28مئی: ایٹمی دھماکے کرنے کا فائدہ ہوا یا نقصان؟

جب بھی ہر سال 28 مئی کا دن آتا ہے تو نئے سرے سے یہ بحث مباحثہ شروع ہو جاتا ہے کہ پاکستان میںا ایٹم بنانے کے مقاصد حاصل ہوئے یا نہیں؟ اس پر بات کرنے میں تھوڑی جھجک ضرور ہے کیوں کہ بد قسمتی سے پاکستان میں ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے اور ایسی گھٹن کی فضا ہے کہ جو کوئی بھی سچی بات کہنا چاہتا ہے اسے ہزار بار سوچنا پڑتا ہے۔بقول فیض نثار میں تیری گلیوں کہ اے وطن کہ جہاں چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے نظر چرا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے ویسے اب تو شائد ایٹم بم بنانے یا نہ بنانے کی بحث لا یعنی اور لا حاصل ہو چکی ہے کیوں کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھارت بھی ایک ایٹمی طاقت ہے۔اب بہت اہم سوال ہے اور یہ بات بہت سنجیدگی کے ساتھ دیکھنی اور سمجھنی چاہئے کہ ہم نے جن مقاصد کی وجہ سے ایٹم بم بنایا تھا کیا اس میں کامیاب ہو گئے ہیں؟جیسا کہ کہا جاتا تھا اور کہا جا رہا ہے کہ اگر 1971 میں ہمارے پاس ایٹم بم ہوتا تو ہندوستان، پاکستان کو دو لخت نہیں کر سکتا تھا اور آج ہندوستان، پاکستان پر حملہ اس لئے نہیں کرتا کہ اسے معلوم ہے کہ پا کستان کے پاس ایٹم بم ہے اور وہ اس کو استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرے گا؟ تو کیا بھارت پاکستان پر حملوں سے باز آگیا؟ یا کیا بھارت نے ہم سے براہ راست نہ سہی مگر اندر کھاتے 5اگست 2019کی قانون سازی کے بعد کشمیر لے نہیں لیا؟ کیا آئی ایم ایف یا ایف اے ٹی ایف یا اقوام متحدہ ہمارے ایٹم بم سے ڈر کر کوئی پاکستان کے خلاف اقدامات کرنے سے گریز کرتے ہیں؟ اگر ان سب سوالوں کا جواب ’نفی‘ میں ہے تو پھر کیا ہمیں اپنا احتساب نہیں کرنا چاہیے؟ یقینا کرنا چاہیے کیوں کہ زندہ قومیں ہر وقت اپنا احتساب کرتی رہتی ہیں مگر چونکہ پاکستان میں یہ روایت نہیں ہے اس لئے ہم یہ تو کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے ایٹمی دھماکوں کی مخالفت کی تھی مگر ان کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے مگر شکر ہے کہ انہیں غدار کہہ کر تختہ دار پر نہیں لٹکایا گیا۔میں پاکستان ہی کے بارے میں نہیں بلکہ بھارت کے حوالے سے بھی کہہ رہا ہوں کہ آخر دونوں ممالک اربوں، کھربوں روپے لگا کر ایٹمی قوت بنے، ابھی بھی دونوں ممالک سالانہ اربوں روپے ان کی حفاظت اور Maintinanceوغیرہ کے لیے خرچ کرتے ہیں، اور ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایٹمی قوت بن جانے کے بعد دونوں ممالک راہ راست پر آجاتے اور ایک دوسرے کے ساتھ جنگ نہ کرنے کے معاہدے کرتے ،،، لیکن کیا دونوں ملک ایٹمی قوت ہونے کی وجہ سے لائن آف کنٹرول پر یا دیگر محاذوں پر باز آسکے؟ ایٹمی قوتیں بن جانے کے بعد جنگ تو پھر بھی ہوتی ہے، پانی تو پھر بھی بند کر دیا گیا ہے، اور بھارت ابھی تک سندھ طاس معاہدے پر عمل درآمد کرنے سے کترا رہا ہے، حالانکہ اس سے پہلے دونوں ملک معاہدوں اور ایک دوسرے کے ساتھ جنگی حکم ناموں کا احترام کیا کرتے تھے۔ جیسے 1965ءمیں ہم نے جو علاقے فتح کیے وہ ہم نے واپس کیے، اور جو علاقے 1971ءمیں بھارت نے فتح کیے وہ اُس نے واپس کردیے۔ لیکن اب کیا ایسا ہوتا ہے؟ کیا بھارت پاکستان کے ایٹمی قوت ہونے کی وجہ سے سندھ طاس معاہدے اور شملہ معاہدے کی پاسداری کرتا ہے؟ تو پھر فائدہ کیا ہوا ایٹم بم بنانے کا؟بلکہ ایٹمی قوت بننے کے ایک سال بعد ہی 1999ءمیں کارگل جنگ ہوئی ، جس میں ہم فتح کے قریب تھے، مگر کمال ”مہارت“ سے ہمارے سیاستدان مذاکرات کی میز پر یہ جنگ ہار گئے۔ بہرحال اب کئی سال گزر جانے کے بعد یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ایٹمی ملک بن کر جو ضروریات تھیں وہ پوری ہوئیں یا نہیں۔ کئی سال بعد بھی اس اسلحے کی دوڑ میں کوئی کمی نہیں آئی ہے اور نہ ہی خطے میں پائیدار امن ہے بلکہ اس وقت خطے کے امن کو شدید خطرات لاحق ہیں۔بلکہ ان دھماکوں کے بعد ’کولڈ سٹارٹ‘ جیسے نظریات اور ٹیکٹیکل ایٹمی میزائل کی ایک نئی دوڑ شروع ہوگئی ہے۔ اس لیے ایسا لگتا ہے کہ ان دھماکوں نے ہمیں ایٹمی قوت تو بنا دیا لیکن نہ تو ہمیں پائیدار امن دیا اور نہ ہی ’امن منافع‘ حاصل ہوا جس سے دونوں ملکوں کے عوام کے لیے سماجی سہولتوں میں اضافہ ہو سکتا تھا۔ ایک امید یہ بھی تھی کہ دھماکے ہمیں بھارت کے ساتھ دفاعی میدان میں برابری کی سطح پر لے آئیں گے اور اس طرح ہم موثر طریقے سے بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کے آگے بند باندھ سکیں گے جبکہ بھارت کا آئے روز سرجیکل سٹرائیکس کرنے کے خواب دیکھتا ہے۔ بالاکوٹ واقع ابھی نندھن کا پاکستان آنا اور پاکستان کا امن کی خاطر ابھی نندن کا واپس بھیجنا اور بھارت کے موجودہ توسیع پسندانہ ارادے اور کشمیر کی حیثیت بدلنے کے اقدامات نے اس امید کو بھی غیر مو¿ثر کر دیا ہے اور امید یہ بھی تھی کہ اس سے دنیا میں ہمارے وقار میں اضافہ ہوگا۔ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود آج دنیا میں ہماری بات سننے کو کوئی بھی تیار نہیں ہے۔ FATF بھارت کے اشاروں پر کام کر رہی ہے۔ ہمارے اپنے مسلمان دوست ممالک ہمارے مقابلے میں بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو ترجیح دے رہے ہیں۔ایک اور کمزور امید یہ بھی دی جاتی رہی کہ جوہری طاقت بڑھانے سے ہمیں سستی بجلی مل پائے گی۔ ہماری کل بجلی کی پیداواری صلاحیت 35 ہزار میگاواٹ ہے اس میں صرف 485 میگاواٹ یعنی صرف 4.5 فیصد ایٹمی ذرائع سے پیدا کی جا رہی ہے۔ بہرحال پاکستان یہ کہتا آیا ہے کہ جوہری ہتھیار حاصل کر لینے کے بعد خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے اور اپنے دفاع کو موثر بنانے میں مدد ملی ہے۔لیکن ماہرین کے خیال میں جوہری ہتھیاروں سے پاکستان کوئی زیادہ مستحکم نہیں ہوا اور نہ ہی اس سے جنگ کا خطرہ کم ہوا۔ پاکستان نے سوچا تھا کہ اس کے بڑے فائدے ہوں گے۔ کشمیر کا مسئلہ ایٹم بم سے حل ہو جائے گا۔۔۔ ساری دنیا میں ہمارا اتنا رتبہ ہو جائے گا سارے اسلامی ملک ہماری طرف دیکھیں گے۔ مگر یہ ساری باتیں میرے خیال میں کہیں پہنچی نہیں۔آپ خود تجزیہ کریں کہ ان دھماکوں نے اقتصادی طور پر پاکستان کو کمزور کیا اور یہاں ایک ایسی سوچ پروان چڑھی کہ اب ہمارے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں اور ہم جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ ہم نے دور کیا جانا ہے، ہم تو وہاں کے حالات نہیں ٹھیک کرسکے جہاں یعنی چاغی میں دھماکے کیے تھے۔ وہاں کے مسائل پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے کہ چاغی ڈسٹرکٹ کے ہیڈکوارٹر دالبندین میں واقع ضلع کے ہیڈکوارٹر اسپتال میں ڈاکٹرز اور اودیہ میسر نہیں۔ آپریش تھیٹر عرصے سے غیر فعال ہے۔ ضلع میں ایک سرجن کی تعیناتی بھی گوارا نہیں کی جارہی۔ ایمرجنسی کی صورت میں مریضوں کےلیے کوئی سہولت موجود نہیں۔ جس دھرتی نے ایٹم بم کو سینے سے لگا کر اف تک نہ کیا، آج تین دہائیوں سے بوند بوند پانی کو ترس رہی ہے۔ چاغی کی زرخیز زمین کو بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے قحط کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پینے کےلیے صاف پانی میسر نہ ہونے کی وجہ سے کم عمر نوجوانوں کو گردے اور معدے کی بیماریوں کا سامنا ہے۔ وعدوں کی تکمیل کےلیے راسکوہ کے باسیوں کی ترستی آنکھیں ہر آنے والی نئی حکومت سے امیدیں لگا لیتی ہیں۔اور پھر کئی جگہوں پر تابکاری شعاعوں کے اثرات بھی ملے ہیں۔ بہرکیف سوال یہ ہے کہ جن ملکوں کے پاس ایٹم بم نہیں ہیں،،، کیا اُن پر روزانہ حملے ہو رہے ہیں؟ ایران کے پاس ایٹم بم نہیں ہے، لبنان کے پاس نہیں ہے، جرمنی کے پاس نہیں ہے، اٹلی کے پاس نہیں ہے، بلکہ ان سات ایٹمی قوتوں کے علاوہ 180سے زائد ملکوں کے پاس ایٹم بم نہیں ہے، تو کیا اُن پر ہر روز حملے ہوتے ہیں؟ہمیں صرف فائدہ یہ ہوا ہے کہ ہم نے ایٹم بم بنایا ہے، ہم ایٹمی قوت بن گئے ہیں، ہم پہلی اسلامی ایٹمی قوت بن گئے ہیں،،، اور ایسی اسلامی ایٹمی قوت جس کی کوئی اہمیت نہیں ہے،،، نہ یہ فلسطین کے مسلمانوں کو بچا سکا ہے، اور نہ ہی کشمیر کے مسلمانوں کو۔ یہی نہیں بھارت کو بھی دیکھ لیں کہ بنگلہ دیش ایک چھوٹا سا ملک ہے،،، تو بھارت نے اُس کا کیا بگاڑ لیا ہے؟ چین نے غیر ایٹمی ملک تائیوان کا کیا بگاڑ لیا ہے؟ امریکا نے غیر ایٹمی ملک کینیڈا کا کیا بگاڑ لیا ہے؟ حتیٰ کہ روس ایٹمی قوت ہوتے ہوئے بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ الغرض ایٹم بم کا ہونا یا نہ ہونا مسئلہ نہیں ہے کیوں کہ یہ ہمارے کسی کام کے نہیں ہیں۔ اور ان کا استعمال بھی اب تو ممکن نہیں رہا۔ کیوں کہ یہ محض اسلحے کی دوڑ تک ٹھیک ہے،،، جس کے لیے بڑے بڑے ممالک منافع کما رہے ہیں،،، اور پھر اسلحے کی یہ دوڑ درحقیقت ایک مافیا کی دوڑ ہوتی ہے، جو ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتی ہے، نہیں یقین تو آپ خود دیکھ لیں کہ فرانس کا بنا ہوا رافیل طیارہ پاک انڈیا جھڑپ میں گرا تو ساتھ ہی فرانس کے طیاروں کی مارکیٹ کریش کر گئی،،، یہی حال امریکی و چینی جہازوں اور ٹینکوں کا ہے۔ پہلے اسلحے کی مارکیٹ میں امریکا سپرپاور کی حیثیت رکھتا تھا، لیکن اب چین، روس، برطانیہ، فرانس بھی اس دوڑ میں شامل ہوگئے ہیں۔ لہٰذاان کا عوام سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ یاتو ہم اتنی ترقی کر لیں کہ ہمیں ہر چیز خود بنا لیں، ہمیں ہر آفت میں غیر ملکیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے، ہم ایٹم بم میں لگے رہے، جبکہ ٹیکنالوجی میں ہم سے بہت آگے نکل گئی۔ حتیٰ کہ بھارت بھی ہم سے بہت آگے نکل گیا۔ حتیٰ کہ ہم نے سیاچن میں گلیشئر میں دبنے والے فوجی اہلکاروں کو بچانے کے لیے امریکا و دیگر ملکوں سے مدد طلب کی۔ لہٰذاایٹمی قوت ہونے کے ساتھ ساتھ ابھی ہمیں کئی دیگر شعبوں میں بھی ترقی اور سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی قومی طاقت بڑھانے میں ناکامیوں کو اپنی ایٹمی طاقت ہونے میں نہیں چھپانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسرے ضروری کئی شعبوں میں مناسب سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ہماری قومی طاقت ہماری معاشی اور انسانی ترقی میں پوشیدہ ہے اور ایک ایٹمی طاقت کے لیے ان شعبوں کو نظرانداز کرنا اس کے وجود کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ یاد رکھیں کہ یہی چیلنج شام، لیبیا، یمن اور عراق کو بھی در پیش تھا لیکن یہ تمام ممالک ان خطرات کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہے اور خانہ جنگی کا شکار ہو گئے۔ اسی طرح افغانستان میں امریکہ اور ستر ملکوں کا فوجی اتحاد سترہ سال میں بھی مسلح گروہوں کو شکست نہیں دے سکا۔ رہی بات ہماری پاکستان کی تو پاکستان وہ واحد ملک ہے جس نے دہشتگردی کے اندرونی نیٹ ورک کو دس سال سے بھی کم عرصے میں کچل کر رکھ دیا۔ پاکستان دنیا کے ان طاقتور ممالک میں شامل ہے جو تھرڈ اور فورتھ جنریشن کے لڑاکا طیارے، آبدوزیں، جنگی بحری جہاز اور سیٹیلائٹس بھی تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے مگر ہمیں مزید محنت کی ضرورت ہے۔ ورنہ ہم کبھی ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں نہ آسکیں گے!