض روایات کے مطابق جنگِ قنسرین/جنگِ سلاسل) کے دوران حضرت خالد بن ولیدؓ شام کے محاذ پر سپہ سالار تھے۔اسی دوران حضرت عمرؓ نے ایک خط بھیجا جس میں فرمایا گیا کہ: خالد کو معزول کر دیا جائے اور ان کی جگہ ابو عبیدہ بن الجراحؓ کو سپہ سالار بنایا جائے،،، جب حضرت خالدؓکو یہ اطلاع ملی کہ انہیں سپہ سالاری سے ہٹا دیا گیا ہے، تو انہوں نے نہ کسی ناگواری کا اظہار کیا، نہ ہی فوج کو اطلاع دی کہ وہ اب عہدے پر نہیں رہے۔ بلکہ وہ جنگ مکمل ہونے تک پوری یکسوئی سے لڑتے رہے، اور جب جنگ ختم ہو گئی تو حضرت ابو عبیدہؓ کو خود آگے بڑھا کر کہا: ”آپ اب امیر ہیں، میں آپ کا سپاہی ہوں۔“ اس رویے نے ان کی اخلاص اور نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا ،،، وہ سمجھتے تھے کہ اصل مقصد اسلام کی سربلندی ہے، نہ کہ عہدہ۔میرے خیال میں اس سلسلے کو آگے بڑھا کر وزیر اعظم کو بھی تاحیات استثنیٰ مل جانا چاہیے تھا ،،، مگر قسمت خراب کہ عمران خان بھی سابق وزیر اعظم ہے،،،اُسے بھی اس طرح استثنیٰ مل جانا تھا،،، اس لیے غنیمت جانا کہ اُسے اندر ہی رکھا جائے اور وزیر اعظم کے استثنیٰ سے ہاتھ اُٹھا لیا جائے۔ بہرحال ان ترامیم کے بعد کوئی کہہ سکتا ہے کہ ہم جمہوری اور اسلامی معاشرے میں سانس لے رہے ہیں،،، بلکہ ہم تو جمہوری معاشرے سے کوسوں دور ہیں۔ سچ پوچھیں تو ہمارے مزاج میں ہی جمہوریت نہیں ، ہمیں عادت ہے ”مغل بادشاہت“ کی۔ بس ”قصر شاہی“ سے حکم صادر ہوا اور ہمارے اراکین اسمبلی نے دستخط کردیے، نہ پڑھنے کی ضرورت ہے، نہ سوچنے کی آزادی۔ویسے مجھ سے اگر کوئی پوچھتا ہے کہ ہم ان جھوٹے، کرپٹ، مکار سیاستدانوں و حکمرانوںو اشرافیہ کے خلاف انقلاب کیوں نہیں لا سکتے تو میرا اکثر جواب یہی ہوتا ہے کہ ہمارے جینز میں غلامی ہے،،، ہم پر ہزاروں سال جن لوگوں نے حکمرانی کی ہے ،،، انہوں نے ہمارے اندر غلام کی جینز کی پیوند کاری کر دی ہے۔ ہم چاہ کر بھی اختلاف رائے قائم نہیں کر سکتے۔ اگر ایسا تھا تو ہمارے قائدین نے پاکستان بنایا ہی کیوں؟ رہنے دیتے ہمیں غلام ہی،،، آزادی دلوا کر اُنہوں نے لگتا ہے کہ ہمیں مزید غلام بنا دیا ہے۔ کہ ہر کوئی اپنی مرضیاں ہم پر مسلط کر تا رہا ہے،،، نہیں یقین تو آپ خود دیکھ لیں کہ ہم کس کس ظلم پر خاموش رہے ،،، اور ہمارے اندر سے ہی ایسے ایسے غدار پیدا ہوئے کہ تاریخ شرما جائے،،، کیا ہم نے 12 اگست 1948 کو بابڑا (چار سدہ) میں وزیر اعلیٰ عبدالقیوم کے حکم پر سینکڑوں سیاسی کارکنوں کی شہادت نہیں دیکھی؟ ہم خاموش رہے،،، 21 فروری 1952 کو ڈھاکہ میں مادری زبان کے نام پر بنگالی طالب علموں کی لاشیں گرتے نہیں دیکھیں؟ 8 جنوری 1953 میں طلبا حقوق مانگنے والوں پر کراچی میں گولی چلتے نہیں دیکھی؟ 6 مارچ 1953 کو لاہور میں مارشل لا کی پہلی مشق نہیں دیکھی؟ 17 اپریل 1953 کو بیورو کریٹ غلام محمد کے ہاتھوں خواجہ ناظم الدین کی برطرفی نہیں دیکھی؟ 24 اکتوبر 1954 کو ملک کی پہلی دستور ساز اسمبلی کا سانحہ ارتحال نہیں دیکھا؟ فوج کے سربراہ ایوب خان اور اسکندر مرزا کو وفاقی کابینہ کا رکن بنتے نہیں دیکھا؟ 10 مئی 1955 کو جسٹس محمد منیر کی دستور ساز اسمبلی کے انہدام پر مہر تصدیق لگتے نہیں دیکھی؟ 7 اکتوبر 1958 کے مارشل لا پر نظریہ ضرورت کی روایت قائم ہوتے نہیں دیکھی؟ اخبارات پر ریاستی قبضے اور صحافی کے لیے پریس ایڈوائس کا طوق نہیں دیکھا؟ 1962 میں فرد واحد کو خود نوشتہ دستور مسلط کرتے نہیں دیکھا؟ 4 جنوری 1965کو اہل کراچی کو فاطمہ جناح کی حمایت کی سزا ملتے نہیں دیکھی؟ 1968 میں کمانڈر انچیف یحییٰ خان کو صدر پاکستان ایوب خان کو یرغمالی بناتے نہیں دیکھا؟ 7 دسمبر 1970 کے انتخابی نتائج کو مسترد کر کے آپریشن سرچ لائٹ کی قیامت نہیں دیکھی؟ بلوچستان کی پہلی منتخب حکومت برطرف ہوتے نہیں دیکھی؟ 23 مارچ 1973کو لیاقت باغ میں گولی چلتے نہیں دیکھی؟ 90روزہ مارشل لا کو گیارہ برس طویل ہوتے نہیں دیکھا؟ 80کی دہائی میں جہاد کے نام پر ملک کو اسلحے اور منشیات کا ٹھکانہ بنتے نہیں دیکھا؟ غیر جماعتی انتخابات میں قومی سیاست کا جنازہ اٹھتے نہیں دیکھا؟ 16 اکتوبر 1985 کو دھونس دھمکی سے آٹھویں آئینی ترمیم منظور ہوتے نہیں دیکھی جس نے پارلیمانی نظام حکومت کو صدارتی نظام میں بدل دیا۔ ملک میں فرقے اور زبان کے نام پر مسلح گروہ کھڑے کر کے ہزاروں شہریوں کے خون سے ہولی کھیلتے نہیں دیکھی؟ ذاتی مفاد کے لیے سیاسی جماعتوں کے نام پر برساتی کھمبیوں کی کاشت نہیں دیکھی؟ دستور کی خود ساختہ دفعہ اٹھاون (2 بی) کی گلوٹین پر منتخب حکومتوں کے گلے کٹتے نہیں دیکھے؟چلیں یہ سب کچھ چھوڑیں کیا ہم نے ٹوٹل 27ترامیم میں جمہوریت اور آئین کی روح بدلتے نہیں دیکھی؟ بہرکیف اب فوج کے سربراہ اور چیف آف آرمڈ فورسز کے مناصب کو یکجا کر دیا گیا ہے اور نوتخلیق منصب کو جوابدہی سے استثنا دے کر سربراہِ مملکت کے برابر لا کھڑا کیا گیا ہے۔آنے والے حالات کیسے ہوں گے،،، اور کس قدر کٹھن ہوں گے،،، اس حوالے سے تو میں نہیں جانتا ،،، مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ نفرت کے مزید بیج بو دیے گئے ہیں! کیوں کہ ان ترامیم سے تمام ایوانوں کو فائدہ پہنچا لیکن نقصان میں ہمیشہ عوام رہے ہیں۔ حالانکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں لکھا ہے کہ طاقت عوام سے ماخوذ ہے‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ عوام کو طاقت کا سر چشمہ نہیں بلکہ تماشائی بنایا گیا!