گورنرز کی سیٹیں ختم کی جائیں!

ہمارے ملک کی ایک عام روایت ہے ”دھیان بٹانا“ یا یہ کہہ لیں کہ یہ ایک عام مشغلہ بھی ہے۔ مطلب جب آپ کسی سنجیدہ مسئلے پر پھنسے ہوں تو آپ کے ماتحت عملہ یا افسران یا نچلا عملہ اُس مسئلے کا حل نکالنے کے بجائے آپ کا دھیان بٹانے کی کوشش کرے گا۔ آپ کسی میٹنگ میں بیٹھے ہیں تو بسا اوقات ایک آدھ آفیسر آپ کو ٹریک سے ہٹانے کے لیے کوئی ایسا چٹکلہ چھوڑ دے گا کہ ساری میٹنگ کشت زعفران بن جائے گی اور جس مقصد کے لیے آپ اکٹھے ہوئے ہوتے ہیں وہ مقصد ہی ختم ہو جائے گا۔ یہی حال آجکل حکومت کا ہے کہ جب بھی حکمران کسی مسئلے پر پھنستے ہیں تو کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑ دیا جاتا ہے جیسے آج کل ہمارے ہاںایک نیم سرکاری تعلیمی ادارے ایچی سن کالج میں گورنر پنجاب نے نئے رولز اینڈ ریگولیشنز جاری کر کے ایک نیا کٹا کھول دیا ہے۔ بلکہ یوں کہہ لیں کہ اس بار ”چٹکلہ“ ن لیگی گورنر کے گلے کی ہڈی بن کر رہ گیا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ گورنرپنجاب سے ایک وفاقی وزیر کے بچوں کے جرمانے یا سابقہ فیس معافی سے اختلافات شروع ہوئے تھے۔نوٹی فیکیشن کے مطابق وفاقی وزیر کے 2بیٹوںکی فیس معاف کی گئی تھی۔پرنسپل ایچیسن کالج کے فیصلے کے برعکس گورنر پنجاب نے حکم نامہ جاری کیا تھا۔گورنرنے مذکورہ وزیر کے بچوں کا داخلہ خارج کرنے کے پرنسپل کے آرڈرز بھی مسترد کئے۔مذکورہ بیوروکریٹ نے اسلام آبادشفٹ ہونے پرایچی سن کالج سے بچوں کی طویل رخصت درخواست کی تھی، پرنسپل ایچی سن کالج نے احدچیمہ کے بچوں کی چھٹی کی درخواست پالیسی کے تحت منظور کی، پرنسپل نے کالج کی پالیسی کے تحت چھٹی کے دورانیے کی فیس کی ادائیگی کاحکم دیا۔جس کے بعد وزیربیوروکریٹ کی اہلیہ نے فیس معافی کے لئے گورنرپنجاب بلیغ الرحمان کودرخواست دی، گورنرنے شنوائی کے بعد وزیر کے بچوں کی3سال کی فیسیں معاف کردیں۔گورنر کا اپنے حکم نامے میں کہنا تھا کہ چند بچوں کی فیس معافی سے ایچی سن کالج کومالی نقصان نہیں ہوگا۔بعد میں ایچی سن کالج کے پرنسپل نے اسکول جوائن نہ کرنے پروزیر کے بچوں کاداخلہ کینسل کیا تھا جس پر گورنرپنجاب نے احد چیمہ کے بچوں کاداخلہ خارج کرنے پرپرنسپل کے آرڈرزمسترد کردیئے تھے۔جس پر ایچی سن کالج کے پرنسپل مائیکل اے تھامسن نے گورنر پنجاب سے اختلافات کی بنا پر عہدے سے استعفیٰ دیدیا اور ساتھ ہی جبکہ کالج کی بورڈ آف گورنر کا حصہ سید بابر علی بھی مستعفی ہو گئے۔ ایچی سن کالج کے پرنسپل مائیکل اے تھامسن کا عملے کے نام خط لکھا بھی منظر عام پر آیا جس میں لکھا تھا کہ اسکولوں میں اقربا پروری اورسیاست کی کوئی گنجائش نہیں، انتہائی بری گورننس کی وجہ سے میرے پاس کوئی اور چوائس نہیں ہے۔پرنسپل ایچی سن کالج نے 4 فروری 2023 کو گورنر کے ایڈیشنل سیکرٹری کو خط لکھا، جس میں انہوں نے کہا کہ کالج پالیسی کے باعث دونوں بچوں کے داخلے واپس لے لئے گئے، فیس کے بغیر بچوں کو داخلہ دینا کالج پالیسی کی خلاف ورزی تھا، مذکورہ وزیر کی فیملی کے علاوہ آٹھ سالوں میں کسی فیملی نے طویل رخصت پالیسی پر اعتراض نہیں کیا، پالیسی کے تحت طویل رخصت کی فیس لینے کے بعد بچوں کے داخلے بحال ہوئے۔مائیکل تھامسن نے لکھا کہ فروری 2023 میں مینجمنٹ کمیٹی کی اکثریت نے پالیسی اپنائے رکھنے کا فیصلہ کیا، بورڈ آف گورنرز کے اجلاس میں بھی طویل رخصت کی پالیسی میں ترمیم نہیں ہوئی، طویل رخصت کے معاملے کو بورڈ آف گورنرز اجلاس میں رکھنے کیلئے تین خطوط لکھے، گزشتہ 8 برسوں سے کالج کی طویل رخصت کی پالیسی جاری ہے۔پرنسپل ایچی سن کالج نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ چند افراد کی خاطر پالیسیوں میں تباہ کن تبدیلیاں لائی گئیں، گورنرہا¶س کے جانبدارانہ اقدامات کے باعث گورننس کا نظام تباہ ہوگیا۔ساتھ ہی ایچی سن کالج کے پرنسپل نے مستعفیٰ ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یکم اپریل کواسکول چھوڑ رہا ہوں اور داخلوں کاحصہ نہیں بنوں گا۔اب اگر آپ سید بابر کی بات کرتے ہیں تو ایک طرف اُن کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے 5دہائیوں کے کرئیر میں مائیکل جیسا کام کرنے والا پرنسپل نہیں دیکھا۔ لیکن انہوں نے اپنے استعفے کو صحت کے ساتھ ہی جوڑنا مناسب سمجھا۔ خیر کس قدر باعث شرم بات ہے کہ ہماری اشرافیہ نے ان آئینی عہدوں کو وفاق کی چمچہ گیری کے لیے رکھا ہوا ہے،،، جو کسی بھی ادارے میں ہاتھ پاﺅں مار کر وہاں کا ڈسپلن سبوتاژ کرسکتا ہے۔ خیر مٹی پاﺅ والی پالیسی کے تحت یہ ایشو بھی یقینا دب جائے گا اور ہم جی سی کالج یا ایف سی کالج کی طرح ایک اور ادارے سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ لیکن دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو کیا ان آئینی عہدوں کی اس وقت ملک کو ضرورت ہے؟؟ اور پھر جب تک سفارشی گورنر تعینات ہوتے رہیں گے، کیا تب تک ہم کسی بھی نظام کو ٹھیک کر سکتے ہیں؟ میرے خیال میں مائیکل غیرت مند گورا تھا جو ان کے ہاتھوں دباﺅ کا شکار ہونے کے بعد جوانمردی سے استعفیٰ دے کر چلا گیا، مگر مجال ہے کہ اس نے ان کی ناجائز باتوں کو تسلیم کیا ہو! یعنی پھر یہ گورنر بلیغ الرحمن کی اپنی تو کوئی ساکھ نہ ہوئی۔ اور پھر سونے پر سہاگہ یہ کہ موصوف فرماتے ہیں کہ اکا دکا بچوں کی فیس معافی سے ادارے کو قطعاََ کوئی مالی نقصان نہیں ہوگا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پھر ادارے کے رولز اینڈ ریگولیشن کیا ہیں؟ کیا وہ آپ کے گھر کی باندی ہیں؟ اور پھر یہی نہیں بلکہ سرفراز چیمہ نے بھی وہی کیا جو عمران خان کہتے رہے، جبکہ اس سے پہلے گورنرز چوہدری محمد سرور تھے الغرض تمام گورنرز نے وفاقی کی خوشامد میں ہی اقدامات کیے۔ یا یوں کہہ لیں کہ ان تمام گورنرز کو اسلام آباد اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتا رہا ہے۔ جس سے یہ لوگ اپنے ذاتی مفادات بھی دیکھتے ہیں اور اداروں کو تنگ بھی کرتے ہیں، اُن پر اپنی اُجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چلیں یہ سب باتیں ایک طرف مگر کیا کوئی جانتا ہے کہ ان چاروں صوبائی گورنرہاﺅسز کا بجٹ کھربوں روپے سالانہ ہے۔یعنی چاروں صوبوں کے گورنرز ہمارے صوبوں کے بجٹ پر بوجھ ہیں۔ ان گورنرز ہاﺅسز کا سٹاف،،، روزانہ کا بجٹ ،،، پھر ان کے سرکاری دورے ،،، یوٹیلٹی بلز،، کیا یہ سب کچھ خزانے پر بوجھ نہیں ہیں؟ کیا آئی ایم ایف کو یہ نظر نہیں آتا؟ پھر ان سیٹوں نے ہمیشہ اختلافات کو جنم دیا ہے، کنفیوژن کری ایٹ کی ہے،،، ٹینشن بڑھائی ہے۔ اور اداروں کو آپس میں لڑوایا ہے۔ یعنی گورنرز کے عہدوں کو ختم کیا جانا چاہیے۔ پھر یہ جن لگژری لوکیشن پر قائم ہیں،،، صوبوں کے جتنے جتنے بڑے گورنر ہاﺅسز ہیں،،، انہیں اگر فروخت کیا جائے تو سینکڑوں ارب روپے اکٹھے کیے جا سکتے ہیں۔ اور سالانہ اربوں روپے کی اضافی بچت بھی کی جا سکتی ہے۔۔۔ مثلاپنجاب کا گورنر ہاﺅس دیکھ لیں،،، مال روڈ کی پرائم لوکیشن پر واقع ہے،،، یہ سات سو کنال پر مشتمل ہے،،، اور ایک کنال زیادہ نہیں تو پچاس کروڑ روپے کی مالیت رکھتی ہے۔۔ یعنی صرف پنجاب کا گورنر ہاﺅس ہی ساڑھے تین سو ارب روپے کا ہے۔ پھر بلوچستان کا گورنر ہاﺅس دیکھ لیں،،، یا آپ سندھ کے گورنر ہاﺅس کو دیکھ لیں،،، یا خیبر پختون خواہ گورنر ہاﺅس کو دیکھ لیں سبھی کم وبیش اتنی ہی لاگت کے ہیں،،، پھر ان کی مینٹننس کی مد میں اربوں روپیہ خرچہ جاتا ہے؟ لیکن بدلے میں عوامی خدمت کے بجائے بچے کھچے تعلیمی اداروں کا بیڑہ غرق کرنا ان کا اصل کام ہے۔ اور ویسے بھی یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ گورنر کسی بھی صوبے میں ایک اہم آئینی عہدہ ہے۔ گورنر، صوبے میں وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے۔ اگرچہ گورنر کے پاس انتظامی اختیارات نہیں ہوتے، تاہم کچھ آئینی تقاضے ہیں، جو گورنر کو نبھانا پڑتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں اکثر و بیشتر ہلچل بپا رہتی ہے، اس تناظر میں گورنر کے عہدے کی اہمیت نہایت زیادہ ہے۔ گورنر صوبے کی تمام جامعات کا چانسلر ہوتا ہے، سو تعلیمی لحاظ سے بھی گورنر کا عہدہ خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ لیکن اگر قانون پاس کرکے یہی تمام عہدے کسی اور کو دے دیے جائیں تو اس میں دقت کیا ہے؟ ویسے بھی اسمبلیوں سے ایک ایک دن میں 50،50قانون پاس کرنے کے ریکارڈز موجود ہیں۔ تو اس قسم کے ضروری قوانین پاس کروانے میں حرج کیا ہے؟ بہرکیف اگر صدارتی نظام ہے تو گورنرز رکھیں،،، لیکن اگر پارلیمانی نظام ہے تو ان کی ضرورت نہیں ہے،،، پاکستان میں دونوں قسم کے نظام ہمارے سسٹم کو خراب کر رہے ہیں۔۔۔ اور پھر جب پاکستان میں پارلیمانی نظام حکومت قائم ہے جس میں وزیراعظم ہی ملک کا سربراہ ہوتا ہے ،تو پھر صدارتی نظام کی کیا ضرورت ہے؟ لیکن اگر گورنری نظام زیادہ پسند ہے تو وہ رکھ لیں،،، لیکن رکھیں تو ایک نظام؟ اور پھر صدارتی نظام برا بھی نہیں ہے،،، اس نظام یا نئے نظاموں کے بارے سوچا جائے۔ لیکن جو سب سے زیادہ سوچنے کی چیزیں ہیں وہ یہ ہیں کہ ہم نے پارلیمانی نظام کو موقع ہی کب دیا، یعنی کیا ہم نے اس نظام کو پوری طرح Implementکیا؟ آج بھی اسمبلیوں میں چلے جائیں وہاں سب سے بڑا مسئلہ ہی کورم پورا نہ ہونے کا ہے۔ لہٰذاسیاستدان آپس میں مل بیٹھیں اور بہترین فیصلہ کریں،،، جو ملکی مفاد میں ہو ،،، لیکن اگر گورنرز کو ختم کرنا ہے تو فوری طور پر کریں،،، تاکہ کہیں کوئی ambiguityقائم نہ ہو!