طیب اردگان کا ترکی چاہیے، یا جنرل السیسی کا مصر ؟

لاہور میں اس وقت عمران خان کی گرفتاری کے لیے زمان پارک آنے والی پولیس اور کارکنوں کے درمیان گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے، جھڑپیں جاری ہیں، سینکڑوں پولیس اہلکار اور کارکنان زخمی ہو چکے ہیں۔ اہلکار عوام کا غم و غصہ دیکھ کر ایک بار پیچھے ہٹ جاتے ہیں مگر اعلیٰ حکام کے حکم پر وہ دوبارہ آجاتے ہیں۔ یہ سلسلہ ویسے تو گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری ہے مگر گزشتہ24گھنٹے کے دوران اس میں خاصی شدت آچکی ہے۔ ویسے یہ بات تو طے ہے کہ تاریخ میں پولیس یا رینجر کوکسی ایک سیاسی رہنما کی گرفتاری کے لیے اس قدر مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا جتنا اس وقت پڑ رہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس سے تحریک انصاف کا مورال مزید بلند نہیں ہوا ؟کیا اس سے تحریک انصاف کے لیے عوام کی ہمدردیاں مزید نہیں بڑھیں؟ اور کیا اس سے اداروں کے درمیاں ٹکراﺅ کا خدشہ مزید نہیں بڑھ گیا؟ اگر ایسا ہے تو میرے خیال میں رانا ثناءاللہ اور ن لیگ کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں؟ یہ تو پولیس اور رینجر کا بھلا ہو جس نے کسی بڑا سانحہ ہونے سے خود کو روکے رکھا اور گولیاں وغیرہ نہیں برسائیں۔ ورنہ تو سانحہ ماڈل ٹاﺅن سب کے سامنے تھا کہ پولیس نے کس طرح عوامی تحریک کے کارکنوں پر سیدھے فائر کھولے گئے ۔ لہٰذااس وقت پھر بھی ہمیں پولیس اور رینجر کے عمل کو داد دینی چاہیے کہ اُنہوں نے ابھی تک صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہوا ہے۔ جبکہ میری ذاتی رائے میں پولیس اور رینجر بھی نہیں چاہتیں کہ عمران خان کو گرفتار کیا جائے یا وہ کسی بھی سیاسی شورش کا حصہ بنیں۔ بلکہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ پولیس کے اندر بھی تحریک انصاف موجود ہے، رینجرز اہلکار بھی پاکستانی ہی ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ اُن کے اندر بھی تحریک انصاف کے چاہنے والے موجود نہ ہوں۔ لہٰذاابھی بھی وقت ہے کہ حکمران ہوش کے ناخن لیں اور مل بیٹھیں۔تاکہ مزید نقصان سے بچا جا سکے۔ اور ویسے بھی ”ضد“ کسی بھی ادارے یا ملک کے لیے ہمیشہ نقصان دہ ہوتی ہے۔ محض ضد کی بنا پر کسی ملک کے معاملات چلائے جاسکتے ہیں ؟ ہمارے سامنے حالیہ وقتوں میں تین مثالیں ہیں جہاں جمہوری راستہ روکا گیا۔ایک تھائی لینڈ جہاں مقبول لیڈر شِناواترا کو فارغ کیا گیا۔اُسے نااہل کیا گیا تو اُس کی سگی بہن یِنگ ل±ک انتخابات جیت کر وزیراعظم بن گئی۔اگلوں کو یہ بھی منظور نہیں تھا لہٰذا ا±سے بھی فارغ کیا گیا۔ا±س قت سے لے کر اب تک مقتدر ادارے ہی حکومت سنبھالے بیٹھے ہیں۔دوسری مثال میانمار کی ہے‘ جہاں سالوں سے مقبولِ عام لیڈر آنگ سان سوچی پابندِ سلاسل ہیں اور حکومت مقتدرہ کے سرکردہ افراد نے سنبھالی ہوئی ہے۔تیسری مثال مصر کی ہے جہاں منتخب صدر محمد مرسی کا تختہ الٹایا گیا،اُن پر مقدمہ قائم ہوا سلاخوں کے پیچھے ا±ن کا ٹرائل ہوتا رہا۔دورانِ قید ا±ن کی موت واقع ہو گئی۔تختہ الٹنے پر فیلڈ مارشل عبدالفتح السیسی نے اقتدار پر قبضہ جمایااور تب سے لے کر آج تک وہ مصر کے صدر ہیں۔تھائی لینڈ کی معیشت مضبوط ہے اور گو وہاں جمہوریت کا گلا گھونٹا گیا دیگر حالات وہاں معمول کے مطابق چل رہے ہیں۔میانمار کی حالت بہت پتلی ہے لیکن وہاں کی مقتدرہ نے میانمار کو باقی دنیا سے الگ کیا ہوا ہے اور وہ اپنی ہی دنیا میں جی رہے ہیں۔مصر میں فیلڈ مارشل السیسی کو سعودی عرب کی طرف سے امداد حاصل رہی ہے‘ آئی ایم ایف پروگرام بھی وہاں چل رہا ہے لیکن معیشت کی حالت بہت خراب ہے اور جیسے ہمارے مسائل ہیں وہاں بھی اسی قسم کے پرابلم ہیں۔ان تین مثالوں اور ہمارے میں یہ فرق ہے کہ ہمارے ہاںسابقہ فاٹا کے علاقوں میں اور بلوچستان میں شورش برپا ہے۔ بھارت سے تعلقات خراب ہیں افغانستان سے بھی کچھ زیادہ اچھے نہیں۔اور جہاں تک معاشی حالت کا تعلق ہے وہ میانمار اور مصر سے بدتر ہو گئی ہے۔ اور پاکستان کے جو حالات گزشتہ رات سے بنے ہوئے ہیں، وہ 2016ءکے ترکی سے کم نہیں کہ جب وہاں کے عوام نے ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر جانیں قربان کی تھیں، اور پھر ترکی میں مکمل جمہوریت بحال ہوگئی تھی اور آج ترکی پھل پھول رہا ہے اور معاشی طور پر بھی مضبوط ہو کر یورپ کا مقابلہ کر رہا ہے اور امریکا کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کے باوجود معاشی طور پر مضبوط ملک ہے۔ جبکہ آپ مصر کی بات کریں تو وہاں مرسی کی جمہوری حکومت کے خلاف فوجی بغاوت نے دس سال قبل جب حملہ کیا تو اُس وقت مرسی کی حکومت ختم کر دی گئی اور مصر کے آمرجنرل عبدالفتح السیسی اقتدار پر قابض ہوگئے۔ جس جنرل عبدالفتح السیسی کو مذہبی شخص سمجھ کر م±رسی نے آرمی چیف مقرر کیا وہی انکا تختہ الٹنے کا ذریعہ بنا یعنی م±رسی اور السیسی میں کچھ ایسا ہی تعلق بنا جو بھٹو اور ضیا کے درمیان تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جاسوسی جیسے الزامات میں م±رسی کو جیل میں ڈالا گیااور وہ دل کادورہ پڑنے سے چل بسے۔السیسی نے م±رسی کا تختہ الٹنے کے بعد قوم سے خطاب میں الیکشن کا وعدہ کیا تھا، کچھ ایسا ہی وعدہ جیسا ہمارے جنرل ریٹائرڈ پرویزمشرف نے میاں نوازشریف کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد کیا تھا۔ صاحب نظرجانتے تھے کہ فوج اقتدار اس لیے نہیں سنبھالتی کہ اس ہاتھ لے، اس ہاتھ دے، کچھ ایسا ہی مصر میں بھی ہوا کہ السیسی فیلڈ مارشل بنے اور پھر صدارت کے منصب پرخود کوفائض کرلیا۔ یوں کہیں تو غلط نہیں ہوگا کہ وہ مشرف صاحب سے بھی آگے نکل گئے اور ایسی آئینی تبدیلیاں بھی کرڈالیں کہ جیتے رہے تو سن دوہزار تیس تک بھی وہ کرسی صدارت پر براجمان رہیں گے۔اب اگر مصر کی معاشی صورتحال کا اندازہ لگائیں تو اس وقت مصر پر 180ارب ڈالر کا اندرونی و بیرونی قرض جبکہ پاکستان پر 145ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ ہے۔ جبکہ مصر میں مہنگائی کی شرح 40فیصد اور پاکستان میں مہنگائی کی شرح بھی اتنے ہی فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ یہ ہمارے بڑے حکمرانوں کا کارنامہ ہے۔ سال پہلے حالات یوں سمجھئے کہ نارمل تھے۔ معیشت چل رہی تھی‘ ٹیکسٹائل انڈسٹری جو کہ ہماری سب سے بڑی انڈسٹری ہے ف±ل ٹائم چل رہی تھی۔ برآمدات بڑھ رہی تھیں، ٹیکس بھی زیادہ جمع ہو رہا تھا۔ملک میں کوئی بدامنی یا کسی قسم کی شورش نہ تھی۔مداخلت کرنے والے افلاطون آئے اور سب کچھ الٹ پلٹ ہو گیا اور چند ہی ماہ میں معیشت کو وہاں پہنچا دیا گیا جس کی کوئی مثال پاکستان کی پچھتر سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ الغرض گاڑی آپ چلا رہے ہوں اور وہ گاڑی کہیں پھنس جائے تو کوشش ہوتی ہے کہ ا±سے وہاں سے نکالا جائے۔ لیکن جن کے ہاتھوں میں ہماری قسمت اس وقت ہے وہ اُسی دلدل میں جہاں گاڑی پھنسی ہے وہیں ریس دیے جا رہے ہیں۔دلدل سے کیسے نکلا جائے اس کی کوئی سوچ نہیں ہے یا کم از کم ہمیں نہیں نظر آتی کہ ایسی سوچ کہیں موجود ہے۔گاڑی کو دلدل میں لے کر خود گئے ہیں لیکن ضد کسی اور سے ہے۔اور اسی ضد کے پوری کرنے کے چکر میں خدانخواستہ اگر کوئی بڑا سانحہ ہوگیا تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ معاف کیجئے گا میں ضد اسی لیے کہہ رہا ہوں کہ خان کی ضمانت 18مارچ تھی مگر پولیس اُسے 14مارچ کو ہی اس لیے گرفتار کرنے آگئی کہ اس سے شاید کوئی اُن کی ذہنی تسکین پوری ہو سکے؟کیونکہ بظاہر یہی لگتا ہے کہ حکومت کی یہ کوشش ہے کہ وہ عمران خان کو گرفتار کر کے روزانہ نئے مقدمات میں اُنہیں کھپائے رکھے۔ روزانہ اُنہیں پیشیوں پر عدالتوں میں خوار کیا جائے۔ بالکل اُسی طرح جس طرح اعظم سواتی، فواد چوہدری، شہباز گل یا دوسرے رہنماﺅں کے ساتھ کیا ہے۔ بہرکیف لگ بھگ پینتالیس سال پہلے جنرل ضیا الحق اور اُن کے ساتھی سمجھتے تھے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو راستے سے ہٹایا گیا تو وہ چین سے حکمرانی کر سکیں گے۔ ہٹانے کی ترکیب سوچی گئی اور ا±س پر بہت کامیابی سے عمل درآمد ہوا۔لیکن وہ زمانہ اور تھا۔آج بھی جبرواستبداد ہو رہاہے لیکن ساتھ ہی عوامی سطح پر مزاحمت ہو رہی ہے۔سوشل میڈیا کی شکل میں مزاحمت کے ہتھیار بھی ہیں۔ اُس زمانے میں یہ ہتھیار دستیاب نہ تھے۔چند اخبارات ہوتے تھے اور اُنہیں توڑنا موڑنا کوئی اتنا مشکل کام نہ تھا۔ انٹرنیٹ کی وجہ سے بہت کچھ بدل گیا ہے‘ خبریں آگ سے بھی زیادہ تیز پھیل جاتی ہیں۔ لہٰذاہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ پی ٹی آئی ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔ حالیہ دنوں گیلپ کی ایک سروے رپورٹ میں مختلف سیاستدانوں کی مقبولیت ظاہر کی گئی۔اقتدارکے خواہاں نوازشریف اور بلاول بھٹو کو یکساں طور پر 36 فیصد عوام میں مقبولیت حاصل ہے۔ مریم نواز‘ شہبازشریف‘ مولانا فضل الرحمن اور آصف علی زرداری کی مقبولیت بہت نچلے درجوں پر دکھائی دی۔ عوام کے مقبول رہنما کی جان کو لاحق خطرے کی رپورٹس آتی رہی ہیں۔ لانگ مارچ کے دوران گزشتہ برس وزیرآباد کے مقام پر عمران خان پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ ان کی ٹانگ میں چار زخم آئے۔ اس دوران ایک کارکن حملہ آوروں کی گولی کا نشانہ بن کر جاں بحق ہوا۔ شواہد بتا رہے ہیں کہ عمران خان کے خدشات بے جا نہیں۔ چیئرمین تحریک انصاف کے خلاف 78 کے لگ بھگ ایف آئی آر درج ہیں۔ ممکن ہے یہ مقدمات قانونی اعتبار سے درست ہوں لیکن یہ تاثر تیزی سے پھیل رہا ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف کے خلاف مقدمات سیاسی انتقام کی نیت سے درج کئے جا رہے ہیں۔ قبل ازیں عمران خان اپنی جان کو لاحق خطرے کے معاملے میں بھی بعض حکومتی شخصیات کا نام لے چکے ہیں۔ مقبول سیاسی قیادت کے خلاف کارروائی سے اگر سازش کا تاثر پھیلنے لگے تو عوام میں بد دلی پرورش پانے لگتی ہے۔ لہٰذا جمہوری نظام میں انتخابات سیاسی اختلافات کے خاتمہ کا فطری طریقہ ہوتے ہیں۔ اختلاف کی وجہ ایک دوسرے کی مقبولیت اور مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرنے سے ابھرتی ہے۔ انتخابات کے بعد تمام جماعتوں کو اپنے مینڈیٹ کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ حکومت دانش مندی کا مظاہرہ کرے اور سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنی کی طرح نمٹانے والے اقدامات نہ آزمائے۔ عمران خان کو عدالت کے سامنے اپنا موقف رکھنے کا موقع دیا جائے۔ سکیورٹی کے حوالے سے ان کے تحفظات دور کئے جائیں اور یہ امر یقینی بنانے کی کوشش کی جائے کہ شفاف ماحول میں انتخابات مسائل کا حل ہیں۔ورنہ یہ ملک خاکم بدہن جلد ہی جنرل السیسی کا مصر بن جائے گا اور مزید سب کچھ خراب ہو اجائے گا!