مفاداتی دھوکے : امریکی دوستی پر زیادہ خوش نہ ہوں!

پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے ایک چھوٹی سی بات کہ ایک طرف امریکا کے ساتھ ہم تاریخ کے گہرے ترین مراسم قائم کر رہے ہیں،،، جبکہ دوسری طرف ہم سی پیک فیز2شروع کرنے لگے ہیں ،،، جس کے لیے ہمارے حکمران چین جا کر منت سماجت بھی کر آئے ہیں اور سکیورٹی کے حوالے سے کئی قسم کی گارنٹیاں بھی دے آئے ہیں،،، تو کیا یہ سی پیک منصوبہ امریکا کو ہضم ہو جائے گا؟ کیا وہ آسانی سے آپ کو سی پیک کی تکمیل کرنے دے گا؟ یقینا نہیں،،، کیوں کہ چین اور امریکا کے آپسی تعلقات اس قدر سرد مہری کا شکار ہیں کہ اب اختلافات کی باتیں ایوانوں سے نکل کر کاروباری ایوانوں اور جنگ کے میدانوں تک جا پہنچی ہیں۔ لہٰذاامریکا کبھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان کے تعلقات چین کے ساتھ بڑھیں اور خطے میں چین کا دبدبہ بڑھے۔ جبکہ دوسری جانب چین نے کبھی بظاہر تو پاک امریکا کے حوالے سے براہ راست اعتراض تو نہیں کیا مگر وہ بھی کبھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان کے تعلقات امریکا کے ساتھ آگے بڑھیں اور امریکا سی پیک پر نظر رکھے.... تو پھر پیچھے کیا رہ جاتا ہے؟ بقول شاعر ہم سے مخلص تھا نہ واقف ہمارے جذبات سے تھا اُس کا رشتہ تو فقط اپنے ”مفادات“ سے تھا ہاں جی! یہ سب مفادات کی گیم ہے،،، ورنہ تاریخ گواہ ہے کہ ہمارا جب جب امریکا سے یارانہ رہا ہے اُس نے کچھ بڑا ہی کام ہم سے لیا ہے،،،جیسے حال ہی میں تحریک انصاف کے دور میں امریکا نے افغانستان سے نکلنا تھا تو اُس وقت بھی پاکستان کی مدد کے بغیر امریکا کے لیے یہاں سے نکلنا ناممکن تھا۔ پھر آپ ماضی میں چلے جائیں،،، پہلے فیلڈ مارشل یعنی ایوب خان جب دورے پہ گئے تھے تو مسز جیکولین کینیڈی کے ساتھ گھڑ سواری کی تصویریں ہمیں یاد ہیں۔ دوسری بار امریکہ گئے تو صدر لنڈن جانسن کے گالوں کو اپنی انگلیوں میں لیا۔ یحییٰ خان نے تو امریکہ اور چین کے درمیان پل کا کردار ادا کیا۔ اس لامحالہ کردار کے بارے میں تو کچھ نہ پوچھیں اُس وقت پاکستان نے امریکا اور چین کے تعلقات بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا مگر بدلے میں پاکستانی حکمران ذاتی مفادات کے بجائے امریکا سے کچھ حاصل نہ کر سکے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ اُس وقت پاکستان کے صدر یحییٰ خان تھے اور امریکی صدرنکسن تھے۔ جبکہ امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر تھے۔ ہنری کسنجر خود کہتے ہیں کہ وہ اس حوالے سے گھبرا رہے تھے کہ اب پاکستان نہ جانے اس کے بدلے اُن سے کیا ڈیمانڈ کرے گا، مگر پاکستانی سیاستدانوں نے ماسوائے ذاتی مفادات کے اس قوم کے لیے کچھ حاصل نہ کیا! بقول شاعر رسوا ہوئے ذلیل ہوئے در بدر ہوئے حق بات لب پہ آئی تو ہم بے ہنر ہوئے چلیں آپ صدر یحییٰ کو چھوڑیں،،، جنرل ضیاءالحق پر آجائیں کہ جب انہوں نے مارشل لاءلگایا تو عین اُس وقت یا اُس کے چند ماہ بعد روس کے خلاف جنگ میں ہم نے امریکا کے کہنے پر جہادی تیار کیے ،،،کیا اس بات میں سچائی نہیں کہ اُس کے اثرات آج بھی پاکستان بھگت رہا ہے؟ اُس وقت امریکا نے ایک ڈکٹیٹر کا جس طرح استقبال کیا تھا،،، کیا وہ اس قوم کو یاد نہیں؟ حالانکہ یہ وہ ڈکٹیٹر تھا جو تازہ تازہ بھٹو کو پھانسی دے کر امریکا کے دورے پر گیا تھا،،، لیکن آپ کے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں جب آپ سے کوئی مفاد جڑا ہو.... چلیں آپ جنرل ضیاءکو بھی چھوڑ دیں،،، کیا جنرل پرویز مشرف کا امریکا کے ساتھ رومانس کسی سے ڈھکا چھپا ہے؟ موصوف امریکا ہی سے ”سب سے پہلے پاکستان“ کا نعرہ لے کر آئے اور طالبان کے خلاف جنگ کا آغاز ہوا۔ ہم نے ہوائی اڈے دیے،،، ہم نے امریکی فوج کو Facilitateکیا اور سب سے بڑھ کر ہم نے بندے پکڑ پکڑ کرامریکا کو دیے ۔ لیکن جب پاکستان میں دہشت گردی بڑھی،،، طالبان نے پاکستان کے خلاف اعلان جنگ کر دیا تو کیا امریکا ہماری مدد کو آیا؟ ہمارے ایک لاکھ شہری، و سکیورٹی افسران و اہلکار شہید ہوئے ،،، کیا امریکا نے پاکستان کا حال پوچھا؟ چلیں یہ بھی چھوڑ دیں کہ امریکا پاکستان کی مدد کو نہ آیا۔ آپ اُن کا حال دیکھ لیں کہ جن کا استقبال امریکا نے شاہانہ انداز میں کیا،،، اُن کا انجام کیا ہوا؟ ایوب خان کے برے دن آئے اور اقتدار سے معزول ہونے کے قریب ہوئے تو کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ یحییٰ خان نے پُل کا کردار تو ادا کیا لیکن جب ہندوستانی افواج کی چڑھائی مشرقی پاکستان پر ہوئی تو صدر نِکسن امریکی ساتویں بیڑے کو حکم ہی دیتے رہے کہ خلیج بنگال کی طرف روانگی ہو۔ بیڑہ ان پانیوں میں آ بھی گیا لیکن یحییٰ خان شکست سے بچ نہ سکے۔پھر نام نہاد افغان جہاد اپنے آخری دنوں کو پہنچا،،، یعنی امریکا کا کام ختم ہوگیا تو صدر ضیا الحق کا طیارہ بہاولپور کی ہواﺅں میں پھٹ گیا۔ مشرف کا اقتدار زوال کی طرف آیا تو کیا امریکا صدر مشرف کی مدد کو آیا؟ مشرف کو کہاں جانا پڑا تھا؟ امریکا میں ؟ بالکل نہیں ،،، بلکہ انہیں پناہ دبئی میں ملی.... پاکستان میں ان کا رہنا محال ہو گیا۔ مطلب یہ کہ بڑی طاقتوں کی مہربانی تب تک رہتی ہے جب تک ان کے مفاد اس طرف اشارہ کریں۔ پاکستان کی تو امریکہ سے آنی جانی والی دوستی رہی ہے۔ اور آپ کا کیا خیال ہے کہ امریکا یہ سب کچھ صرف پاکستان کے ساتھ کرتا آیا ہے؟ کیا ایسا ہی اس نے ایران کے ساتھ نہیں کیا؟ یعنی ایران انقلاب کے بعد اپنے زمانے میں بڑا دوست تو شاہ ایران تھا لیکن کچھ یاد نہیں کہ جب ایرانی انقلاب کی آگ بھڑکی اور شاہ ایران کو اپنی سرزمین سے بھاگنا پڑا تو انہیں امریکہ میں پناہ نہ ملی؟ امریکہ سے پانامہ جانا پڑا اور وہاں سے بھی جلد کوچ کرنی پڑی کیونکہ روایت ہے کہ پانامہ کے حکمران اُمرٹوریجوس (Omar Torrijos) کی عاشقانہ نظر سابقہ ملکہ فرح دیبا پر پڑ رہی تھی۔ مصر کے انور سادات پھر شاہ ایران کے کام آئے اور وہاں شاہ ایران کو آخری پناہ ملی۔ خود میں کوئی چیز نہ ہو تو ایسی دوستیاں کسی کے کام نہیں آتیں۔ چلیں ایک بار پھر آپ سب کچھ چھوڑیں ،،، قطر قطر نے تو ایک بڑا جہاز تحفے میں صدر ٹرمپ کو دے دیا لیکن اسرائیلی بمباروں نے حملہ کیا تو وہ تحفہ قطر کے کام نہ آیا۔ سعودی عرب نے صدر ٹرمپ کو خوش کرنے کیلئے کیا کچھ نہیں کیا؟ دو دو سو ارب ڈالر کے معاہدے بھی کیے،،، لیکن کیا امریکا سعودی عرب کے یا قطر کے کہنے پر اسرائیل کو غزہ میں جنگ سے روک رہا ہے؟ بالکل نہیں! پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ سکیورٹی کے فرائض یا جسے اپنی زبان میں ہم چوکیداری کہتے ہیں اُس سے اوپر ہم نہیں جا سکے۔ امریکی دفاعی معاہدوں میں فرائض نبھائے تو امریکہ سے پیسے اور ہتھیار ملے۔ افغانستان میں شورش پیدا ہوئی تو امریکی مفادات کے تابع امریکی ساز و سامان اور پیسے پھر سے ملنے لگے اور ہمارے حکمران‘ ضیا ہوں یا مشرف‘ خوش ہوتے کہ امریکہ نے ہماری اہمیت کو سمجھ لیا ہے۔ مفادات پورے ہوتے تو نظریں پھِر جاتیں تو یہاں پر رونا پڑ جاتا کہ امریکہ وفادار حمایتی نہیں۔ حالانکہ سمجھ ہمیں نہ آتی کہ سارا کھیل مفادات کا ہے۔ جاپان‘ جنوبی کوریا‘ تائیوان‘ سنگاپور یہ تمام چھوٹے بڑے ممالک امریکہ کے دوست رہے ہیں اور آج بھی ہیں۔ فرق البتہ یہ رہا کہ ان ملکوں نے اور ان جیسے کئی اور ملکوں نے اپنا کردار چوکیداری تک محدود نہ رکھا۔ ان ممالک نے امریکہ سے دوستی رکھی اور اپنے آپ کو ترقی کی راہ پر بھی ڈالا۔ تعلیم کی اہمیت کو ان سارے ممالک نے سمجھا اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے رازوں پر عبور حاصل کرنے کی کوشش کی۔ یہ ممالک ایسے ترقی یافتہ ہوئے کہ بہت سی چیزوں میں امریکہ کو پیچھے چھوڑ گئے۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ ہم یہ بات کیوں نہیں سوچتے کہ اگر امریکا چین اپنے مفادات کو عزیز رکھتے ہیں تو ہم اپنے مفادات کو کیوں نہیں دیکھتے۔ کیا انڈیا امریکا تعلقات کی خرابی کے بعد پاکستان اپنی انٹری نہیں مار سکتا؟ کیا ہمارے فیلڈ مارشل یا وزیر اعظم کو یہ اعلان نہیں کرنا چاہیے تھا کہ اب ہماری امریکا کے ساتھ 5گنا تجارت بڑھ گئی ہے،،، اب ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے،،، اور پھر انڈین مصنوعات کی افغانستان میں کمی کو پاکستان بہتر انداز میں پورا کر سکتا ہے اور افغان مصنوعات سستے داموں پاکستان آ سکتی ہیں۔ اگلے مرحلے میں امریکہ نے برانڈڈ ادویات کی درآمد پر 100 فیصد ٹیکس لگا دیا ہے اور اس کا بھی سب سے زیادہ نقصان انڈیا کو ہو سکتا ہے۔ انڈیا کی ٹوٹل ادویات کی برآمدات تقریباً 30 ارب ڈالر ہیں‘ جس میں سے تقریباً آٹھ ارب ڈالر کی ادویات امریکہ کو برآمد کرتا ہے۔ پاکستان دنیا کو تقریباً 35 کروڑ ڈالرز کی ادویات برآمد کرتا ہے جس میں سے امریکہ کو تقریباً نو لاکھ 50 ہزار ڈالرز کی برآمدات ہوتی ہیں۔ بہتر سفارتی تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے امریکہ کو ادویات کی درآمدات میں خصوصی رعایت حاصل کی جا سکتی ہے اور پاکستان امریکہ میں انڈیا کی ادویات کے گیپ کو پ±ر کرنے میں کافی مددگار ہو سکتا ہے۔ اسی طرح امریکہ میں پاکستانی چاول کی برآمدات بڑھانے پر بات ہو سکتی ہے‘ کیونکہ اس وقت انڈیا کے لیے امریکہ چاول برآمد کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ انڈیا امریکہ کو تقریباً 455 ملین ڈالرز کے چاول برآمد کرتا ہے جبکہ پاکستان صرف تقریباً 57 ملین ڈالرز کے چاول امریکہ برآمد کرتا ہے۔ کیا پاکستان اپنے مفادات کو فرنٹ پر لا کر نہیں کام نہیں کرسکتا؟ لہٰذامیرے خیال میں امریکا کے ساتھ تعلقات پر ہمیں زیادہ خوش نہیں ہونا چاہیے،،، یہ سب مفاداتی چونچلے ہیں ،،، اگر وہ اس طرح کی حرکات کر رہے ہیں تو ہمیں بھی اُن کی سطح پر جا کر سوچنے کی ضرورت ہے،،، ورنہ ہم ایک بار پھر جنرل ایوب، جنرل یحییٰ ، جنرل ضیاءاور جنرل مشرف کی طرح استعمال ہو جائیں گے!