اورپھر نیب ترمیمی بل قانون بن گیا!

ایک این آر او مشرف حکومت نے تمام سیاستدانوںپر درج سیاسی ، کرپشن و دیگر مقدمات کو ختم کرکے دیا، جبکہ دوسرا این آر او حال ہی سیاستدانوں نے اپنے آپ کو احتساب سے بری کرکے دے دیا ہے جسے عرف عام میں ”این آر او ٹو“ کہاجا رہا ہے۔ اس این آر او کا فی الوقت شور اس لیے نہیں پڑا کیوں کہ پارلیمنٹ میں کہیں اپوزیشن نام کی کوئی پارٹی ہی موجود نہیں ہے، جبکہ عمران خان جن کی تحریک کا گراف 25مئی کے لانگ مارچ کے بعد مسلسل نیچے آرہا ہے۔ نے اس ترمیمی بل پر سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا ہے۔ اُمید یہی کی جاسکتی ہے کہ مسائلوں میں گھرے عمران خان وہاں پورا وقت نہیں دے سکیں گے اور یہ معاملہ بھی کھٹائی میں پڑ جائے گا۔ اور پھر نئی حکومت کے آنے کے بعد دوبارہ نیب کو متحرک کیا جائے گا، کیس بنیں گے اور پھر نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا۔ خیر اس نیب ترمیمی بل قانون کے حوالے سے مزے کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہمنوا پاکستانیوں کو علم ہی نہیں ہے کہ این آر او ٹو کا باعث بننے والا نیب ترمیمی بل قانون کا حصہ کیسے بن گیا ؟۔لہٰذا یہاں مختصراََ بتاتا چلوں کہ ہوا کچھ یوں تھا کہ گزشتہ ماہ جس ترمیمی بل کو قومی اسمبلی اور سینیٹ نے اپنے علیحدہ علیحدہ اجلاسوں میں ان ترامیم کی منظوری دے کر دستخط کے لیے صدر کو بھیجا تھا تو انہوں نے انہیں واپس بھیج دیا تھا جس پر دوبارہ پارلیمینٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا جس میں ان بلوں کی دوبارہ منظوری دی گئی۔ دس روز پہلے یہ منظور شدہ ترمیمی بل صدرِ مملکت کو دستخط کے لیے بھیجے گئے تھے مگر انہوں نے یکے بعد دیگرے ان دونوں ترامیم کے مسودات پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔آئین کے مطابق جب پارلیمینٹ اپنے مشترکہ اجلاس میں کسی قانون کی منظوری دیتی ہے تو صدر اگر مقررہ مدت کے اندر اسے منظور نہ کرے تو وہ ازخود قانون کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ صدرِ مملکت نے نیب ترمیمی ایکٹ کو بغیر دستخط وزیراعظم آفس بھجواتے ہوئے وزیر اعظم کے نام ایک خط لکھا تھا اُس میں انہوں نے اپنے جن خیالات کا اظہار کیا وہ واقعی ہم سب کے لیے قابل غور ہیں۔ اُنہوں نے لکھا تھا کہ ”میرے خیال میں پارلیمینٹ سے منظور شدہ بل رجعت پسندانہ نوعیت کا حامل ہے اس بل سے قانون کے لمبے ہاتھوں کو مفلوج کر کے بدعنوانی کو فروغ ملے گا۔یہ بل بدعنوان عناصر کے لیے یہ واضح پیغام ہے کہ وہ کسی کو بھی جوابدہ نہیں اور بلاخوف و خطر اپنی لوٹ مار جاری رکھ سکتے ہیں۔ پاکستانی عوام اس بات پر متفق ہیں کہ کرپٹ لوگوں نے بے تحاشہ دولت اکٹھی کر رکھی ہے، کمزور آدمی معمولی جرم میں بھی پکڑا جائے تو اُس کی جان نہیں چھوٹتی،بااثر افراد کو عوام کا خون چوسنے کی کھلی چھٹی کیسے دی جا سکتی ہے؟احتساب کے عمل کو کمزور کرنا نہ صرف آئین کی بنیادی روح کے خلاف ہے بلکہ عوام کے بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔ میں ذاتی طور پر آئین کی تقلید اور پابندی کرتا ہوں،ہمیں قرآن و سنت کے احکامات پر عمل کرنا چاہیے، خود کو اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہ سمجھتا ہوں اور اُس سے معافی کا طلب گار رہتا ہوں، میرا ضمیر مجھے احتساب ترمیمی بل پر دستخط کرنے کی اجازت نہیں دیتا،اس لیے بلا دستخط واپس بھجوا رہا ہوں۔“ لیکن عام رائے میں ایسی تنبیہ لکھنے کا کیا فائدہ جب وہ کسی کے لیے کارآمد ہی نہ ہوا۔ اور پھر ہمارے قوانین بھی نرالے ہیں کہ صدر کو محض رسمی دستخط کرنے کے لیے اگر رکھا گیا ہے تو اس عہدے کو ختم ہی کردینا چاہیے تاکہ کچھ پیسوں کی بچت تو ہو سکے۔ خیر یہ الگ اور طویل بحث ہے، بہرحال ہم فی الوقت ”این آر او 2“ کی اگر بات کریں تو اس سے جو جو فوائد حاصل کیے جائیں گے وہ سن کر آپ کے یقینا ہوش اُڑ جائیں گے مثلاََ مذکورہ قانون بننے کے بعد بڑے بڑے سیاسی خاندانوں کے 1100ارب سے زائد کے مقدمے نیب کے دائرہ اختیار سے نکل جائیں گے۔پانامہ کیسزمیں ملزمان کو فائدہ پہنچے گا،حد تو یہ ہے کہ نئے قوانین میں اثاثوں کی تعریف تبدیل کردی گئی۔یعنی اگر آپ نے کرپشن کرکے اثاثے بچوں، بیوی، رشتے داروں، خانصاموں، مالیوں، پلمبروں، مزدوروں اور دیگر گھریلو ملازمین کے نام پر منتقل کروا رکھے ہیں تو اُن کی چھان بین نہیں ہوپائے گی۔ مطلب بے نامی اثاثوں کو نکال دیا گیا ہے۔پھر اس نیب قانون کا سیکشن 14 ختم کردیا گیا ہے ، پہلے ممنوعہ رقم سے متعلق ثبوت ملزم فراہم کرتا تھا، لیکن اب نیب کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ آپ نے اپنی آمدن سے زائد اثاثے بنائے کیسے؟ ۔سیکشن 21 کے مطابق بیرون ملک کی شہادت نہیں مانی جائے گی، اے ون فیلڈ ختم ہورہا ہے۔پبلک ایٹ لارج کی دھوکہ دہی میں 50سے کم افراد کو بڑھا کر 100 کر دیا گیا۔منی ٹریل کی شرط ختم کر دی گئی ہے۔ان سب سے بڑھ کر یہ کہ نیب کا اختیار ختم کر دیا گیا، اب وہ وزرات داخلہ کے ماتحت ہوگی۔پھر سیکشن 5 یو میں سویلینز کے کیسز بھی ختم کر دیئے گئے ہیں۔اس ترمیم سے وفاقی وزراءکی ہاﺅسنگ سکیموں کو فائدہ ہوگا۔ اس کے علاوہ نیب اب ایف آئی آر درج نہیں کر سکے گا، پراسس کورٹ میں جائے گا، 6 ماہ میں مقدمہ نہ ہوتو کیس ختم ہوجائے گا۔سیکشن 24 ایف کو بھی ختم کر دیا گیا، چیئرمین اب نوٹیفائی نہیں کر سکے گا،جس سے گواہوں کو مدد ملے گی۔مطلب کیا کیا بتاﺅں کہ کیا کیا ہوا ہے بقول شاعر ہمارے بھیگے ہوئے دامنوں کی شان تو دیکھ فلک سے آئے ملک اور گنہ نچوڑ گئے الغرض ہمارے ساتھ وہ ہو رہا ہے جس کی اُمید بھی نہیں کی جاسکتی تھی۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ یہ سب کچھ آج سے نہیں ہو رہا بلکہ 75سالوں سے ہو رہا ہے۔ ان قوانین کا رونا کیا روئیں۔ ہمیں جو 7دہائیاں قبل قوانین ملے تھے یہ سب کچھ اُنہیں کا کیا دھرا ہے، مثلاََپاکستان 1947 میں قائم ہوا۔پہلا آئین 1956 میں بنا لیکن قوانین 1860 کے ہیں۔ پورا فوجداری نظام 1860 کی دہائی کا ہے۔ ہم نے صرف یہ کیا کہ 1860 کے تعزیرات ہند کو تعزیرات پاکستان کا نام دے دیا۔ یعنی ہمارا فوجداری قانون ہمارا ملک بننے سے 87 سال پہلے کا ہے۔ ہمارا مجموعہ ضابطہ دیوانی پاکستان بننے سے 41 سال پہلے کا ہے۔ یہ ایک دو قوانین کا قصہ نہیں ، درجنوں قوانین دور غلامی کے ہیں لیکن ہم لکیر کے فقیروں کی طرح ان پر عمل کیے جا رہے ہیں۔ حد تو یہ بھی ہے کہ پھر انہی قوانین کو مدنظر رکھ کر جب نئے قوانین بنیں گے تو پھر وہ بھی ویسے ہی بنائے جائیں گے۔ ان پر نظر ثانی کرنے کی نہ تو پارلیمان کے پاس فرصت ہے نہ وکلاءکے پاس، اور نہ اس حوالے عدالتیں جائزہ لیتی ہیں۔ اور پھرہوتا یہ ہے کہ جب نئی حکومتیں آتی ہیں تو ”نظریہ ضرورت“ کے تحت اس میں ترامیم کروا لیتی ہیں۔ نیب قوانین کے ساتھ بھی یہی معاملہ رہا ہے۔ کسی نے اس ادارے کو سنجیدگی سے نہیں لیا، بلکہ ہر دور حکومت میں ”نیب ترامیم“ سب سے ”ہاٹ“ ایشو رہا ہے۔ مثلاََ نیب کا قانون آیا تو اُس کا مطلوب و مقصود کرپشن کا خاتمہ نہیں بلکہ سیاسی مخالفین کا ناطقہ بند کرنا تھا۔ پھر سپریم کورٹ نیب سے متعلق سیاسی جماعتوں کو کئی بار انتباہ کر چکی ہے کہ ایسی قانونی ترامیم کی جائیں جو ملکی مفاد میں ہوں ۔ لیکن ہم لکیر کے فقیر لوگ کب باز آتے ہیں!ہم اپنے مفادات تلاش کرتے ہیں، ہم تلاش کرتے ہیں کہ جیسے ہی ہم اقتدار میں آئیں گے سب سے پہلے کوئی اور کام نہیں کرنا بلکہ صرف ان قوانین کو ختم کرنا ہے جن کی وجہ سے اُن کی ماضی کی کرپشن کو ختم کیا جاسکے۔ بہرکیف یقین مانیں دل خون کے آنسو روتا ہے کہ جب صاحب اقتدار لوگ اپنی مرضی سے قوانین بناتے اور اُن کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں، میرے خیال میں اگر اللہ کرے کوئی درد دل رکھنے والی حکومت آجائے تو وہ سب سے پہلا کام آئین کو نصاب کا حصہ بنانے پر کام کرے ، کیوں کہ المیہ یہ ہے کہ آج تک آئین کو نصاب میں شامل نہیں کیا گیا کہ کہیں لوگ اسے پڑھ کر یہ جان نہ جائیں کہ دستور کی روشنی میں ان کے بنیادی حقوق کیا ہیں۔ کہیں وہ باشعور نہ ہو جائیں اور کہیں وہ ان حقوق کا مطالبہ نہ کرنا شروع کر دیں۔کہیں وہ دور غلامی کے قوانین پر سوال نہ اٹھانا شروع کر دیں۔تماشا دیکھیے کہ قانون 1860 کا ہے جب یہاں انگریز کی حکومت تھی۔ وہ قانون انگریز نے انگریزی زبان میں بنایا۔ آج تک کسی نے اس قانون میں اصلاح تو دور کی بات ہے اس کا ڈھنگ سے ترجمہ تک نہیں کیا۔معاشرے کی شرح خواندگی کا جو عالم ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ 48 فیصد لوگ ناخواندہ ہیں۔ جو خواندہ ہیں وہ بھی اس معیار پر ہیں کہ اپنا نام پڑھ اور لکھ سکتے ہیں۔اب بتائیے یہ تماشاکیسا ہے کہ آدھے ملک کو اردو پڑھنی نہیں آتی اور اس کا قانون انگریزی میں ہے اور اسے حکم دیا جاتا ہے قانون پر عمل کرو اور ہاں یہ بہانہ مت کرنا کہ تمہیں قانون کا علم نہ تھا۔ عام آدمی کو جو بنیادی حقوق دیے گئے ہیں وہ انگریزی زبان میں لکھے ہوئے ہیں تا کہ نہ کسی کو سمجھ آئے نہ کوئی ان کا مطالبہ کرے۔ ساتھ نیشنلزم کا ٹچ دینے کے لیے لکھ دیا گیا ہے کہ قومی زبان اردو ہو گی ا ور اسے جلد ہی دفتری زبان بھی بنا دیا جائے گا۔پھر ہم نے ہر ترمیم یا قانون میں ”اسلامی ٹچ“ ”سوشلزم ٹچ“اور سیکولر ٹچ دے رکھا ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمارا پورا قانون مکس اچار بن کر رہ گیا ہے۔لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا، فیصلہ کرنے والی قوتیں ہر آنے والی نئی حکومت کو اُس کے حال پر چھوڑنے یا ماضی کریدنے سے پہلے یہ ضرور دیکھ لیں کہ وہ ”حال“ میں کیا کررہے ہیں۔ اور اب تو مزید دھیان رکھنے کی ضرورت ہے کہ نیب ترامیمی بل اب ”قانون“ بن چکا ہے!