خود غرضانہ سیاست اور عوام کا مقدر !

آج 26مارچ ہے، ویسے توآج پی ڈی ایم کی طرف سے لانگ مارچ کا آغاز ہونا تھاجو پیپلزپارٹی کی طرف سے ملتوی کر دیا گیا، لیکن بقول شخصے اس لانگ مارچ کا رخ پی ڈی ایم (خاص طور پر ن لیگ )نے عدالتوں کی جانب موڑ دیا ہے اور آج پورا ”کنبہ“ مریم نواز کے ساتھ نیب میں جائے گا، جہاں رائیونڈ اراضی کیس کے حوالے سے نیب کو دباﺅ میں لانے کی پوری کوشش کی جائے گی۔ یہ میرے خیال میں اُسی تاریخ کو دہرایا جائے گا جب 28 نومبر 1993 کو پوری قوم کی نظریں پاکستان کی سب سے بڑی عدالت ”سپریم کورٹ“ پر جمی ہوئی تھیں اور سپریم کورٹ کا فل بینچ اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں عدالت کے کمرہ نمبر ایک میں اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کے مقدموں کی سماعت کر رہا تھا۔ سماعت اختتامی مرحلے میں داخل ہو چکی تھی اور امید کی جا رہی تھی کہ آج عدالت مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف کے خلاف فیصلہ سنانے والی ہے۔ عدالت میں موجود وفاقی وزیر خواجہ آصف نے کمرہ عدالت سے باہرجانے کی اجازت چاہی۔ جونہی عدالت نے خواجہ آصف کو عدالت سے جانے کی اجازت دی اس کے چند ہی لمحوں بعد سپریم کورٹ کی راہداریوں سے شور بلند ہونا شروع ہوگیا۔ ایسے لگا کہ کچھ لوگ عدالت کی عمارت کے اندر نعرے بازی کر رہے ہیں اور جلد ہی یہ آوازیں کورٹ نمبر ایک کے قریب تر آگئیں۔ ججوں کے عدالت سے نکلنے کے چند منٹوں بعد سینیٹر سیف الرحمن کی قیادت میں ایک مشتعل ہجوم عدالت میں داخل ہوگیا اور سپریم کورٹ کے مخصوص ججوں کے خلاف نعرے بازی شروع کر دی۔ ن لیگی کارکنان نے بڑی کوششیں کی مگر ان کے ہاتھ ججوں کے گریبان تک نہیں پہنچ سکے۔جبکہ چیف جسٹس سجاد حسین نے عدالت کے پچھلے دروازے سے بھاگ کر جان بچائی۔ ہماری سیاسی جماعتیں آج تک سبق نہیں سیکھ سکیںاور اب پھر میاں نواز شریف کی دیکھا دیکھی انکی صاحبزادی مریم نواز بھی عدالتوں پر شدید تنقید کر رہی ہیں۔اور سمجھ رہی ہیں کہ جس طرح اُس وقت عدالتوں کو دبا کر اپنی مرضی کے فیصلے کروائے گئے بالکل اُسی طرح اب بھی شاید عدالتوں کو دبا لیا جائے گا۔ اور پھر رہی سہی کسر جاوید لطیف، دانیال عزیز اور طلال چوہدری بھی پوری کر رہے ہیں، جیسے جاوید لطیف نے حال ہی میں پاکستان کے خلاف جو الفاظ ادا کیے ، وہ کسی طور پر بھی پاکستانیوں کو زیب نہیں دیتے، حد تو یہ ہے کہ ن لیگ کی قیادت نے بھی ان الفاظ سے لاتعلقی کا اعلان نہیں کیا۔ حالانکہ محترمہ بے نظیر کی شہادت پر زرداری نے پاکستان توڑنے جیسی باتیں کرنے والوں کو ناصرف ڈانٹ دیا بلکہ پاکستان کھپے کا نعرہ بھی لگایا۔ خیر قصہ مختصر ن لیگ کی سیاست کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ جب ان کے اپنے سر پر پڑتی ہے، تو انہیں پھر کسی کی پرواہ نہیں ہوتی، اوریہ آج کل پھر ذاتی مفادات کی خاطر دوبارہ عدالتوں کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں، یہ کورٹ کو گرانے کے چکر میں ہیں،انہیں علم ہی نہیں کہ عدالت کی حرمت اور پاسداری کیا ہوتی ہے، اگر یہی حرکت تحریک انصاف یا پیپلزپارٹی کا کوئی بندہ کرے تو اس سے جمہوریت بھی خطرے میں آجاتی ہے، انصاف بھی خطرے میں آجاتا ہے، اور پاکستان بھی خطرے میں ہے ۔ اور پھر ہماری عدلیہ تو پہلے ہی دبنے کے لیے تیار رہتی ہے، کبھی وکلاءکے دباﺅ پر فیصلے کرتی ہے، کبھی سیاستدانوں کے دباﺅ پر رات گئے تک فیصلے کر لیتی ہے۔ خیر یہ تو بحث ہی الگ ہے لیکن درحقیقت یہ ایسا کر کے چاہتے ہیں کہ ہمارے علاوہ باقی سب ٹھیک ہو جائیں، ان کو طلال چوہدری کی تنظیم سازی جیسے فعل اچھے لگتے ہیں، ان کو اداروں پر حملے کروانا اچھے لگتے ہیں اور پھر یہ کیسی خود غرضانہ سیاست ہے کہ اداروں پر حملہ کرنے کے بعد کسی فورم پر معافی بھی نہیں مانگتے اور نہ ہی شرمندہ ہوتے ہیں۔ اور پھر ہماری پوری سیاست میں ہی کوئی سیاسی جماعت ایسا کوئی مثالی اقدام نہیں اُٹھا رہی، یہاں تو قدیم کہاوت کے مطابق ہاتھی کے پاﺅں میں سب کا پاﺅں ہوتا ہے، اس کامطلب عمومی طور پر یہ لیا جاتا ہے کہ بڑے آدمی کے سب فرمانبردار ہوتے ہیں، سب اُس کا کہا مانتے ہیں اور کوئی اُسے غلط نہیں کہتا۔ہماری سیاست کا بھی یہی حال ہے،یہاں جمہوریت نہیں بلکہ جمہوریت کے لبادے میں اوڑھی ہوئی شخصی آمریتیں ہےں، پیپلز پارٹی کیا ، مسلم لیگ (ن) کیا، تحریک انصاف کیا ،جے یو آئی (ف) کیا سب اپنے اپنے لیڈرز کے اسیر ہیں، اگر کسی جماعت کے لیڈر نے کہہ دیا کہ پی ڈی ایم تحریک سے نکلنا ہے تو سب لبیک کہہ دیتے ہیں، اگر کسی جماعت کے لیڈر نے کہہ دیا کہ ہلہ بولنا ہے تو سبھی پارٹی رہنما تمام چینلز پر بیٹھ کر اس کا دفاع کر رہے ہوتے ہیں۔ حالانکہ جمہوریت تو یہ ہوتی ہے کہ غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہا جائے۔ جیسے سینیٹ الیکشن کے دنوں میں تحریک انصاف نے بلوچستان سے ”غیر انصافی“ عبدالقادر کو ٹکٹ دیا تو وہاں کی مقامی لیڈر شپ نے پرزور احتجاج ریکارڈ کروا کر ٹکٹ واپس کروادیا۔یہ اقدام ہم جیسے ناقدین کو جمہوریت کا ”حُسن“ لگا۔ لیکن شخصی آمریت کی انتہا یہ ہے کہ وہی اُمیدوار آزاد حیثیت میں منتخب ہوا اور اگلے ہی دن عمران خان اُس کے گلے میں تحریک انصاف کا پرچم ڈال رہے تھے۔ قصہ مختصر کہ ویسے ہم کیسی خود غرضانہ سیاست کو جنم دے چکے ہیں کہ ہر کوئی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے بے چین نظر آتا ہے، اور اقتدار تک پہنچنے کے لیے آخری حدیں کراس کرتا نظر آرہا ہے مگر مجال ہے کوئی عوامی مسائل کو حل کرنے کے لیے بے چین نظر آرہا ہو۔ آج ہمارے ناکام ہونے کی اصل وجہ ہی یہی ہے کہ ہر دور میں عوام نظر انداز ہوتے رہے ہیں، اورویسے بھی پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ اقتدار کی جنگ ہمیشہ کشمکش کو جنم دیتی ہے۔جیسے گورنر جنرل غلام محمد اور وزیر اعظم ناظم الدین کے درمیان کشمکش نے وزیر اعظم کو گھر بھجوادیا۔1958ءمیں مارشل لاءلگانے کے بعد جب سکندر مرزا نے جنرل ا یوب خان کو ٹھکانے لگانا چاہا تو اس نے چند جرنیل بھیج کر سکندر مرزا سے استعفیٰ لے لیا اور اسے جلا وطن کردیا۔صدر ایوب خان اور کمانڈر انچیف یحییٰ خان کے درمیان کشمکش نے بالآخر ایوب صاحب کو استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا۔ صدر ضیاءالحق نے اپنے ہی مقرر کردہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو ڈسمس کردیا۔ صدر غلام اسحاق خان کی ہر وزیر اعظم سے کھینچا تانی اور کھٹ پٹ رہی جب میاں نواز شریف نے ہیوی مینڈیٹ لے کر اور58(2)Bکو حذف کروا کر جناب رفیق تارڑ کو صدر بنایا تو ان کے خیال کے مطابق وہ کشمکش اور کھینچا تانی سے بالکل محفوظ ہوگئے تھے لیکن جلد ہی جنرل مشرف اور ان کے درمیان محاذ کھل گیا جو بالآخر میاں صاحب کی قید و بند اورجلا وطنی پر منتج ہوا۔پھر ن لیگ اور پی پی پی کو تیسری تیسری بار اقتدار ملا تو زیادہ طاقت رکھنے کے چکر میں اپنے اپنے وزرائے اعظم کو گھر بھیجنے کی سزا بھگتتے رہے۔ اور پھر اس سے زیادہ بدقسمتی اور خود غرضانہ سیاست اور کیا ہو سکتی ہے کہ اب جبکہ دونوں جماعتوں سے ہٹ کر تیسری جماعت تحریک انصاف کو اقتدار ملا ہے تو اس کے پیروکار بھی پی پی پی اور ن لیگ کے کارفرماﺅں کی طرح امیر ہونے کے چکر میں نظر آرہے ہیں، خیر یہ تو بعد میں ہی علم ہوگا کہ کس نے کتنی کرپشن کی لیکن فی الوقت تو چینی، آٹا، ادویات اور پٹرولیم سکینڈل سب کے سامنے ہیں جس میں ہمارے وزراءاربوں روپے بٹور چکے ہیں اور اب جلد ہی ”ویکسین سکینڈل“ بھی سر اُٹھانے والا ہے جس میں بڑے بڑے نام آئیں گے ، اس حوالے سے میں ہوا میں باتیں نہیں کر رہا بلکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ ہے کہ پاکستان کا پوری دنیا میں سب سے مہنگی کورونا ویکسین کی قیمت مقرر کرکے اربوں ڈالر کی کرپشن کرنے کے مترادف ہے۔لہٰذااب تو مان جاو¿ کہ سیاست کا کھیل بڑا خود غرضانہ اور سنگدلانہ ہوتا ہے اور اقتدار کے اس کھیل میں بڑے بڑے فراخ دل، رحم دل اور قریبی رشتے، دوست ، ساتھی قربانی کا بکرا بنادئیے جاتے ہیں اور حصول اقتدار کی بھینٹ چڑھا دئیے جاتے ہیں۔ ایسا ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے اور مستقبل میں بھی ہوتا رہے گا فرق صرف ا نداز اور طریقہ واردات کا ہے۔ لہٰذاسوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ کیا یہ اس خطے کی قسمت تو نہیں ہے، کیوں کہ تاریخ میں درج ہے کہ یہاں ہر دور میں صرف اقتدار کی جنگیں ہی ہوتی رہی ہیں مثلاََ ہمایوں نے اپنے بھائی کے خلاف جنگ کی اورکا بل واپس لے لیا۔ جنگ کے بعد دونوں بھائی صلح کی میز پر بیٹھے تو ہمایوں نے تاریخی الفاظ بولے: آﺅ! مل کر سوریوں سے دلی واپس لیتے ہیں۔ ایک ہمیشہ ایک ہوتا ہے جبکہ دو، دو نہیں بلکہ گیارہ ہوتے ہیں۔ یعنی اُس دور میں بھی دو حکمرانوں نے تیسری جنگ چھیڑنے کے عزم کو دہرایا جبکہ عوام کی حالت کو سدھارنے کے لیے کوئی معاملہ طے نہ پایا۔ آج بھی تمام سیاسی جماعتوں کو دیکھ لیں سب اپنی اپنی سیاست کر رہی ہیں، مریم نواز کی تمام سیاست ذاتیات پر ہے، اُن کی سیاست میں کہیں عوام نہیں ہیں بلکہ اُن کی ہر تقریر اُن کی اپنی اور لندن میں موجود والد محترم کی خدمات سے شروع ہو کر ختم ہوتی ہے، جبکہ زرداری صاحب کی سیاست کو لے لیجیے پہلے انہوں نے پی ڈی ایم کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال کیا پھر جب سینیٹ کا شور شرابہ ختم ہوا تو ن لیگ کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے پھینک دیا اور پی ڈی ایم میں موجود بقیہ جماعتوں کو بھی پیچھے دھکیل دیا۔ اور پھر تحریک انصاف کو دیکھ لیں تین سالوں میں اُس کی تمام تر توانائیاں اپوزیشن کو ٹف ٹائم دینے میں گزر گئیں، یعنی وہی پرانی سیاست وہی پرانے دوست !بقول شاعر دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی بہرکیف یہ حقیقت ہے کہ ہم واقعی خود غرضانہ سیاست کے خول میں زندگی بسر کر رہے ہیں جس سے ہمیں باہر نکلنا ہوگا، تحریک انصاف کے پاس اقتدار کے محض دو سال بچے ہیں، پھرپاکستان کے 23کروڑ عوام کورونا ویکسین کے انتظار میں بیٹھے ہیں اُن کے لیے احسن اقدامات کرنے چاہیے اور خان صاحب کو اُن وزراءاور مشیروں پر بھی نظر رکھنی چاہیے جو اس وباءمیں بھی کروڑوں اربوں روپے کمانے کے چکر میں بیٹھے ہیں، کیوں کہ یہ خطرہ بھی اُن کے سرپر منڈلا رہا ہے کہ تحریک انصاف کی ٹیم بھی کہیں روایتی سیاستدانوں کے رنگ میں نہ رنگی جائے! اور عوام اپنا مقدر تلاش کرتے رہ جائیں!