کراچی سکھر بلٹ ٹرین: کیا یہ مذاق ہے؟

دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا ایک ہی اصول ہے کہ وہ Graduallyترقی کرتے ہیں، سب سے پہلے وہ اپنی ترجیحات سیٹ کرتے ہیں، پھر اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جت جاتے ہیں۔ان کی ترجیحات میں سب سے پہلے عوام کے لیے اچھی رہائش کا بندوبست، تعلیم ، صحت اور روزگارکی سہولیات فراہم کرنا ہیں، کیوں کہ اگر یہ تمام چیزیں ہوں گی تو ایک توانا ، خوش باش اور عقلمند قوم تخلیق کی جا سکے گی جو ملک و قوم کی ترقی کے لیے کام کرے گی۔ لیکن یہاں نا تو تعلیم کی طرف توجہ دی جاتی ہے، نا صحت کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں اور نہ ہی عوام کو رہائش کی سہولیات دی جاتی ہیں۔ اگر یہ سب کچھ نہیں ہوگا تو کیسے ممکن ہے کہ بطور قوم ہم احسن اور ترقی یافتہ فیصلے کر سکیں گے؟ لہٰذاپھر ہوتا یہ ہے کہ جیسے ہی ہمارے سیاستدان بیرون ملک جاتے ہیں اور واپسی پر سستی شہرت حاصل کرنے کےلئے وہاں کی چند ”ولایتی“ چیزوں کو تھونپ دیتے ہیں، نہ اس حوالے سے کوئی ریسرچ کروائی جاتی ہے، نہ سروے کروائے جاتے ہیں اور نہ ہی لاگت کا تخمینہ صحیح انداز میں لگایا جاتا ہے۔ بس یہ سوچا جاتا ہے کہ فلاں ”کاسمیٹکس“پراجیکٹ شروع کرنے کے بعد عوام اُسے ووٹ دیں گے اور پھر اگلی حکومت بھی اسی کے حصے میں آئے گی۔ اس کی مثال کچھ یوں لے لیتے ہیں کہ جیسے گزشتہ ہفتے سندھ حکومت نے کراچی سے سکھر تک بلٹ ٹرین چلانے کی منصوبہ بندی کی ہے اور اس حوالے سے صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ شرجیل میمن نے عالمی بینک کو درخواست دی۔ جس کے بعد عالمی بینک کے نمائندوں نے کراچی میں روٹس کا وزٹ بھی کیا اور اس حوالے سے عالمی بینک اور سندھ حکومت کا پہلا اجلاس بھی ہو ا جس میں ابتدائی تخمینوں پر بات چیت ہوئی۔ یعنی رپورٹ کے مطابق ابتدائی تخمینوں کے مطابق اس ٹرین پر 2 ارب ڈالر لاگت آئے گی جبکہ تکمیل تک اس میں نہ جانے کتنے سو ملین ڈالر مزید اضافہ ہو جائے گا! اب المیہ یہ ہے کہ سب کو علم ہے کہ اگلا سال الیکشن کا سال ہے، اور تمام صوبائی حکومتوں نے اسی قسم کے فضول پراجیکٹس کا آغاز کرنا ہے۔ جو ان سب کی انفرادی کارکردگی دکھائے گا۔ حالانکہ ماضی گواہ ہے کہ آج تک انفرادی کارکردگی دکھانے کا جنون پاکستان کو لے ڈوبا ہے۔ اور رہی بات بلٹ ٹرین کی تو جو کراچی سے سکھر تک بلٹ ٹرین پر جائے گا، کیا وہ آگے گدھا گاڑی استعمال کرے گا؟کیا دنیا سکھر، لاڑکانہ اور سندھ کے دیگر اضلاع سے ناواقف ہے؟ کہ وہاں کے عوام کس حال میں رہ رہے ہیں؟ میرے خیال میں قوموں کے یہ اجتماعی فیصلے ہوتے ہیں، جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ دنیا بھر میں اس قسم کے بڑے پراجیکٹس پر دن رات سروے کروائے جاتے ہیں، تھنک ٹینک بیٹھتے ہیں اور پھر کہیں جا کر کھربوں روپے کسی پراجیکٹ پر لگائے جاتے ہیں۔ لیکن ماضی کی بات کر لیںکہ بغیر کسی منصوبہ بندی کے شہباز شریف نے لاہور میں میٹرو بس بنادی اور پھر آدھے شہر میں اونج ٹرین بنا دی، اگر اورنج ٹرین کی جگہ اُس روڈ پر دوبارہ میٹرو بس بنا کر ان دونوں روٹس کو آپس میں ملا دیا جاتا تو وہ زیادہ بہتر تھا۔ کیوں کہ پوری دنیا میں یہ اس لیے بنائے جاتے ہیں کہ آپ اپنی ذاتی گاڑیاں گھر چھوڑ کر ان میٹرو سروسز کا حصہ بنیں۔آپ نیویارک چلے جائیں، بنکاک چلے جائیں، حتیٰ کہ آپ دہلی چلے جائیں، انڈر گراﺅنڈ ٹرین ، بلٹ ٹرین یا میٹرو بس سروس آپ کو پورے شہر میں گھماتی ہے، اور پھر آپ اپنی ذاتی گاڑی گھر کھڑی کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس حوالے سے آپ ترکی کے شہر استنبول کی مثال لے لیں۔ اپنی جغرافیائی ، تاریخی ، اور ثقافتی فراوانی کے ساتھ دنیا کے اہم شہروں میں سے ایک ہونے کے ناطے ، استنبول میں میٹرو نیٹ ورک کا ترقی یافتہ نیٹ ورک ہے۔میٹرو استنبول کا قیام 1988 میں استنبول میٹرو پولیٹن بلدیہ نے شہری ریل سسٹم کو چلانے کے لئے کیا تھا۔پورے استنبول میں26ہزار کلومیٹر لمبی شہری ریل سسٹم کام ہیں۔ یہ نظام 18ہزار کلومیٹر کی 15 لائنوں کے ساتھ ہر دن 2 ملین سے زیادہ مسافروں کو خدمات فراہم کرتاہے ،اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس ریل سسٹم کا 90فیصد حصہ زیر زمین ہے۔ جبکہ ترکیہ کے باقی شہروں میں بھی اسی قسم کے نظام موجود ہیں۔ لیکن اس کے برعکس ہمارے ہاں چاروں صوبوں کے بڑے بڑے شہروں میں الگ الگ پراجیکٹس قائم کیے جا رہے ہیں، جیسے پشاور میں میٹرو بس(بی آر ٹی)، پنجاب میںاورنج ٹرین اور میٹرو بس، جبکہ سندھ میں یلو بس سروس کے ساتھ اب بلٹ ٹرین کانسپٹ دیا جا رہا ہے۔ مطلب! ہر شخص اپنی ذاتیات کے لیے پورے ملک کو داﺅ پر لگا رہا ہے۔ اگر آپ نے یہ پراجیکٹ شروع کرنے ہی ہیں تو پورے شہر میں شروع کریں، یا اسے چھیڑیں ہی نا۔ ایسا تو نہ کریں کہ ملتان روڈ کے شہریوں کے لیے اورنج ٹرین دے دیں اور فیروز پور روڈ کے شہریوں کے لیے میٹرو بس دے دیں۔ اور باقی پورے شہر کی 90فیصد آبادی ان سہولیات سے محروم رکھ دی جائے۔ اور پھر ہوتا یہ ہے کہ پنجاب کی میٹرو بس سروس پر 60ارب روپے خرچ ہوئے، پشاور میٹرو پراجیکٹ پر 100ارب روپے سے زائد، جبکہ اورنج ٹرین لاہور پر کل لاگت 350ارب روپے ہے۔اور اللہ کے حکم سے ان تمام پراجیکٹس پر کھربوں روپے کی کرپشن بھی سامنے آرہی ہے۔ مطلب یہ سارے پراجیکٹ سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں جس سے میرے خیال میں پاکستان کے خزانے سے کھلواڑ کیا جاتا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اس حوالے سے نہ جانے ہماری سوچ کب بدلے گی؟ پھر اس کی بھی کوئی گارنٹی نہیں کہ یہ بدلے گی بھی یا نہیں؟ بقول شاعر جوش ملیح آباد کے ثبوت ہے یہ محبت کی سادہ لوحی کا جب اس نے وعدہ کیا ہم نے اعتبار کیا بہرکیف سندھ کو سب سے پہلے یہ سوچنا چاہیے کہ اُس کی ترجیحات کیا ہیں؟ کیا سیلاب زدگان کی بحالی ہوگئی؟ سیلاب زدگان کے علاقوں سے آنے والی رپورٹس تو دل دہلا دینے والی کہانیاں بیان کر رہی ہیں۔ ورلڈ رپورٹس کے مطابق ابھی تک صرف 15فیصد سیلاب زدگان کی بحالی ہو سکی ہے ۔ حالانکہ آپ پوری دنیا سے مدد مانگ مانگ کر تھک گئے ہیں۔ اور اربوں روپے کی پاکستان میں آمد بھی ہوئی ہے لیکن سیلاب زدگان مختلف بیماریوں اور سردی سے مر رہے ہیں۔ چلیں آپ اس آفت کو بھی چھوڑیں ان کے پاس تو ابھی تک سانپ کے کاٹنے یا کتے کے کاٹنے کا علاج تو ہے نہیں ، پھر سندھ کے باسیوں کے پاس صاف پانی تک کی سہولت نہیں، پھر تھر کے مسائل دنیا کے سامنے ہیں۔ اور پھر کیا وہاں صحت و تعلیم کی ضروریات پوری ہو گئی ہیں؟ کیا وہاں امن و امان قائم ہو چکا ہے؟ کیا کراچی جیسے کاروباری ہب کے مسائل ٹھیک ہو گئے ہیں؟ کیاوہاں بھتہ مافیا کے مسائل حل ہوگئے ہیں؟ کیا لاڑکانہ کے عوام خوشحال ہو گئے ہیں؟ ہمیں خدا کا خوف کرناچاہیے، ہمیں اس حوالے سے بھی خدا کا خوف کرنا چاہیے کہ ابھی بھی کرپشن سے ہم باز نہیں آرہے کہ اور شرجیل میمن جیسے سیاستدان جس پر درجن بھر کرپشن کے کیسز پہلے ہی چل رہے ہیں، کیسے ممکن ہے کہ اس پراجیکٹ میں شفافیت ہوگی؟ پھر اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ ہمیں اس بلٹ ٹرین کی ضرورت کیا ہے؟ اور اب چونکہ الیکشن آنے میں چند ماہ رہ گئے ہیں اس لیے پیپلزپارٹی کو یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ وہ الیکشن سے پہلے اس قسم کی غیر ضروری پراجیکٹس شروع کرتی اور عوامی ہمدردیاں سمیٹتی ہے۔ جیسے پیپلزپارٹی کے پچھلے دور 2013ءمیں زرداری صاحب نے پاک ایران گیس پائپ لائن کا آغاز کیا جو آج تک جوں کا توں لٹکا ہوا ہے۔ بہرحال جس طرح ملک بھر کی موٹرویز NHAبناتا ہے، بالکل اسی طرح ایک ایسا تھنک ٹینک بنایا یا ایک ایسا ادارہ بنایا جائے جو تمام صوبوں میں تمام شہریوں کو ایک جیسی سہولیات فراہم کرے۔ فیصلے کیے جائیں کہ اگر پورے ملک میں پرانا ریلوے کا نظام ختم کرکے بلٹ ٹرین ہی چلانی ہے تو پورے ملک میں بلٹ ٹرین کا جال بچھایا جائے،۔ اگر تمام شہروں میں ایک جیسی سفری سہولیات دینی ہیں تو ایک جیسی سہولیات دی جائیں۔اور پھر حکومتوں کے آنے جانے سے ان پراجیکٹس پر کوئی اثر نہیں پڑنا چاہیے، جیسے پرویز الٰہی نے ماس ٹرانزٹ منصوبے کا آغاز کیا اور اربوں روپے لگائے ، لیکن اس کے بعد آنے والی حکومت نے اسے بالکل ختم کر دیا۔ لہٰذاہمارے ہاں ایسا مضبوط سسٹم بنانے کی ضرورت ہے کہ تمام صوبوں میں یکسانیت پائی جائے۔ سب سے پہلے تو ریلوے کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے؟ وہ تو آج تک ہم سے ٹھیک نہیں ہوا؟ یعنی ابھی تک ہم ترقی یافتہ ممالک تو کیا، ہمسایہ ملک بھارت کے آس پاس بھی دکھائی نہیں دے رہے۔ اُن کا ریلوے نظام بھی برصغیر کے نظام کا حصہ تھا، یعنی اُن کا بھی سارا ریلوے نظام انگریزوں کا بنایا ہوا ہے۔ بھارت آج 50ارب روپے ماہانہ ریلوے سے کما رہا ہے جبکہ ہم لوگ 30ارب روپے ماہانہ خسارے میں ہیں۔ پھر اگر ہم ریلوے کا نظام ٹھیک کرلیں تو بعد میں پھر بلٹ ٹرین کی بھی بات کر لیں گے۔ تب یہ باتیں بھی ہمیں زیب دیں گے۔ آج بھی ریلوے میں سالانہ 400سے زائد چھوٹے بڑے حادثات ہوتے ہیں، اُن کو تو آج تک ہم روک نہیں سکے۔ لاہور سے کراچی جاتے ہوئے ہمیں آیت الکرسی کا ورد کرنا پڑتا ہے، صدقہ دے کر نکلنا پڑتا ہے، کہ خدانخواستہ کوئی حادثہ نہ ہوجائے۔ میرے خیال میں تمام محکموں کو چاہیے کہ ایک ایسا تھنک ٹینک بنائیں جو ان پراجیکٹس کو دیکھے، ایسا کرنے سے تمام صوبے ایک پلیٹ فارم پر آئیں گے، کرپشن کم ہوگی اور سب سے بڑھ کر چیزیں سسٹم میں آئیں گی!