”سقوط ڈھاکہ“ کے ذمہ داران کو آج تک سزا نہ ملی!

” سقوط ڈھاکہ“ کا دن 16 دسمبر پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین اور رستا ہوا زخم ہے جو شاید کبھی نہ بھر پائے گا۔ بلاشبہ اس دن کا سورج ہمیں شرمندگی اور پچھتاوے کا احساس دلاتے ہوئے نمودار ہوتا ہے اور تاریخ سے سبق حاصل کرنے کی تلقین کرتا نظر آتا ہے۔لیکن 1971ءسے لیکر آج تک54سالوں میں ہم نے اس سانحہ سے کچھ نہیں سیکھا، بلکہ آج بھی حالات ویسے ہی ہیں جیسے پہلے تھے، فرق صرف اتنا ہے کہ گزشتہ دور کی نسبت اس دور میں ”جمہوریت “ کا تڑکہ زیادہ لگایا جاتا ہے۔اورپھریہ باتیں سن سن کر کان پک گئے ہیں کہ اس سانحے کے پیچھے دشمن ملک کا ”بڑا ہاتھ“ تھا، لیکن وہ دشمن تو آج بھی ویسا ہی ہے،بلکہ مزید ترقی بھی کر رہا ہے۔ پھر اس حوالے سے حمود الرحمن کمیشن بھی بنا جس نے 2سو سے زائد صفحات پر مشتمل رپورٹ بھی بنائی ، لیکن اسے ”قومی راز“ بنا کر رکھ دیا گیا،،، جس پر ہم بعد میں بات کریں گے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ آج بھی حالات ویسے ہی بنا دیے گئے ہیں،،، کہ دو صوبوں کے عوام اپنے حقوق مانگ رہے ہیں اور ہم ٹس سے مس نہیں ہورہے۔ سقوط ڈھاکہ سے پہلے بھی چھوٹی چھوٹی باتیں احساس محرومی پیدا کرتی تھیں،،، جیسے سانحہ بنگلہ دیش کی بنیاد اُس وقت ہی پڑ گئی تھی جب ہم نے اُردو کو قومی زبان قرار دیا،،، حالانکہ 1956کے آئین میں اردو اور بنگالی دونوں کو ریاستی زبانیں قرار دیا گیا۔لیکن بعد میں اُردو کو واحد قومی زبان قرار دیا گیا،،،حالانکہ اردو بولنے والے پورے پاکستان میں اقلیت تھے،،، جس سے بنگالیوں کو احساس محرومی پیدا ہوئی،،،اُس کے بعد ایوب خان کے دور میں ، جو میں سمجھتا ہوں کہ اس حوالے سے ایوب خان کے دور حکومت میں مشرقی پاکستان میں سب سے زیادہ احساس کمتری پیدا ہوا، سب سے زیادہ احساس محرومی پیدا ہوا،،، وہ ڈھاکہ کے بجائے اسلام آباد کو دارالحکومت بنانا تھا،،، یہاں اصل معاملہ طاقت کا مرکز اور کنٹرول تھا، صرف جغرافیہ نہیں۔یعنی طاقت کا مغربی پاکستان میں ارتکازتھا،،، یعنی تمام فیصلے مغربی پاکستان میں کیے جاتے تھے،،، کوئی نامور جرنیل بھی بنگالی نہیں تھا،،،، بیوروکریسی ساری کی ساری مغربی پاکستان کی تھی،،، خارجہ پالیسی مغربی پاکستان کی جاری تھی،،،لہٰذاجب دارالحکومت اسلام آباد منتقل ہوا تو مزید طاقت مشرقی پاکستان منتقل ہو گئی،،، جس کو بنگالیوں نے بہت زیادہ محسوس کیا،،، حالانکہ اُس وقت مشرقی پاکستان کی آبادی 56فیصد اور مغربی پاکستان کی آبادی 44فیصد تھی،،، لیکن حیرت کی بات تھی کہ سی ایس ایس کی سیٹیں دونوں کی برابر رکھی گئیں،،، جبکہ بنگالیوں کا ایجوکیشن ریٹ بھی ہم سے زیادہ تھی،،، اس کے بعد جو مراعات تھیں ہم نے اُس میں بنگالیوں کو محروم رکھنا شروع کردیا ۔ بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ بنگالی بہت بزدل ہیں،،، حالانکہ آج بھی آپ دیکھ لیں کہ وہ اپنے ملک کو بچا کر بیٹھے ہوئے ہیں،،، بلکہ اپنے سے کئی گنا بڑی بھارت نواز حکومت کو بنگالیوں نے انقلاب کے ذریعے ختم کیا۔حالانکہ اُن کے تین اطراف میں بھارت ہے،،، اور اُس وقت خود دیکھ لیںکہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں کوئی ایک بھی بنگالی کھلاڑی نہیں تھا،،، یعنی ٹیسٹ اور انٹرنیشنل کرکٹ(1947 سے 1971 تک)پاکستان نے درجنوں ٹیسٹ میچ کھیلے،، مگر ایک بھی کھلاڑی مشرقی پاکستان سے منتخب نہیں ہوا،،، پھر کرکٹ کا ڈھانچہ بھی مغربی پاکستان تک محدودتھا،،، جیسے لاہور، کراچی، راولپنڈی، ،،، حتیٰ کہ سلیکشن کمیٹیاں بھی ساری مغربی پاکستان میں تھیں۔ مگر آج وہی بنگلہ دیش پاکستان سمیت دنیا بھر کی ٹیموں کے ساتھ ٹکر کے مقابلے کر رہی ہے،،، وہ پاکستان کو بھی کئی مرتبہ ہرا چکے ہیں،، لہٰذااُن کے ساتھ اتنا کچھ ظلم و زیادتی ہوتی تھی،،، تو بدلے میں وہ کیا کرتے؟ سب سے اہم بات کہ جو متحدہ پاکستان کو توڑنے کا سبب بنے وہ 1970ءکے الیکشن تھے،،،، کہا جاتا ہے کہ یہ انتخابات تاریخ کے شفاف ترین انتخابات تھے۔ لیکن یہ جب شفاف انتخابات کرواتے ہیں تو اس میں سب سے بڑا مسئلہ انا کا آجاتا ہے،،، یعنی جس طرح 2024ءکے الیکشن میں انہوں نے اکثریتی پارٹی کو اقتدار سے محروم رکھا، بالکل اسی طرح اُس وقت بھی مجیب الرحمن کی پارٹی یعنی مشرقی پاکستان کی اکثریتی پارٹی کو اقتدار سے محروم کر دیا گیا۔ پھر یہی نہیں بلکہ آپ نے وہاں پر فوج کو بھیج کر جنرل ٹکا خان کے ذریعے ظلم کروائے،،، اتنے ظلم کروائے کہ پوری دنیا میں اس پر شور ہوا،،، اور پھر آپ نے اسے تبدیل کرکے جنرل نیازی کو وہاں بھیجا،،، لیکن پھر حالات آپ کے کنٹرول میں نہیں رہے،،، اور بنگلہ دیش بن گیا،،، یہ بالکل اسی طرح ہے کہ آپ کے ہزار ہتھکنڈوں کے باوجود وہی جماعت جس سے آپ نفرت کرتے ہیں وہ کے پی کے میں حکومت بنا لیتی ہے،،، اور آپ کچھ نہیں کر سکتے بلکہ دیگر ہتھکنڈوں سے اُنہیں تنگ کرتے ہیں،،، کبھی این ایف سی ایوارڈز کے ذریعے، کبھی گورنر راج کی دھونس دھمکیوں کے ذریعے، کبھی اپنے قائد سے ملاقاتوں پر پابندیوں کے ذریعے،،، اور ان مظالم پر قصور واروں کو جانچنے اور اُن کا احتساب کرنے کے لیے اس سانحے کے دس دن بعد یعنی 26دسمبر 1971کو ایک کمیشن قائم کیا گیا،،، جس کا نام ”حمود الرحمن کمیشن“ رکھا گیا، ،، اس کمیشن کے چیئرمین چیف جسٹس (ریٹائرڈ) جسٹس حمود الرحمن تھے،،، اس کمیشن نے ابتدائی رپورٹ 1972جبکہ 1974میں ضمنی رپورٹ پیش کی جس میں صاف کہا گیا کہ یہ سانحہ فوجی قیادت کی سنگین غلطیوں کی وجہ سے ہوئی،،، اس رپورٹ میں جنرل یحییٰ خان ودیگر جرنیلوں کے خلاف چارج شیٹ دی گئی،،، لیکن اس رپورٹ کو دبا لیا گیا،،، یہ رپورٹ آج تک شائع نہیں کی گئی،،، حالانکہ اس پر بے شمار فوجیوں نے ہی کتابیں لکھی ہیں اور بتایا ہے کہ کس نے کیا کیا؟ مگر مجال ہے کہ رپورٹ میں نامزد 6جرنیل جن میں جنرل یحییٰ خان،جنرل عبدلحمید،لفٹننٹ جنرل ایس جی ایم ایم پیرزادہ،میجر جنرل عمر،لیفٹننٹ جنرل گل حسن اور جنرل مٹھا شامل ہیں،کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کی گئی ہو۔ حالانکہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ان فوجی افسروں کا مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں محاذوں پر اپنے فرائض کی ادائیگی میں مجرمانہ غفلت برتنے پر کورٹ مارشل کیا جائے،،، حالانکہ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ کسی بھی ملک کی فوج پرجب سیاست میں ملوث ہونے کا الزام لگ جاتا ہے، تو وہ لڑنے کے قابل نہیں رہتی۔ اور یہی ”سقوط ڈھاکہ “ کا سبق بھی ہے۔ رپورٹ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ ایسے مراحل میں سیاستدان ہر گز ہر گز سہولت کاری کا کام سرانجام نہ دیں،،، کیوں کہ جب سہولت کار دستیاب ہوں تو پھر فیصلہ کرنے والوں کو شہہ ملتی ہے۔ لیکن سہولت کار وقتی سہولت حاصل کر تو لیتے ہیں مگر اُن کا مستقبل خطرے میں پڑ جاتا ہے، حالانکہ اگر اُس وقت سقوط ڈھاکہ کے ذمہ داران کو سزا مل جاتی تو آج یہ جو 24گھنٹے کی ”مداخلت“ ہے کم از کم اس سے چھٹکارہ حاصل ہو جاتا۔ نہیں یقین تو آپ سانحہ 1971ءکو دیکھ لیں،،،اُس وقت مشرقی پاکستان میں آپریشن کے سہولت کاروں میں ذوالفقار علی بھٹو، البدر، الشمس، جماعت اسلامی، مشرقی پاکستان سے ہی بہت سے بہاری شامل تھے۔ لیکن کیا کوئی جانتا ہے کہ بعد ازاں اُن کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا؟ تاریخ گواہ ہے کہ اُنہیں بنگلہ دیش میں نشان عبرت بنا دیا گیا، اُنہیں ابھی تک مہاجر کیمپوں میں رکھا جاتا ہے، جماعت اسلامی کے بہت سے رہنماﺅں کو پھانسی دی جا چکی ہے، اور بہت سے رہنما ابھی بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں،،، لیکن ہم نے اُن کے لیے کچھ نہ کیا، ہم نا تو اُن کو پاکستان لے کر آئے اور نہ ہی اُن کے لیے آواز اُٹھائی۔ اسی طرح بھٹو جنہوں نے جنگی قیدیوں کو چھڑوا یا اور واپس مغربی پاکستان لائے ، بعد میں پھانسی کے تختہ دار پر لٹکا دیاگیا۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہم اپنی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھتے، اور نہ ہی غلطیاں تسلیم کرتے ہیں، ہم اگر اس قابل ہوجائیں تو یقینا ہم ترقی بھی کر لیں گے۔ کیوں کہ جس جس ملک نے اپنی غلطیوں سے سیکھا ہے، اُس نے ترقی کی ہے، اور جس نے اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالا ہے وہ تاریک راہوں میں گم ہو گیا ہے۔ لہٰذابات یہ ہے کہ جب آپ عوام کی منتخب کی ہوئی سیاسی پارٹی کو حکومت نہیں دیتے تو پھر یہ بغیر ڈرائیور کے جمہوریت تصادم کی جانب ہی بڑھتی ہے،،، جس کا نقصان ہمیں ریاست اُٹھاتی ہے، الغرض آپ کسی چیز کو طاقت کے ذریعے نہیں دبا سکتے،،، اگر طاقت کے ذریعے دبا سکتے تو کبھی ملک نہ ٹوٹتا،،، یا بلوچستان میں آپ کی رٹ قائم ہوجاتی،،، یا کے پی کے والے آپ کے گرویدہ بن چکے ہوتے،،، یا قبائلی علاقوں میں مکمل آپ کی رٹ ہوتی،،، آپ ان چیزوں سے وقتی کامیابی تو حاصل کرلیں مگر دیرپا حل نہیں نکل سکتا اور اس کا خمیازہ کسی بڑے نقصان کی صورت میں ہی اُٹھایا جاتا ہے۔۔۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہم بچپن میں کلاس میں شور کر رہے ہوتے تھے،،، تو عین اُس وقت پی ٹی کلاس میں آجاتا تھا،،،، اکا دکا بچے کا سزا دے کر وہ پوری کلاس خاموش کروا لیتا تھا،،، مگر بعد میں پھر وہی حال ہوتا تھا،،، آپ جبر سے وقتی طور پر تو کسی کو روک سکتے ہیں،،، مگر دیرپا حل ممکن نہیں ہوتا،،، اور پھر اب عوام بھی 1970والی نہیں رہی،،، بلکہ وہ بھی بدل چکے ہیں۔ اُن میں اتنا شعور آچکا ہے،،، کہ وہ کبھی بھی جھوٹا بیانیہ نہیں مانیں گے،،، خواہ آپ جو کچھ مرضی کر لیں،،، آپ کو ان کی حکومت واپس کرنی ہی پڑے گی،،، قصہ مختصر کہ سانحہ مشرقی پاکستان سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کریں۔ اُمید کی جاتی ہے کہ اس دن کے موقع پر ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ عوامی مینڈیٹ کا احترام کیا جائے، اگر ملک کی سب سے بڑی پارٹی الیکشن کروانے کے حوالے سے بات کر رہی ہے تو مقتدر حلقوں کو سیاسی استحکام لانے کی غرض سے نئے الیکشن کے حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک میز پر لانا چاہیے تاکہ ہمارا ملک بھی دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی طرح ترقی کی سیڑھیاں چڑھ سکے۔ ورنہ خدانخواستہ ہم مزید رسوا ءہوتے اور ایک دوسرے پر چڑھائی کرتے رہیں گے! اللہ تعالیٰ اس ملک کا حامی و ناصر ہو!